کربلا کے مبلغ حضرت امام سجاد (ع) کی حیات طیبہ کے درخشان ترین صفحات میں سے ایک، وہ خطبہ ہے جو آپ (ع) مسجد اموی میں دیا۔ امام سجاد (ع) بظاہر اسیر تھے لیکن قید و بند سے رہا مدعی بھی جہاد کے وہ مدارج طے کرنے کا تصور نہیں کر سکتے جو آپ (ص) نے اسیر و زنجیر میں طے کئے اور اسی جہاد کا ایک اور مرحلہ طے کیا جو سیدالشہداء (ع) نے کربلا میں اپنی اور اپنے اصحاب و اولاد کی قربانی دے کر شروع کیا تھا۔ آپ (ع) نے اس دن شام کی سلطنت میں وہ حیرت انگیز انقلاب بپا کیا جس کا نہ اہل شام تصور کرسکتے تھے اور نہ ہی اہل کوفہ و حجاز؛ 40 سالوں سے جہل و نادانی کی دلدل میں گرفتار شامیوں کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا اور چالیس سالہ اموی مکر و فریب کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا۔ روایت ہے کہ:
{روی أن یزید لعنه الله أمر بمنبر وخطیب لیخبر الناس بمساوی الحسین وعلی علیهما السلام وما فعلا، فصعد الخطیب المنبر فحمد الله وأثنى علیه ثم أکثر الوقیعة فی علی والحسین، وأطنب فی تقریظ معاویة ویزید لعنهما الله فذکر هما بکل جمیل، قال: فصاح به علی بن الحسین: ویلک أیها الخاطب اشتریت مرضاة المخلوق بسخط الخالق، فتبو أمقعدک من النار ثم قال علی بن الحسین علیه السلام: یا یزید ائذن لی حتى أصعد هذه الاعواد فأتکلم بکلمات لله فیهن رضا، ولهؤلاء الجلساء فیهن أجر وثواب، قال: فأبى یزید علیه ذلک فقال الناس: یا أمیر المؤمنین ائذن له فلیصعد المنبر فلعلنا نسمع منه شیئا فقال: إنه إن صعد لم ینزل إلا بفضیحتی وبفضیحة آل أبی سفیان فقیل له: یا أمیر المؤمنین وما قدر ما یحسن هذا ؟ فقال: إنه من أهل بیت قد زقوا العلم زقا قال: فلم یزالوا به حتى أذن له فصعد المنبر فحمد الله وأثنى علیه ثم خطب خطبة أبکى منها العیون، وأوجل منها القلوب، ثم قال: أیها الناس اعطینا ستا وفضلنا بسبع: اعطینا العلم، والحلم، والسماحة، والفصاحة، والشجاعة، والمحبة فی قلوب المؤمنین، وفضلنا بأن منا النبی المختار محمدا، ومنا الصدیق، ومنا الطیار، ومنا أسد الله وأسد رسوله، ومنا سبطا هذه الامة، من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی أنبأته بحسبی ونسبی أیها الناس أنا ابن مکة ومنى، أنا ابن زمزم والصفا، أنا ابن من حمل الرکن بأطراف الردا، أنا ابن خیر من ائتزر وارتدى، أنا ابن خیر من انتعل واحتفى، أنا ابن خیر من طاف وسعى، أنا ابن خیر من حج ولبى، أنا ابن من حمل على البراق فی الهوا، أنا ابن من اسری به من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى، أنا ابن من بلغ به جبرئیل إلى سدرة المنتهى، أنا ابن من دنا فتدلى فکان قاب قوسین أو أدنى، أنا ابن من صلى بملائکة السماء، أنا ابن من أوحى إلیه الجلیل ما أوحى، أنا ابن محمد المصطفى، أنا ابن علی المرتضى، أنا ابن من ضرب خراطیم الخلق حتى قالوا: لاإله إلا الله أنا ابن من ضرب بین یدی رسول الله بسیفین، وطعن برمحین، وهاجر الهجرتین، وبایع البیعتین، وقاتل ببدر وحنین، ولم یکفر بالله طرفة عین، أنا ابن صالح المؤمنین، ووارث النبیین، وقامع الملحدین، ویعسوب المسلمین، ونور المجاهدین وزین العابدین، وتاج