بصیرت اخبار

۳۳۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ» ثبت شده است

(۱۵۸)

عَاتِبْ اَخَاکَ بِالْاِحْسَانِ اِلَیْهِ، وَ ارْدُدْ شَرَّهٗ بِالْاِنْعَامِ عَلَیْهِ.

اپنے بھائی کو شرمندۂ احسان بنا کر سر زنش کرو اور لطف و کرم کے ذریعہ سے اس کے شر کو دور کرو۔

اگر برائی کا جواب برائی سے اور گالی کا جواب گالی سے دیا جائے تو اس سے دشمنی و نزاع کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اور اگر برائی سے پیش آنے والے کے ساتھ نرمی و ملائمت کا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ بھی اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہو جائے گا۔ چنانچہ ایک دفعہ امام حسن علیہ السلام بازار مدینہ میں سے گزر رہے تھے کہ ایک شامی نے آپؑ کی جاذب نظر شخصیت سے متاثر ہو کر لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ اسے بتایا گیا کہ یہ حسن ابن علی علیہما السلام ہیں۔ یہ سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور آپؑ کے قریب آ کر انہیں برا بھلا کہنا شروع کیا۔ مگر آپؑ خاموشی سے سنتے رہے۔ جب وہ چپ ہوا تو آپؑ نے فرمایا کہ: معلوم ہوتا ہے کہ تم یہاں نووارد ہو؟ اس نے کہا کہ: ہاں ایسا ہی ہے۔ فرمایا کہ: پھر تم میرے ساتھ چلو، میرے گھر میں ٹھہرو، اگر تمہیں کوئی حاجت ہو گی تو میں اسے پورا کروں گا اور مالی امداد کی ضرورت ہوگی تو مالی امداد بھی دوں گا۔ جب اس نے اپنی سخت و درشت باتوں کے جواب میں یہ نرم روی و خوش اخلاقی دیکھی تو شرم سے پانی پانی ہو گیا اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے عفو کا طالب ہوا، اور جب آپؑ سے رخصت ہوا تو روئے زمین پر ان سے زیادہ کسی اور کی قدر و منزلت اس کی نگاہ میں نہ تھی۔

(۱۵۹)

مَنْ وَّضَعَ نَفْسَهٗ مَوَاضِعَ التُّهَمَةِ فَلَا یَلُوْمَنَّ مَنْ اَسَآءَ بِهِ الظَّنَّ.

جو شخص بدنامی کی جگہوں پر اپنے کو لے جائے تو پھر اسے برا نہ کہے جو اس سے بدظن ہو۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 19:07
عون نقوی

(۱۵۶)

عَلَیْکُمْ بِطَاعَةِ مَنْ لَا تُعْذَرُوْنَ بِجَهَالَتِهٖ.

