بصیرت اخبار

۳۳۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ» ثبت شده است

یُوْمِئُ فِیْهَا اِلٰى ذِکْرِ الْمَلَاحِمِ

اس میں آنے والے فتنوں اور ہنگاموں کی طرف اشارہ کیا ہے

یَعْطِفُ الْهَوٰی عَلَی الْهُدٰی اِذَا عَطَفُوا الْهُدٰی عَلٰی الْهَوٰی، وَ یَعْطِفُ الرَّاْیَ عَلَی الْقُرْاٰنِ اِذَا عَطَفُوا الْقُرْاٰنَ عَلَی الرَّاْیِ.

وہ خواہشوں کو ہدایت کی طرف موڑے گا جبکہ لوگوں نے ہدایت کو خواہشوں کی طرف موڑ دیا ہو گا اور ان کی رایوں کو قرآن کی طرف پھیرے گا جب کہ انہوں نے قرآن کو (توڑ مروڑ کر) قیاس و رائے کے دھڑے پر لگا لیا ہو گا۔

[مِنْهَا]

[اس خطبہ کا ایک جز یہ ہے

حَتّٰی تَقُوْمَ الْحَرْبُ بِکُمْ عَلٰی سَاقٍ، بَادِیًا نَّوَاجِذُهَا، مَمْلُوْٓءَةً اَخْلَافُهَا، حُلْوًا رَضَاعُهَا، عَلْقَمًا عَاقِبَتُهَا.اَلَا وَ فِیْ غَدٍ ـ وَ سَیَاْتِیْ غَدٌۢ بِمَا لَا تَعْرِفُوْنَ ـ یَاْخُذُ الْوَالِیْ مِنْ غَیْرِهَا عُمَّالَهَا عَلٰی مَسَاوِیْۤ اَعْمَالِهَا، وَتُخْرِجُ لَهُ الْاَرْضُ اَفَالِیْذَ کَبِدِهَا، وَ تُلْقِیْ اِلَیْهِ سِلْمًا مَّقَالِیْدَهَا، فَیُرِیْکُمْ کَیْفَ عَدْلُ السِّیْرَةِ وَ یُحْیِیْ مَیِّتَ الْکِتَابِ وَ السُّنَّةِ.

(اس داعی حق سے پہلے) یہاں تک نوبت پہنچے گی کہ جنگ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے گی، دانت نکالے ہوئے اور تھن بھرے ہوئے، جن کا دودھ شیریں و خوش گوار معلوم ہو گا، لیکن اس کا انجام تلخ و ناگوار ہو گا۔ ہاں! کل اور یہ کل بہت نزدیک ہے کہ ایسی چیزوں کو لے کر آ جائے جنہیں ابھی تم نہیں پہچانتے۔ حاکم و والی جو اس جماعت میں سے نہیں ہو گا تمام حکمرانوں سے ان کی بدکرداریوں کی وجہ سے مواخذہ کرے گا اور زمین اس کے سامنے اپنے خزانے انڈیل دے گی اور اپنی کنجیاں بسہولت اس کے آگے ڈال دے گی، چنانچہ وہ تمہیں دکھائے گا کہ حق و عدالت کی روش کیا ہوتی ہے اور وہ دم توڑ چکنے والی کتاب و سنت کو پھر سے زندہ کر دے گا۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

کَاَنِّیْ بِهٖ قَدْ نَعَقَ بِالشَّامِ، وَ فَحَصَ بِرَایَاتِهٖ فِیْ ضَوَاحِیْ کُوْفَانَ، فَعَطَفَ عَلَیْهَا عَطْفَ الضَّرُوْسِ، وَ فَرَشَ الْاَرْضَ بِالرُّؤُوْسِ. قَدْ فَغَرَتْ فَاغِرَتُهٗ، وَ ثَقُلَتْ فِی الْاَرْضِ وَطْاَتُهٗ، بَعِیْدَ الْجَوْلَةِ، عَظِیْمَ الصَّوْلَةِ.

