بصیرت اخبار

۳ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «غیبت» ثبت شده است

تدریس: استاد عابدینی

تحریر: عون نقوی

درس: ۳۲۶

 

 

روایتِ نُوَمہ

آج جس روایت کی شرح کر رہے ہیں اس کو «روایت نُوَمَہ» کہا جاتا ہے۔ امام صادقؑ امیرالمومنینؑ سے نقل کرتے ہیں جس میں امام فرماتے ہیں کہ روایت کو سمجھنا ہزار روایتوں کو نقل کرنے سے بہتر ہے۔ دین ہمیں ظواہر سے بواطن کی طرف عمق سے جانے کا حکم دیتا ہے۔

ہم اس روایت کے ایک ایک جملے کو پیش کریں گے اور اس میں دقت کرنے کی کوشش کریں گے۔

روایت میں وارد ہوا ہے:

خَبَرٌ تَدْرِیهِ خَیْرٌ مِنْ‏ عَشْرٍ تَرْوِیهِ.

ایک روایت کو سمجھنا، ایک ہزار روایت کو صرف نقل کرنے سے بہتر ہے۔(۱) 

دین میں کثرت معیار نہیں ہے بلکہ فہم اور شعور معیار ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ یہ مت دیکھو کہ فلاں شخص کتنی نمازیں پڑھتا ہے اور کتنی کثرت سے روزے رکھتا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ امانت دار ہے یا نہیں؟ وعدہ وفا کرتا ہے یا نہیں؟ ایک شخص کے بارے میں امامؑ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ وہ بہت نمازیں پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے۔ امامؑ نے فرمایا کہ اس کی عقل کیسے ہے؟ عقل سے کام لیتا ہے یا نہیں؟ ممکن ہے بعض افراد عمل کثیر انجام دیں، لیکن فہم اور بصیرت کے حصول کے لیے کوئی قدم نہ اٹھائیں۔ دین کی نظر میں زیادہ عبادات کرنے والوں سے وہ افراد بہت بہتر ہیں جو فہم و شعور حاصل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔

ہر حق کی ایک حقیقت 

إِنَّ لِکُلِّ حَقٍّ حَقِیقَةً.

امام فرماتے ہیں: ’’بے شک ہر حق کی ایک حقیقت ہے‘‘۔ حق خود بہت عظیم امر ہے لیکن اس حق کا ایک باطن اور درون ہے جو اس کے عمق میں چھپا ہے وہ اس حق سے بھی عظیم ہے۔ وہ اس سے لطیف تر ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر عمل کا ایک ظاہر ہوتا ہے اور ایک عمق۔ جس طرح ہر حادثہ کی ایک تعبیر اور تأویل ہوتی ہے۔ یا اس طرح سے بھی کہہ سکتے ہیں کہ عمل اور نیت کے مابین نیت اساس ہے۔ نیت ہر عمل کی حقیقت ہوتی ہے۔ یعنی صرف عمل کو نہ دیکھا جاۓ اگر اس کے پیچھے اس کی حقیقت جو کہ نیت ہے اگر وہ خالص ہے تو خود یہ عمل بھی مقبول ہے۔ روایت میں وارد ہوا ہے:

النیّة افضل من العمل.

نیت عمل سے افضل ہے۔(۲)

اگر عمل کی حقیقت کو دقت سے دیکھنا چاہیں تو اس کی نیت ہی در اصل اس کی حقیقت ہے۔ عمل ایک ظاہری حرکت ہے۔ اگرچہ اس ظاہری حرکت میں آداب، شریعت، طریقت اور اخلاق کو ملاحظہ کیا جاتا ہے اور ان کی پابندی سے ہی عمل میں حسن پیدا ہوتا ہے جو کہ حسن نیت کی علامت ہوتا ہے۔ اس عمل کے یہ سب آداب در اصل بدن ہیں اس روح (نیت) کے لیے۔ اگر بدن مریض ہو جاۓ روح بھی مریض ہو جاتی ہے۔ معلوم ہوا ہر حق کا ایک ظاہر ہے اور ایک حقیقت ہے جو اس کا باطن اور عمق ہے۔ اس لیے دینی دستورات میں بہت تاکید ہوئی ہے کہ نیت اور قربت کا خیال رکھا جاۓ کیونکہ یہی نیت اس عمل کی حقیقت ہے۔

عمل صالح نوری مقام پر پہنچنے کا ذریعہ

وَ لِکُلِّ صَوَابٍ نُوراً.