تم پر اطاعت بھی لازم ہے ان کی جن سے ناواقف رہنے کی بھی تمہیں معافی نہیں۔


خداوند عالم نے اپنے عدل و رحمت سے جس طرح دین کی طرف رہبری و رہنمائی کر نے کیلئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری کیا اسی طرح سلسلۂ نبوت کے ختم ہونے کے بعد دین کو تبدیل و تحریف سے محفوظ رکھنے کیلئے امامت کا نفاذ کیا تاکہ ہر امام اپنے اپنے دور میں تعلیمات الٰہیہ کو خواہش پرستی کی زد سے بچا کر اسلام کے صحیح احکام کی رہنمائی کرتا رہے۔ اور جس طرح شریعت کے مبلغ کی معرفت واجب ہے اسی طرح شریعت کے محافظ کی بھی معرفت ضروری ہے اور جاہل کو اس میں معذور نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیونکہ منصب امامت پر صدہا ایسے دلائل و شواہد موجود ہیں جن سے کسی بابصیرت کیلئے گنجائش انکار نہیں ہو سکتی چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
مَنْ مَّاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ مَاتَ مِیْتَةً جَاھِلِیَّةً.
جو شخص اپنے دور حیات کے امام کو نہ پہچانے اور دنیا سے اٹھ جائے، اس کی موت کفر و ضلالت کی موت ہے۔
ابن ابی الحدید نے بھی اس ذات سے کہ جس سے ناواقفیت و جہالت عذر مسموع نہیں بن سکتی حضرت کی ذات کو مراد لیا ہے اور ان کی اطاعت کا اعتراف اور منکر امامت کے غیر ناجی ہونے کا اقرار کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ:
مَنْ جَهِلَ اِمَامَةَ عَلِیٍّ ؑ، وَ اَنْکَرَ صِحَّتَهَا وَ لُزُوْمَهَا، فَهُوَ عِنْدَ اَصْحَابِنَا مُخَلَّدٌ فِی النَّارِ، لَا یَنْفَعُهٗ صَوْمٌ وَّ لَا صَلٰوةٌ، لِاَنَّ الْمَعْرِفَةَ بِذٰلِکَ مِنَ الْاُصُوْلِ الْکُلِیَّةِ الَّتِیْ هِیَ اَرْکَانُ الدِّیْنِ، وَ لٰکِنَّا لَا نُسَمِّیْ مُنْکِرَ اِمَامَتِهٖ کَافِرًا، بَلْ نُسَمِّیْهِ فَاسِقًا وَِّ خَارِجِیًّا وَّ مَارِقًا وَّ نَحْوَ ذٰلِکَ، وَ الشَّیْعَةُ تُسَمِّیْهِ کَافِرًا، فَهٰذَا هُوَ الْفَرْقُ بَیْنَـنَا وَ بَیْنَهُمْ، وَ هُوَ فِی اللَّفْظِ، لَا فِی الْمَعْنٰى.‏
جو شخص حضرت علی علیہ السلام کی امامت سے جاہل اور اس کی صحت و لزوم کا منکر ہو، وہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ہمیشہ کیلئے جہنمی ہے۔ نہ اسے نماز فائدہ دے سکتی ہے، نہ روزہ۔ کیونکہ معرفت امامت ان بنیادی اصولوں میں شمار ہوتی ہے جو دین کے مسلمہ ارکان ہیں۔ البتہ ہم آپؑ کی امامت کے منکر کو کافر کے نام سے نہیں پکارتے، بلکہ اسے فاسق، خارجی اور بے دین وغیرہ کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اور شیعہ ایسے شخص کو کافر سے تعبیر کرتے ہیں اور یہی ہمارے اصحاب اور ان میں فرق ہے۔ مگر صرف لفظی فرق ہے، کوئی واقعی اور معنوی فرق نہیں ہے۔)شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۱۳۱۹(

(۱۵۷)

قَدْ بُصِّرْتُمْ اِنْ اَبْصَرْتُمْ، وَ قَدْ هُدِیْتُمْ اِنِ اهْتَدَیْتُمْ، و اُسْمِعْتُمْ اِنِ اسْتَمَعْتُمْ.

اگر تم دیکھو تو تمہیں دکھایا جا چکا ہے اور اگر تم ہدایت حاصل کرو تو تمہیں ہدایت کی جا چکی ہے اور اگر سننا چاہو تو تمہیں سنایا جا چکا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 19:04
عون نقوی

(۱۵۲)

لِکُلِّ مُقْبِلٍ اِدْبَارٌ، وَ مَاۤ اَدْبَرَ کَاَنْ لَّمْ یَکُنْ.

ہر آنے والے کیلئے پلٹنا ہے اور جب پلٹ گیا تو جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔

(۱۵۳)

لَا یَعْدَمُ الصَّبُوْرُ الظَّفَرَ، وَ اِنْ طَالَ بِهِ الزَّمَانُ.