گویا یہ منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ(داعی باطل) شام میں کھڑا ہوا للکار رہا ہے اور کوفہ کے اطراف میں اپنے جھنڈے لہرا رہا ہے اور کاٹ کھانے والی اونٹنی کی طرح اس پر ( حملہ کرنے کیلئے) جھکا ہوا ہے اور اس نے زمین پر سروں کا فرش بچھا دیا ہے۔ اس کا منہ (پھاڑ کھانے کیلئے) کھل چکا ہے اور زمین میں اس کی پامالیاں بہت سخت ہو چکی ہیں وہ دور دور تک بڑھ جانے والا اور بڑے شد و مد سے حملہ کرنے والا ہے۔

وَاللهِ! لَیُشَرِّدَنَّکُمْ فِیْۤ اَطْرَافِ الْاَرْضِ حَتّٰی لَا یَبْقٰی مِنْکُمْ اِلَّا قَلِیْلٌ، کَالْکُحْلِ فِی الْعَیْنِ، فَلَا تَزَالُوْنَ کَذٰلِکَ، حَتّٰی تَؤُوْبَ اِلَی الْعَرَبِ عَوَازِبُ اَحْلَامِهَا! فَالْزَمُوا السُّنَنَ الْقَآئِمَةَ، وَالْاٰثَارَ الْبَیِّنَةَ، وَ الْعَهْدَ الْقَرِیْبَ الَّذِیْ عَلَیْهِ بَاقِی النُّبُوَّةِ. وَاعْلَمُوْا اَنَّ الشَّیْطٰنَ اِنَّمَا یُسَنِّیْ لَکُمْ طُرُقَهٗ لِتَتَّبِعُوْا عَقِبَهٗ.

بخدا! وہ تمہیں اطراف زمین میں بکھیر دے گا، یہاں تک کہ تم میں سے کچھ تھوڑے ہی بچیں گے جیسے آنکھ میں سرمہ۔ تم اسی سراسیمگی کے عالم میں رہو گے، یہاں تک کہ عربوں کی عقلیں پھر اپنے ٹھکانے پر آ جائیں۔ تم مضبوط طریقوں، روشن نشانیوں اور اسی قریب کے عہد پر جمے رہو کہ جس میں نبوت کے پائیدار آثار ہیں اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شیطان اپنے قدم بقدم چلانے کیلئے راہیں آسان کرتا رہتا ہے۔


امیر المومنین علیہ السلام کی یہ پیشین گوئی حضرت حجت علیہ السلام کے ظہور کے سلسلہ میں ہے۔

یہ عبد الملک ابن مروان کی طرف اشارہ ہے کہ جو مروان کے بعد شام میں بر سر اقتدار آیا اور پھر مصعب کے مقابلہ میں مختار ابن ابی عبید کے مارے جانے پر یہ اپنے پرچم لہراتا ہوا عراق کی طرف بڑھا اور اطراف کوفہ میں دیر جاثلیق کے نزدیک مقام مسکن پر مصعب کی فوجوں سے نبرد آزما ہوا اور اسے شکست دینے کے بعد فتح مندانہ کوفہ میں داخل ہوا اور وہاں کے باشندوں سے بیعت لی اور پھر حجاج ابن یوسف ثقفی کو عبد اللہ ابن زبیر سے لڑنے کیلئے مکہ روانہ کیا، چنانچہ اس نے مکہ کا محاصرہ کر کے خانہ کعبہ پر سنگ باری کی اور ہزاروں بے گناہوں کا خون پانی کی طرح بہایا، ابن زبیر کو قتل کر کے اس کی لاش کو سولی پر لٹکا دیا اور خلق خدا پر ایسے ایسے ظلم ڈھائے کہ جن سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:11
عون نقوی

