بصیرت اخبار

۳ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «پاکستان» ثبت شده است

یہ ملاقات آج سے تقریبا تیس سال پہلے ۱۶ دی ۱۳۷۰ بمطابق ۶ جنوری، ۱۹۹۲ کو ہوئی۔ پاکستان سے آۓ ہوۓ شیعہ مومنین سے رہبر معظم نے ملاقات کے دوران فرمایا:

’’خوش آمدید! ہم آپ مومنین کی زیارت سے بہت خوش ہیں۔ پاکستان کے مسائل، عموم مسلمین کے مسائل ہیں اور مسلمانوں کے جہاں کہیں مسائل ہیں ان سے ہم جدا نہیں ہو سکتے۔ ایران کے عوام اور پاکستانی عوام کے درمیان ہمیشہ سے ایک خاص تعلق رہا ہے۔ ان شاء اللہ یہ رشتہ روز بروز مضبوط ہوتا جائے گا۔ درحقیقت پاکستانی عوام اور پاکستان کے مخلص مسلمان خصوصاً شیعہ اسلامی انقلاب کے معاملات میں ہماری قوم کے لیے ہمیشہ معاون رہے ہیں۔ انقلابِ اسلامی کے آغاز سے اب تک ایسا ہی ہے، اب بھی ہے اور ان شاء اللہ اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔ پاکستان کے مسائل میں سب سے اہم ترین مسئلہ اسلام دشمن عناصر کا اثر و رسوخ ہے۔ انگریزوں کے دور سے ہی یہ اثر و رسوخ بہت حد تک موجود تھا بعد میں امریکیوں اور باقی مستکبر انتہا پسندوں تک یہ اثر و رسوخ پہنچ گیا۔ لہٰذا، اب جبکہ پاکستان میں اسلامی تحریک پھل پھول رہی ہے، اسے پیچیدہ مسائل کا بھی سامنا ہے۔ کہ جسے آپ اپنے تمام وجود کے ساتھ اس کو محسوس کر رہے ہیں اور ہم دور سے دیکھ رہے ہیں۔

۲ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 December 21 ، 22:21
عون نقوی

انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان کو بلیک میل کرنا اور پاکستانی مقتدر اداروں کا اپنے ہی ملک کے شہریوں کو بغیر کسی جرم کے زبردستی لاپتہ کرا دینا، کیا ان کاموں سے پاکستان ترقی کرے گا یا دباؤ کم ہوگا، اپنوں پر ظلم و ستم ڈھا کر کس کی خوشنودی حاصل کی جا رہی ہے؟

رہبر معظم امام خامنہ ای فرماتے ہیں: 