البکائین، وأصبر الصابرین، وأفضل القائمین من آل یاسین رسول رب العالمین، أنا ابن المؤید بجبرئیل، المنصور بمیکائیل، أنا ابن المحامی عن حرم المسلمین، وقاتل المارقین والناکثین والقاسطین، والمجاهد أعداءه الناصبین وأفخر من مشى من قریش أجمعین، وأول من أجاب واستجاب لله ولرسوله من المؤمنین، وأول السابقین، وقاصم المعتدین، ومبید المشرکین، وسهم من مرامی الله على المنافقین، ولسان حکمة العابدین، وناصردین الله، وولی أمر الله، وبستان حکمة الله، وعیبة علمه سمح، سخی، بهی، بهلول، زکی، أبطحی، رضی، مقدام، همام صابر، صوام، مهذب، قوام، قاطع الاصلاب، ومفرق الاحزاب، أربطهم عنانا، وأثبتهم جنانا، وأمضاهم عزیمة، وأشدهم شکیمة، أسد باسل، یطحنهم فی الحروب إذا ازدلفت الاسنة، وقربت الاعنة، طحن الرحا ویذروهم فیها ذرو الریح الهشیم، لیث الحجاز، وکبش العراق، مکی مدنی خیفی عقبی بدری احدی شجری مهاجری، من العرب سیدها، ومن الوغى لیثها، وارث المشعرین وأبو السبطین: الحسن والحسین، ذاک جدی علی بن أبیطالب ثم قال: أنا ابن فاطمة الزهراء، أنا ابن سیدة النساء، فلم یزل یقول: أنا أنا، حتى ضج الناس بالبکاء والنحیب، وخشی یزید لعنه الله أن یکون فتنة فأمر المؤذن فقطع علیه الکلام فلما قال المؤذن الله أکبر الله أکبر قال علی: لا شئ أکبر من الله، فلما قال: أشهد أن لاإله إلا الله، قال علی بن الحسین: شهد بها شعری وبشری ولحمی ودمی، فلما قال المؤذن أشهد أن محمدا رسول الله التفت من فوق المنبر إلى یزید فقال: محمد هذا جدی أم جدک یا یزید ؟ فان زعمت أنه جدک فقد کذبت وکفرت، وإن زعمت أنه جدی فلم قتلت عترته ؟ قال: وفرغ المؤذن من الاذان والاقامة وتقدم یزید فصلى صلاة الظهر قال: وروی أنه کان فی مجلس یزید هذا حبر من أحبار الیهود فقال: من هذا الغلام یا أمیر المؤمنین ؟ قال: هو علی بن الحسین، قال: فمن الحسین ؟ قال: ابن علی بن أبی طالب، قال: فمن امه ؟ قال: امه فاطمة بنت محمد، فقال الحبر: یا سبحان الله ! فهذا ابن بنت نبیکم قتلتموه فی هذه السرعة ؟ بئسما خلفتموه فی ذریته والله لو ترک فینا موسى بن عمران سبطا من صلبه لظننا أنا کنا نعبده من دون ربنا وأنتم إنما فارقکم نبیکم بالامس، فوثبتم على ابنه فقتلتموه ؟ سوأة لکم من امة قال: فأمر به یزید لعنه الله فوجئ فی حلقه ثلاثا فقام الحبر وهو یقول: إن شئتم فاضربونی، وإن شئتم فاقتلونی أو فذرونی فانی أجد فی التوراة أن من قتل ذریة نبی لا یزال ملعونا أبدا ما بقی، فإذا مات یصلیه الله نار جهنم}۔(۱)
روایت ہے کہ یزید نے منبر سجانے کا حکم دیا اور خطیب سے کہا کہ حسین اور علی علیہ السلام کی بد گوئی اور ان کے اعمال میں عیب جوئی کرے پس خطیب منبر پر بیٹھ گیا پس خدا کی حمد و ثناء کے بعد علی اور حسین علیہما السلام کی بدگوئی کی اور معاویہ اور یزید معاویہ اور یزید کی مداحی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے اور تمام خوبیوں کو معاویہ اور یزید سے منسوب کیا۔ امام سجاد علیہ السلام نے چلا کر فرمایا: وائے ہو تم پر اے خطیب! تو نے خلق کی خوشنودی کے لئے اللہ کا غضب کمایا اور اپنا ٹھکانہ جھنم کی آگ میں قرار دیا ہے۔
