بصیرت اخبار

۳۲۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ مکتوبات» ثبت شده است

(۱۴۸)

اَلْمَرْءُ مَخْبُوْءٌ تَحْتَ لِسَانِهٖ.

انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوا ہے۔


مطلب یہ ہے کہ انسان کی قدر و قیمت کا اندازہ اس کی گفتگو سے ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ہر شخص کی گفتگو اس کی ذہنی و اخلاقی حالت کی آئینہ دار ہوتی ہے جس سے اس کے خیالات و جذبات کا بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا جب تک وہ خاموش ہے اس کا عیب و ہنر پوشیدہ ہے اور جب اس کی زبان کھلتی ہے تو اس کا جوہر نمایاں ہو جاتا ہے۔

مرد پنهان است در زیر زبان خویشتن

قیمت و قدرش ندانی تا نیاید در سخن

(۱۴۹)

هَلَکَ امْرُؤٌ لَّمْ یَعْرِفْ قَدْرَهٗ.

جو شخص اپنی قدر و منزلت کو نہیں پہچانتا وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 18:51
عون نقوی

(۱۴۶)

سُوْسُوْۤا اِیْمَانَکُمْ بِالصَّدَقَةِ، وَ حَصِّنُوْۤا اَمْوَالَکُمْ بِالزَّکٰوةِ، وَ ادْفَعُوْۤا اَمْوَاجَ الْبَلَآءِ بِالدُّعَآءِ.

صدقہ سے اپنے ایمان کی نگہداشت اور زکوٰة سے اپنے مال کی حفاظت کرو، اور دُعا سے مصیبت و ابتلا کی لہروں کو دور کرو۔

(۱۴۷)

لِکُمَیْلِ بْنِ زِیَادٍ النَّخَعِیِّ، قَالَ کُمَیْلُ بْنُ زِیَادٍ: اَخَذَ بِیَدِیْ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍؑ، فَاَخْرَجَنِیْۤ اِلَى الْجَبَّانِ، فَلَمَّاۤ اَصْحَرَ تَنَفَّسَ الصُّعَدَآءُ ثُمَّ قَالَ:

کمیل ابن زیاد نخعی کہتے ہیں کہ: امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا اور قبرستان کی طرف لے چلے۔ جب آبادی سے باہر نکلے تو ایک لمبی آہ کی۔ پھر فرمایا:

یَا کُمَیْلَ بْنَ زِیَادٍ! اِنَّ هٰذِهِ الْقُلُوْبَ اَوْعِیَةٌ، فَخَیْرُهَا اَوْعَاهَا، فَاحْفَظْ عَنِّیْ مَاۤ اَقُوْلُ لَکَ:

اے کمیل! یہ دل اسرار و حکم کے ظروف ہیں۔ ان میں سب سے بہتر وہ ہے جو زیادہ نگہداشت کرنے والا ہو۔ لہٰذا تو جو میں تمہیں بتاؤں اسے یاد رکھنا:

اَلنَّاسُ ثَلَاثَةٌ: فَعَالِمٌ رَّبَّانِیٌّ، وَ مُتَعَلِّمٌ عَلٰى سَبِیْلِ نَجَاةٍ، وَ هَمَجٌ رَّعَاعٌ، اَتْبَاعُ کُلِّ نَاعِقٍ، یَمِیْلُوْنَ مَعَ کُلِّ رِیْحٍ، لَمْ یَسْتَضِیْٓئُوْا بِنُوْرِ الْعِلْمِ، وَ لَمْ یَلْجَؤُوْا اِلٰى رُکْنٍ وَّثِیْقٍ.