صبر کرنے والا ظفر و کامرانی سے محروم نہیں ہوتا۔ چاہے اس میں طویل زمانہ لگ جائے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 18:57
عون نقوی

(۱۵۰)

لِرَجُلٍ سَئَلَهٗ اَنْ یَّعِظَهٗ:

ایک شخص نے آپؑ سے پند و موعظت کی درخواست کی تو فرمایا:

لَا تَکُنْ مِّمَّنْ یَّرْجُو الْاٰخِرَةَ بِغَیْرِ الْعَمَلِ، وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطُوْلِ الْاَمَلِ، یَقُوْلُ فِی الدُّنْیَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِیْنَ، وَ یَعْمَلُ فِیْهَا بِعَمَلِ الرَّاغِـبِیْنَ، اِنْ اُعْطِیَ مِنْهَا لَمْ یَشْبَعْ، وَ اِنْ مُّنِـعَ مِنْهَا لَمْ یَقْنَعْ، یَعْجِزُ عَنْ شُکْرِ مَاۤ اُوْتِیَ، وَ یَبْتَغِی الزِّیَادَةَ فِیْمَا بَقِیَ.

تم کو ان لوگوں میں سے نہ ہونا چاہیے کہ جو عمل کے بغیر حسنِ انجام کی امید رکھتے ہیں اور امیدیں بڑھا کر توبہ کو تاخیر میں ڈال دیتے ہیں۔ جو دنیا کے بارے میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر ان کے اعمال دنیا طلبوں کے سے ہوتے ہیں۔ اگر دنیا انہیں ملے تو وہ سیر نہیں ہوتے اور اگر نہ ملے تو قناعت نہیں کرتے۔ جو انہیں ملا ہے اس پر شکر سے قاصر رہتے ہیں اور جو بچ رہا اس کے اضافہ کے خواہشمند رہتے ہیں۔

یَنْهٰى وَ لَا یَنْتَهِیْ، وَ یَاْمُرُ بِمَا لَا یَاْتِیْ، یُحِبُّ الصّٰلِحِیْنَ وَ لَا یَعْمَلُ عَمَلَهُمْ، وَ یُبْغِضُ الْمُذْنِبِیْنَ وَ هُوَ اَحَدُهُمْ، یَکْرَهُ الْمَوْتَ لِکَثْرَةِ ذُنُوْبِهٖ، وَ یُقِیْمُ عَلٰى مَا یَکْرَهُ الْمَوْتَ لَهٗ.

دوسروں کو منع کرتے ہیں اور خود باز نہیں آتے اور دوسروں کو حکم دیتے ہیں ایسی باتوں کا جنہیں خود بجانہیں لاتے۔ نیکوں کو دوست رکھتے ہیں مگر ان کے سے اعمال نہیں کرتے اور گنہگاروں سے نفرت و عناد رکھتے ہیں حالانکہ وہ خود انہی میں داخل ہیں۔ اپنے گناہوں کی کثرت کے باعث موت کو برا سمجھتے ہیں مگر جن گناہوں کی وجہ سے موت کو ناپسند کرتے ہیں انہی پر قائم ہیں۔

اِنْ سَقِمَ ظَلَّ نَادِمًا، وَ اِنْ صَحَّ اَمِنَ لَاهِیًا، یُعْجِبُ بِنَفْسِهٖۤ اِذَا عُوْفِیَ، وَ یَقْنَطُ اِذَا ابْتُلِیَ، اِنْ اَصَابَهٗ بَلَآءٌ دَعَا مُضْطَرًّا، وَ اِنْ نَّالَهٗ رَخَآءٌ اَعْرَضَ مُغْتَرًّا،

اگر بیمار پڑتے ہیں تو پشیمان ہوتے ہیں اور تندرست ہوتے ہیں تو مطمئن ہو کر کھیل کود میں پڑ جاتے ہیں۔ جب بیماری سے چھٹکارا پاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور مبتلا ہوتے ہیں تو ان پر مایوسی چھا جاتی ہے۔ جب کسی سختی و ابتلا میں پڑتے ہیں تو لاچار و بے بس ہوکر دُعائیں مانگتے ہیں اور جب فراخ دستی نصیب ہوتی ہے تو فریب میں مبتلا ہو کر منہ پھیر لیتے ہیں۔