امام علیہ السلام نے اس کے بعد یزید سے کہا: مجھے بھی اجازت ہے کہ میں ایسے اللہ کے کلمات بیان کروں جن میں اللہ کی خوشنودی اور حاضرین کے لئے اجر و ثواب ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ معاویہ بن یزید نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین انہیں منبر پر بیٹھنے دو شاید ہم ان سے کوئی بات سن لیں۔
یزید نے کہا کہ اگر وہ منبر پر بیٹھیں تو منبر سے اترنے سے پہلے ہی مجھے اور خاندان ابوسفیان کو ذلیل و رسوا کریں گے۔ لیکن عوام نے اصرار کیا اور کہا کہ یہ نوجوان ہیں کر ہی کیا سکتے ہیں؟
یزید نے کہا: یہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے افراد کو علم و دانش کی گھٹی دی جاتی ہے۔ شامیوں کے اصرار پر یزید کو بھی ماننا پڑا اور امام سجاد علیہ السلام کو منبر پر جانے کی اجازت دی اور ایسا خطبہ دیا کہ کہ تمام آنکھیں اشکبار ہوئیں اور تمام دل بے چین ہوگئے۔
فرمایا: اے لوگو! خداوند متعال نے ہم خاندان رسول (ص) کو چھ امتیازات سے نوازا ہے اور سات فضیلتوں سے ہمیں دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ہے؛ ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔ ہماری ساتھ فضیلتیں یہ ہیں:
1۔ خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد (ص) ہم سے ہیں۔
2۔ صدیق اکبر (امیرالمؤمنین علی) (ع) ہم سے ہیں۔
3۔ جعفر طیار ہم سے ہیں۔
4۔ شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔
5۔ اس امت کے دو سبط حسن و حسین (ع) ہم سے ہیں۔
6۔ زہرا بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اور
7۔ مہدی امت ہم سے ہیں۔
لوگو! جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔
لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں، میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں، میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجر اسود کو اپنی عبا سے اٹھا کر اپنے مقام پر نصب کیا، میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں، میں اس عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے، میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛ میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے، میں ان کا بیٹا ہوں بیٹا جنہوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جیرائیل سدرۃ المنتہی تک لے گئے میں ان کا بیٹا ہوں جو زیادہ قریب ہوئے اور زیادہ قریب ہوئے تو وہ تھے دو کمان یا اس سے کم تر کے فاصلے پر میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جنہوں نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی؛ میں ہوں بیٹا اس رسول کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی؛ میں محمد مصطفی (ص) اور علی مرتضی (ع) کا بیٹا ہوں۔
میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں جس نے مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کی ناک خاک میں رگڑی حتی کہ کفار و مشرکین نے کلمہ توحید کا اقرار کیا؛ میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنہوں نے رسول اللہ (ص) کی سامنے اور آپ (ص) کے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ (ص) کے ہاتھ پر بیعت کی؛