دیکھو! تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں: ایک عالم ربانی، دوسرا متعلم کہ جو نجات کی راہ پر برقرار رہے اور تیسرا عوام الناس کا وہ پست گروہ ہے کہ جو ہر پکارنے والے کے پیچھے ہو لیتا ہے اور ہر ہوا کے رخ پر مڑ جاتا ہے، نہ انہوں نے نور علم سے کسب ضیاء کیا، نہ کسی مضبوط سہارے کی پناہ لی۔

یَا کُمَیْلُ! الْعِلْمُ خَیْرٌ مِّنَ الْمَالِ: الْعِلْمُ یَحْرُسُکَ وَ اَنْتَ تَحْرُسُ الْمَالَ، وَ الْمَالُ تَنْقُصُهُ النَّفَقَةُ، وَ الْعِلْمُ یَزْکُوْ عَلَى الْاِنْفَاقِ، وَ صَنِیْعُ الْمَالِ یَزُوْلُ بِزَوَالِهٖ.

اے کمیل! یاد رکھو کہ علم مال سے بہتر ہے، (کیونکہ)علم تمہاری نگہداشت کرتا ہے اور مال کی تمہیں حفاظت کرنا پڑتی ہے، اور مال خرچ کرنے سے گھٹتا ہے لیکن علم صرف کرنے سے بڑھتا ہے، اور مال و دولت کے نتائج و اثرات مال کے فنا ہونے سے فنا ہو جاتے ہیں۔

یَا کُمَیْلَ بْنَ زِیَادٍ! مَعْرِفَةُ الْعِلْمِ دِیْنٌ یُّدَانُ بِهٖ، بِهٖ یَکْسِبُ الْاِنْسَانُ الطَّاعَةَ فِیْ حَیَاتِهٖ، وَ جَمِیْلَ الْاُحْدُوْثَةِ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، وَ الْعِلْمُ حَاکِمٌ، وَ الْمَالُ مَحْکُوْمٌ عَلَیْهِ.

اے کمیل! علم کی شناسائی ایک دین ہے کہ جس کی اقتدا کی جاتی ہے۔ اسی سے انسان اپنی زندگی میں دوسروں سے اپنی اطاعت منواتا ہے اور مرنے کے بعد نیک نامی حاصل کرتا ہے۔ یاد رکھو کہ علم حاکم ہوتا ہے اور مال محکوم۔

یَا کُمَیْلُ! هَلَکَ خُزَّانُ الْاَمْوَالِ وَ هُمْ اَحْیَآءٌ، وَ الْعُلَمَآءُ بَاقُوْنَ مَا بَقِیَ الدَّهْرُ: اَعْیَانُهُمْ مَفْقُوْدَةٌ، وَ اَمْثَالُهُمْ فِی الْقُلُوْبِ مَوْجُوْدَةٌ.

اے کمیل! مال اکٹھا کرنے والے زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہوتے ہیں اور علم حاصل کرنے والے رہتی دنیا تک باقی رہتے ہیں۔ بے شک ان کے اجسام نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں مگر ان کی صورتیں دلوں میں موجود رہتی ہیں۔

هَا! اِنَّ هٰهُنَا لَعِلْمًا جَمًّا (وَ اَشَارَ اِلٰى صَدْرِهٖ:) لَوْ اَصَبْتُ لَهٗ حَمَلَةً!

(اس کے بعد حضرتؑ نے اپنے سینہ اقدس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:) دیکھو! یہاں علم کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے، کاش! اس کے اٹھانے والے مجھے مل جاتے۔

بَلٰۤى اَصَبْتُ لَقِنًا غَیْرَ مَاْمُوْنٍ عَلَیْهِ، مُسْتَعْمِلًا اٰلَةَ الدِّیْنِ لِلدُّنْیَا، وَ مُسْتَظْهِرًۢا بِنِعَمِ اللهِ عَلٰى عِبَادِهٖ، وَ بِحُجَجِهٖ عَلٰۤى اَوْلِیَآئِهٖ، اَوْ مُنْقَادًا لِّحَمَلَةِ الْحَقِّ، لَا بَصِیْرَةَ لَهٗ فِیْۤ اَحْنَآئِهٖ، یَنْقَدِحُ الشَّکُّ فِیْ قَلْبِهٖ لاَِوَّلِ عَارِضٍ مِّنْ شُبْهَةٍ.

