بصیرت اخبار

۳۲۸ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ مکتوبات» ثبت شده است

وَ ذٰلِکَ یَوْمٌ یَّجْمَعُ اللهُ فِیْهِ الْاَوَّلِیْنَ وَ الْاٰخِرِیْنَ لِنِقَاشِ الْحِسَابِ وَ جَزَآءِ الْاَعْمَالِ، خُضُوْعًا، قِیَامًا، قَدْ اَلْجَمَهُمُ الْعَرَقُ، وَ رَجَفَتْ بِهِمُ الْاَرْضُ، فَاَحْسَنُهُمْ حَالًا مَّنْ وَّجَدَ لِقَدَمَیْهِ مَوْضِعًا، وَ لِنَفْسِهٖ مُتَّسَعًا.

وہ ایسا دن ہو گا کہ اللہ حساب کی چھان بین اور عملوں کی جزا کیلئے سب اَگلے پچھلوں کو جمع کرے گا۔ وہ خضوع کی حالت میں اس کے سامنے کھڑے ہوں گے، پسینہ منہ تک پہنچ کر ان کے منہ میں لگام ڈال دے گا، زمین ان لوگوں سمیت لرزتی اور تھرتھراتی ہو گی۔ اس وقت سب سے بڑا خوش حال وہ ہو گا جسے اپنے دونوں قدم ٹکانے کی جگہ اور سانس لینے کو کھلی فضا مل جائے۔

[مِنْهُ]

[اسی خطبے کا ایک جز یہ ہے]

فِتَنٌ کَقِطَعِ اللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، لَا تَقُوْمُ لَهَا قَآئِمَةٌ، وَ لَا تُرَدُّ لَهَا رَایَةٌ، تَاْتِیْکُمْ مَزْمُوْمَةً مَّرْحُوْلَةً: یَحْفِزُهَا قَآئِدُهَا، وَ یَجْهَدُهَا رَاکِبُهَا، اَهْلُهَا قَوْمٌ شَدِیْدٌ کَلَبُهُمْ، قَلِیْلٌ سَلَبُهُمْ، یُجَاهِدُهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ قَوْمٌ اَذِلَّةٌ عِنْدَ الْمُتَکَبِّرِیْنَ، فِی الْاَرْضِ مَجْهُوْلُوْنَ، وَ فِی السَّمَآءِ مَعْرُوْفُوْنَ.

وہ ایسے فتنے ہوں گے جیسے اندھیری رات کے ٹکڑے۔ ان کے مقابلے کیلئے (گھوڑوں کے) پیر جم نہ سکیں گے اور نہ ان کے جھنڈے پلٹائے جا سکیں گے۔ وہ تمہارے پاس اس طرح آئیں گے کہ ان کی لگامیں چڑھی ہوں گی اور ان پر پالان کسے ہوں گے۔ ان کا پیشرو انہیں تیزی سے ہنکائے گا اور سوار ہونے والا انہیں ہلکان کر دے گا۔ وہ لوگ اس قوم سے ہیں جن کے حملے سخت ہوتے ہیں اور لوٹ کھسوٹ کم۔ ان سے وہ قوم فی سبیل اللہ جہاد کرے گی جو متکبروں کے نزدیک پست اور ذلیل، زمین میں گمنام اور آسمان میں جانی پہچانی ہوئی ہو گی۔

فَوَیْلٌ لَّکِ یَا بَصْرَةُ عِنْدَ ذٰلِکَ، مِنْ جَیْشٍ مِّنْ نِّقَمِ اللهِ! لَا رَهَجَ لَهٗ، وَ لَا حَسَّ، وَ سَیُبْتَلٰۤی اَهْلُکِ بِالْمَوْتِ الْاَحْمَرِ، وَ الْجُوْعِ الْاَغْبَرِ!.

اے بصرہ ! تیری حالت پر افسوس ہے کہ جب تجھ پر اللہ کے عذاب کے لشکر ٹوٹ پڑیں گے، جس میں نہ غبار اڑے گا اور نہ شور و غوغا ہو گا اور تیرے بسنے والے قتل اور سخت بھوک میں مبتلا ہوں گے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:28
عون نقوی

اَلْاَوَّلُ قَبْلَ کُلِّ اَوَّلٍ، وَ الْاٰخِرُ بَعْدَ کُلِّ اٰخِرٍ، بِاَوَّلِیَّتِهٖ وَجَبَ اَنْ لَّاۤ اَوَّلَ لَهٗ، وَ بِاٰخِرِیَّتِهٖ وَجَبَ اَنْ لَّاۤ اٰخِرَ لَهٗ.

