بصیرت اخبار

۳۳۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ» ثبت شده است

جب زبیر نے یہ کہا کہ میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرمایا

یَزْعُمُ أَنَّهُ قَدْ بَایَعَ بِیَدِهِ وَ لَمْ یُبَایِعْ بِقَلْبِهِ فَقَدْ أَقَرَّ بِالْبَیْعَهِ وَ ادَّعَی الْوَلِیجَهَ فَلْیَأْتِ عَلَیْهَا بِأَمْرٍ یُعْرَفُ وَ إِلاَّ فَلْیَدْخُلْ فِیمَا خَرَجَ مِنْهُ.

وہ ایسا ظاہر کرتا ہے کہ اس نے بیعت ہاتھ سے کر لی تھی مگر دل سے نہیں کی تھی۔ بہر صورت اس نے بیعت کا تو اقرار کر لیا، لیکن اس کا یہ ادعا کہ اس کے دل میں کھوٹ تھا تو اسے چاہئے کہ اس دعوی کے لیے کوئی واضح دلیل پیش کرے، ورنہ جس بیعت سے منحرف ہوا ہے اس میں واپس آۓ۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۱۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 August 21 ، 22:29
عون نقوی

منافقین کی حالت

اتَّخَذُوا الشَّیْطَانَ لِأَمْرِهِمْ مِلاَکاً وَ اتَّخَذَهُمْ لَهُ أَشْرَاکاً فَبَاضَ وَ فَرَّخَ فِی صُدُورِهِمْ وَ دَبَّ وَ دَرَجَ فِی حُجُورِهِمْ فَنَظَرَ بِأَعْیُنِهِمْ وَ نَطَقَ بِأَلْسِنَتِهِمْ فَرَکِبَ بِهِمُ الزَّلَلَ وَ زَیَّنَ لَهُمُ الْخَطَلَ فِعْلَ مَنْ قَدْ شَرِکَهُ الشَّیْطَانُ فِی سُلْطَانِهِ وَ نَطَقَ بِالْبَاطِلِ عَلَی لِسَانِهِ.

انہوں نے اپنے ہر کام کا کرتا دھرتا شیطان کو بنا رکھا ہے اور اس نے ان کو اپنا آلہ کار بنا لیا ہے۔ اس نے ان کے سینوں میں انڈے دئیے ہیں اور بچے نکالے ہیں اور انہی کی گود میں وہ بچے رینگتے اور اچھلتے کودتے ہیں۔ وہ دیکھتا ہے تو ان کی آنکھوں سے، اور بولتا ہے تو ان کی زبانوں سے، اس نے انہیں خطاؤں کی راہ پر لگایا ہے اور بری باتیں سجا کر ان کے سامنے رکھی ہیں، جیسے اس انہیں اپنے تسلط میں شریک بنا لیا ہو اور انہیں کی زبانوں سے اپنے کلام باطل کے ساتھ بولتا ہو۔

ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 August 21 ، 22:22
عون نقوی

عثمان ابن حنیف انصاری کے نام

فَإِنْ عَادُوا إِلَی ظِلِّ الطَّاعَهِ فَذَاکَ الَّذِی نُحِبُّ وَ إِنْ تَوَافَتِ الْأُمُورُ بِالْقَوْمِ إِلَی الشِّقَاقِ وَ الْعِصْیَانِ فَانْهَدْ بِمَنْ أَطَاعَکَ إِلَی مَنْ عَصَاکَ وَ اسْتَغْنِ بِمَنِ انْقَادَ مَعَکَ عَمَّنْ تَقَاعَسَ عَنْکَ فَإِنَّ الْمُتَکَارِهَ مَغِیبُهُ خَیْرٌ مِنْ مَشْهَدِهِ وَ قُعُودُهُ أَغْنَی مِنْ نُهُوضِهِ.

