بصیرت اخبار

۱۲۳ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «نہج البلاغہ اردو» ثبت شده است

فَبَعَثَ اللهُ مُحَمَّدًۢا بِالْحَقِّ لِیُخْرِجَ عِبَادَهٗ مِنْ عِبَادَةِ الْاَوْثَانِ اِلٰی عِبَادَتِهٖ، وَ مِنْ طَاعَةِ الشَّیْطٰنِ اِلٰی طَاعَتِهٖ، بِقُرْاٰنٍ قَدْ بَیَّنَهٗ وَ اَحْکَمَهٗ، لِیَعْلَمَ الْعِبَادُ رَبَّهُمْ اِذْ جَهِلُوْهُ، وَ لِیُقِرُّوْا بِهٖ بَعْدَ اِذْ جَحَدُوْهُ، وَ لِیُثْبِتُوْهُ بَعْدَ اِذْ اَنْکَرُوْهُ. فَتَجَلّٰی سُبْحَانَهٗ لَهُمْ فِیْ کِتَابِهٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّکُوْنُوْا رَاَوْهُ، بِمَاۤ اَرَاهُمْ مِنْ قُدْرَتِهٖ، وَ خَوَّفَهُمْ مِنْ سَطْوَتِهٖ، وَ کَیْفَ مَحَقَ مَنْ مَّحَقَ بِالْمَثُلَاتِ، وَ احْتَصَدَ مَنِ احْتَصَدَ بِالنَّقِمَاتِ!.

اللہ سبحانہ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کے بندوں کو محکم و واضح قرآن کے ذریعہ سے بتوں کی پرستش سے خدا کی پرستش کی طرف اور شیطان کی اطاعت سے اللہ کی اطاعت کی طرف نکال لے جائیں، تاکہ بندے اپنے پروردگار سے جاہل و بے خبر رہنے کے بعد اسے جان لیں، ہٹ دھرمی اور انکار کے بعد اس کے وجود کا یقین اور اقرار کریں۔ اللہ ان کے سامنے بغیر اس کے کہ اسے دیکھا ہو قدرت کی (ان نشانیوں) کی وجہ سے جلوہ طراز ہے کہ جو اس نے اپنی کتاب میں دکھائی ہیں اور اپنی سطوت و شوکت کی (قہرمانیوں سے) نمایاں ہے کہ جن سے ڈرایا ہے اور دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جنہیں اسے مٹانا تھا انہیں کس طرح اس نے اپنی عقوبتوں سے مٹا دیا اور جنہیں تہس نہس کرنا تھا انہیں کیونکر اپنے عذابوں سے تہس نہس کر دیا۔

وَ اِنَّهٗ سَیَاْتِیْ عَلَیْکُمْ مِنْۢ بَعْدِیْ زَمَانٌ لَّیْسَ فِیْهِ شَیْءٌ اَخْفٰی مِنَ الْحَقِّ، وَ لَاۤ اَظْهَرَ مِنَ الْبَاطِلِ، وَ لَاۤ اَکْثَرَ مِنَ الْکَذِبِ عَلَی اللهِ وَ رَسُوْلِهٖ، وَ لَیْسَ عِنْدَ اَهْلِ ذٰلِکَ الزَّمَانِ سِلْعَةٌ اَبْوَرَ مِنَ الْکِتَابِ اِذَا تُلِیَ حَقَّ تِلَاوَتِهٖ، وَ لَاۤ اَنْفَقَ مِنْهُ اِذَا حُرِّفَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ، وَ لَا فِی الْبِلَادِ شَیءٌ اَنْکَرَ مِنَ الْمَعْرُوفِ، وَ لَاۤ اَعْرَفَ مِنَ الْمُنْکَرِ!.

میرے بعد تم پر ایک ایسا دور آنے والا ہے جس میں حق بہت پوشیدہ اور باطل بہت نمایاں ہو گا اور اللہ و رسولؐ پر افترا پردازی کا زور ہو گا۔ اس زمانہ والوں کے نزیک قرآن سے زیادہ کوئی بے قیمت چیز نہ ہو گی جبکہ اسے اس طرح پیش کیا جائے جیسے پیش کرنے کا حق ہے اور اس قرآن سے زیادہ ان میں کوئی مقبول اور قیمتی چیز نہیں ہو گی اس وقت جبکہ اس کی آیتوں کا بے محل استعمال کیا جائے اور نہ (ان کے) شہروں میں نیکی سے زیادہ کوئی برائی اور برائی سے زیادہ کوئی نیکی ہو گی۔

فَقَدْ نَبَذَ الْکِتَابَ حَمَلَتُهٗ، وَ تَنَاسَاهُ حَفَظَتُهٗ، فَالْکِتَابُ یَوْمَئِذٍ وَّ اَهْلُهٗ مَنْفِیَّانِ طَرِیْدَانِ، وَ صَاحِبَانِ مُصْطَحِبَانِ فِیْ طَرِیْقٍ وَّاحِدٍ لَّا یُؤْوِیْهِمَا مُؤْوٍ، فَالْکِتَابُ وَ اَهْلُهٗ فِیْ ذٰلِکَ الزَّمَانِ فِی النَّاسِ وَ لَیْسَا فِیْهِمْ، وَ مَعَهُمْ وَ لَیْسَا مَعَهُمْ! لِاَنَّ الضَّلَالَةَ لَا تُوَافِقُ الْهُدٰی وَ اِنِ اجْتَمَعَا.