فِىْ مَعْنٰى طَلْحَةَ وَ الزُبَیْرِ

طلحہ و زبیر کے متعلق ارشاد فرمایا

وَ اللهِ! ماۤ اَنْکَرُوْا عَلَیَّ مُنْکَرًا، وَ لَا جَعَلُوْا بَیْنِیْ وَ بَیْنَهُمْ نِصْفًا، وَ اِنَّهُمْ لَیَطْلُبُوْنَ حَقًّا هُمْ تَرَکُوْهُ، وَ دَمًا هُمْ سَفَکُوْهُ، فَاِنْ کُنْتُ شَرِیْکَهُمْ فِیْهِ فَاِنَّ لَهُمْ نَصِیْبَهُمْ مِنْهُ، وَ اِنْ کَانُوْا وَلُوْهُ دُوْنِیْ فَمَا الطَّلِبَةُ اِلَّا قِبَلَهُمْ، وَ اِنَّ اَوَّلَ عَدْلِهِمْ لَلْحُکْمُ عَلٰۤی اَنْفُسِهِمْ، وَ اِنَّ مَعِیْ لَبَصِیْرَتِیْ، مَا لَبَّسْتُ وَ لَا لُبِّسَ عَلَیَّ، وَ اِنَّهَا لَلْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ، فِیْهَا الْحَمَاُ وَ الْحُمَةُ وَ الشُّبْهَةُ الْمُغْدِفَةُ،وَ اِنَّ الْاَمْرَ لَوَاضِحٌ، وَ قَدْ زَاحَ الْبَاطِلُ عَنْ نِّصَابِهٖ، وَ انْقَطَعَ لِسَانُهٗ عَنْ شَغَبِهٖ.

خدا کی قسم! انہوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایا اور نہ انہوں نے میرے اور اپنے درمیان انصاف برتا۔ وہ مجھ سے اس حق کا مطالبہ کرتے ہیں جسے خود ہی انہوں نے چھوڑ دیا اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں جسے انہوں نے خود بہایا ہے۔ اب اگر اس میں مَیں ان کا شریک تھا تو پھر اس میں ان کا بھی تو حصہ نکلتا ہے اور اگر وہی اس کے مرتکب ہوئے ہیں، میں نہیں تو پھر اس کا مطالبہ صرف انہی سے ہونا چاہیے اور ان کے عدل و انصاف کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے خلاف حکم لگائیں اور میرے ساتھ میری بصیرت کی جلوہ گری ہے، نہ میں نے خود (جان بوجھ کر) کبھی اپنے کو دھوکا دیا اور نہ مجھے واقعی کبھی دھوکا ہوا اور بلا شبہ یہی وہ باغی گروہ ہے جس میں ایک ہمارا سگا (زبیر) اور ایک بچھو کا ڈنک (حمیرا) ہے اور حق پر سیاہ پردے ڈالنے والے شبہے ہیں۔ (اب تو) حقیقت حال کھل کر سامنے آ چکی ہے اور باطل اپنی بنیادوں سے ہل چکا ہے اور شررانگیزی سے اس کی زبان بندی ہو چکی ہے۔

وَایْمُ اللهِ! لَاُفْرِطَنَّ لَهُمْ حَوْضًا اَنَا مَاتِحُهٗ، لَا یَصْدُرُوْنَ عَنْهُ بِرِیٍّ، وَ لَا یَعُبُّوْنَ بَعْدَهٗ فِیْ حَسْیٍ.

خدا کی قسم! میں ان کیلئے ایک ایسا حوض چھلکاؤں گا جس کا پانی نکالنے والا میں ہوں کہ جس سے سیراب ہو کر پلٹنا ان کے امکان میں نہ ہو گا اور نہ اس کے بعد کوئی گڑھا کھود کر پانی پی سکیں گے۔

[مِنْهُ]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فَاَقْبَلْتُمْ اِلَیَّ اِقْبَالَ الْعُوْذِ الْمَطَافِیْلِ عَلٰۤی اَوْلَادِهَا، تَقُوْلُوْنَ: الْبَیْعَةَ الْبَیْعَةَ! قَبَضْتُ کَفِّیْ فَبَسَطْتُّمُوْهَا، وَ نَازَعْتُکُمْ یَدِیْ فَجَاذَبْتُمُوْهَا.