وہ ہر اوّل سے پہلے اوّل ہے اور ہر آخر کے بعد آخر ہے۔ اس کی اولیت کے سبب سے واجب ہے کہ اس سے پہلے کوئی نہ ہو اور اس کے آخر ہونے کی وجہ سے ضروری ہے کہ اس کے بعد کوئی نہ ہو۔

وَ اَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللهُ شَهَادَةً یُّوَافِقُ فِیْهَا السِّرُّ الْاِعْلَانَ، وَ الْقَلْبُ اللِّسَانَ.

میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، ایسی گواہی جس میں ظاہر و باطن یکساں اور دل و زبان ہمنوا ہیں۔

اَیُّهَا النَّاسُ! ﴿لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِیْ﴾، وَ لَا یَسْتَهْوِیَنَّکُمْ عِصْیَانِیْ، وَ لَا تَتَرَامَوْا بِالْاَبْصَارِ عِنْدَ مَا تَسْمَعُوْنَهٗ مِنِّیْ.

اے لوگو! تم میری مخالفت کے جرم میں مبتلا نہ ہو اور میری نافرمانی کر کے حیران و پریشان نہ ہو۔ میری باتیں سنتے وقت ایک دوسرے کی طرف آنکھوں کے اشارے نہ کرو۔

فَوَ الَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاَ النَّسَمَةَ! اِنَّ الَّذِیْۤ اُنَبِّئُکُمْ بِهٖ عَنِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ ﷺ، مَا کَذَبَ الْمُبَلِّغُ، وَ لَا جَهِلَ السَّامِعُ.

اس ذات کی قسم جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا ہے! میں جو خبر تمہیں دیتا ہوں وہ نبی ﷺ کی طرف سے پہنچی ہوئی ہے۔ نہ خبر دینے والے (رسولؐ) نے جھوٹ کہا، نہ سننے والا جاہل تھا۔

لَکَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلٰی ضِلِّیْلٍ قَدْ نَعَقَ بِالشَّامِ، وَ فَحَصَ بِرَایَاتِهٖ فِیْ ضَوَاحِیْ کُوْفَانَ. فَاِذَا فَغَرَتْ فَاغِرَتُهٗ، وَ اشْتَدَّتْ شَکِیْمَتُهٗ، وَ ثَقُلَتْ فِی الْاَرْضِ وَطْاَتُهٗ، عَضَّتِ الْفِتْنَةُ اَبْنَآئَهَا بِاَنْیَابِهَا، وَ مَاجَتِ الْحَرْبُ بِاَمْوَاجِهَا، وَ بَدَا مِنَ الْاَیَّامِ کُلُوْحُهَا، وَ مِنَ اللَّیَالِیْ کُدُوْحُهَا.

(لو سنو!) میں ایک سخت گمراہیوں میں پڑے ہوئے شخص کو گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ وہ شام میں کھڑا ہوا للکار رہا ہے اور اس نے اپنے جھنڈے کوفہ کے آس پاس کھلے میدانوں میں گاڑ دیئے ہیں۔ چنانچہ جب اس کا منہ (پھاڑ کھانے کو) کھل گیا اور اس کی لگام کا دہانہ مضبوط ہو گیا اور زمین میں اس کی پامالیاں سخت سے سخت ہو گئیں تو فتنوں نے اپنے دانتوں سے دنیا والوں کو کاٹنا شروع کر دیا اور جنگ کا دریا تھپیڑے مارنے لگا اور دنوں کی سختی سامنے آ گئی اور راتوں کی تکلیف شدت اختیار کر گئی۔

فَاِذَاۤ اَیْنَعَ زَرْعُهٗ، وَ قَامَ عَلٰی یَنْعِهٖ، وَ هَدَرَتْ شَقَاشِقُهٗ، وَ بَرَقَتْ بَوَارِقُهٗ، عُقِدَتْ رَایَاتُ الْفِتَنِ الْمُعْضِلَةِ، وَ اَقْبَلْنَ کَاللَّیْلِ الْمُظْلِمِ، وَ الْبَحْرِ الْمُلْتَطِمِ.