امام فرماتے ہیں کہ ہر درست عمل کے لیے ایک نور موجود ہے۔ باالفاظ دیگر ہر عمل صالح کا ایک مقام نوریہ ہے۔ انسان اگر کوئی عمل صالح انجام دیتا ہے تو اس کا مقصود خود عمل نہیں ہوتا بلکہ عمل صالح کی انجام دہی سے عبور کر کے مرتبہ عمل سے گزرنا ہے اور اس عمل کے مقام نوریہ تک پہنچنا ہے۔ اس عمل کو «عبور از حق بہ حقیقت» بھی کہہ سکتے ہیں۔ پس ہم جب بھی عمل صالح انجام دیں صرف مرتبہ عمل پر رک نہ جائیں، حقیقت عمل کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ورنہ محروم رہ جائیں گے۔ ہر عمل کو اس کی حقیقت اور نورانی مقام تک پہنچانا ضروری ہے۔ امام کا فرمانا کہ «لکل صواب نورا» اس کا مطلب یہ ہے کہ عمل نیت ساز ہوتا ہے۔ انسان جب نیت کر کے ایک عمل انجام دے کر اس نیت کو مرتبہ ظہور تک پہنچا دیتا ہے اس کی نیت میں تاکید لاتا ہے۔ لہذا اگر کوئی چاہتا ہے کہ اس کی نیت کی اصلاح ہو یا قوی ہو تو اسے چاہیے کہ کثرت سے عمل انجام دے۔ جن باتوں کو جانتا ہے ان پر عمل کرے تاکہ اسے بلند درجے کی نیت اور اس نیت پر عمل کرنے کی توفیق نصیب ہو۔ 

مومن کا زیرک اور تیز فہم ہونا

ثُمَّ قَالَ إِنَّا وَ اللَّهِ لَا نَعُدُّ الرَّجُلَ مِنْ شِیعَتِنَا فَقِیهاً حَتَّى یُلْحَنَ لَهُ فَیَعْرِفَ اللَّحْنَ.

امام فرماتے ہیں: ’’خدا کی قسم ہم اپنے شیعوں میں سے کسی کو اس وقت تک فقیہ نہیں مانتے جب تک اسے کوئی رمز کی بات نہ کہہ دی جاۓ اور وہ اس رمز کو سمجھ نہ لے‘‘۔

شیعہ عالم وہ ہے جو رمز و راز کی بات کو تیزی سے سمجھ لے۔ ایسا نہ ہو کہ اول سے آخر تک ساری بات کھول کر اسے سمجھانی پڑے۔ «العاقل یکفیه الاشاره» عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کیسے ظاہر سے باطن کی طرف عبور کے مراحل کو خوبصورتی سے بیان فرما رہے ہیں۔ شیعہ عالم وہ ہے جس کی اخذ کرنے کی قدرت زیادہ ہو، بسیط نہ ہو اور نہ ہی سادہ لوح ہو۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ آخری جملے تک بات کھل کر بیان کریں تو تب کہے کہ اب مجھے سمجھ آ گئی ہے۔ اتنا زیادہ ظواہر پر تکیہ کرنے والا نہ ہو۔ جو ظاہر معنی دے رہا ہو اسی کو لے لے، ہاں ہم مانتے ہیں کہ کلام کا ظاہر معتبر ہے لیکن ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ ساری بات بتاتے ہیں تب منتقل ہوتی ہے اور ایک دفعہ آپ صرف اشارہ کرتے ہیں تو اگلا مکمل طور پر متوجہ ہو جاتا ہے۔ سادہ لوح ہونا خوبی نہیں، ہاں پہلے مراحل میں انسان کے لیے اچھا ہے کہ مکمل طور پر عاجزی سے سیکھے لیکن آخر میں اسے بصیر اور زیرک ہونا چاہیے۔ ممکن ہے دوسرے اس کو سادہ لوح سمجھتے ہوں لیکن وہ خود تمام لوازمات کی طرف متوجہ ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں بھی لوگ یہی سوچتے تھے کہ نعوذ باللہ وہ سادہ لوح ہیں جو بات بھی ان کو کہہ دیں فورا باور کر لیتے ہیں۔ آیت نازل ہوئی:

وَمِنْهُمُ الَّذِینَ یُؤْذُونَ النَّبِیَّ وَیَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ۚ قُلْ أُذُنُ خَیْرٍ لَکُمْ.