تَغْلِبُهٗ نَفْسُهٗ عَلٰى مَا یَظُنُّ، وَ لَا یَغْلِبُهَا عَلٰى مَا یَسْتَیْقِنُ، یَخَافُ عَلٰى غَیْرِهٖ بِاَدْنٰى مِنْ ذَنْۢبِهٖ، وَ یَرْجُوْ لِنَفْسِهٖ بِاَکْثَرَ مِنْ عَمَلِهٖ، اِنِ اسْتَغْنٰى بَطِرَ وَ فُتِنَ، وَ اِنِ افْتقَرَ قَنَطَ وَ وَهَنَ، یُقَصِّرُ اِذَا عَمِلَ، وَ یُبَالِغُ اِذَا سَئَلَ.

ان کا نفس خیالی باتوں پر انہیں قابو میں لے آتا ہے اور وہ یقینی باتوں پر اسے نہیں دبا لیتے۔ دوسروں کیلئے ان کے گناہ سے زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں اور اپنے لئے اپنے اعمال سے زیادہ جزا کے متوقع رہتے ہیں۔ اگر مالدار ہو جاتے ہیں تو اترانے لگتے ہیں اور فتنہ و گمراہی میں پڑ جاتے ہیں اور اگر فقیر ہو جاتے ہیں تو ناامید ہو جاتے ہیں اور سستی کرنے لگتے ہیں۔ جب عمل کرتے ہیں تو اس میں سستی کرتے ہیں اور جب مانگنے پر آتے ہیں تو اصرار میں حد سے بڑھ جاتے ہیں۔

اِنْ عَرَضَتْ لَهٗ شَهْوَةٌ اَسْلَفَ الْمَعْصِیَةَ وَ سَوَّفَ التَّوْبَةَ، وَ اِنْ عَرَتْهُ مِحْنَةٌ انْفَرَجَ عَنْ شَرَآئِطِ الْمِلَّةِ، یَصِفُ الْعِبْرَةَ وَ لَا یَعْتَبِرُ، وَ یُبَالِغُ فِی الْمَوْعِظَةِ وَ لَا یَتَّعِظُ، فَهُوَ بِالْقَوْلِ مُدِلٌّ، وَ مِنَ الْعَمَلِ مُقِلٌّ، یُنَافِسُ فِیْمَا یَفْنٰى، وَ یُسَامِحُ فِیْمَا یَبْقٰى، یَرَى الْغُنْمَ مَغْرَمًا، وَ الْغُرْمَ مَغْنَمًا.

اگر ان پر خواہش نفسانی کا غلبہ ہوتا ہے تو گناہ جلد سے جلد کرتے ہیں اور توبہ کو تعویق میں ڈالتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو جماعتِ اسلامی کے خصوصی امتیازات سے الگ ہو جاتے ہیں۔ عبرت کے واقعات بیان کرتے ہیں مگر خود عبرت حاصل نہیں کرتے اور وعظ و نصیحت میں زور باندھتے ہیں مگر خود اس نصیحت کا اثر نہیں لیتے۔ چنانچہ وہ بات کرنے میں تو اونچے رہتے ہیں مگر عمل میں کم ہی کم رہتے ہیں۔ فانی چیزوں میں نفسی نفسی کرتے ہیں اور باقی رہنے والی چیزوں میں سہل انگاری سے کام لیتے ہیں۔ وہ نفع کو نقصان اور نقصان کو نفع خیال کرتے ہیں۔

یَخْشَى الْمَوْتَ وَ لَا یُبَادِرُ الْفَوْتَ، یَسْتَعْظِمُ مِنْ مَّعْصِیَةِ غَیْرِهٖ مَا یَسْتَقِلُّ اَکْثَرَ مِنْهُ مِنْ نَّفْسِهٖ، وَ یَسْتَکْثِرُ مِنْ طَاعَتِهٖ مَا یَحْقِرُهٗ مِنْ طَاعَةِ غَیْرِهٖ. فَهُوَ عَلَى النَّاسِ طَاعِنٌ، وَ لِنَفْسِهٖ مُدَاهِنٌ.