چنانچہ قرآن کا بار اٹھانے والے اسے پھینک کر الگ کریں گے اور حفظ کرنے والے اس کی (تعلیم) بھلا بیٹھیں گے اور قرآن اور قرآن والے (اہلبیتؑ) بے گھر اور بے در ہوں گے اور ایک ہی راہ میں ایک دوسرے کے ساتھی ہوں گے۔ انہیں کوئی پناہ دینے والا نہ ہو گا۔ وہ (بظاہر) لوگوں میں ہوں گے مگر ان سے الگ تھلگ۔ ان کے ساتھ ہوں گے مگر بے تعلق۔ اس لئے کہ گمراہی ہدایت سے سازگار نہیں ہو سکتی اگرچہ وہ یک جا ہوں۔

فَاجْتَمَعَ الْقَوْمُ عَلَی الْفُرْقَةِ وَ افْتَرَقُوْا عَنِ الْجَمَاعَةِ، کَاَنَّهُمْ اَئِمَّةُ الْکِتَابِ وَ لَیْسَ الْکِتَابُ اِمَامَهُمْ، فَلَمْ یَبْقَ عِنْدَهُمْ مِنْهُ اِلَّا اسْمُهٗ، وَ لَا یَعْرِفُوْنَ اِلَّا خَطَّهٗ وَ زَبْرَهٗ، وَ مِنْ قَبْلُ مَا مَثَّلُوْا بِالصَّالِحِیْنَ کُلَّ مُثْلَةٍ، وَ سَمَّوْا صِدْقَهُمْ عَلَی اللهِ فِرْیَةً، وَ جَعَلُوْا فِی الْحَسَنَةِ عُقُوْبَةَ السَّیِّئَةِ. وَ اِنَّمَا هَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِطُوْلِ اٰمَالِهِمْ وَ تَغَیُّبِ اٰجَالِهِمْ، حَتّٰی نَزَلَ بِهِمُ الْمَوْعُوْدُ الَّذِیْ تُرَدُّ عَنْهُ الْمَعْذِرَةُ، و َتُرْفَعُ عَنْهُ التَّوْبَةُ، وَ تَحُلُّ مَعَهُ الْقَارِعَةُ وَ النِّقْمَةُ.

لوگوں نے تفرقہ پردازی پر تو اتفاق کر لیا ہے اور جماعت سے کٹ گئے ہیں۔ گویا کہ وہ کتاب کے پیشوا ہیں کتاب ان کی پیشوا نہیں۔ ان کے پاس تو صرف قرآن کا نام رہ گیا ہے اور صرف اس کے خطوط و نقوش کو پہچان سکتے ہیں۔ اس آنے والے دور سے پہلے وہ نیک بندوں کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچا چکے ہوں گے اور اللہ کے متعلق ان کی سچی باتوں کا نام بھی بہتان رکھ دیا ہو گا اور نیکیوں کے بدلہ میں انہیں بری سزائیں دی ہوں گی۔ تم سے پہلے لوگوں کی تباہی کا سبب یہ ہے کہ وہ امیدوں کے دامن پھیلاتے رہے اور موت کو نظروں سے اوجھل سمجھا کئے، یہاں تک کہ جب وعدہ کی ہوئی (موت) آ گئی تو ان کی معذرت کو ٹھکرا دیا گیا اور توبہ اٹھا لی گئی اور مصیبت و بلا ان پر ٹوٹ پڑی۔

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّهٗ مَنِ اسْتَنْصَحَ اللهَ وُفِّقَ، وَ مَنِ اتَّخَذَ قَوْلَهٗ دَلِیْلًا هُدِیَ ﴿لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ﴾، فَاِنَّ جَارَ اللهِ اٰمِنٌ وَّ عَدُوَّهٗ خَآئِفٌ، وَ اِنَّهٗ لَا یَنْۢبَغِیْ لِمَنْ عَرَفَ عَظَمَةَ اللهِ اَنْ یَّتَعَظَّمَ، فَاِنَّ رِفْعَةَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا عَظَمَتُهٗۤ اَنْ یَّتَوَاضَعُوْا لَهٗ، وَ سَلَامَةَ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ مَا قُدْرَتُهٗۤ اَنْ یَّسْتَسْلِمُوْا لَهٗ، فَلَا تَنْفِرُوْا مِنَ الْحَقِّ نِفَارَ الصَّحِیْحِ مِنَ الْاَجْرَبِ، وَ الْبَارِیْ مِنْ ذِی السَّقَمِ.

اے لوگو! جو اللہ سے نصیحت چاہے اسے ہی توفیق نصیب ہوتی ہے اور جو اس کے ارشادات کو رہنما بنائے وہ سیدھے راستہ پر ہو لیتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ کی ہمسائیگی میں رہنے والا امن و سلامتی میں ہے اور اس کا دشمن خوف و ہراس میں۔ جو اللہ کی عظمت و جلالت کو پہچان لے اسے کسی طرح زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی عظمت کی نمائش کرے، چونکہ جو اس کی عظمت کو پہچان چکے ہیں ان کی رفعت و بلندی اسی میں ہے کہ اس کے آگے جھک جائیں اور جو اس کی قدرت کو جان چکے ہیں ان کی سلامتی اسی میں ہے کہ اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔ حق سے اس طرح بھڑک نہ اٹھو جس طرح صحیح و سالم خارش زدہ سے یا تندرست بیمار سے۔

وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّکُمْ لَنْ تَعْرِفُوا الرُّشْدَ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِیْ تَرَکَهٗ، وَ لَنْ تَاْخُذُوْا بِمِیْثَاقِ الْکِتَابِ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِیْ نَقَضَهٗ، وَ لَنْ تَمَسَّکُوْا بِهٖ حَتّٰی تَعْرِفُوا الَّذِیْ نَبَذَهٗ.

تم ہدایت کو اس وقت تک نہ پہچان سکو گے جب تک اس کے چھوڑنے والوں کو نہ پہچان لو اور قرآن کے عہد و پیمان کے پابند نہ رہ سکو گے جب تک اس کے توڑنے والے کو نہ جان لو اور اس سے وابستہ نہیں رہ سکتے جب تک اسے دور پھینکنے والے کی شناخت نہ کرلو۔

فَالْتَمِسُوْا ذٰلِکَ مِنْ عِنْدِ اَهْلِهٖ، فَاِنَّهُمْ عَیْشُ الْعِلْمِ، وَ مَوْتُ الْجَهْلِ، هُمُ الَّذِیْنَ یُخْبِرُکُمْ حُکْمُهُمْ عَنْ عِلْمِهِمْ، وَ صَمْتُهُمْ عَنْ مَّنْطِقِهِمْ، وَ ظَاهِرُهُمْ عَنْۢ بَاطِنِهِمْ، لَا یُخَالِفُوْنَ الدِّیْنَ وَ لَا یَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِ، فَهُوَ بَیْنَهُمْ شَاهِدٌ صَادِقٌ، وَ صَامِتٌ نَّاطِقٌ.