اور ان (منافقین) میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نبی کو اذیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ کانوں کے کچے ہیں، کہدیجئے:وہ تمہاری بہتری کے لیے کان دے کر سنتا ہے۔ (۳)

سادہ لوح ہونا اور بات ہے بعض افراد سادہ لوحی کو اچھا سمجھتے ہیں، ان کے بقول انسان جتنا سادہ لوح ہو اتنا بہتر، دین اس کے برعکس کہتا ہے۔ درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے اخلاق کی وجہ سے سب کی بات سنتے لیکن ایسا نہ تھا کہ جیسا وہ منافقین سمجھتے تھے۔

إِنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ع قَالَ عَلَى مِنْبَرِ الْکُوفَةِ إِنَّ مِنْ وَرَائِکُمْ فِتَناً مُظْلِمَةً عَمْیَاءَ مُنْکَسِفَةً.

امیرالمومنین علیؑ منبر کوفہ پر براجمان تھے انہوں نے لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ عنقریب تم لوگوں پر ایسے فتنے آنے والے ہیں جو گمراہ کرنے والے، اندھا کر دینے والے ہیں، ان میں حق ایسا چھپ کر رہ جاۓ گا جیسے سورج گرہن کے وقت سورج کی روشنی کم پڑ جاتی ہے۔

لَا یَنْجُو مِنْهَا إِلَّا النُّوَمَةُ.

امام فرماتے ہیں ان فتنوں میں کسی کو نجات نہیں ملے گی مگر وہ شخص جو «نُوَمَہ» ہے۔

نومہ کون؟

قِیلَ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ وَ مَا النُّوَمَةُ قَالَ الَّذِی یَعْرِفُ النَّاسَ وَ لَا یَعْرِفُونَهُ.

امامؑ سے پوچھا گیا کہ نومہ کون ہے؟ امام نے فرمایا کہ نومہ وہ شخص ہے جو تمام حوادث اور اشخاص کو جانتا ہے اور بہت خوب جانتا ہے، ایسا نہیں کہ صرف نام کی حد تک جانتا ہو یا حوادث اور واقعات کی صرف خبر رکھتا ہے بلکہ لوگوں کی معرفت رکھتا ہے اور ہر واقعے کی اس کے پاس تحلیل  موجود ہے۔ اس دور کے تمام گروہ، انحرافی نظریات، صحیح اور بد کی مکمل اس کو شناخت ہے لیکن لوگ اس کو نہیں جانتے۔ ایسا نہیں کہ اس شخص کو انہوں نے دیکھا ہی نہیں یا اس کا نام نہیں جانتے بلکہ مراد یہ ہے کہ لوگوں میں اس حیثیت سے معروف نہیں۔ یہ خود اس طرح سے ان لوگوں میں رہتا ہے کہ لوگ اس کو ان جہات سے نہ جانیں۔ یہ شخص نومہ ہے۔ اس عصر میں کہ جس میں تاریک، اندھا کر دینے والے فتنے موجود ہیں یہ شخص جریان شناس ہے فقط یہی نجات حاصل کر پاۓ گا، معلوم ہوا کہ سادہ لوح ہونا، حالات حاضرہ سے ناواقف ہونا اچھی چیز نہیں۔ اس کی مثالیں ہمارے پاس متعدد ہیں۔ نا صرف عام عوامی افراد بلکہ بہت سے طلاب کرام کو ہم نے مختلف حادثات اور واقعات میں منحرفین کے گروہ میں پایا، قرآن کریم  میں وارد ہوا ہے:

کَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِیِّینَ مُبَشِّرِینَ وَ مُنْذِرِینَ وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیهِ إِلاَّ الَّذِینَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَیِّنَاتُ بَغْیاً بَیْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ وَ اللَّهُ یَهْدِی مَنْ یَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ.

لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے اور ان میں اختلاف بھی ان لوگوں نے کیا جنہیں کتاب دی گئی تھی حالانکہ ان کے پاس صریح نشانیاں آچکی تھیں، یہ صرف اس لیے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے، پس اللہ نے اپنے اذن سے ایمان لانے والوں کو اس امر حق کا راستہ دکھایا جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ (۴)

ایک اختلاف منابع کا اختلاف ہے جو انبیاء کرامؑ کے آنے سے قبل تھا اور ایک اختلاف انبیاء کرامؑ کے آنے کے بعد ہے، اختلاف صاحبانِ علم «بغیا بینہهم»۔

کتاب نازل ہوئی کہ پہلے اختلاف کو ختم کیا جاۓ، لیکن اسی کتاب میں ہی بعض نے اختلاف کرنا شروع کر دیا، جو خود منشأ تھا اختلاف ختم کرنے کا وہ خود اگلے اختلاف کا موضوع بن گیا۔ اگلا اختلاف کن لوگوں نے شروع کیا؟ کیا ان پر کوئی بات مبہم رہ گئی تھی؟ جی نہیں! بلکہ ان کے لیے سب کچھ روشن تھا لیکن یہ لوگ انحراف کا سبب بنے۔ اگر ہم میں سے کوئی جریان شناس نہ ہو، حالات سے واقف نہ رہتا ہو یہ انسان ان انحرافی نظریات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

وَ اعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لَا تَخْلُو مِنْ حُجَّةٍ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ.