ہاں ملا کوئی تو یا ایسا جو ذہین تو ہے مگر ناقابل اطمینان ہے اور جو دنیا کیلئے دین کو آلۂ کار بنا نے والا ہے اور اللہ کی ان نعمتوں کی وجہ سے اس کے بندوں پر اور اس کی حجتوں کی وجہ سے اس کے دوستوں پر تفوق و برتری جتلانے والا ہے۔ یا جو اربابِ حق و دانش کا مطیع تو ہے مگر اس کے دل کے گوشوں میں بصیرت کی روشنی نہیں ہے، بس ادھر ذرا سا شبہ عارض ہوا کہ اس کے دل میں شکوک و شبہات کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں۔

اَلَا لَا ذَا وَ لَا ذَاکَ!

تو معلوم ہونا چاہیے کہ نہ یہ اس قابل ہے اور نہ وہ اس قابل ہے۔

اَوْ مَنْهُوْمًۢا بِاللَّذَّةِ، سَلِسَ الْقِیَادِ لِلشَّهْوَةِ، اَوْ مُغْرَمًۢا بِالْجَمْعِ وَ الْاِدِّخَارِ،

یا ایسا شخص ملتا ہے کہ جو لذتوں پر مٹا ہوا ہے اور بآسانی خواہش نفسانی کی راہ پر کھنچ جانے والا ہے۔ یا ایسا شخص جو جمع آوری و ذخیرہ اندوزی پر جان دیئے ہوئے ہے۔

لَیْسَا مِنْ رُّعَاةِ الدِّیْنِ فِیْ شَیْءٍ، اَقْرَبُ شَیْءٍ شَبَهًۢا بِهِمَا الْاَنَعَامُ السَّآئِمَةُ! کَذٰلِکَ یَمُوْتُ الْعِلْمُ بِمَوْتِ حَامِلِیْهِ.

یہ دونوں بھی دین کے کسی امر کی رعایت و پاسداری کرنے والے نہیں ہیں۔ ان دونوں سے انتہائی قریبی شباہت چرنے والے چوپائے رکھتے ہیں۔ اسی طرح تو علم کے خزینہ داروں کے مرنے سے علم ختم ہو جاتا ہے۔

اَللّٰهُمَّ بَلٰى! لَا تَخْلُو الْاَرْضُ مِنْ قَآئِمٍ لِلّٰهِ بِحُجَّةٍ، اِمَّا ظَاهِرًا مَّشْهُوْرًا، اَوْ خَآئِفًا مَّغْمُوْرًا، لِئَلَّا تَبْطُلَ حُجَجُ اللهِ وَ بَیِّنَاتُهٗ.

ہاں! مگر زمین ایسے فرد سے خالی نہیں رہتی کہ جو خدا کی حجت کو برقرار رکھتا ہے۔ چاہے وہ ظاہر و مشہور ہو، یا خائف و پنہاں، تاکہ اللہ کی دلیلیں اور نشان مٹنے نہ پائیں۔

وَ کَمْ ذَا وَ اَیْنَ اُولٰٓئِکَ؟ اُولٰٓئِکَ ـ وَاللّٰهِ ـ الْاَقَلُّوْنَ عَدَدًا، وَ الْاَعْظَمُوْنَ عِنْدَ اللّٰہِ قَدْرًا، یَحْفَظُ اللهُ بِهِمْ حُجَجَهٗ وَ بَیِّنَاتِهٖ، حَتّٰى یُوْدِعُوْهَا نُظَرَآءَهُمْ، وَ یَزْرَعُوْهَا فِیْ قُلُوْبِ اَشْبَاهِهِمْ، هَجَمَ بِهِمُ الْعِلْمُ عَلٰى حَقِیْقَةِ الْبَصِیْرَةِ، وَ بَاشَرُوْا رُوْحَ الْیَقِیْنِ، وَ اسْتَلَانُوْا مَا اسْتَوْعَرَهُ الْمُتْرَفُوْنَ، وَ اَنِسُوْا بِمَا اسْتَوْحَشَ مِنْهُ الْجَاهِلُوْنَ، وَ صَحِبُوا الدُّنْیَا بِاَبْدَانٍ اَرْوَاحُهَا مُعَلَّقَةٌۢ بِالْـمَحَلِّ الْاَعْلٰى، اُولٰٓئِکَ خُلَفَآءُ اللهِ فِیْۤ اَرْضِهٖ، وَ الدُّعَاةُ اِلٰى دِیْنِهٖ، اٰهِ اٰهِ شَوْقًا اِلٰى رُؤْیَتِهِمْ!.