جو ہدایت والے ہیں انہی سے ہدایت طلب کرو۔ وہی علم کی زندگی اور جہالت کی موت ہیں۔ وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کا (دیا ہوا) ہر حکم ان کے علم کا اور ان کی خاموشی ان کی گویائی کا پتہ دے گی اور ان کا ظاہر ان کے باطن کا آئینہ دار ہے۔ وہ نہ دین کی مخالفت کرتے ہیں نہ اس کے بارے میں باہم اختلاف رکھتے ہیں۔ دین ان کے سامنے ایک سچا گواہ ہے اور ایک ایسا بے زبان ہے جو بول رہا ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:13
عون نقوی

وَ قَدِ اسْتَشَارَهٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِی الشُّخُوْصِ لِقِتَالِ الْفُرْسِ بِنَفْسِهٖ:

جب حضرت عمر ابن خطاب نے جنگ فارس میں شریک ہونے کیلئے آپؑ سے مشورہ لیا تو آپؑ نے فرمایا: [۱]

اِنَّ هٰذَا الْاَمْرَ لَمْ یَکُنْ نَّصْرُهٗ وَ لَا خِذْلَانُهٗ بِکَثْرَةٍ وَّ لَا بِقِلَّةٍ، وَ هُوَ دِیْنُ اللهِ الَّذِیْۤ اَظْهَرَهٗ، وَ جُنْدُهُ الَّذِیْۤ اَعَدَّهٗ وَ اَمَدَّهٗ، حَتّٰی بَلَغَ مَا بَلَغَ، وَ طَلَعَ حَیْثُ طَلَعَ، وَ نَحْنُ عَلٰی مَوْعُوْدٍ مِّنَ اللهِ، وَاللهُ مُنْجِزٌ وَّعْدَهٗ، وَ نَاصِرٌ جُنْدَهٗ.

اس امر میں کامیابی و ناکامیابی کا دارو مدار فوج کی کمی بیشی پر نہیں رہا ہے۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جسے اُس نے (سب دینوں پر) غالب رکھا ہے اور اسی کا لشکر ہے جسے اُس نے تیار کیا ہے اور اس کی ایسی نصرت کی ہے کہ وہ بڑھ کر اپنی موجودہ حد تک پہنچ گیا ہے اور پھیل کر اپنے موجودہ پھیلاؤ پر آ گیا ہے اور ہم سے اللہ کا ایک وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور اپنے لشکر کی خود ہی مدد کرے گا۔

وَ مَکَانُ الْقَیِّمِ بِالْاَمْرِ مَکَانُ النِّظَامِ مِنَ الْخَرَزِ یَجْمَعُهٗ وَ یَضُمُّهٗ، فَاِنِ انْقَطَعَ النِّظَامُ تَفَرَّقَ الْخَرَزُ وَ ذَهَبَ، ثُمَّ لَمْ یَجْتَمِـعْ بِحَذَافِیْرِهٖۤ اَبَدًا. وَ الْعَرَبُ الْیَوْمَ وَ اِنْ کَانُوْا قَلِیْلًا، فَهُمْ کَثِیْرُوْنَ بِالْاِسْلَامِ، وَ عَزِیْزُوْنَ بِالْاِجْتِمَاعِ! فَکُنْ قُطْبًا، وَ اسْتَدِرِ الرَّحٰی بِالْعَرَبِ، وَ اَصْلِهِمْ دُوْنَکَ نَارَ الْحَرْبِ، فَاِنَّکَ اِنْ شَخَصْتَ مِنْ هٰذِهِ الْاَرْضِ انْتَقَضَتْ عَلَیْکَ الْعَرَبُ مِنْ اَطْرَافِهَا وَ اَقْطَارِهَا، حَتّٰی یَکُوْنَ مَا تَدَعُ وَرَآءَکَ مِنَ الْعَوْرَاتِ اَهَمَّ اِلَیْکَ مِمَّا بَیْنَ یَدَیْکَ.

امور (سلطنت) میں حاکم کی حیثیت وہی ہوتی ہے جو مہروں میں ڈورے کی جو انہیں سمیٹ کر رکھتا ہے۔ جب ڈورا ٹوٹ جائے تو سب مہرے بکھر جائیں گے اور پھر کبھی سمٹ نہ سکیں گے۔ آج عرب والے اگرچہ گنتی میں کم ہیں مگر اسلام کی وجہ سے وہ بہت ہیں اور اتحاد باہمی کے سبب سے (فتح و) غلبہ پانے والے ہیں۔ تم اپنے مقام پر کھونٹی کی طرح جمے رہو اور عرب کا نظم و نسق برقرار رکھو اور ان ہی کو جنگ کی آگ کا مقابلہ کرنے دو۔ اس لئے کہ اگر تم نے اس سرزمین کو چھوڑا تو عرب اطراف و جوانب سے تم پر ٹوٹ پڑیں گے، یہاں تک کہ تمہیں اپنے سامنے کے حالات سے زیادہ ان مقامات کی فکر ہو جائے گی جنہیں تم اپنے پس پشت غیر محفوظ چھوڑ کر گئے ہو۔

اِنَّ الْاَعَاجِمَ اِنْ یَّنْظُرُوْۤا اِلَیْکَ غَدًا یَقُوْلُوْا: هٰذَا اَصْلُ الْعَرَبِ، فَاِذَا اقْتَطَعْتُمُوْهُ اسْتَرَحْتُمْ، فَیَکُوْنُ ذٰلِکَ اَشَدَّ لِکَلَبِهِمْ عَلَیْکَ، وَ طَمَعِهِمْ فِیْکَ.