امامؑ فرماتے ہیں کہ مومنین جان لیں زمین حجت الہی سے خالی نہیں ہو سکتی۔

غیبت کا حجاب ہماری طرف سے

وَ لَکِنَّ اللَّهَ سَیُعْمِی خَلْقَهُ عَنْهَا بِظُلْمِهِمْ وَ جَوْرِهِمْ(جَهلهمْ) وَ إِسْرَافِهِمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ.

لیکن الله تعالی اپنی مخلوق کو اس کے دیکھنے سے اندھا کر دے گا ان کے ظلم اور جور کی وجہ سے اور اس اسراف کی وجہ سے جو انہوں نے اپنی ذاتوں پر کیا۔ روایات کے یہ الفاظ بہت دقیق اور غور طلب ہیں۔ اللہ تعالی ان کو اندھا کر دے گا کا کیا مطلب؟ اس کا مطلب حجاب ہماری طرف سے ہے۔ وہ غائب نہیں بلکہ ہماری آنکھوں پر پٹی پڑی ہے۔ یہ حجاب یا تو انفرادی مسائل کی وجہ سے پڑا ہے یا اجتماعی مسائل کی وجہ سے۔ امام فرماتے ہیں کہ اگر یہ لوگ انفرادی زندگی یا اجتماعی مسائل میں عادل نہ رہے تو امام کو دیکھنے سے قاصر ہونگے۔ کیونکہ سنت الہی تو یہ ہے کہ حجت الہی زمین پر ہو اور کبھی بھی زمین اس سے خالی نہ ہو، لیکن یہ حجت ممکن ہے کبھی ظاہر ہو اور کبھی باطن۔ اس کا باطنی ہونا اس جہت سے ہے کہ امت اعتدال سے نکل کر «سیعمی» اندھے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ انسان کے لیے ہر ظلم و جور اور اسراف کا مرتبہ اس کے جہل اور اندھے ہونے کے ایک درجے کو بڑھا دیتا ہے۔ جتنا انسان مبتلا ہوتا جاۓ گا نابینا ہوتا چلا جاۓ گا۔ 

توبہ۔ حجت الہی کو دیکھنے کا ذریعہ

اس کے برعکس ہر ظلم و جور جو انسان نے خود پر کیا ہے یا اجتماعی زندگی میں انجام دیا ہے اگر توبہ کرتا ہے تو ہر توبہ کا مرتبہ اس کے لیے حجت الہی کی رؤیت کے مرتبے کو بڑھا دیتا ہے۔ قرآن کریم میں حضرت آدمؑ کے متعلق وارد ہوا ہے:

وَ قُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَ لَکُمْ فِی الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَ مَتَاعٌ إِلَى حِینٍ فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ کَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ. 

پس شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے پھسلا دیا، پھر جس (نعمت) میں وہ دونوں قیام پذیر تھے اس سے ان دونوں کو نکلوا دیا اور ہم نے کہا: (اب) تم ایک دوسرے کے دشمن بن کر نیچے اتر جاؤ اور ایک مدت تک زمین میں تمہارا قیام اور سامان زیست ہو گا۔ پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے تو اللہ نے آدم کی توبہ قبول کر لی، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔ (۵)

حب توبہ کی تو «هبوط» بھی متفاوت ہو گیا۔ وارد ہوا:

قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِیعاً فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِنِّی هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لاَ هُمْ یَحْزَنُونَ.

ہم نے کہا: تم سب یہاں سے نیچے اتر جاؤ، پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تم تک پہنچے تو جس جس نے میری ہدایت کی پیروی کی، پھر انہیں نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔ (۶)

جب توبہ ہوئی تو ہدایت بھی آ گئی۔ وہاں ہدایت پانے والے خود حجت تھے۔ آدمؑ کے لیے خود اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت آنا حجت تھا اور ہم لوگوں کے لیے انبیاء الہیؑ اور آئمہ معصومینؑ حجت ہیں۔ ہم جتنا اپنے اعمال سیئہ سے پشیمان ہوتے جائیں اتنا ہی حجت الہی کو دیکھنے کے مراتب کو زیادہ کر سکتے ہیں۔ 

روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

وَ لَوْ خَلَتِ الْأَرْضُ سَاعَةً وَاحِدَةً مِنْ حُجَّةٍ لِلَّهِ لَسَاخَتْ بِأَهْلِهَا.