بدر و حنین میں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اور لمحہ بھر کفر نہیں برتا؛ میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زیادہ نیک و صالح، انبیاء علیہم السلام کے وارث، ملحدین کا قلع قمع کرنے والے، مسلمانوں کے امیر، مجاہدوں کے روشن چراغ، عبادت کرنے والوں کی زینت، خوف خدا سے گریہ و بکاء کرنے والوں کے تاج، اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یسین (یعنی آل محمد (ص) میں سب زیادہ قیام و عبادت کرنے والے والے ہیں۔ میرے داد امیرالمؤمنین (ع) وہ ہیں جن کو جبرائیل (ع) کی تائید و حمایت اور میکائیل (ع) کی مدد و نصرت حاصل ہے، میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں؛ وہی جو مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج)، ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں امیرالمؤمنین (ع) کے خلاف صف آرا ہونے والے اہل ستم) کو ہلاک کرنے والے ہیں، جنہوں نے اپنے ناصبی دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔ میں تمام قریشیوں کی سب سے افضل اور برتر و قابل فخر شخصیت کا بیٹا ہوں اور اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جنہوں نے خدا اور رسول (ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین کو توڑ کر رکھنے والے اور مشرکین کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔ میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جو منافقین کے لئے اللہ کے پھینکے ہوئے تیر کی مانند، عبادت گذاروں کی زبان حکمت ، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر(صاحب ولایت و خلافت)، حکمت الہیہ کا بوستان اور علوم الہیہ کے حامل تھے؛ وہ جوانمرد، سخی، حسین چہرے کے مالک، تمام نیکیوں اور اچھائیوں کے جامع، سید و سرور، پاک و طاہر، بزرگوار، ابطحی، اللہ کی مشیت پر بہت زیادہ راضی، دشواریوں میں پیش قدم، والا ہمت اور ارادہ کر کے ہدف کو بہر صورت حاصل کرنے والے، ہمیشہ روزہ رکھنے والے، ہر آلودگی سے پاک، بہت زیادہ نمازگزار اور بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے؛ انھوں نے دشمنان اسلام کی کمر توڑ دی، اور کفر کی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر دیا؛ سب سے زیادہ صاحب جرأت، سب سے زیادہ صاحب قوت و شجاعت ہیبت، کفار کے مقابلے میں خلل ناپذیر، شیر دلاور، جب جنگ کے دوران نیزے آپس میں ٹکراتے اور جب فریقین کی اگلیں صفیں قریب ہو جاتی تھیں وہ کفار کو چکی کی مانند پیس دیتے تھے اور آندھی کی مانند منتشر کردیتے تھے۔
وہ حجاز کے شیر اور عراق کے سید و آقا ہیں جو مکی و مدنی و خیفی و عقبی، بدری و احدی و شجر؛ اور مہاجری (۲) ہیں جو تمام میدانوں میں حاضر رہے اور وہ سیدالعرب ہیں، میدان جنگ کے شیر دلاور، اور دو مشعروں کے وارث (۳) (اس امت کے دو) سبطین "حسن و حسین (ع)" کے والد ہیں؛ ہاں! یہ میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
امام سجاد (ع) نے مزید فرمایا: میں فاطمہ زہرا (س) کا بیٹا ہوں میں عالمین کی تمام خواتین کی سیدہ کا بیٹا ہوں۔