اور وہ ہیں ہی کتنے اور کہاں پر ہیں؟ خدا کی قسم! وہ تو گنتی میں بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور اللہ کے نزدیک قدر و منزلت کے لحاظ سے بہت بلند۔ خداوند عالم ان کے ذریعہ سے اپنی حجتوں اور نشانیوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ان کو اپنے ایسوں کے سپرد کر دیں اور اپنے ایسوں کے دلوں میں انہیں بو دیں۔ علم نے انہیں ایک دم حقیقت و بصیرت کے انکشافات تک پہنچا دیا ہے۔ وہ یقین و اعتماد کی روح سے گھل مل گئے ہیں اور ان چیزوں کو جنہیں آرام پسند لوگوں نے دشوار قرار دے رکھا تھا اپنے لئے سہل و آسان سمجھ لیا ہے، اور جن چیزوں سے جاہل بھڑک اٹھتے ہیں ان سے وہ جی لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ ایسے جسموں کے ساتھ دنیا میں رہتے سہتے ہیں کہ جن کی روحیں ملاء اعلیٰ سے وابستہ ہیں۔ یہی لوگ تو زمین میں اللہ کے نائب اور اس کے دین کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔ ہائے ان کی دید کیلئے میرے شوق کی فراوانی!۔

اِنْصَرِفْ یَا کُمَیْلُ اِذَا شِئْتَ.

(پھر حضرتؑ نے کمیل سے فرمایا:) اے کمیل! (مجھے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا)، اب جس وقت چاہو واپس جاؤ۔


کمیل ابن زیاد نخعی رحمہ اللہ اسرار امامت کے خزینہ دار اور امیر المومنین علیہ السلام کے خواص اصحاب میں سے تھے۔ علم و فضل میں بلند مرتبہ اور زُہد و ورع میں امتیاز خاص کے حامل تھے۔ حضرتؑ کی طرف سے کچھ عرصہ تک ہیت کے عامل رہے۔ ۸۳ ھجری میں ۹۰ برس کی عمر میں حجاج ابن یوسف ثقفی کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور بیرون کوفہ دفن ہوئے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 18:47
عون نقوی

(۱۴۴)

یَنْزِلُ الصَّبْرُ عَلٰى قَدْرِ الْمُصِیْبَةِ، وَ مَنْ ضَرَبَ یَدَهٗ عَلٰى فَخِذِهٖ عِنْدَ مُصِیْبَتِهٖ حَبِطَ عَمَلُہٗ.

مصیبت کے اندازہ پر (اللہ کی طرف سے) صبر کی ہمت حاصل ہوتی ہے۔ جو شخص مصیبت کے وقت ران پر ہاتھ مارے اس کا عمل اکارت جاتا ہے۔

(۱۴۵)

کَمْ مِنْ صَآئِمٍ لَّیْسَ لَهٗ مِنْ صِیَامِهٖ اِلَّا الْجُوْعُ وَ الظَّمَاُ، وَ کَمْ مِنْ قَآئِمٍ لَّیْسَ لَهٗ مِنْ قِیَامِهٖ اِلَّا السَّہَرُ وَ الْعَنَآءُ، حَبَّذَا نَوْمُ الْاَکْیَاسِ وَ اِفْطَارُهُمْ.

بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزوں کا ثمرہ بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، اور بہت سے عابد شب زندہ دار ایسے ہیں جنہیں عبادت کے نتیجہ میں جاگنے اور زحمت اٹھانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ زیرک و دانا لوگوں کا سونا اور روزہ نہ رکھنا بھی قابل ستائش ہوتا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 08 February 23 ، 15:35
عون نقوی

فِىْ مَعْنَى الْحَکَمَیْنِ

حکمین کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا

فَاَجْمَعَ رَاْیُ مَلَئِکُمْ عَلٰۤی اَنِ اخْتَارُوْا رَجُلَیْنِ، فَاَخَذْنَا عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یُّجَعْجِعَا عِنْدَ الْقُرْاٰنِ، وَ لَا یُجَاوِزَاهٗ، وَ تَکُوْنَ اَلْسِنَتُهُمَا مَعَهٗ وَ قُلُوْبُهُمَا تَبَعَهٗ، فَتَاهَا عَنْهُ، وَ تَرَکَا الْحَقَّ وَ هُمَا یُبْصِرَانِهٖ، وَ کَانَ الْجَوْرُ هَوَاهُمَا، وَ الْاِعْوِجَاجُ دَاْبَهُمَا. وَ قَدْ سَبَقَ اسْتِثْنَآؤُنَا عَلَیْهِمَا فِی الْحُکْمِ بِالْعَدْلِ وَ الْعَمَلِ بِالْحَقِّ سُوْٓءَ رَاْیِهِمَا وَ جَوْرَ حُکْمِهِمَا، وَ الثِّقَةُ فِیْۤ اَیْدِیْنَا لِاَنْفُسِنَا، حِیْنَ خَالَفَا سَبِیْلَ الْحَقِّ، وَ اَتَیَا بِمَا لَا یُعْرَفُ مِنْ مَّعْکُوْسِ الْحُکْمِ.

تمہاری جماعت ہی نے دو شخصوں کے چن لینے کی رائے طے کی تھی۔ چنانچہ ہم نے ان دونوں سے یہ عہد لے لیا تھا کہ وہ قرآن کے مطابق عمل کریں اور اس سے سر مُو تجاوز نہ کریں اور ان کی زبانیں اس سے ہمنوا اور ان کے دل اس کے پیرو رہیں، مگر وہ قرآن سے بھٹک گئے اور حق کو چھوڑ بیٹھے، حالانکہ وہ ان کی نگاہوں کے سامنے تھا۔ ظلم ان کی عین خواہش اور کجروی ان کی روش تھی، حالانکہ ہم نے پہلے ہی ان سے یہ ٹھہرا لیا تھا کہ وہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے اور حق پر عمل پیرا ہونے میں بد نیتی اور ناانصافی کو دخل نہ دیں گے۔ اب جب انہوں نے راہ حق سے انحراف کیا اور طے شدہ قرارداد کے برعکس حکم لگایا تو ہمارے ہاتھوں میں (ان کا فیصلہ ٹھکرا دینے کیلئے) ایک مضبوط دلیل (اور معقول وجہ) موجود ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:33
عون نقوی

فِیْ مَعْنٰى طَلْحَةَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰهِ

طلحہ ابن عبید اللہ کے بارے میں فرمایا

قَدْ کُنْتُ وَ مَاۤ اُهَدَّدُ بِالْحَرْبِ، وَ لَاۤ اُرَهَّبُ بِالضَّرْبِ، وَ اَنَا عَلٰی مَا قَدْ وَعَدَنِیْ رَبِّیْ مِنَ النَّصْرِ.

مجھے تو کبھی بھی حرب و ضرب سے دھمکایا اور ڈرایا نہیں جا سکا ہے۔ میں اپنے پروردگار کے کئے ہوئے وعدهٔ نصرت پر مطمئن ہوں۔

وَاللهِ! مَا اسْتَعْجَلَ مُتَجَرِّدًا لِّلطَّلَبِ بِدَمِ عُثْمَانَ اِلَّا خَوْفًا مِّنْ اَنْ یُّطَالَبَ بِدَمِهٖ، لِاَنَّهٗ مَظِنَّتُهٗ، وَ لَمْ یَکُنْ فِی الْقَومِ اَحْرَصُ عَلَیْهِ مِنْهُ، فَاَرَادَ اَنْ یُّغَالِطَ بِمَاۤ اَجْلَبَ فِیْهِ لِیَلْتَبِسَ الْاَمْرُ وَ یَقَعَ الشَّکُّ.