بس ادھر اس کی کھیتی پختہ ہوئی اور فصل تیار ہوئی اور اس کی سر مستیاں جوش دکھانے لگیں اور تلواریں چمکنے لگیں، اُدھر سخت فتنہ و شر کے جھنڈے گڑ گئے اور اندھیری رات اور متلاطم دریا کی طرح آگے بڑھ آئے۔

هٰذَا، وَ کَمْ یَخْرِقُ الْکُوْفَةَ مِنْ قَاصِفٍ، وَ یَمُرُّ عَلَیْهَا مِنْ عَاصِفٍ! وَ عَنْ قَلِیْلٍ تَلْتَفُّ الْقُرُوْنُ بِالْقُرُوْنِ، وَ یُحْصَدُ الْقَآئِمُ، وَ یُحْطَمُ الْمَحْصُوْدُ!

اس کے علاوہ اور کتنے ہی تیز جھکڑ کوفہ کو اُکھیڑ ڈالیں گے اور کتنی ہی سخت آندھیاں اس پر آئیں گی اور عنقریب جماعتیں جماعتوں سے گتھ جائیں گی اور کھڑی کھیتیوں کو کاٹ دیا جائے گا اور کٹے ہوئے حاصلوں کو توڑ پھوڑ دیا جائے گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:26
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ النَّاشِرِ فِی الْخَلْقِ فَضْلَهٗ، وَ الْبَاسِطِ فِیْھِمْ بِالْجُوْدِ یَدَهٗ. نَحْمَدُهٗ فِیْ جَمِیْعِ اُمُوْرِهٖ، وَ نَسْتَعِیْنُهٗ عَلٰی رِعَایَةِ حُقُوْقِهٖ،

اس اللہ کیلئے حمد و ثنا ہے جو مخلوقات میں اپنا (دامن) فضل پھیلائے ہوئے اور اپنا دست کرم بڑھائے ہوئے ہے۔ ہم تمام امور میں اس کی حمد کرتے ہیں اور اس کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھنے میں اس سے مدد مانگتے ہیں۔

وَ نَشْهَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ غَیْرُهٗ، وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، اَرْسَلَهٗ بِاَمْرِهٖ صَادِعًا، وَ بِذِکْرِهٖ نَاطِقًا، فَاَدّٰۤی اَمِیْنًا، وَ مَضٰی رَشِیْدًا، وَ خَلَّفَ فِیْنَا رَایَةَ الْحَقِّ، مَنْ تَقَدَّمَهَا مَرَقَ، وَ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا زَهَقَ، وَ مَنْ لَّزِمَهَا لَحِقَ، دَلِیْلُهَا مَکِیْثُ الْکَلَامِ، بَطِیْٓءُ الْقِیَامِ، سَرِیْعٌ اِذَا قَامَ.

اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اس کے عبد اور رسول ہیں جنہیں اللہ نے اپنا امر واضح کر کے سنانے اور اپنا ذکر زبان پر لانے کیلئے بھیجا۔ آپؐ نے امانتداری کے ساتھ اسے پہنچایا اور راہ راست پر برقرار رہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے اور ہم میں حق کا وہ پرچم چھوڑ گئے کہ جو اس سے آگے بڑھے گا وہ (دین سے) نکل جائے گا اور جو پیچھے رہ جائے گا وہ مٹ جائے گا اور جو اس سے چمٹا رہے گا وہ حق کے ساتھ رہے گا۔ اس پرچم کی طرف راہنمائی کرنے والا وہ ہے جو بات کہنے میں جلد بازی نہیں کرتا اور (پوری طرح غور کرنے کیلئے) اپنے اقدام میں تاخیر کرتا ہے اور جب کسی امر کو لے کر کھڑا ہو جائے تو پھر تیز گام ہے۔

فَاِذَاۤ اَنْتُمْ اَلَنْتُمْ لَهٗ رِقَابَکُمْ، وَ اَشَرْتُمْ اِلَیْهِ بِاَصَابِعِکُمْ، جَآئَهُ الْمَوْتُ فَذَهَبَ بِهٖ، فَلَبِثْتُمْ بَعْدَهٗ مَا شَآءَ اللهُ حَتّٰی یُطْلِعَ اللهُ لَکُمْ مَنْ یَّجْمَعُکُمْ وَ یَضُمُّ نَشْرَکُمْ.