کل اگر عجم والے تمہیں دیکھیں گے تو (آپس میں) یہ کہیں گے کہ یہ ہے ’’سردار عرب‘‘ اگر تم نے اس کا قلع قمع کردیا تو آسودہ ہو جاؤ گے۔تو اس کی وجہ سے ان کی حرص و طمع تم پر زیادہ ہو جائے گی۔

فَاَمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ مَّسِیْرِ الْقَوْمِ اِلٰی قِتَالِ الْمُسْلِمِیْنَ، فَاِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ هُوَ اَکْرَهُ لِمَسِیْرِهِمْ مِنْکَ، وَ هُوَ اَقْدَرُ عَلٰی تَغْیِیْرِ مَا یَکْرَهُ. وَ اَمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ عَدَدِهِمْ، فَاِنَّا لَمْ نَکُنْ نُّقَاتِلُ فِیْمَا مَضٰی بِالْکَثْرَةِ، وَ اِنَّمَا کُنَّا نُقَاتِلُ بِالنَّصْرِ وَ الْمَعُوْنَةِ!.

لیکن یہ جو تم کہتے ہو کہ وہ لوگ مسلمانوں سے لڑنے بھڑنے کیلئے چل کھڑے ہوئے ہیں تو اللہ ان کے بڑھنے کو تم سے زیادہ بُرا سمجھتا ہے اور وہ جسے بُرا سمجھے اس کے بدلنے (اور روکنے) پر بہت قدرت رکھتا ہے اور ان کی تعداد کے متعلق جو کہتے ہو (کہ وہ بہت ہیں) تو ہم سابق میں کثرت کے بل بوتے پر نہیں لڑا کرتے تھے بلکہ (اللہ کی) تائید و نصرت (کے سہارے) پر۔


وَ اِنَّه لَا بُدَّ لِلنَّاسِ مِنْ اَمِیْرٍ بَرٍّ اَوْ فَاجِرٍ، یَعْمَلُ فِیْۤ اِمْرَتِهِ الْمُؤْمِنُ، وَ یَسْتَمْتِعُ فِیْهَا الْکَافِرُ، وَ یُبَلِّغُ اللهُ فِیْهَا الْاَجَلَ، وَ یُجْمَعُ بِهِ الْفَیْءُ، وَ یُقَاتَلُ بِهِ الْعَدُوُّ، وَ تَاْمَنُ بِهِ السُّبُلُ، وَ یُؤْخَذُ بِه لِلضَّعِیْفِ مِنَ الْقَوِیِّ، حَتّٰی یَسْتَرِیْحَ بَرٌّ، وَ یُسْتَرَاحَ مِنْ فَاجِرٍ.
جب حضرت عمر کو کچھ لوگوں نے جنگ قادسیہ یا جنگِ نہاوند کے موقع پر شریک کا رزار ہونے کا مشورہ دیا تو آپ نے لوگوں کے مشورہ کو اپنے جذبات کے خلاف سمجھتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ لینا بھی ضروری سمجھا کہ اگر انہوں نے ٹھہرنے کا مشورہ دیا تو دوسروں کے سامنے یہ عذر کر دیا جائے گا کہ امیر المومنین علیہ السلام کے مشورہ کی وجہ سے رک گیا ہوں اور اگر انہوں نے بھی شریک جنگ ہونے کا مشورہ دیا تو پھر کوئی اور تدبیر سوچ لی جائے گی۔ چنانچہ حضرتؑ نے دوسروں کے خلاف انہیں ٹھہرے رہنے ہی کا مشورہ دیا۔ دوسرے لوگوں نے تو اس بنا پر انہیں شرکت کا مشورہ دیا تھا کہ وہ دیکھ چکے تھے کہ رسول اللہ ﷺ صرف لشکر والوں ہی کو جنگ میں نہ جھونکتے تھے بلکہ خود بھی شرکت فرماتے تھے اور اپنے خاندان کے عزیز ترین فردوں کو بھی اپنے ساتھ رکھتے تھے اور امیر المومنین علیہ السلام کے پیش نظر یہ چیز تھی کہ ان کی شرکت اسلام کیلئے مفید نہیں ہو سکتی، بلکہ ان کا اپنے مقام پر ٹھہرے رہنا ہی مسلمانوں کو پراگندگی سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
حضرتؑ کا ارشاد کہ ’’حاکم کی حیثیت ایک محور کی ہوتی ہے جس کے گرد نظام مملکت گھومتا ہے‘‘، ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی خاص شخصیت کے متعلق نہیں ہے۔ چنانچہ حکمران مسلمان ہو یا کافر، عادل ہو یا ظالم، نیک عمل ہو یا بد کردار، مملکت کے نظم و نسق کیلئے اس کا وجود ناگزیر ہے۔ جیسا کہ حضرتؑ نے اس مطلب کو دوسرے مقام پر وضاحت سے بیان فرمایا ہے:؛جب حضرتؑ نے انہیں بتایا کہ ان کے پہنچ جانے سے عجم انہی کی تاک میں رہیں گے اور ہتھے چڑھ جانے پر وہ قتل کئے بغیر نہ رہیں گے تو ایسی باتیں اگرچہ شجاعوں کیلئے سمند ہمت پر تازیانہ کا کام دیتی ہیں اور ان کا جوش و ولولہ اُبھر آتا ہے، مگر آپ نے ٹھہرے رہنے ہی کا مشورہ پسند فرمایا اور جنگ کے شعلوں سے اپنا دامن بچانا ہی بہتر سمجھا۔ اگر یہ مشورہ ان کے طبعی میلان کے موافق نہ ہوتا تو وہ اس طرح خندہ پیشانی سے اس کا خیر مقدم نہ کرتے، بلکہ کچھ کہتے سنتے اور یہ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ ملک میں کسی کو نائب بنا کر ملکی نظم و نسق کو برقرار رکھا جا سکتا ہے اور پھر جب اور لوگوں نے جانے کا مشورہ دیا تھا تو امیر المومنین علیہ السلام سے مشورہ لینے کا داعی اس کے علاوہ ہو ہی کیا سکتا تھا کہ رک جانے کا کوئی سہارا مل جائے۔[۱]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۴۰۔
لوگوں کیلئے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے، وہ نیک ہو یا بد کردار۔ (اگر نیک ہو گا تو) مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا اور (اگر فاسق ہو گا تو) کافر اس کے عہد میں بہرہ اندوز ہوں گے اور اللہ اس نظام حکومت کی ہر چیز کو اس کی آخری حدوں تک پہنچا دے گا۔ اس حاکم کی وجہ سے (چاہے وہ اچھا ہو یا برا) مالیات فراہم ہوتے ہیں، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں، یہاں تک کہ نیک حاکم (مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے اور برے حاکم (کے مرنے یا معزول ہونے) سے دوسروں کو راحت پہنچے۔(۴)
حضرتؑ نے مشورہ کے موقع پر جو الفاظ کہے ہیں ان سے حضرت عمر کے حاکم و صاحب اقتدار ہونے کے علاوہ اور کسی خصوصیت کا اظہار نہیں ہوتا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہیں دنیاوی اقتدار حاصل تھا، چاہے وہ صحیح طریق سے حاصل ہوا ہو یا غلط طریق سے اور جہاں اقتدار ہو وہاں رعیت کی مرکزیت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اسی لئے حضرتؑ نے فرمایا کہ: اگر وہ نکل کھڑے ہوں گے تو پھر عرب بھی جوق در جوق میدان جنگ کا رُخ کریں گے، کیونکہ جب حکمران ہی نکل کھڑا ہو تو رعیت پیچھے رہنا گوارا نہ کرے گی اور ان کے نکلنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شہروں کے شہر خالی ہو جائیں گے اور دشمن بھی ان کے میدان جنگ میں پہنچ جانے سے یہ اندازہ کر لے گا کہ اسلامی شہر خالی پڑے ہیں۔ اگر انہیں پسپا کر دیا گیا تو پھر مسلمانوں کو مرکز سے کمک حاصل نہیں ہو سکتی اور اگر حکمران ہی کو ختم کر دیا گیا تو فوج خود بخود منتشر ہو جائے گی۔ کیونکہ حکمران بمنزلہ اساس و بنیاد کے ہوتا ہے۔ جب بنیاد ہی ہل جائے تو دیواریں کہاں کھڑی رہ سکتی ہیں۔ یہ ’’اصل العرب‘‘ (عرب کی جڑ) کی لفظ حضرتؑ نے اپنی طرف سے نہیں فرمائی، بلکہ عجموں کی زبان سے نقل کی ہے اور ظاہر ہے کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کی نظروں میں بنیاد عرب ہی سمجھے جا رہے تھے اور پھر یہ اضافت ’’ملک‘‘ کی طرف ہے، ’’اسلام‘‘ یا ’’مسلمین‘‘ کی طرف نہیں ہے کہ اسلامی اعتبار سے ان کی کسی اہمیت کا اظہار ہو۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:09
عون نقوی

اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّمَاۤ اَنْتُمْ فِیْ هٰذِهِ الدُّنْیَا غَرَضٌ تَنْتَضِلُ فِیْهِ الْمَنَایَا، مَعَ کُلِّ جُرْعَةٍ شَرَقٌ، وَ فِیْ کُلِّ اَکْلَةٍ غَصَصٌ! لَا تَنَالُوْنَ مِنْهَا نِعْمَةً اِلَّا بِفِرَاقِ اُخْرٰی، وَ لَا یُعَمَّرُ مُعَمَّرٌ مِّنْکُمْ یَوْمًا مِّنْ عُمُرِهٖ اِلَّا بِهَدْمِ اٰخَرَ مِنْ اَجَلِهٖ، وَ لَا تُجَدَّدُ لَهٗ زِیَادَةٌ فِیْۤ اَکْلِهٖۤ اِلَّا بَنَفَادِ مَا قَبْلَهَا مِنْ رِّزْقِهٖ، وَ لَا یَحْیَا لَهٗۤ اَثَرٌ اِلَّا مَاتَ لَهٗ اَثَرٌ، وَ لَا یَتَجَدَّدُ لَهٗ جَدِیْدٌ اِلَّا بَعْدَ اَنْ یَّخْلَقَ لَهٗ جَدِیْدٌ، وَ لَا تَقُوْمُ لَهٗ نَابِتَةٌ اِلَّا وَ تَسْقُطُ مِنْهُ مَحْصُوْدَةٌ، وَ قَدْ مَضَتْ اُصُوْلٌ نَّحْنُ فُرُوْعُهَا، فَمَا بَقَآءُ فَرْعٍ بَعْدَ ذَهَابِ اَصْلِهٖ!.

اے لوگو! تم اس دنیا میں موت کی تیر اندازیوں کا ہدف ہو (جہاں) ہر گھونٹ کے ساتھ اچھو ہے اور ہر لقمہ میں گلو گیر پھندا ہے۔ جہاں تم ایک نعمت اس وقت تک نہیں پاتے جب تک دوسری نعمت جدا نہ ہو جائے اور تم میں سے کوئی زندگی پانے والا ایک دن کی زندگی میں قدم نہیں رکھتا جب تک اس کی مدتِ حیات میں سے ایک دن کم نہیں ہو جاتا اور اس کے کھانے میں کسی اور رزق کا اضافہ نہیں ہوتا جب تک پہلا رزق ختم نہ ہو جائے اور جب تک ایک نقش مٹ نہ جائے دوسرا نقش ابھرتا نہیں اور جب تک کوئی نئی چیز کہنہ و فرسودہ نہ ہو جائے دوسری نئی چیز حاصل نہیں ہوتی اور جب تک کٹی ہوئی فصل گر نہ جائے نئی فصل کھڑی نہیں ہوتی۔ آباؤ اجداد گزر گئے اور ہم انہی کی شاخیں ہیں۔ جب جڑ ہی نہ رہی تو شاخیں کہاں رہ سکتی ہیں۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ مَاۤ اُحْدِثَتْ بِدْعَةٌ اِلَّا تُرِکَ بِهَا سُنَّةٌ، فَاتَّقُوا الْبِدَعَ، وَ الْزَمُوا الْمَهْیَعَ، اِنَّ عَوَازِمَ الْاُمُوْرِ اَفْضَلُهَا، وَ اِنَّ مُحْدَثَاتِهَا شِرَارُهَا.