پس امام سجاد (ع) نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر "انا انا" فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام (ع) کا کلام قطع کردیا۔
مؤذن نے کہا: الله أکبر الله أکبر امام سجاد (ع) نے فرمایا: خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔
مؤذن نے کہا: أشهد أن لاإله إلا الله امام علی بن الحسین (ع) نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں
مؤذن نے کہا: أشهد أن محمدا رسول الله
امام (ع) نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے مؤذن! تمہیں اسی محمد (ص) کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تا کہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمد (ص) میرے نانا ہیں یا تمہمارے؟ اگر کہو گے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولو گے اور کافر ہو جاؤ گے اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ (ص) میرے نانا ہیں تو بتاؤ کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟
اس کے بعد مؤذن نے اذان مکمل کرلی اور یزید آگے کھڑا ہوگیا اور نماز ظہر ادا ہوئی۔
بحار الانوار کی جلد 45 میں روایت کو یوں جاری رکھا گیا ہے:
جب امام سجاد (ع) نے اپنا بلیغ خطبہ مکمل کیا مسجد میں موجود لوگوں کو سخت متاثر کیا اور ان کو بیدار کردیا اور انہیں جرات ملی تو "مسجد اور مجلس یزید میں موجود ایک یہودی عالم" نے یزید سے کہا: اے امیرالمؤمنین! یہ نوجوان کون ہے؟
یزید نے کہا: یہ علی بن الحسین ہے۔
یہودی نے کہا: حسین کون ہے؟
یزید نے کہا: وہ علی ابن ابی طالب کا بیٹا ہے۔
یہودی نے پوچھا: اس کی والدہ کون ہیں؟
یزید نے کہا: محمد (ص) کی بیٹی؛
یہودی نے کہا: سبحان اللہ! یہ (امام حسین (ع) تہمارے پیغمبر کی بیٹی کے فرزند ہیں جن کو تم نے اتنی تیزی سے قتل کر دیا ہے؟! خدا کی قسم! اگر موسی بن عمران ہمارے درمیان کوئی فرزند چھوڑ کر جاتے تو ہم سمجھتے کہ اس کا پرستش کی حد تک احترام کرنا چاہئے اور تمہارے پیغمبر (ص) کل دنیا سے چلے گئے اور تم نے آج ان کے بیٹے کے خلاف بغاوت کردی اور انہیں تہہ تیغ کردیا؟ وائے بحال ہو تم امت کے!!
یزید غضبناک ہوا اور حکم دیا کہ یہودی عالم کو زد و کوب کیا جائے اور یہودی عالم اٹھا اور کہا: چاہو تو مجھے مارو اور چاہو تو مجھے قتل کرو! مجھے کوئی پروا نہیں ہے؛ یا چاہو تو مجھے چھوڑ دو کیونکہ میں نے تورات میں دیکھا ہے کہ جو کوئی پیغمبر کے فرزند کو قتل کرے گا وہ ہمیشہ کے لئے ملعون رہے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم کی آگ میں ہے۔ (۵)
ایک اور روایت میں منقول ہے کہ امام علی بن الحسین (ع) نے فرمایا:
انا ابن الحسین القتیل بکربلا، انا ابن على المرتضى، انا ابن محمد المصطفى، انا ابن فاطمة الزهراء، انا ابن خدیجة الکبرى، انا ابن سدرة المنتهى، انا ابن شجرة طوبى، انا ابن المرمل بالدماء، انا ابن من بکى علیه الجن فی الظلماء، انا ابن من ناح علیه الطیور فی الهواء۔