موت سے ڈرتے ہیں مگر فرصت کا موقع نکل جانے سے پہلے اعمال میں جلدی نہیں کرتے۔ دوسرے کے ایسے گناہ کو بہت بڑا سمجھتے ہیں جس سے بڑے گناہ کو خود اپنے لئے چھوٹا خیال کرتے ہیں، اور اپنی ایسی اطاعت کو زیادہ سمجھتے ہیں جسے دوسرے سے کم سمجھتے ہیں، لہٰذا وہ لوگوں پر معترض ہوتے ہیں اور اپنے نفس کی چکنی چپڑی باتوں سے تعریف کرتے ہیں۔

اَللَّهْوُ مَعَ الْاَغْنِیَآءِ اَحَبُّ اِلَیْهِ مِنَ الذِّکْرِ مَعَ الْفُقَرَآءِ، یَحْکُمُ عَلٰى غَیْرِهٖ لِنَفْسِهٖ وَ لَا یَحْکُمُ عَلَیْهَا لِغَیْرِهٖ، یُرْشِدُ غَیْرَهٗ وَ یُغْوِیْ نَفْسَهٗ، فَهُوَ یُطَاعُ وَ یَعْصِیْ، وَ یَسْتَوْفِیْ وَ لَا یُوْفِیْ، وَ یَخْشَى الْخَلْقَ فِیْ غَیْرِ رَبِّهٖ، وَ لَا یَخْشٰى رَبَّهٗ فِیْ خَلْقِهٖ.

دولتمندوں کے ساتھ طرب و نشاط میں مشغول رہنا انہیں غریبوں کے ساتھ محفل ذکر میں شرکت سے زیادہ پسند ہے۔ اپنے حق میں دوسرے کے خلاف حکم لگاتے ہیں، لیکن کبھی یہ نہیں کرتے کہ دوسرے کے حق میں اپنے خلاف حکم لگائیں۔ اوروں کو ہدایت کرتے ہیں اور اپنے کو گمراہی کی راہ پر لگاتے ہیں۔ وہ اطاعت لیتے ہیں اور خود نافرمانی کرتے ہیں، اور حق پورا پورا وصول کر لیتے ہیں مگر خود ادا نہیں کرتے۔ وہ اپنے پروردگار کو نظر انداز کر کے مخلوق سے خوف کھاتے ہیں اور مخلوقات کے بارے میں اپنے پروردگار سے نہیں ڈرتے۔

وَ لَوْ لَمْ یَکُنْ فِیْ هٰذَا الْکِتَابِ اِلَّا هٰذَا الْکَلَامُ لَکَفٰى بِهٖ مَوْعِظَةً نَّاجِعَةً، وَ حِکْمَةًۢ بَالِغَةً، وَ بَصِیْرَةً لِّمُبْصِرٍ، وَ عِبْرَةً لِّنَاظِرٍ مُّفَکِّرٍ.

سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اگر اس کتاب میں صرف ایک یہی کلام ہوتا تو کامیاب موعظہ اور مؤثر حکمت اور چشم بینا رکھنے والے کیلئے بصیرت اور نظر و فکر کرنے والے کیلئے عبرت کے اعتبار سے بہت کافی تھا۔

(۱۵۱)

لِکُلِّ امْرِئٍ عَاقِبَةٌ حُلْوَةٌ اَوْ مُرَّةٌ.

ہر شخص کا ایک انجام ہے۔ اب خواہ وہ شیریں ہو یا تلخ۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 18:55
عون نقوی

(۱۴۶)

سُوْسُوْۤا اِیْمَانَکُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَ حَصِّنُوْۤا اَمْوَالَکُمْ بِالزَّکٰوةِ، وَ ادْفَعُوْۤا اَمْوَاجَ الْبَلَآءِ بِالدُّعَآءِ.