کوئی بدعت وجود میں نہیں آتی، مگر یہ کہ اس کی وجہ سے سنت کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ بدعتی لوگوں سے بچو، روشن طریقہ پر جمے رہو۔ پرانی باتیں ہی اچھی ہیں اور (دین میں) پیدا کی ہوئی نئی چیزیں بد ترین ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:36
عون نقوی

بَعَثَ اللهُ رُسُلَهٗ بِمَا خَصَّهُمْ بِهٖ مِنْ وَّحْیِهٖ، وَ جَعَلَهُمْ حُجَّةً لَّهٗ عَلٰی خَلْقِهٖ، لِئَلَّا تَجِبَ الْحُجَّةُ لَهُمْ بِتَرْکِ الْاِعْذَارِ اِلَیْهِمْ، فَدَعَاهُمْ بِلِسَانِ الصِّدْقِ اِلٰی سَبِیْلِ الْحَقِّ.

اللہ سبحانہ نے اپنے رسولوں کو وحی کے امتیازات کے ساتھ بھیجا اور انہیں مخلوق پر اپنی حجت ٹھہرایا تاکہ وہ یہ عذر نہ کر سکیں کہ ان پر حجت تمام نہیں ہوئی۔ چنانچہ اللہ نے انہیں سچی زبانوں سے راہ حق کی دعوت دی۔

اَلَا اِنَّ اللهَ قَدْ کَشَفَ الْخَلْقَ کَشْفَةً، لَاۤ اَنَّهٗ جَهِلَ ماۤ اَخْفَوْهُ مِنْ مَّصُوْنِ اَسْرَارِهِمْ وَ مَکْنُوْنِ ضَمَآئِرِهِمْ، وَ لٰکِنْ لِّیَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا، فَیَکُوْنَ الثَّوَابُ جَزَآءً، وَ الْعِقَابُ بَوَآءً.

(یوں تو) اللہ مخلوقات کو اچھی طرح جانتا بوجھتا ہے اور لوگوں کے ان رازوں اور بھیدوں سے کہ جنہیں وہ چھپا کر رکھتے ہیں بے خبر نہیں۔ (پھر یہ حکم و احکام اس لئے دیئے ہیں) کہ وہ ان لوگوں کو آزما کر ظاہر کر دے کہ ان میں اعمال کے اعتبار سے کون اچھا ہے تاکہ ثواب ان کی جزا اور عقاب ان کی (بد اعمالیوں) کی پاداش ہو۔

اَیْنَ الَّذِیْنَ زَعَمُوْۤا اَنَّهُمُ ﴿الرَّاسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ﴾ دُوْنَنَا، کَذِبًا وَّ بَغْیًا عَلَیْنَا، اَنْ رَّفَعَنَا اللهُ وَ وَضَعَهُمْ، وَ اَعْطَانَا وَ حَرَمَهُمْ، وَ اَدْخَلَنَا وَ اَخْرَجَهُمْ. بِنَا یُسْتَعْطَی الْهُدٰی، وَ یُسْتَجْلَی الْعَمٰی.

کہاں ہیں وہ لوگ کہ جو جھوٹ بولتے ہوئے اور ہم پر ستم روا رکھتے ہوئے یہ ادّعا کرتے ہیں کہ وہ راسخون فی العلم ہیں نہ ہم؟ چونکہ اللہ نے ہم کو بلند کیا ہے اور انہیں گرایا ہے اور ہمیں (منصبِ امامت) دیا ہے اور انہیں محروم رکھا ہے اور ہمیں (منزلِ علم میں) داخل کیا ہے اور انہیں دور کر دیا ہے۔ ہم ہی سے ہدایت کی طلب اور گمراہی کی تاریکیوں کو چھانٹنے کی خواہش کی جا سکتی ہے۔

اِنَّ الْاَئِمَّةَ مِنْ قُرَیْشٍ غُرِسُوْا فِیْ هٰذَا الْبَطْنِ مِنْ هَاشِمٍ، لَا تَصْلُحُ عَلٰی سِوَاهُمْ، وَ لَا تَصْلُحُ الْوُلَاةُ مِنْ غَیْرِهِمْ.

بلا شبہ امام قریش میں سے ہوں گے جو اسی قبیلہ کی ایک شاخ بنی ہاشم کی کشت زار سے ابھریں گے۔ نہ امامت کسی اور کو زیب دیتی ہے اور نہ ان کے علاوہ کوئی اس کا اہل ہو سکتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

اٰثَرُوْا عَاجِلًا، وَ اَخَّرُوْا اٰجِلًا، وَ تَرَکُوْا صَافِیًا، وَ شَرِبُوْا اٰجِنًا، کَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلٰی فَاسِقِهِمْ وَ قَدْ صَحِبَ الْمُنکَرَ فَاَلِفَهٗ، وَ بَسِئَ بِهٖ وَ وَافَقَهٗ، حَتّٰی شَابَتْ عَلَیْهِ مَفَارِقُهٗ، وَ صُبِغَتْ بِهٖ خَلَآئِقُهٗ، ثُمَّ اَقْبَلَ مُزْبِدًا کَالتَّیَّارِ لَا یُبَالِیْ مَا غَرَّقَ، اَوْ کَوَقْعِ النَّارِ فِی الْهَشِیْمِ لَا یَحْفِلُ مَا حَرَّقَ!.