تم اس طرح (شوق و رغبت سے) بیعت بیعت پکارتے ہوئے میری طرف بڑھے جس طرح نئی بیاہی ہوئی بچوں والی اونٹنیاں اپنے بچوں کی طرف۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو اپنی طرف سمیٹا تو تم نے انہیں اپنی جانب پھیلایا۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو تم سے چھیننا چاہا مگر تم نے انہیں کھینچا۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّهُمَا قَطَعَانِیْ وَ ظَلَمَانِیْ، وَ نَکَثَا بَیْعَتِیْ، وَ اَلَّبَا النَّاسَ عَلَیَّ، فَاحْلُلْ مَا عَقَدَا، وَ لَا تُحْکِمْ لَهُمَا مَاۤ اَبْرَمَا، وَ اَرِهِمَا الْمَسَآءَةَ فِیْمَاۤ اَمَّلَا وَ عَمِلَا، وَ لَقَدِ اسْتَثَبْتُهُمَا قَبْلَ الْقِتَالِ، وَ اسْتَاْنَیْتُ بِهِمَاۤ اَمَامَ الْوِقَاعِ، فَغَمَطَا النِّعْمَةَ، وَ رَدَّا الْعَافِیَةَ.

خدایا! ان دونوں نے میرے حقوق کو نظر انداز کیا ہے اور مجھ پر ظلم ڈھایا ہے اور میری بیعت کو توڑ دیا ہے اور میرے خلاف لوگوں کو اکسایا ہے، لہٰذا تو جو انہوں نے گرہیں لگائی ہیں انہیں کھول دے اور جو انہوں نے بٹا ہے اسے مضبوط نہ ہونے دے اور انہیں ان کی امیدوں اور کرتوتوں کا بُرا نتیجہ دکھا۔ میں نے جنگ کے چھڑنے سے پہلے انہیں باز رکھنا چاہا اور لڑائی سے قبل انہیں ڈھیل دیتا رہا، لیکن انہوں نے اس نعمت کی قدر نہ کی اور عافیت کو ٹھکرا دیا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:08
عون نقوی

لَمْ تَکُنْۢ بَیْعَتُکُمْ اِیَّایَ فَلْتَةً، وَ لَیْسَ اَمْرِیْ وَ اَمْرُکُمْ وَاحِدًا. اِنِّیْۤ اُرِیْدُکُمْ لِلّٰهِ وَ اَنْتُمْ تُرِیْدُوْنَنِیْ لِاَنْفُسِکُمْ.

تم نے میری بیعت اچانک اور بے سوچے سمجھے نہیں کی تھی اور نہ میرا اور تمہارا معاملہ یکساں ہے۔ میں تمہیں اللہ کیلئے چاہتا ہوں اور تم مجھے اپنے شخصی فوائد کیلئے چاہتے ہو۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اَعِیْنُوْنِیْ عَلٰۤی اَنْفُسِکُمْ، وَایْمُ اللهِ! لَاُنْصِفَنَّ الْمَظْلُوْمَ مِنْ ظَالِمِهٖ، وَ لَاَقُوْدَنَّ الظَّالِمَ بِخِزَامَتِهٖ حَتّٰۤی اُوْرِدَهٗ مَنْهَلَ الْحَقِّ وَ اِنْ کَانَ کَارِهًا.

اے لوگو! اپنی نفسانی خواہشوں کے مقابلہ میں میری اعانت کرو۔ خدا کی قسم! میں مظلوم کا اس کے ظالم سے بدلہ لوں گا اور ظالم کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے سر چشمہ حق تک کھینچ کر لے جاؤں گا۔ اگرچہ اسے یہ ناگوار کیوں نہ گزرے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:05
عون نقوی

وَقَدْ وَقَعتْ مُشَاجَرَةُ بَیْنَهٗ وَ بَیْنَ عُثْمَانَ، فَقَالَ الْمُغِیْرَةُ بْنُ الْاَخْنَسِ لِعُثْمَانَ: اَنَا اَکْفِیْکَهٗ، فَقَالَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ لِلْمُغِیْرَةِ:

آپؑ میں اور عثمان ابن عفان میں کچھ بحث ہوئی تو مغیرہ ابن اخنس نے عثمان سے کہا: میں تمہاری طرف سے نپٹے لیتا ہوں، جس پر آپؑ نے مغیرہ سے کہا:

یَابْنَ اللَّعِیْنِ الْاَبْتَرِ، وَ الشَّجَرَةِ الَّتِیْ لَاۤ اَصْلَ لَهَا وَ لَا فَرْعَ، اَنْتَ تَکْفِیْنِیْ؟ فَوَاللهِ مَاۤ اَعَزَّ اللهُ مَنْ اَنْتَ نَاصِرُهٗ، وَ لَا قَامَ مَنْ اَنْتَ مُنْهِضُهٗ، اخْرُجْ عَنَّاۤ اَبْعَدَ اللهُ نَوَاکَ، ثُمَّ ابْلُغْ جَهْدَکَ، فَلَاۤ اَبْقَی اللهُ عَلَیْکَ اِنْ اَبْقَیْتَ!.