یہ لوگ مطالبات پہ مطالبات رکھتے جائیں گے اور حریف کو مطالبات پورا کرنے پر مجبور کرتے جائیں گے جیسے ہى آپ ان کا ایک مطالبہ پورا کریں گے ایک اور مطالبہ سامنے آ جاۓ گا۔ مجھے لوگ کہتے ہیں کہ ایک چیز ہم ان کى مانتے ہیں اور ایک چیز ان سے منوائیں گے،ان لوگوں کى یہ بات تو صحیح ہے کہ ان کى ایک بات مان لیتے ہیں لیکن یہ کہ ان سے بھى ایک چیز منوالیتے ہیں یہ خام خیالى ہے ۔یہ آپ کى ایک بات بھى نہیں مانتے۔ فرض کیا کہ اسرائیل کو رسمى طور پر تسلیم کرلیں تو پھر بھى وہى مطالبات اور دھمکیاں سننے کو ملیں گى مثلا کہیں گے کہ آپ اپنے ملک میں فلاں اسلامى قانون کو لغو کردیں۔ اسى طرح سے آپ کو قدم با قدم اپنى سارى باتوں کو منوانے پر مجبور کردیں گے۔  ان کے مطالبات کى حد معین نہیں ہے اور نہ ہى کوئى ضمانت موجود ہے کہ اگر فلاں مطالبہ ان کا مان لیا جاۓ تو یہ مزید مطالبہ نہیں کریں گے۔ میں نے کئى بار اس موضوع کى طرف اشارہ کیا ہے اور بعض مسوؤلین حکومت سے پوچھا بھى ہے کہ آپ میں سے بعض لوگ جن کو لگتا ہے کہ ان کے بعض مطالبات کو مان کر ہم پابندیوں سے باہر نکل سکتے ہیں، ان مغربیوں کے مطالبات کى حد آخر کیا ہے ؟ بعض مطالبات کو مان لیا تو پھر اگلا مطالبہ !! اور پھر اس کے بعد اگلا اور اسى طرح سے یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ اگر آپ ایٹمى انرجى کے حصول میں ان کے مطالبات کو مان لیں اور اپنا ایٹمى انرجى کا پلانٹ بند کردیں پھر یہ کہیں گے کہ آپ کے پاس اتنے جدید میزائل کیوں ہیں؟ ان میزائل سسٹم کو بند کرو۔ جیسے ہى آپ ان کا میزائل سسٹم کے بند کرنے کا مطالبہ قبول کریں گےتو کہیں گے کہ آپ لوگ ہر جگہ مقاومت کیوں کرتے ہیں اور مقاومت کى تحریکوں کا ساتھ کیوں دیتے ہیں ؟ کیوں لبنان میں حزب  اللہ کا ساتھ دیتے ہو؟ کیوں فلسطین میں حماس کا ساتھ دیتے ہو؟ اگر ان کا یہ تقاضا بھى مان لیا جاۓ اور مظلومین جہان کى نصرت و امداد اور مقاومت سے ہاتھ کھڑا کر لیں تو حقوق بشر کا مسئلہ کھڑا  کردیں گے۔وہ حقوق بشر جو ان کے نزدیک حقوق بشر سمجھے جاتے ہیں نہ وہ حقوق کہ جو اسلام نے بتاۓ ہیں۔ کہیں گے کہ آپ کے ہاں عوام کو حقوق حاصل نہیں ان کو حقوق فراہم کرو اب ان کى حقوق بشر سے کیا مراد ہوتا ہے یہ سب آپ جانتے ہیں۔ بالفرض اگر حقوق بشر کا مطالبہ بھى مان لیں تو کہیں گے کہ تم لوگوں کے ملک میں دین کا دخل زیادہ ہے دین کو ہر ایک کى ذاتى زندگى کے لئے چھوڑ دیں وہ اگر عمل کرنا چاہتا ہے تو کرے لیکن اجتماعى طور پر اسلام و دین کا عمل دخل اپنے معاشروں سے ختم کرو۔

( قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہوتا ہے)

وَلَن تَرْضَىٰ عَنکَ الْیَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ.
اور آپ سے یہود و نصارى اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں۔

 

حوالہ:
۱۔ سورة البقرہ ، آیت ۱۲۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:29
عون نقوی

 ایک معاشرے کا بیدار و بابصیرت ہونا ہى اس کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھ سکتا ہے اگر ایک دیندار معاشرے کى اکثریت غفلت کا شکار ہو جاۓ تو دشمنانِ دین ان پر مسلط ہو جاتے ہیں اور ان کے دین و ثقافت و رسم و رواج کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ یہی حال اسلامی ممالک کا بھی ہے خصوصاً مملکت عزیز پاکستان اور اس کے حکمران، جنہیں آج تک دقیق طور پر صحیح نہیں پتہ چلا کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون، کہ جس کی بنا پر ہم اپنی آزاد خارجہ پالیسیاں بناتے۔ قرآن کریم دشمنان دین کے منصبوبوں کو مرحلہ بمرحلہ ذکر کرتا ہے اور ان سے ہوشیار رہنے کى ہدایت کرتا ہے۔ ضرورت صرف ایک با بصیرت و مدبر سیاستمدار کی ہے جو خارجہ پالیسیاں مغربی تعلیمات کی بنیاد پر نہیں بلکہ قرآن کریم کی تعلیمات کی بنیاد پر بناۓ اور ملک کی درست تدبیر کرے۔ 

قرآن کریم میں ارشاد بارى تعالى ہوتا ہے:

وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِنْهُمْ.