خدا کی قسم! وہ خون عثمان کا بدلہ لینے کیلئے کھنچی ہوئی تلوار کی طرح اس لئے اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ اسے یہ ڈر ہے کہ کہیں اسی سے ان کے خون کا مطالبہ نہ ہونے لگے۔ کیونکہ (لوگوں کا) ظن غالب اس کے متعلق یہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ (قتل کرنیوالی) جماعت میں اس سے بڑھ کر ان کے خون کا پیاسا ایک بھی نہ تھا۔ چنانچہ اس نے خون کا عوض لینے کے سلسلے میں جو فوجیں فراہم کی ہیں اس سے یہ چاہا ہے کہ لوگوں کو مغالطہ دے تاکہ حقیقت مشتبہ ہو جائے اور اس میں شک پڑ جائے۔

وَ وَاللهِ! مَا صَنَعَ فِیْۤ اَمْرِ عُثْمَانَ وَاحِدَةً مِّنْ ثَلَاثٍ: لَئِنْ کَانَ ابْنُ عَفَّانَ ظَالِمًا ـ کَمَا کَانَ یَزْعُمُ ـ لَقَدْ کَانَ یَنْۢبَغِیْ لَهٗۤ اَنْ یُّوَازِرَ قَاتِلِیْهِ اَوْ اَنْ یُّنَابِذَ نَاصِرِیْهٖ، وَ لَئِنْ کَانَ مَظْلُوْمًا لَقَدْ کَانَ یَنْۢبَغِیْ لَهٗۤ اَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الْمُنَهْنِهِیْنَ عَنْهُ وَ الْمُعَذِّرِیْنَ فِیْهِ، وَ لَئِنْ کَانَ فِیْ شَکٍّ مِّنَ الْخَصْلَتَیْنِ، لَقَدْ کَانَ یَنْۢبَغِیْ لَهٗۤ اَنْ یَّعْتَزِلَهٗ وَ یَرْکُدَ جَانِبًا وَّ یَدَعَ النَّاسَ مَعَهٗ، فَمَا فَعَلَ وَاحِدَةً مِّنَ الثَّلَاثِ، وَ جَآءَ بِاَمْرٍ لَّمْ یُعْرَفْ بَابُهٗ، وَ لَمْ تَسْلَمْ مَعَاذِیْرُهٗ.

خدا کی قسم! اس نے عثمان کے معاملہ میں ان تین باتوں میں سے ایک بات پر بھی تو عمل نہیں کیا: اگر ابن عفان جیسا کہ اس کا خیال تھا ظالم تھے [۱] تو (اس صورت میں) اسے چاہیے تھا کہ ان کے قاتلوں کی مدد کرتا یا ان کے مددگاروں سے علیحدگی اختیار کر لیتا اور اگر وہ مظلوم تھے تو اس صورت میں اس کیلئے مناسب تھا کہ ان کے قتل سے روکنے والوں اور ان کی طرف سے عذر و معذرت کرنے والوں میں ہوتا اور اگر ان دونوں باتوں میں اسے شبہ تھا تو اس صورت میں اسے یہ چاہیے تھا کہ ان سے کنارہ کش ہو کر ایک گوشہ میں بیٹھ جاتا اور انہیں لوگوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیتا (کہ وہ جانیں اور ان کا کام)۔ لیکن اس نے ان باتوں میں سے ایک پر بھی عمل نہ کیا اور ایک ایسی بات کو لے کر سامنے آ گیا ہے کہ جس کی صحت کی کوئی صورت ہی نہیں اور نہ اس کا کوئی عذر درست ہے۔


۱؂مطلب یہ ہے کہ اگر طلحہ حضرت عثمان کو ظالم سمجھتے تھے تو ان کے قتل ہونے کے بعد ان کے قاتلوں سے آمادۂ قصاص ہونے کے بجائے ان کی مدد کرنا چاہیے تھی اور ان کے اس اقدام کو صحیح و درست قرار دینا چاہیے تھا۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ظالم ہونے کی صورت میں محاصرہ کرنے والوں کی ان کو مدد کرنا چاہیے تھی، کیونکہ ان کی مدد و ہمت افزائی تو وہ کرتے ہی رہے تھے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 23 ، 19:30
عون نقوی