ان لوگوں نے دنیا کو اختیار کر لیا ہے اور عقبیٰ کو پیچھے ڈال دیا ہے، صاف پانی چھوڑ دیا ہے اور گندا پانی پینے لگے ہیں۔ گویا میں ان کے فاسق کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ برائیوں میں رہا اتنا کہ انہی برائیوں سے اسے محبت ہو گئی اور ان سے مانوس ہوا اور ان سے اتفاق کرتا رہا۔ یہاں تک کہ (انہی برائیوں میں) اس کے سر کے بال سفید ہو گئے اور اسی رنگ میں اس کی طبیعت رنگ گئی۔ پھر یہ کہ وہ (منہ سے) کف دیتا ہوا متلاطم دریا کی طرح آگے بڑھا، بغیر اس کا کچھ خیال کئے کہ کس کو ڈبو رہا ہے اور بھوسے میں لگی ہوئی آگ کی طرح پھیلا، بغیر اس کی پروا کئے ہوئے کہ کون سی چیزیں جلا رہا ہے۔

اَیْنَ الْعُقُوْلُ الْمُسْتَصْبِحَةُ بِمَصَابِیْحِ الْهُدٰی، وَ الْاَبْصَارُ اللَّامِحَةُ اِلٰی مَنَارِ التَّقْوٰی! اَیْنَ الْقُلُوْبُ الَّتِیْ وُهِبَتْ لِلّٰهِ، وَ عُوْقِدَتْ عَلٰی طَاعَةِ اللهِ! ازْدَحَمُوْا عَلٰی الْحُطَامِ، وَ تَشَاحُّوْا عَلَی الْحَرَامِ، وَ رُفِعَ لَهُمْ عَلَمُ الْجَنَّةِ وَ النَّارِ، فَصَرَفُوْا عَنِ الْجَنَّةِ وُجُوْهَهُمْ، وَ اَقْبَلُوْۤا اِلَی النَّارِ بِاَعْمَالِهِمْ، دَعَاهُمْ رَبُّهُمْ فَنَفَرُوْا وَ وَلَّوْا، وَ دَعَاهُمُ الشَّیْطٰنُ فَاسْتَجَابُوْا وَ اَقْبَلُوْا!.

کہاں ہیں ہدایت کے چراغوں سے روشن ہونے والی عقلیں؟ اور کہاں ہیں تقویٰ کے روشن مینار کی طرف دیکھنے والی آنکھیں؟ اور کہاں ہیں اللہ کے ہو جانے والے قلوب اور اس کی اطاعت پر جم جانے والے دل؟ وہ تو مال دنیا پر ٹوٹ پڑے ہیں اور (مال) حرام پر جھگڑ رہے ہیں۔ ان کے سامنے جنت اور دوزخ کے جھنڈے بلند ہیں، لیکن انہوں نے جنت سے اپنے منہ موڑ لئے ہیں اور اپنے اعمال کی وجہ سے دوزخ کی طرف بڑھ نکلے ہیں۔ اللہ نے ان لوگوں کو بلایا تو یہ بھڑک اٹھے اور پیٹھ پھرا کر چل دیئے اور شیطان نے ان کو دعوت دی تو لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف لپک پڑے۔


اس سے ’’عبد الملک ابن مروان‘‘ مراد ہے کہ جس نے اپنے عامل حجاج ابن یوسف کے ذریعہ ظلم و سفاکی کی انتہا کر دی تھی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:34
عون نقوی

فِی الْاِسْتِسْقَآءِ

طلب باراں کے سلسلہ میں

اَلَا وَ اِنَّ الْاَرْضَ الَّتِیْ تَحْمِلُکُمْ، وَ السَّمَآءَ الَّتِیْ تُظِلُّکُمْ، مُطِیْعَتَانِ لِرَبِّکُمْ، وَ مَاۤ اَصْبَحَتَا تَجُوْدَانِ لَکُمْ بِبَرَکَتِهِمَا تَوَجُّعًا لَّکُمْ، وَ لَا زُلْفَةً اِلَیْکُمْ، وَ لَا لِخَیْرٍ تَرْجُوَانِهٖ مِنْکُمْ، وَ لٰکِنْ اُمِرَتَا بِمَنَافِعِکُمْ فَاَطَاعَتَا، وَ اُقِیْمَتَا عَلٰی حُدُوْدِ مَصَالِحِکُمْ فَقَامَتَا.

دیکھو یہ زمین جو تمہیں اٹھائے ہوئے ہے اور یہ آسمان جو تم پر سایہ گُستر ہے، دونوں تمہارے پروردگار کے زیر فرمان ہیں۔ یہ اپنی برکتوں سے اس لئے تمہیں مالا مال نہیں کرتے کہ ان کا دل تم پر کڑھتا ہے، یا تمہارا تقرب چاہتے ہیں، یا کسی بھلائی کے تم سے امیدوار ہیں، بلکہ یہ تو تمہاری منفعت رسانی پر مامور ہیں جسے بجا لاتے ہیں اور تمہاری مصلحتوں کی حدوں پر انہیں ٹھہرایا گیا ہے چنانچہ یہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔

اِنَّ اللهَ یَبْتَلِیْ عِبَادَهٗ عِنْدَ الْاَعْمَالِ السَّیِّئَةِ بِنَقْصِ الثَّمَرَاتِ، وَ حَبْسِ الْبَرَکَاتِ، وَ اِغْلَاقِ خَزَآئِنِ الْخَیْرَاتِ، لِیَتُوْبَ تَآئِبٌ، وَ یُقْلِعَ مُقْلِعٌ، وَ یَتَذَکَّرَ مُتَذَکِّرٌ، وَ یَزْدَجِرَ مُزْدَجِرٌ.

(البتہ) اللہ سبحانہ بندوں کو ان کی بد اعمالیوں کے وقت پھلوں کے کم کرنے، برکتوں کے روک لینے اور انعامات کے خزانوں کو بند کر دینے سے آزماتا ہے، تاکہ توبہ کرنے والا توبہ کرے، (انکار و سرکشی سے) باز آنے والا باز آ جائے، نصیحت و عبرت حاصل کرنے والا نصیحت و بصیرت حاصل کرے اور گناہوں سے رکنے والا رک جائے۔

وَ قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ سُبْحَانَهُ الْاِسْتِغْفَارَ سَبَبًا لِّدُرُوْرِ الرِّزْقِ وَ رَحْمَةِ الْخَلْقِ، فَقَالَ سُبْحَانَهٗ: ﴿اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ؕ اِنَّهٗ کَانَ غَفَّارًاۙ۝یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًاۙ۝ وَّ یُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ﴾. فَرَحِمَ اللهُ امْرَاًَ اسْتَقْبَلَ تَوْبَتَهٗ، وَ اسْتَقَالَ خَطِیْٓـئَتَهٗ، وَ بَادَرَ مَنِیَّتَهٗ!.

