بصیرت اخبار

۳۲۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ کلمات قصار» ثبت شده است

قَالَهٗ قُبَیْلَ مَوْتِهٖ عَلٰى سَبِیْلِ الْوَصِیَّةِ لَمَّا ضَرَبَهُ ابْنُ مُلْجَمٍ لَعَنَهُ اللّٰهُ:

جب ابن ملجم نے آپؑ کے سر اقدس پر ضربت لگائی تو انتقال سے کچھ پہلے آپؑ نے بطور وصیت ارشاد فرمایا:

وَصِیَّتِیْ لَکُمْ: اَنْ لَّا تُشْرِکُوْا بِاللهِ شَیْئًا، وَ مُحَمَّدٌ -صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِهٖ- فَلَا تُضَیِّعُوْا سُنَّتَهٗ، اَقِیْمُوْا هٰذَیْنِ الْعَمُوْدَیْنِ، وَ اَوْقِدُوْا هٰذَیْنِ الْمِصْبَاحَیْنِ وَ خَلَاکُمْ ذَمٌّ.

تم لوگوں سے میری وصیت ہے کہ کسی کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور محمد ﷺ کی سنت کو ضائع و برباد نہ کرنا۔ ان دونوں ستونوں کو قائم کئے رہنا اور ان دونوں چراغوں کو روشن رکھنا۔ بس پھر برائیوں نے تمہارا پیچھا چھوڑ دیا۔

اَنَا بِالْاَمْسِ صَاحِبُکُمْ، وَ الْیَوْمَ عِبْرَةٌ لَّکُمْ، وَ غَدًا مُّفَارِقُکُمْ، اِنْ اَبْقَ فَاَنَا وَلِیُّ دَمِیْ، وَ اِنْ اَفْنَ فَالْفَنَآءُ مِیْعَادِیْ، وَاِنْ اَعْفُ فَالْعَفْوُ لِیْ قُرْبَةٌ، وَ هُوَ لَکُمْ حَسَنَةٌ، فَاعْفُوْا، ﴿اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَکُمْ ؕ ﴾ .

میں کل تمہارا ساتھی تھا اور آج تمہارے لئے (سراپا) عبرت ہوں اور کل کو تمہارا ساتھ چھوڑ دوں گا۔ اگر میں زندہ رہا تو مجھے اپنے خون کا اختیار ہو گا اور اگر مر جاؤں تو موت میری وعدہ گاہ ہے۔ اگر معاف کر دوں تو یہ میرے لئے رضائے الٰہی کا باعث ہے اور وہ تمہارے لئے بھی نیکی ہو گی۔’’کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں بخش دے‘‘۔

وَ اللهِ مَا فَجَئَنِیْ مِنَ الْمَوْتِ وَارِدٌ کَرِهْتُهٗ، وَ لَا طَالِعٌ اَنْکَرْتُهٗ، وَ مَا کُنْتُ اِلَّا کَقَارِبٍ وَّرَدَ، وَ طَالِبٍ وَّجَدَ، ﴿وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّلْاَبْرَارِ۝﴾.

خدا کی قسم! یہ موت کا ناگہانی حادثہ ایسا نہیں ہے کہ میں اسے نا پسند جانتا ہوں اور نہ یہ ایسا سانحہ ہے کہ میں اسے برا جانتا ہوں۔ میری مثال بس اس شخص کی سی ہے جو رات بھر پانی کی تلاش میں چلے اور صبح ہوتے ہی چشمہ پر پہنچ جائے اور اس ڈھونڈنے والے کی مانند ہوں جو مقصد کو پالے، ’’اور جو اللہ کے یہاں ہے وہی نیکو کاروں کیلئے بہتر ہے‘‘۔

اَقُوْلُ: وَ قَدْ مَضٰی بَعْضُ هٰذَا الْکَلَامِ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنَ الْخُطَبِ، اِلَّاۤ اَنَّ فِیْهِ هٰهُنَا زِیَادَةً اَوْجَبَتْ تَکْرِیْرَهٗ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ اس کلام کا کچھ حصہ خطبات میں گزر چکا ہے، مگر یہاں کچھ اضافہ تھا جس کی وجہ سے دوبارہ درج کرنا ضروری ہوا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 January 23 ، 15:19
عون نقوی