صدقہ سے اپنے ایمان کی نگہداشت اور زکوٰة سے اپنے مال کی حفاظت کرو، اور دُعا سے مصیبت و ابتلا کی لہروں کو دور کرو۔

(۱۴۷)

لِکُمَیْلِ بْنِ زِیَادٍ النَّخَعِیِّ، قَالَ کُمَیْلُ بْنُ زِیَادٍ: اَخَذَ بِیَدِیْ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍؑ، فَاَخْرَجَنِیْۤ اِلَى الْجَبَّانِ، فَلَمَّاۤ اَصْحَرَ تَنَفَّسَ الصُّعَدَآءُ ثُمَّ قَالَ:

کمیل ابن زیاد نخعی کہتے ہیں کہ: امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبرستان کی طرف لے چلے۔ جب آبادی سے باہر نکلے تو ایک لمبی آہ کی۔ پھر فرمایا:

یَا کُمَیْلَ بْنَ زِیَادٍ! اِنَّ هٰذِهِ الْقُلُوْبَ اَوْعِیَةٌ، فَخَیْرُهَا اَوْعَاهَا، فَاحْفَظْ عَنِّیْ مَاۤ اَقُوْلُ لَکَ:

اے کمیل! یہ دل اسرار و حکم کے ظروف ہیں۔ ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو زیادہ نگہداشت کرنے والا ہو۔ لہٰذا تو جو میں تمہیں بتاؤں اسے یاد رکھنا:

اَلنَّاسُ ثَلَاثَةٌ: فَعَالِمٌ رَّبَّانِیٌّ، وَ مُتَعَلِّمٌ عَلٰى سَبِیْلِ نَجَاةٍ، وَ هَمَجٌ رَّعَاعٌ، اَتْبَاعُ کُلِّ نَاعِقٍ، یَمِیْلُوْنَ مَعَ کُلِّ رِیْحٍ، لَمْ یَسْتَضِیْٓئُوْا بِنُوْرِ الْعِلْمِ، وَ لَمْ یَلْجَؤُوْا اِلٰى رُکْنٍ وَّثِیْقٍ.

دیکھو! تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ایک عالم ربانی، دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راہ پر برقرار رہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ پست گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہو لیتا ہے اور ہر ہوا کے رخ پر مڑ جاتا ہے، نہ انہوں نے نور علم سے کسب ضیاء کیا، نہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی۔

یَا کُمَیْلُ! الْعِلْمُ خَیْرٌ مِّنَ الْمَالِ: الْعِلْمُ یَحْرُسُکَ وَ اَنْتَ تَحْرُسُ الْمَالَ، وَ الْمَالُ تَنْقُصُهُ النَّفَقَةُ، وَ الْعِلْمُ یَزْکُوْ عَلَى الْاِنْفَاقِ، وَ صَنِیْعُ الْمَالِ یَزُوْلُ بِزَوَالِهٖ.

اے کمیل! یاد رکھو کہ علم مال سے بہتر ہے، (کیونکہ)علم تمہاری نگہداشت کرتا ہے اور مال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے، اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے، اور مال و دولت کے نتائج و اثرات مال کے فنا ہونے سے فنا ہو جاتے ہیں۔

یَا کُمَیْلَ بْنَ زِیَادٍ! مَعْرِفَةُ الْعِلْمِ دِیْنٌ یُّدَانُ بِهٖ، بِهٖ یَکْسِبُ الْاِنْسَانُ الطَّاعَةَ فِیْ حَیَاتِهٖ، وَ جَمِیْلَ الْاُحْدُوْثَةِ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، وَ الْعِلْمُ حَاکِمٌ، وَ الْمَالُ مَحْکُوْمٌ عَلَیْهِ.