اے بے اولاد لعین کے بیٹے اور ایسے درخت کے پھل جس کی نہ کوئی جڑ ہے نہ شاخ، تو بھلا مجھ سے کیا نپٹے گا۔ خدا کی قسم! جس کا تجھ ایسا مدد گار ہو، اللہ اسے غلبہ و سرفرازی نہیں دیتا اور جس کا تجھ ایسا ابھارنے والا ہو وہ (اپنے پیروں پر) کھڑا نہیں ہو سکتا۔ ہم سے دور ہو! خدا تیری منزل کو دور ہی رکھے اور اس کے بعد جو بن پڑے کرنا اور اگر کچھ بھی مجھ پر ترس کھائے تو خدا تجھ پر رحم نہ کرے۔


’’مغیرہ ابن اخنس‘‘ حضرت عثمان کے ہوا خواہوں میں سے تھا۔ اس کا بھائی ابو الحکم ابن اخنس اُحد میں امیر المومنین علیہ السلام کے ہاتھ سے مارا گیا تھا جس کی وجہ سے یہ حضرتؑ کی طرف سے دل میں کینہ و عناد رکھتا تھا۔ اس کا باپ ان لوگوں میں سے تھا جو فتح مکہ کے موقع پر بظاہر ایمان لے آئے، مگر دلوں میں کفر و نفاق لئے ہوئے تھے، اس لئے اسے ’’لعین‘‘ فرمایا ہے۔ اور ’’ابتر‘‘ اس لئے کہا ہے کہ جس کی مغیرہ ایسی اولاد ہو وہ بے اولاد ہی سمجھے جانے کے لائق ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:34
عون نقوی

وَ قَدْ شَاوَرَهٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی الْخُرُوْجِ اِلٰى غَزْوِ الرُّوْمِ بِنَفْسِهٖ:

جب حضرت عمر ابن خطاب نے غزوہ روم میں شرکت کیلئے حضرتؑ سے مشورہ لیا تو آپؑ نے فرمایا:

وَ قَدْ تَوَکَّلَ اللهُ لِاَهْلِ هٰذَا الدِّیْنِ بِاِعْزَازِ الْحَوْزَةِ، وَ سَتْرِ الْعَوْرَةِ، وَ الَّذِیْ نَصَرَهُمْ وَ هُمْ قَلِیْلٌ لَّا یَنْتَصِرُوْنَ، وَ مَنَعَهُمْ وَ هُمْ قَلِیْلٌ لَّا یَمْتَنِعُوْنَ، حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ.

اللہ نے دین والوں کی حدوں کو تقویت پہنچانے اور ان کی غیر محفوظ جگہوں کو (دشمن کی) نظر سے بچائے رکھنے کا ذمہ لے لیا ہے۔ وہی خدا (اب بھی) زندہ و غیر فانی ہے کہ جس نے اس وقت ان کی تائید و نصرت کی تھی جبکہ وہ اتنے تھوڑے تھے کہ دشمن سے انتقام نہیں لے سکتے تھے اور ان کی حفاظت کی جب وہ اتنے کم تھے کہ اپنے کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔

اِنَّکَ مَتٰی تَسِرْ اِلٰی هٰذَا الْعَدُوِّ بِنَفْسِکَ، فَتَلْقَهُمْ بِشَخْصِکَ فَتُنْکَبْ، لَا تَکُنْ لِّلْمُسْلِمِیْنَ کَانِفَةٌ دُوْنَ اَقْصٰی بِلَادِهِمْ، وَ لَیْسَ بَعْدَکَ مَرْجِـعٌ یَّرْجِعُوْنَ اِلَیْهِ، فَابْعَثْ اِلَیْهِمْ رَجُلًا مِّحْرَبًا، وَ احْفِزْ مَعَهٗ اَهْلَ الْبَلَآءِ وَ النَّصِیْحَةِ، فَاِنْ اَظْهَرَ اللهُ فَذَاکَ مَا تُحِبُّ، وَ اِنْ تَکُنِ الْاُخْرٰی، کُنْتَ رِدْاً لِّلنَّاسِ وَ مَثَابَةً لِّلْمُسْلِمِیْنَ.