اگر وہ اطاعت کی چھاؤں میں پلٹ آئیں تو یہ تو ہم چاہتے ہیں اور اگر ان کی تانیں بس بغاوت اور نافرمانی ہی پر ٹوٹیں، تو تم فرماں برداروں کو لے کر نافرمانوں کی طرف اٹھ کھڑے ہو اور جو تمہارا ہمنوا ہو کر تمہارے ساتھ ہے اس کے ہوتے ہوۓ منہ موڑنے والوں کی پروا نہ کرو۔ کیونکہ جو بددلی سے ساتھ ہو اس کا نہ ہونا ہونے سے بہتر ہے اور اس کا بیٹھے رہنا اس کے اٹھ کھڑے ہونے سے زیادہ مفید ثابت ہو سکتا ہے۔
ترجمہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۲۷۸۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 August 21 ، 13:38
عون نقوی

جب طلحہ و زبیر کے تعاقب سے آپؑ کو روکا گیا اس موقع پر فرمایا

وَ اللَّهِ لاَ أَکُونُ کَالضَّبُعِ تَنَامُ عَلَی طُولِ اللَّدْمِ حَتَّی یَصِلَ إِلَیْهَا طَالِبُهَا وَ یَخْتِلَهَا رَاصِدُهَا وَ لَکِنِّی أَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ إِلَی الْحَقِّ الْمُدْبِرَ عَنْهُ وَ بِالسَّامِعِ الْمُطِیعِ الْعَاصِیَ الْمُرِیبَ أَبَداً حَتَّی یَأْتِیَ عَلَیَّ یَوْمِی فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ مَدْفُوعاً عَنْ حَقِّی مُسْتَأْثَراً عَلَیَّ مُنْذُ قَبَضَ اللَّهُ نَبِیَّهُ صلی الله علیه وسلم حَتَّی یَوْمِ النَّاسِ هَذَا.

خدا کی قسم! میں اس بجّو کی طرح ہوں گا جو لگاتار کھٹکھٹاۓ جانے سے سوتا ہوا بن جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کا طلبگار(شکاری) اس تک پہنچ جاتا ہے اور گھات لگا کر بیٹھنے والا اس پر اچانک قابو پا لیتا ہے۔ بلکہ میں تو حق کی طرف بڑھنے والوں اور گوش پر آواز اطاعت شعاروں کو لے کر ان خطاؤں شک میں پڑنے والوں پر اپنی تلوار چلاتا رہوں گا، یہاں تک کہ میری موت کا دن آجاۓ۔ خدا کی قسم! جب سے اللہ نے اپنے رسولﷺ کو دنیا سے اٹھایا۔ برابر دوسروں کو مجھ پر مقدم کیا گیا اور مجھے میرے حق سے محروم رکھا گیا۔

حوالہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، ص۳۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 August 21 ، 13:29
عون نقوی

حکمت ۳

الْبُخْلُ عَارٌ وَ الْجُبْنُ مَنْقَصَهٌ وَ الْفَقْرُ یُخْرِسُ الْفَطِنَ عَنْ حُجَّتِهِ وَ الْمُقِلُّ غَرِیبٌ فِی بَلْدَتِهِ الْعَجْزُ آفَهٌ وَ الصَّبْرُ شَجَاعَهٌ وَ الزُّهْدُ ثَرْوَهٌ وَ الْوَرَعُ جُنَّهٌ وَ نِعْمَ الْقَرِینُ الرِّضَی.

بخل ننگ و عار ہے، بزدلی نقص و عیب ہے، غربت مرد زیرک و دانا کی زبان کو دلائل کی قوت دکھانے سے عاجز بنا دیتی ہے، اور مفلس اپنے شہر میں رہ کر بھی غریب الوطن ہوتا ہے، اور عجز و درماندگی مصیبت ہے، اور صبر و شکیبائی شجاعت ہے، اور دنیا سے بے تعلقی بڑی دولت ہے، اور پرہیزگاری ایک بڑی سپر ہے۔

حکمت ۴

الْعِلْمُ وِرَاثَهٌ کَرِیمَهٌ، وَ الْآدَابُ حُلَلٌ مُجَدَّدَهٌ وَ الْفِکْرُ مِرْآهٌ صَافِیَهٌ.

علم شریف ترین میراث ہے، اور علمی و عملی اوصاف نو بنو خلعت ہیں، اور فکر صاف و شفاف آئینہ ہے۔

 


حوالہ:

مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہؒ، نہج البلاغہ، ص۳۵۸۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 August 21 ، 13:10
عون نقوی