اے کمیل! علم کی شناسائی ایک دین ہے کہ جس کی اقتدا کی جاتی ہے۔ اسی سے انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے کے بعد نیک نامی حاصل کرتا ہے۔ یاد رکھو کہ علم حاکم ہوتا ہے اور مال محکوم۔

یَا کُمَیْلُ! هَلَکَ خُزَّانُ الْاَمْوَالِ وَ هُمْ اَحْیَآءٌ، وَ الْعُلَمَآءُ بَاقُوْنَ مَا بَقِیَ الدَّهْرُ: اَعْیَانُهُمْ مَفْقُوْدَةٌ، وَ اَمْثَالُهُمْ فِی الْقُلُوْبِ مَوْجُوْدَةٌ.

اے کمیل! مال اکٹھا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں۔ بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں۔

هَا! اِنَّ هٰهُنَا لَعِلْمًا جَمًّا (وَ اَشَارَ اِلٰى صَدْرِهٖ:) لَوْ اَصَبْتُ لَهٗ حَمَلَةً!

(اس کے بعد حضرتؑ نے اپنے سینہ اقدس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:) دیکھو! یہاں علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، کاش! اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے۔

بَلٰۤى اَصَبْتُ لَقِنًا غَیْرَ مَاْمُوْنٍ عَلَیْهِ، مُسْتَعْمِلًا اٰلَةَ الدِّیْنِ لِلدُّنْیَا، وَ مُسْتَظْهِرًۢا بِنِعَمِ اللهِ عَلٰى عِبَادِهٖ، وَ بِحُجَجِهٖ عَلٰۤى اَوْلِیَآئِهٖ، اَوْ مُنْقَادًا لِّحَمَلَةِ الْحَقِّ، لَا بَصِیْرَةَ لَهٗ فِیْۤ اَحْنَآئِهٖ، یَنْقَدِحُ الشَّکُّ فِیْ قَلْبِهٖ لاَِوَّلِ عَارِضٍ مِّنْ شُبْهَةٍ.

ہاں ملا کوئی تو یا ایسا جو ذہین تو ہے مگر ناقابل اطمینان ہے اور جو دنیا کیلئے دین کو آلۂ کار بنا نے والا ہے اور اللہ کی ان نعمتوں کی وجہ سے اس کے بندوں پر اور اس کی حجتوں کی وجہ سے اس کے دوستوں پر تفوق و برتری جتلانے والا ہے۔ یا جو اربابِ حق و دانش کا مطیع تو ہے مگر اس کے دل کے گوشوں میں بصیرت کی روشنی نہیں ہے، بس ادھر ذرا سا شبہ عارض ہوا کہ اس کے دل میں شکوک و شبہات کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں۔

اَلَا لَا ذَا وَ لَا ذَاکَ!

تو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ یہ اس قابل ہے اور نہ وہ اس قابل ہے۔

اَوْ مَنْهُوْمًۢا بِاللَّذَّةِ، سَلِسَ الْقِیَادِ لِلشَّهْوَةِ، اَوْ مُغْرَمًۢا بِالْجَمْعِ وَ الْاِدِّخَارِ،

یا ایسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے اور بآسانی خواہش نفسانی کی راہ پر کھنچ جانے والا ہے۔ یا ایسا شخص جو جمع آوری و ذخیرہ اندوزی پر جان دیئے ہوئے ہے۔

لَیْسَا مِنْ رُّعَاةِ الدِّیْنِ فِیْ شَیْءٍ، اَقْرَبُ شَیْءٍ شَبَهًۢا بِهِمَا الْاَنَعَامُ السَّآئِمَةُ! کَذٰلِکَ یَمُوْتُ الْعِلْمُ بِمَوْتِ حَامِلِیْهِ.

یہ دونوں بھی دین کے کسی امر کی رعایت و پاسداری کرنے والے نہیں ہیں۔ ان دونوں سے انتہائی قریبی شباہت چرنے والے چوپائے رکھتے ہیں۔ اسی طرح تو علم کے خزینہ داروں کے مرنے سے علم ختم ہو جاتا ہے۔

اَللّٰهُمَّ بَلٰى! لَا تَخْلُو الْاَرْضُ مِنْ قَآئِمٍ لِلّٰهِ بِحُجَّةٍ، اِمَّا ظَاهِرًا مَّشْهُوْرًا، اَوْ خَآئِفًا مَّغْمُوْرًا، لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللهِ وَ بَیِّنَاتُهٗ.