میں حسین شہید کربلا کا بیٹا ہوں، میں علی مرتضی کا بیٹا ہوں، میں محمد مصطفی (ص) کا بیٹا ہوں، میں فاطمہ زہراء کا بیٹا ہوں، میں خدیجۃ الکبری کا بیٹا ہوں، میں سدرة المنتهی کا بیٹا ہوں، میں شجرہ طوبی کا بیٹا ہوں، میں اس سید و سرور کا بیٹا ہوں جو اپنے خون میں نہا گئے اور اس بزرگ کا بیٹا ہوں جن کے سوگ میں پرندوں نے ماتم اور گریہ کیا۔
اس طرح کہ امور سبب ہوئے کہ یزید کا غرور خاک میں مل گیا جائے اور وہ جشن و سرور چھوڑنے پر مجبور ہو گیا؛ اور خوشی منانا اور سیدالشہداء (ع) کے مبارک لبوں کو چھڑی مارنا اور جاہلانہ اشعار پڑھنا ترک کر دیا وہ پشیمان نہیں ہوا بلکہ تھا ڈر گیا تھاکیونکہ جب امام سجاد (ع) نے خطبہ دیا اس وقت بھی یزید نے امام حسین (ع) کا قتل ابن زیاد سے منسوب کیا اور پشیمانی کا اظہار کیا لیکن اس کے بعد امام حسین (ع) کا سر مبارک اپنے محل کے دروازے پر لٹکایا جس سے پشیمانی ظاہر نہ ہو رہی تھی اور پھر جب اس کی زوجہ نے چادر پھینک دی اور چیختی اور روتی ہوئی دربار میں پہنچی اور کہا کہ اب تم فرزند رسول (ص) کا سر میرے گھر کے دروازے پر لٹکاؤ گے جس پر یزید نے ایک بار پھر پشیمانی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ خدا ابن زیاد پر لعنت کرے میں نے اس کو امام حسین (ع) کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا لیکن امام حسین (ع) کا سر اور اسیر خاندان دربار یزید میں تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پشیمانی ایک افسانہ ہے بات یہ ہے کہ جتنی کہ بغاوت کی فضا وسیع سے وسیع تر ہورہی تھی یزید کے خوف میں بھی اضافہ ہورہا تھا اور جب خوشی منانے اور فخر کرنے کے تمام اسباب و محرکات ناپید ہوگئے یزید نے خاندان رسول (ص) کی رہائی کا حکم دیا۔
سبط بن الجوزى، لکھتے ہیں کہ جب امام (ع) کا سر شام لایا گیا تو یزید خوش ہوا اور عبیداللہ بن زیاد بن ابیہ کے اقدام سے خوشنود ہوا اور اس کے لئے تحائف بھیجے، لیکن تھوڑے دن گذرنے کے بعد اس نے اس عمل سے عوام کی بیزاری اور غم و غصے کو محسوس کیا اور دیکھا کہ لوگ اس کو گالیاں دے رہے ہیں۔ اپنے حکم اور اپنےعمل سے پشیمان ہوا اور کہتا تھا کہ "خداوند ابن مرجانہ پر لعنت کرے جس نے امام حسین (ع) پر اتنی سختی کی کہ انھوں نے موت کو آسان سمجھا اور شہید ہوگئے! اور کہتا تھا کہ میں نے ابن زیاد کا کیا بگاڑا تھا جس نے مجھے لوگوں کے غضب کا نشانہ بنایا اور نیک لوگوں اور مجرموں کے دلوں میں میری دشمنی کا بیج بویا؟۔ (۶)
سیوطی کہتے ہیں:
{فسر بقتلهم اولا ثم ندم لما مقته المسلمون على ذلک و ابغضه الناس و حق لهم ان یبغضوه!.(۷)
پس یزید ابتداء میں بہت مسرور ہوا اور جب لوگوں نے اس پر لعنت ملامت کی تو اپنے فعل پر "پشیمان" ہوا اور لوگوں نے اس سے بغض و دشمنی کی اور یہ ان کا حق تھا کہ اس سے نفرت کرتے۔