تم اگر خود ان دشمنوں کی طرف بڑھے اور ان سے ٹکرائے اور کسی افتاد میں پڑ گئے تو اس صورت میں مسلمانوں کیلئے دور کے شہروں کے پہلے کوئی ٹھکانا نہ رہے گا اور نہ تمہارے بعد کوئی ایسی پلٹنے کی جگہ ہو گی کہ اس کی طرف پلٹ کر آ سکیں۔ تم ان کی طرف (اپنے بجائے) کوئی تجربہ کار آدمی بھیجو اور اس کے ساتھ اچھی کارکردگی والے اور خیر خواہی کرنے والے لوگوں کو بھیج دو۔ اگر اللہ نے غلبہ دے دیا تو تم یہی چاہتے ہو اور اگر دوسری صورت (شکست) ہو گئی تو تم لوگوں کیلئے ایک مددگار اور مسلمانوں کیلئے پلٹنے کا مقام ہو گے۔


امیر المومنین علیہ السلام کے متعلق یہ عجیب روش اختیار کی جاتی ہے کہ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ آپؑ امورِ سیاست سے بے خبر اور طریق جہانبانی سے نا آشنا تھے کہ جس سے یہ غرض ہوتی ہے کہ بنی امیہ کے ہوس اقتدار سے پیدا کی ہوئی شورشوں کو آپ کی کمزوریٔ سیاست کا نتیجہ قرار دیا جائے اور دوسری طرف خلفائے وقت نے مملکت کے اہم معاملات اور کفار سے محاربات کے سلسلہ میں جو مختلف مواقع پر آپؑ سے مشورے لئے انہیں بڑی اہمیت دے کر اچھالا جاتا ہے۔ جس سے یہ مقصد نہیں ہوتا کہ آپؑ کی صحتِ فکر و نظر، اصابتِ رائے اور تہ رس بصیرت کو پیش کیا جائے، بلکہ صرف یہ غرض ہوتی ہے کہ آپؑ اور خلفاء میں اتحاد، یگانگت اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے، تا کہ ادھر توجہ ہی مبذول نہ ہونے پائے کہ آپؑ کسی مرحلہ پر ان سے متصادم بھی رہے ہیں اور باہم اختلاف و مناقشات بھی رونما ہوتے رہے ہیں۔چنانچہ تاریخی حقائق اس کے شاہد ہیں کہ آپؑ ان کے نظریات سے اختلاف کرتے تھے اور ان کے ہر اقدام کو درست و صحیح نہ سمجھتے تھے۔ جیسا کہ خطبہ شقشقیہ میں ہر دور کے متعلق واشگاف لفظوں میں تبصرہ کرتے ہوئے اپنے اختلافِ رائے اور غم و غصہ کا اظہار فرمایا ہے۔ لیکن اس اختلاف کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اسلامی و اجتماعی مفاد کے سلسلہ میں صحیح رہنمائی نہ کی جائے۔ پھر امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت تو اتنی بلند تھی کہ کسی کو یہ خیال بھی نہیں ہو سکتا کہ آپؑ کسی ایسے مشورے سے پہلو تہی کریں گے کہ جس سے مفادِ عامہ وابستہ ہو یا کوئی ایسا مشورہ دیں گے جس سے مصالح عامہ کو نقصان پہنچے۔ اسی لئے نظریات کے اختلاف کے باوجود آپؑ سے مشورے لئے جاتے تھے جس سے آپؑ کے کردار کی عظمت اور صحتِ فکر و نظر پر روشنی پڑتی ہے۔اور جس طرح پیغمبر اکرم ﷺ کی سیرت کا یہ نمایاں جوہر ہے کہ کفار قریش آپؐ کو دعوتِ نبوت میں جھٹلانے کے باوجود بہترین امانتدار سمجھتے تھے اور کبھی آپؐ کی امانت پر شبہہ نہ کر سکے، بلکہ مخالفت کے ہنگاموں میں بھی اپنی امانتیں بے کھٹکے آپؐ کے سپرد کر دیتے تھے اور کبھی یہ وہم بھی نہ کرتے تھے کہ اُن کی امانتیں خُرد بُرد ہو جائیں گی۔ یوں ہی امیر المومنین علیہ السلام بھی وثوق و اعتماد کی اس سطح بلند پر سمجھے جاتے تھے کہ دوست و دشمن ان کی اصابتِ رائے پر اعتماد کرتے تھے تو جس طرح پیغمبر ﷺ کے طرزِ عمل سے ان کے کمال امانتداری کا پتہ چلتا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاتا کہ ان میں اور کفار میں یگانگت تھی، کیونکہ امانت اپنے مقام پر ہے اور کفر و اسلام کا ٹکراؤ اپنے مقام پر، اسی طرح امیر المومنین علیہ السلام خلفاء سے اختلاف رکھنے کے باوجود ان کی نظروں میں ملکی و قومی مفاد کے محافظ اور اسلام کی فلاح و بہبود کے نگران سمجھے جاتے تھے۔ چنانچہ جہاں نوعی مفاد کا سوال پیدا ہوتا تھا آپؑ سے مشورہ لیا جاتا تھا اور آپؑ شخصی اغراض کی سطح سے بلند ہو کر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار فرما دیتے تھے اور حدیث نبوی ﷺ «اَلْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ» (۱): ’’مشیر امین ہوتا ہے‘‘ کے پیش نظر کبھی غل و غش گوارا نہ کرتے تھے۔چنانچہ جنگ فلسطین کے موقعہ پر جب حضرت عمر نے اپنی شرکت کے بارے میں ان سے مشورہ لیا تو قطع نظر اس سے کہ آپؑ کی رائے ان کے جذبات کے موافق ہو یا مخالف، آپؑ اسلام کی عزت و بقا کا لحاظ کرتے ہوئے انہیں اپنی جگہ پر ٹھہرے رہنے کا مشورہ دیتے ہیں اور محاذِ جنگ میں ایسے شخص کو بھیجنے کی رائے دیتے ہیں کہ جو آزمودہ کار اور فنون حرب و ضرب میں ماہر ہو، کیونکہ ناتجربہ کار آدمی کے چلے جانے سے اسلام کی بندھی ہوئی ہوا اُکھڑ جاتی اور پیغمبر ﷺ کے زمانہ سے جو مسلمانوں کی دھاک بیٹھ چکی تھی ختم ہو جاتی اور ان کے چلے جانے سے فتح و کامرانی کے بجائے شکست و ہزیمت کے آثار آپؑ کو نظر آ رہے تھے۔ اس لئے انہیں روک دینے ہی میں اسلامی مفاد نظر آیا۔ چنانچہ اس کا اظہار ان لفظوں میں فرمایا ہے کہ: اگر تمہیں میدان چھوڑ کر پلٹنا پڑے تو یہ صرف تمہاری شکست نہ ہو گی بلکہ اس سے مسلمان بد دل ہو کر حوصلہ چھوڑ بیٹھیں گے اور میدان جنگ سے روگردان ہو کر تتر بتر ہو جائیں گے، کیونکہ رئیس لشکر کے میدان چھوڑ دینے سے لشکر کے قدم جم نہ سکیں گے اور ادھر مرکز کے خالی ہو جانے کی وجہ سے یہ توقع بھی نہ کی جا سکے گی کہ عقب سے مزید فوجی کمک آ جائے گی کہ جس سے لڑنے بھڑنے والوں کی ڈھارس بندھی رہے۔یہ ہے وہ مشورہ جسے باہمی روابط پر دلیل بنا کر پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ مشورہ صرف اسلام کی سربلندی اور اس کی عزت و بقا کے پیشِ نظر تھا جو آپؑ کو ہر مفاد سے زیادہ عزیز تھی اور کسی خاص شخص کی جان عزیز نہ تھی کہ جس کی بنا پر اسے جنگ میں شرکت سے روکا ہو۔

[۱]۔ تفسیر ابن کثیر، ج ۲، ص ۱۵۰۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 January 23 ، 19:32
عون نقوی