اِلٰى عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ

عبداللہ ابن عباس کے نام

وَ کَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَّقُوْلُ: مَا انْتَفَعْتُ بِکَلَامٍۭ بَعْدَ کَلَامِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ کَانْتِفَاعِیْ بِهٰذَا الْکَلَامِ:

عبد اللہ ابن عباس کہا کرتے تھے کہ جتنا فائدہ میں نے اس کلام سے حاصل کیا ہے، اتنا پیغمبر ﷺ کے کلام کے بعد کسی کلام سے حاصل نہیں کیا:

اَمَّا بَعْدُ، فَاِنَّ الْمَرْءَ قَدْ یَسُرُّهٗ دَرَکُ مَا لَمْ یَکُنْ لِّیَفُوْتَهٗ، وَ یَسُوْٓؤُهٗ فَوْتُ مَا لَمْ یَکُنْ لِّیُدْرِکَهُ، فَلْیَکُنْ سُرُوْرُکَ بِمَا نِلْتَ مِنْ اٰخِرَتِکَ، وَ لْیَکُنْ اَسَفُکَ عَلٰی مَا فَاتَکَ مِنْهَا، وَ مَا نِلْتَ مِنْ دُنْیَاکَ فَلَا تُکْثِرْ بِهٖ فَرَحًا، وَ مَا فَاتَکَ مِنْهَا فَلَا تَاْسَ عَلَیْهِ جَزَعًا، وَ لْیَکُنْ هَمُّکَ فِیْمَا بَعْدَ الْمَوْتِ.

انسان کو کبھی ایسی چیز کا پا لینا خوش کرتا ہے جو اس کے ہاتھوں سے جانے والی ہوتی ہی نہیں اور کبھی ایسی چیز کا ہاتھ سے نکل جانا اسے غمگین کر دیتا ہے جو اسے حاصل ہونے والی ہوتی ہی نہیں۔ یہ خوشی اور غم بیکار ہے۔ تمہاری خوشی صرف آخرت کی حاصل کی ہوئی چیزوں پر ہونی چاہیے اور اس میں سے کوئی چیز جاتی رہے اس پر رنج ہونا چاہیے اور جو چیز دنیا سے پالو، اس پر زیادہ خوش نہ ہو اور جو چیز اس سے جاتی رہے اس پر بیقرار ہو کر افسوس کرنے نہ لگو، بلکہ تمہیں موت کے بعد پیش آنے والے حالات کی طرف اپنی توجہ موڑنا چاہیے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 January 23 ، 15:17
عون نقوی

اِلَیْهِ اَیْضًا

زیاد ابن ابیہ کے نام

فَدَعِ الْاِسْرَافَ مُقْتَصِدًا، وَ اذْکُرْ فِی الْیَوْمِ غَدًا، وَ اَمْسِکْ مِنَ الْمَالِ بِقَدْرِ ضَرُوْرَتِکَ، وَ قَدِّمِ الْفَضْلَ لِیَوْمِ حَاجَتِکَ.

میانہ روی اختیار کرتے ہوئے فضول خرچی سے باز آؤ۔ آج کے دن کل کو بھول نہ جاؤ۔ صرف ضرورت بھر کیلئے مال روک کر باقی محتاجی کے دن کیلئے آگے بڑھاؤ۔

اَ تَرْجُوْۤا اَنْ یُّعْطِیَکَ اللهُ اَجْرَ الْمُتَوَاضِعِیْنَ وَ اَنْتَ عِنْدَهٗ مِنَ الْمُتَکَبِّرِیْنَ؟ وَ تَطْمَعُ ـ وَ اَنْتَ مُتَمَرِّغٌ فِی النَّعِیْمِ تَمْنَعُهُ الضَّعِیْفَ وَ الْاَرْمَلَةَ ـ اَنْ یُّوْجِبَ لَکَ ثَوَابَ الْمتَصَدِّقِیْنَ؟ وَ اِنَّمَا الْمَرْءُ مَجْزِیٌّۢ بِمَاۤ اَسْلَفَ، وَ قَادِمٌ عَلٰی مَا قَدَّمَ، وَ السَّلَامُ.