بہر حال تاریخ اسلام کے ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات ہیں جن میں فرمانروا اور بادشاہ جب کوئی کام کرتے اور عوام کے غصے کے اسباب فراہم ہوتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے اپنے غلط فعل کو دوسروں سے نسبت دیں اور اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے۔ چنانچہ یزید نے بھی بادشاہوں کی اسی عادت کے مطابق عمل کیا اور جب عقیلہ بنی ہاشم سیدہ ثانی زہراء (س) اور امام سجاد (ع) نے خطبے دیئے اور یزید رسوا ہو گیا، یزید کی بیوی ہند بنت عبداللہ بن عامر سر برہنہ دربار میں آئی، عیسائیوں اور یہودیوں نے اعتراض کیا، ابو برزہ اسلمی نے احتجاج کیا، یزید نے اپنی پالیسی فوری طور پر بدل دی اور امام حسین (ع) کے قتل کی ذمہ داری عبید اللہ بن زیاد پر عائد کی۔ کہتا تھا: "لعن الله ابن مرجانة!" ، مرجانہ کے بیٹے پر اللہ کی لعنت ہو، حالانکہ جیسا کہ بیان ہوا یزید نے امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد ابن زیاد کو انعام و اکرام سے نوازا تھا اور اس کو بڑی رقم انعام کے طور پر بھجوائی اور جب وہ شام آیا تو یزید نے اس کو اپنے برابر میں بٹھایا اور اپنی حرمسرا میں اپنی عورتوں کے درمیان لے گیا جہاں رسول اللہ (ص) کی خلافت کے دعویدار یزید بن معاویہ بن ابی سفیان نے شراب ابن زیاد کے ساتھ مل کر ـ اپنے اس جرم عظیم پر خوشی مناتے ہوئے ـ شرابخواری کی اور یزید نے شراب کے نشے میں مست ہوکر اشعار کہے:
اسقنی شربة تروی مشاشی
ثم مل فاسق مثلها ابن زیاد
صاحب السر و الامانة عندی
و لتسدید مغنمی و جهادی
قاتل الخارجی اعنی حسینا
و مبید الاعداء و الاضداد
طبری کہتے ہیں:
{فسر بقتلهم اولا و حسنت بذلک منزلة عبید الله عنده ثم لم یلبث الا قلیلا حتى ندم على قتل الحسین" ، حتی یقول: قال یزید: "لعن الله ابن مرجانة! فبغضنی الى المسلمین و زرع لی فی قلوبهم العداوة فبغضنی البر والفاجر بما استعظم الناس من قتلی حسینا!(۸)
پس یزید امام حسین (ع) اور آپ (ع) کے افراد خاندان اور اصحاب و انصار کی شہادت پر خوش ہوا اور عبیداللہ بن زیاد کو بڑی منزلت دی لیکن تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ امام حسین (ع) کے قتل سے پشیمان ہوا اور کہنے لگا: "خدا لعنت کرے ابن مرجانہ پر! جس نے مجھے مسلمانوں کے غضب و نفرت کے قابل ٹہرایا اور ان کے دلوں میں میری دشمنی کا بیج بویا اور اب نیک لوگ بھی مجھ سے دشمنی کرتے ہیں اور برے لوگ بھی اس لئے کہ لوگوں نے میرے ہاتھوں امام حسین (ع) کے قتل کا واقعہ بہت ہی عظیم شمار کیا ہے۔
شہید سید عبدالکریم ہاشمی نژاد یزید کی پشیمانی کے افسانے کی تردید کے حوالے سے متعدد دلائل اور ثبوت لاتے ہیں جن میں پانچویں دلیل مذکورہ بالا سطور کے مضمون سے مستند ہوئی ہے۔ لکھتے ہیں:
"ابو سفیان کا پوتا ابن مرجانہ کے بیٹے کے فعل سے نہ صرف پشیمان نہ تھا بلکہ وہ اس فعل سے بہت زیادہ خوش تھا اور اس نے واقعہ کربلا کے بعد جو رویہ ابن زیاد کے ساتھ روا رکھا وہ اس بات کی دلیل ہے۔
ابن اثیر نے لکھا ہے کہ: "جب امام حسین (ع) کا سر یزید کے سامنے لایا گیا تو وہ بہت زیادہ خوش ہوا اور اس کے عمل سے خوش حال، اور اس کو صلہ اور انعام و اکرام دیا"۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص امام حسین (ع) کا سر وصول کر کے عبید اللہ بن مرجانہ کے فعل سے خوشنود ہوتا ہے اور حتی کہ اس کو "اس خدمت کے صلے میں" انعام اکرام اور بڑی نقد رقوم سے نوازتا ہے، تو یہ بات کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہے کہ "خداوند متعال ابن مرجانہ پر لعنت کرے جس نے حسین کو قتل کیا ہے جبکہ میں اس کے اس عمل سے راضی نہ تھا؟!۔ (۹)