اللہ سبحانہ نے توبہ و استغفار کو روزی کے اترنے کا سبب اور خلق پر رحم کھانے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس کا ارشاد ہے کہ: ’’اپنے پروردگار سے توبہ و استغفار کرو، بلا شبہ وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہی تم پر موسلا دھار مینہ برساتا ہے اور مال و اولاد سے تمہیں سہارا دیتا ہے‘‘ ۔ خدا اس شخص پر رحم کرے جو توبہ کی طرف متوجہ ہو اور گناہوں سے ہاتھ اٹھائے اور موت سے پہلے نیک اعمال کر لے۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّا خَرَجْنَاۤ اِلَیْکَ مِنْ تَحْتِ الْاَسْتَارِ وَ الْاَکْنَانِ، وَ بَعْدَ عَجِیْجِ الْبَهَآئِمِ وَ الْوِلْدَانِ، رَاغِـبِیْنَ فِیْ رَحْمَتِکَ، وَ رَاجِیْنَ فَضْلَ نِعْمَتِکَ، وَخَآئِفِیْنَ مِنْ عَذَابِکَ وَنِقْمَتِکَ.

بار الٰہا! تیری رحمت کی خواہش کرتے ہوئے اور نعمتوں کی فراوانی چاہتے ہوئے اور تیرے عذاب و غضب سے ڈرتے ہوئے ہم پردوں اور گھروں کے گوشوں سے تیری طرف نکل کھڑے ہوئے ہیں، اس وقت جبکہ چوپائے چیخ رہے ہیں اور بچے چلا رہے ہیں۔

اَللّٰهُمَّ فَاسْقِنَا غَیْثَکَ، وَ لَا تَجْعَلْنَا مِنَ الْقَانِطِیْنَ، وَ لَا تُهْلِکْنَا بِالسِّنِیْنَ، وَ لَا تُؤَاخِذْنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَهَآءُ مِنَّا یَاۤ اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ.

خدایا! ہمیں بارش سے سیراب کر دے اور ہمیں مایوس نہ کر اور خشک سالی سے ہمیں ہلاک نہ ہونے دے اور ہم میں سے کچھ بے وقوفوں کے کرتوت پر ہمیں اپنی گرفت میں نہ لے، اے رحم کرنے والوں میں بہت رحم کرنے والے۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّا خَرَجْنَاۤ اِلَیْکَ نَشْکُوْۤ اِلَیْکَ مَا لَا یَخْفٰی عَلَیْکَ، حِیْنَ اَلْجَاَتْنَا الْمَضَآئِقُ الْوَعْرَةُ، وَ اَجَآءَتْنَا الْمَقَاحِطُ الْمُجْدِبَةُ، وَ اَعْیَتْنَا الْمَطَالِبُ الْمُتَعَسِّرَةُ، وَ تَلَاحَمَتْ عَلَیْنَا الْفِتَنُ الْمُسْتَصْعَبَةُ.

خدایا! جب ہمیں سخت تنگیوں نے مضطرب و بے چین کردیا اور قحط سالیوں نے بے بس بنا دیا اور شدید حاجتمندیوں نے لاچار بنا ڈالا اور منہ زور فتنوں کا ہم پر تانتا بندھ گیا تو ہم تیری طرف نکل پڑے ہیں گلہ لے کر اس کا جو تجھ سے پوشیدہ نہیں۔

اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ اَنْ لَّا تَرُدَّنَا خَآئِبـِیْنَ، وَ لَا تَقْلِبْنَا وَاجِمِیْنَ، وَ لَا تُخَاطِبْنَا بِذُنُوْبِنَا، وَ لَا تُقَایِسْنَا بِاَعْمَالِنَا.

اے اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہمیں محروم نہ پلٹا اور نہ اس طرح کہ ہم اپنے نفسوں پر پیچ و تاب کھا رہے ہوں اور ہمارے گناہوں کى بنا پر ہم سے (عتاب آمیز) خطاب نہ کر اور ہمارے کئے کے مطابق ہم سے سلوک نہ کر۔

اَللّٰهُمَّ انْشُرْ عَلَیْنَا غَیْثَکَ وَ بَرَکَتَکَ، وَ رِزْقَکَ وَ رَحْمَتَکَ، وَ اسْقِنَا سُقْیًا نَّافِعَةً مُّرْوِیَةً مُّعْشِبَةً، تُنْۢبِتُ بِهَا مَا قَدْ فَاتَ، وَ تُحْیِیْ بِهَا مَا قَدْ مَاتَ، نَافِعَةَ الْحَیَا، کَثِیْرَةَ الْمُجْتَنٰی، تُرْوِیْ بِهَا الْقِیْعَانَ، وَ تُسِیْلُ الْبُطْنَانَ، وَ تَسْتَوْرِقُ الْاَشْجَارَ، وَ تُرْخِصُ الْاَسْعَارَ، اِنَّکَ عَلٰی مَا تَشَآءُ قَدِیْرٌ.

خداوندا! تو ہم پر باران و برکت اور رزق و رحمت کا دامن پھیلا دے اور ایسی سیرابی سے ہمیں نہال کر دے جو فائدہ بخشنے والی اور سیراب کرنے والی اور گھاس پات اُگانے والی ہو کہ جس سے تو گئی گزری ہوئی (کھیتیوں میں پھر سے) روئیدگی لے آئے اور مردہ زمینوں میں حیات کی لہریں دوڑا دے۔ وہ ایسی سیرابی ہو کہ جس کی تر و تازگی (سر تاسر) فائدہ مند اور چنے ہوئے پھلوں کے انبار لئے ہو جس سے تو ہموار زمینوں کو جل تھل بنا دے اور ندی نالے بہا دے اور درختوں کو برگ و بار سے سر سبز کر دے اور نرخوں کو سستا کر دے۔ بلاشبہ تو جو چاہے اس پر قادر ہے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 15:31
عون نقوی