ترجمہ: اور آۓ دن ان کى کسى خیانت پر آپ آگاہ ہو رہے ہیں۔
(سورہ مائدہ ، آیت ۱۳)

دشمنان دین کبھى آرام سے نہیں بیٹھتا اور چاہتا ہے کہ کسى نہ کسى طرح سے اسلام و مسلمین کو نقصان پہنچاتا رہے اور اس منصوبے کو عملى جامہ پہنانے کے لئے طرح طرح کے منصوبے (Planning) بناتا ہے۔ ان کے منصوبے فقط سیاسى و اقتصادى مسائل تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ان کا ہدف اسلام کا خاتمہ اور مسلمین کو دین سے منحرف کرنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ اسى طرف قرآن کریم کى آیت مجیدہ اشارہ کرتى ہے۔

وَلَا یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَکُمْ حَتَّى یَرُدُّوکُمْ عَنْ دِینِکُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا.

ترجمہ: اور وہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں۔
(سورہ بقرہ ، آیت ۲۱۷)

یاد رہے جب ایک ملک کے لوگ اپنے دین سے ہی غدار ہو جائیں تو وہ مملکت آباد رہتی ہے اور نا اہالیان مملکت، جو ہماری سرحدوں پر حملہ کرتے ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں، اور جو تہذیبیں، انجمنیں، یا این۔جی۔اوز دین کو تباہ کررہی ہیں وہ بدترین دشمن ہیں۔ اسی لیے آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ خدمت خلق کی نیت سے مختلف این۔جی۔اوز پاکستان میں فعال ہیں اور ان کا ہدف فقط اس معاشرے کو برباد کرنا ہی نہیں بلکہ بے دین کرنا ہے ان کی اصل دشمنی دین اسلام سے ہے اور اس کا کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں۔  دشمنان دین کى دشمنى یہیں پر ختم نہیں ہو جاتى بلکہ ان کى خواہش یہ ہوتى ہے کہ اسلام کو ختم کردیا جاۓ، مسلمین کو دین سے منحرف کرکے اپنے جیسا بنا لیا جاۓ تاکہ نہ کوئى اختلاف ہو اور نہ ہى کوئى مسئلہ پیدا ہو، جب یہ ہمارے جیسے ہو جائیں گے اور ہمارے دین کو اپنا لیں گے تو ان پر حکومت کرنا آسان ہو جاۓ گا، اسی چیز کی تاثیر ہے کہ آج تک ہم کسی کو اپنا دشمن مان ہی نہیں سکے، سخت ترین دشمنوں کو اپنا دوست سمجھتے رہے ہیں اور یہی علت ہے کہ استعماری طاقتیں بھی ہمیں اپنا حریف نہیں سمجھتیں اصلا اہمیت ہی نہیں دیتیں کیونکہ وہ جانتی ہیں جس کام پہ ان کو لگا دیا جائے یہ لگے رہتے ہیں۔ 

 دشمن کے اس ھدف کو قرآن کریم کى آیت مجیدہ آشکار کرتى ہے:

وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْکَ الْیَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ.

ترجمہ: اور آپ سے یہود و نصارى اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں۔
(سورہ بقرہ ، آیت ۱۲۰)

 قرآن کریم دشمن کے ان خبیثانہ اھداف کو ذکر کرتا ہے اور پھر یہ بھى بیان کرتا ہے کہ ان مراحل کو کس طرح سے طے کرتے ہیں:

وَفِیکُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ.

ترجمہ: اور تمہارے درمیان ان کے جاسوس موجود ہیں۔
( سورہ توبہ ، آیت ۴۷)

 قرآن کریم کى دشمن شناسى پر ان صریح آیات سے واضح ہوتا ہے کہ دشمنان دین و دشمنان مسلمین کس طرح سے اسلام و مسلمین کى نابودى کے لئے مرحلہ بمرحلہ اقدامات اٹھاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام و مسلمین کو سرکوب کریں۔  یہاں ضرورت اس بات کى ہے کہ مومنین کى صفوں میں شعور و بصیرت پیدا کى جاۓ اور یہ احساس اجاگر کیا جاۓ کہ اسلام و مسلمین خطر میں ہیں، جب تک خطرے کا احساس بیدار نہ ہوگا دشمن کى دشمنى کى زد میں رہیں گے لیکن اگر شعور و بصیرت سے کام لیں تو دشمن کے منصوبوں پر غلبہ پا سکتے ہیں۔

 


(اقتباس از کتاب ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، مؤلف آیت اللہ العظمی جوادی آملی حفظہ اللہ۔)

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:11
عون نقوی