کیا تم یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ اللہ تمہیں عجز و انکساری کرنے والوں کا اجر دے گا، ?حالانکہ تم اس کے نزدیک متکبروں میں سے ہو؟ اور یہ طمع رکھتے ہو کہ وہ خیرات کرنے والوں کا ثواب تمہارے لئے قرار دے گا، حالانکہ تم عشرت سامانیوں میں لوٹ رہے ہو اور بیکسوں اور بیواؤں کو محروم کر رکھا ہے؟ انسان اپنے ہی کئے کی جزا پاتا ہے اور جو آگے بھیج چکا ہے وہی آگے بڑھ کر پائے گا۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 January 23 ، 15:14
عون نقوی

اِلٰى زِیَادِ بْنِ اَبِیْهِ

زیاد ابن ابیہ کے نام

وَ هُوَ خَلِیْفَةُ عَامِلِهٖ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَبَّاسٍ عَلَى الْبَصْرَةِ، وَ عَبْدُ اللّٰهِ عَامِلُ اَمیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ یَوْمَئِذٍ عَلَیْهَا وَ عَلٰى کُوَرِ الْاَهْوَازِ وَ فَارِسَ وَ کِرْمَانَ:

جبکہ عبد اللہ ابن عباس بصرہ، نواحی اہواز اور فارس و کرمان پر حکمران تھے اور یہ بصرہ میں ان کا قائم مقام تھا:

وَاِنِّیْۤ اُقْسِمُ بِاللهِ قَسَمًا صَادِقًا، لَئِنْۢ بَلَغَنیْۤ اَنَّکَ خُنْتَ مِنْ فَیْءِ الْمُسْلِمِیْنَ شَیْئًا صَغِیْرًا اَوْ کَبِیْرًا، لَاَشُدَّنَّ عَلَیْکَ شَدَّةً تَدَعُکَ قَلِیْلَ الْوَفْرِ، ثَقِیْلَ الظَّهْرِ، ضَئِیْلَ الْاَمْرِ، وَ السَّلَامُ.

میں اللہ کی سچی قسم کھاتا ہوں کہ اگر مجھے یہ پتہ چل گیا کہ تم نے مسلمانوں کے مال میں خیانت کرتے ہوئے کسی چھوٹی یا بڑی چیز میں ہیر پھیر کیا ہے تو یاد رکھو کہ میں ایسی مار ماروں گا کہ جو تمہیں تہی دست، بوجھل پیٹھ والا اور بے آبرو کر کے چھوڑے گی۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 January 23 ، 15:12
عون نقوی

اِلٰى بَعْضِ عُمَّالِهٖ

ایک عامل کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ دَهَاقِیْنَ اَهْلِ بَلَدِکَ شَکَوْا مِنْکَ غِلْظَةً وَّ قَسْوَةً، وَ احْتِقَارًا وَّ جَفْوَةً، وَ نَظَرْتُ فَلَمْ اَرَهُمْ اَهْلًا لِّاَنْ یُّدْنَوْا لِشِرْکِهِمْ، وَ لَاۤ اَنْ یُّقْصَوْا وَ یُجْفَوْا لِعَهْدِهِمْ، فَالْبَسْ لَهُمْ جِلْبَابًا مِّنَ اللِّیْنِ تَشُوْبُهٗ بِطَرَفٍ مِّنَ الشِّدَّةِ، وَ دَاوِلْ لَّهُمْ بَیْنَ الْقَسْوَةِ وَ الرَّاْفَةِ، وَ امْزُجْ لَهُمْ بَیْنَ التَّقْرِیْبِ وَ الْاِدْنَآءِ، وَ الْاِبْعَادِ وَ الْاِقْصَآءِ، اِنْ شَآءَ اللهُ.

تمہارے شہر کے زمینداروں نے تمہاری سختی، سنگدلی، تحقیر آمیز برتاؤ اور تشدد کے رویہ کی شکایت کی ہے ۔میں نے غور کیا تو وہ شرک کی وجہ سے اس قابل تو نظر نہیں آتے کہ انہیں نزدیک کر لیا جائے، اور معاہدہ کی بنا پر انہیں دور پھینکا اور دھتکارا بھی نہیں جاسکتا، لہٰذا ان کیلئے نرمی کا ایسا شعار اختیار کرو جس میں کہیں کہیں سختی کی بھی جھلک ہو اور کبھی سختی کر لو اور کبھی نرمی برتو، اور قرب و بعد اور نزدیکی و دوری کو سمو کر بین بین راستہ اختیار کرو۔ ان شاء اللہ۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 06 January 23 ، 15:10
عون نقوی