جب تم اس کے سامنے گردنیں خم کر دو گے اور (اسکی عظمت و جلال کے پیش نظر) اس کی طرف انگلیوں کے اشارے کرنے لگو گے تو اسے موت آ جائے گی اور اسے لے جائے گی اور پھر جب تک اللہ چاہے تم (انتظار میں) ٹھہرے رہو گے، یہاں تک کہ اللہ اس شخص کو ظاہر کرے جو تمہیں ایک جگہ پر جمع کرے اور تمہاری شیرازہ بندی کرے۔

فَلَا تَطْمَعُوْا فِیْ غَیْرِ مُقْبِلٍ، وَ لَا تَیْاَسُوْا مِنْ مُّدْبِرٍ، فَاِنَّ الْمُدْبِرَ عَسٰی اَنْ تَزِلَّ اِحْدٰی قَآئِمَتَیْهِ، وَ تَثْبُتَ الْاُخْرٰی، وَ تَرْجِعَا حَتّٰی تَثْبُتَا جَمِیْعًا.

جو کچھ ہونے والا نہیں ہے اس کی لالچ نہ کرو اور بہت ممکن کہ برگشتہ صورت حال کا ایک قدم اُکھڑ گیا ہو اور دوسرا قدم جما ہوا ہو اور پھر کوئی ایسی صورت ہو کہ دونوں قدم جم ہی جائیں۔

اَلَا اِنَّ مَثَلَ اٰلِ مُحَمَّدٍ ﷺ، کَمَثَلِ نُجُوْمِ السَّمَآءِ: اِذَا خَوٰی نَجْمٌ طَلَعَ نَجْمٌ، فَکَاَنَّکُمْ قَدْ تَکَامَلَتْ مِنَ اللهِ فِیْکُمُ الصَّنَآئِعُ، وَ اَرَاکُمْ مَا کُنْتُمْ تَاْمُلُوْنَ.

تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ آلِ محمد علیہم السلام آسمان کے ستاروں کے مانند ہیں، جب ایک ڈوبتا ہے تو دوسرا اُبھر آتا ہے۔ گویا تم پر اللہ کی نعمتیں مکمل ہو گئی ہیں اور جس کی تم آس لگائے بیٹھے تھے وہ اللہ نے تمہیں دکھا دیا ہے۔


مطلب یہ ہے کہ اگر سر دست تمہارے توقعات پورے نہیں ہو رہے تو مایوس نہ ہو جاؤ، کیونکہ ممکن ہے کہ صورت حال میں تبدیلی ہو اور اصلاح میں جو رکاوٹیں ہیں وہ دور ہو جائیں اور معاملات تمہارے حسبِ دلخواہ طے پا جائیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:23
عون نقوی

وَ لَیْسَ لِوَاضِعِ الْمَعْرُوْفِ فِیْ غَیْرِ حَقِّهٖ وَ عِنْدَ غَیْرِ اَهْلِهٖ، مِنَ الْحَظِّ فِیْمَاۤ اَتٰی اِلَّا مَحْمَدَةُ اللِّئَامِ، وَثَنَآءُ الْاَشْرَارِ، وَ مَقَالَةُ الْجُهَّالِ، مَادَامَ مُنْعِمًا عَلَیْهِمْ، ماۤ اَجْوَدَ یَدَهٗ! وَ هُوَ عَنْ ذَاتِ اللهِ بَخِیْلٌ!.