ہاں! مگر زمین ایسے فرد سے خالی نہیں رہتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے۔ چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو، یا خائف و پنہاں، تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں۔

وَ کَمْ ذَا وَ اَیْنَ اُولٰٓئِکَ؟ اُولٰٓئِکَ ـ وَاللّٰهِ ـ الْاَقَلُّوْنَ عَدَدًا، وَ الْاَعْظَمُوْنَ عِنْدَ اللّٰہِ قَدْرًا، یَحْفَظُ اللهُ بِهِمْ حُجَجَهٗ وَ بَیِّنَاتِهٖ، حَتّٰى یُوْدِعُوْهَا نُظَرَآءَهُمْ، وَ یَزْرَعُوْهَا فِیْ قُلُوْبِ اَشْبَاهِهِمْ، هَجَمَ بِهِمُ الْعِلْمُ عَلٰى حَقِیْقَةِ الْبَصِیْرَةِ، وَ بَاشَرُوْا رُوْحَ الْیَقِیْنِ، وَ اسْتَلَانُوْا مَا اسْتَوْعَرَهُ الْمُتْرَفُوْنَ، وَ اَنِسُوْا بِمَا اسْتَوْحَشَ مِنْهُ الْجَاهِلُوْنَ، وَ صَحِبُوا الدُّنْیَا بِاَبْدَانٍ اَرْوَاحُهَا مُعَلَّقَةٌۢ بِالْـمَحَلِّ الْاَعْلٰى، اُولٰٓئِکَ خُلَفَآءُ اللهِ فِیْۤ اَرْضِهٖ، وَ الدُّعَاةُ اِلٰى دِیْنِهٖ، اٰهِ اٰهِ شَوْقًا اِلٰى رُؤْیَتِهِمْ!.

اور وہ ہیں ہی کتنے اور کہاں پر ہیں؟ خدا کی قسم! وہ تو گنتی میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور اللہ کے نزدیک قدر و منزلت کے لحاظ سے بہت بلند۔ خداوند عالم ان کے ذریعہ سے اپنی حجتوں اور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے ایسوں کے سپرد کر دیں اور اپنے ایسوں کے دلوں میں انہیں بو دیں۔ علم نے انہیں ایک دم حقیقت و بصیرت کے انکشافات تک پہنچا دیا ہے۔ وہ یقین و اعتماد کی روح سے گھل مل گئے ہیں اور ان چیزوں کو جنہیں آرام پسند لوگوں نے دشوار قرار دے رکھا تھا اپنے لئے سہل و آسان سمجھ لیا ہے، اور جن چیزوں سے جاہل بھڑک اٹھتے ہیں ان سے وہ جی لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ ایسے جسموں کے ساتھ دنیا میں رہتے سہتے ہیں کہ جن کی روحیں ملاء اعلیٰ سے وابستہ ہیں۔ یہی لوگ تو زمین میں اللہ کے نائب اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔ ہائے ان کی دید کیلئے میرے شوق کی فراوانی!۔

اِنْصَرِفْ یَا کُمَیْلُ اِذَا شِئْتَ.

(پھر حضرتؑ نے کمیل سے فرمایا:) اے کمیل! (مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا)، اب جس وقت چاہو واپس جاؤ۔


کمیل ابن زیاد نخعی رحمہ اللہ اسرار امامت کے خزینہ دار اور امیر المومنین علیہ السلام کے خواص اصحاب میں سے تھے۔ علم و فضل میں بلند مرتبہ اور زُہد و ورع میں امتیاز خاص کے حامل تھے۔ حضرتؑ کی طرف سے کچھ عرصہ تک ہیت کے عامل رہے۔ ۸۳ ھجری میں ۹۰ برس کی عمر میں حجاج ابن یوسف ثقفی کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور بیرون کوفہ دفن ہوئے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 18:47
عون نقوی