اہل سنت کے ایک دوسرے مؤرخ نے لکھا ہے:
{... انّه استدعی ابنزیاداً الیه و اعطاه اموالاً کثیرةً و تحفاً عظیمةً و قرب منزله و ادخله علی نسائه و جعله ندیمه و سکر لیلة و قال للمغن غن ثم قال یزید بدیها}۔
کربلا کے واقعے کے بعد یزید نے ابن زیاد کو اپنے پاس بلوایا اور بہت سے اموال اور عطیات اس کو عطا کئے اور اس کو قرب و منزلت سے نوازا اور اس کا رتبہ بڑھایا حتی کہ اس کو اپنا ندیم قرار دیا اور اس کو اپنی عورتوں گھسنے کی اجازت دی اور اپنی حرمسرا میں اس کے ساتھ ایک پوری رات شراب کے نشے میں بسر کی۔ اس رات یزید نے نغمہ سراؤں کو حکم دیا کہ گانے گائیں اور موسیقی بجائیں اور ہمارے لئے غنائی اشعار پڑھین اور پھر خود ہی فی البداہہ یہ اشعار کہے:
اسقنی شربة تروی ۔۔۔
ترجمہ:
"اے ساقی مجھے شراب پلاؤ جو میرے دل کو نشاط بخشے اور مجھے سیراب کردے
اور اس کے بعد میرا جام بھر دو اور وہی شراب ابن زیاد کو دے دو جو مجھے پلا رہے ہو
کہ وہ میرا صاحب اسرار (رازدان) اور میرا امین ہے
وہی جس کے ہاتھوں میری جنگ و غنیمت کی مشکل حل ہوگئی
یہ زیاد کا بیٹا جو اس مرد خارجی (!) یعنی حسین کا قاتل ہے۔
وہی جس نے میرے دشمنوں اور مجھ سے حسد کرنے والوں کے دلوں کو خوف سے بھر دیا"۔(۱۰)
امام سجاد (ع) نے اپنا تعارف کرایا اور امامت و رسالت کا شجرہ نامہ بیان کیا اور اس قدر اپنا تعارف کرانے میں بلاغت کے جوہر جگا دیئے کہ حاضرین بآواز بلند رونے لگے۔ یزید خوفزدہ ہوا کہ کہیں عوام اس کے خلاف انقلاب نہ کر دیں چنانچہ اس نے مؤذن کو اذان کا حکم دیا اور وہ ہوا جو بیان ہوا اور امام (ع) نے خوابیدہ ذہنوں کو جگا دیا۔
مسجد میں جمع ہونے والے شامی، جو اموی تبلیغات کے نتیجے میں غفلت سے دوچار ہو گئے تھے اور خاندان نبی (ص) کو نہیں جانتے تھے، امام سجاد (ع) کا خطبہ سن کر حقائق سے آگاہ ہوئے چنانچہ یزید نے اذان کے ذریعے امام (ع) کو خطبہ جاری رکھنے سے روک لیا اور ابن زیاد کو قصور وار ٹہرا کر اپنے آپ کے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی تا کہ مسجد میں موجود لوگوں کو یقین دلا سکے کہ یزید اس مسئلے میں بے قصور تھا لیکن ابھی اسیران اہل بیت شام میں تھے اور امام حسین (ع) اور دوسرے شہداء کے شام میں تھے لہذا یہ ممکن نہ تھا کہ لوگ اس کو بے گناہ سمجھیں۔
حوالہ جات:
۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ج۴۵،ص۱۳۷۔
۲۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ج۴۵،ص۱۳۷۔
۳۔ طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۱۳۲۔
۴۔ قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسینؑ، ج۳، ص۳۹۵۔
۵۔ شیخ عباس قمی، نفس المہموم، ص۴۵۱
۶۔ فرہاد میرزا، قمقام زخار، ص۵۷۷۔
۷۔ سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، ج۱، ص۱۵۸۔
۸۔ ابن جوزی، یوسف بن قزاوعلی، تذکرة الخواص، ص۱۶۴۔
۹۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبرى، ج۵، ص۲۵۵۔
۱۰۔ مہدی قزلی، کتاب قصہ کربلا، ص۵۰۶۔
۱۱۔ ہاشمی نژاد، عبدالکریم، درسی کہ حسین بہ انسان ہا آموخت، ص۳۷۲۔
source: valiasr-aj.com