جو شخص غیر مستحق کے ساتھ حسن سلوک برتتا ہے اور نااہلوں کے ساتھ احسان کرتا ہے، اس کے پلے یہی پڑتا ہے کہ کمینے اور شریر اس کی مدح و ثنا کرنے لگتے ہیں اور جب تک وہ دیتا دلاتا رہے جاہل کہتے رہتے ہیں کہ اس کا ہاتھ کتنا سخی ہے۔ حالانکہ اللہ کے معاملہ میں وہ بخل کرتا ہے۔

فَمَنْ اٰتَاهُ اللهُ مَالًا فَلْیَصِلْ بِهِ الْقَرَابَةَ، وَ لْیُحْسِنْ مِنْهُ الضِّیَافَةَ، وَ لْیَفُکَّ بِهِ الْاَسِیْرَ وَ الْعَانِیَ، وَ لْیُعْطِ مِنْهُ الْفَقِیْرَ وَ الْغَارِمَ، وَ لْیَصْبِرْ نَفْسَهٗ عَلَی الْحُقُوْقِ وَ النَّوَآئِبِ ابْتِغَآءَ الثَّوَابِ، فَاِنَّ فَوْزًۢا بِهٰذِهِ الْخِصَالِ شَرَفُ مَکَارِمِ الدُّنْیَا، وَ دَرْکُ فَضَآئِلِ الْاٰخِرَةِ، اِنْ شَآءَ اللهُ.

چاہیے تو یہ کہ اللہ نے جسے مال دیا ہے وہ اس سے عزیزوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، خوش اسلوبی سے مہمان نوازی کرے، قیدیوں اور خستہ حال اسیروں کو آزاد کرائے، محتاجوں اور قرضداروں کو دے اور ثواب کی خواہش میں حقوق کی ادائیگی اور مختلف زحمتوں کو اپنے نفس پر برداشت کرے۔ اس لئے کہ ان خصائل و عادات سے آراستہ ہونا دنیا کی بزرگیوں سے شرفیاب ہونا اور آخرت کی فضیلتوں کو پا لینا ہے۔ ان شاء اللہ!


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:27
عون نقوی

اَیُّهَا النَّاسُ! مَنْ عَرَفَ مِنْ اَخِیْهِوَثِیْقَةَ دِیْنٍ وَّ سَدَادَ طَرِیْقٍ، فَلَا یَسْمَعَنَّ فِیْهِ اَقَاوِیْلَ الرِّجَالِ، اَمَاۤ اِنَّهٗ قَدْ یَرْمِی الرَّامِیْ، وَ تُخْطِئُ السِّهَامُ، وَ یَحِیْلُ الْکَلَامُ، وَ بَاطِلُ ذٰلِکَ یَبُوْرُ، وَاللهُ سَمِیْعٌ وَّ شَهِیْدٌ.

اے لوگو! اگر تمہیں اپنے کسی بھائی کی دینداری کی پختگی اور طور طریقوں کی درستگی کا علم ہو تو پھر اس کے بارے میں افواہی باتوں پر کان نہ دھرو۔ دیکھو! کبھی تیر چلانے والا تیر چلاتا ہے اور اتفاق سے تیر خطا کر جاتا ہے اور بات ذرا میں اِدھر سے اُدھر ہو جاتی ہے اور جو غلط بات ہو گی وہ خود ہی نیست و نابود ہو جائے گی۔ اللہ ہر چیز کا سننے والا اور ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے۔

اَمَاۤ اِنَّهٗ لَیْسَ بَیْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَرْبَعُ اَصَابِـعَ.

معلوم ہونا چاہیے کہ سچ اور جھوٹ میں صرف چار انگلیوں کا فاصلہ ہے۔

فَسُئِلَ ؑ عَنْ مَّعْنٰی قَوْلِهٖ هٰذَا، فَجَمَعَ اَصَابِعَهٗ وَ وَضَعَهَا بَیْنَ اُذُنِهٖ وَ عَیْنِهٖ، ثُمَّ قَالَ:

جب آپؑ سے اس کا مطلب پوچھا گیا تو آپؑ نے اپنی انگلیوں کو اکٹھا کر کے اپنے کان اور آنکھ کے درمیان رکھا اور فرمایا:

اَلْبَاطِلُ اَنْ تَقُوْلَ سَمِعْتُ، وَ الْحَقُّ اَنْ تَقُوْلَ رَاَیْتُ!.

جھوٹ وہ ہے جسے تم کہو کہ: میں نے سنا اور سچ وہ ہے جسے تم کہو کہ: میں نے دیکھا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:25
عون نقوی