اگر زمین حجت الہی سے ایک ساعت کے لیے بھی خالی ہو جاۓ تو زمین اپنے تمام اہالی کے ساتھ نابود ہو جاۓ گی۔ ان کلمات کے متعدد معانی کیے گئے ہیں۔ آیا زمین کا نابود ہو جانا اس معنی میں ہے کہ انسانی نظام حیوانی نظام میں تبدیل ہو جاۓ گا کیونکہ ہدایت کرنے والا موجود نہیں ہے۔ یا زمین نابود ہو جاۓ گی اس لیے کہ چونکہ امام تمام مخلوقات اور خالق کے مابین واسطہ فیض ہیں، اور اگر یہ واسطہ فیض نہ ہو تو زمین نابود ہو جاۓ گی؟

وَ لَکِنَّ الْحُجَّةَ یَعْرِفُ النَّاسَ وَ لَا یَعْرِفُونَهُ.

لیکن حجت لوگوں کو پہچانتی ہے، لوگ اس کو نہیں پہچانتے۔ جس طرح امام نے نُوَمَہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ لوگوں کو جانتے ہیں لیکن وہ لوگوں میں معروف نہیں اسی طرح حجت الہی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ لوگ اس کو بحیثیت حجت نہیں جانتے۔ ممکن ہے لوگ اس کو دیکھتے ہوں اس کو ایک اچھا آدمی سمجھتے ہوں لیکن ان کے حجت ہونے کی خبر نہیں رکھتے۔

کَمَا کَانَ یُوسُفُ یَعْرِفُ النَّاسَ وَ هُمْ لَهُ مُنْکِرُونَ.

جس طرح حضرت یوسفؑ کو لوگ عزیزِ مصر ہونے کی حیثیت سے جانتے تھے۔ لیکن کیا حضرت یوسفؑ کی حقیقت ان کا عزیزِ مصر ہونا تھا؟ ان کی حقیقت یہ نہ تھی بلکہ حقیقت میں وہ نبی اور رسول الہی تھے۔ زمین پر حجت تھے۔ لیکن لوگ ان کو بحیثیت حجت نہیں جانتے تھے۔ اس کا بہت اکرام اور احترام کرتے کیونکہ عزیز مصر تھے اور نیک و صالح بھی تھے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حجت کسی مسؤولیت کو قبول ہی نہ کرے اور کسی گوشہ کنار میں چھپ جاۓ، ممکن ہے میدان میں حاضر ہو لیکن لوگ اس کی حجت الہی ہونے کی حیثیت سے شناخت نہیں رکھتے۔ اس کے بعد امامؑ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

ثُمَّ تَلَا: یا حَسْرَةً عَلَى الْعِبادِ ما یَأْتِیهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا کانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُنَ.

ہائے افسوس! ان بندوں پر جن کے پاس جو بھی رسول آیا اس کے ساتھ انہوں نے تمسخر کیا۔ (۷)

لوگ چونکہ انبیاء کرامؑ کی شناخت نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کا تمسخر کرتے۔ ہمارا بھی امام غائب سے رابطہ اس نوع کا ہے۔ جیسا کہ روایت کے الفاظ ہیں کہ امام لوگوں کو جانتے ہیں لیکن لوگ ان کو نہیں جانتے۔ ہم ان کو بعنوان حجت نہیں جانتے اس لیے ان سے بہرہ مند بھی نہیں ہو پاتے۔ جس طرح حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے ان کو حجت الہی ہونے کی حیثیت سے نہ پہچانا اور ان کو صرف عزیزِ مصر سمجھتے رہے۔ ممکن ہے ہم بھی ان کو دیکھتے ہوں، ان سے ارتباط بھی قائم کیا ہو لیکن ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ وہ حجت ہیں۔ لہذا امام کا یہ فرمانا کہ ’’ہر حق کی ایک حقیقت ہے‘‘ بہت عمیق جملہ ہے۔ یا امام کا یہ فرمانا کہ ’’ہر درست عمل کے اوپر ایک نور موجود ہے‘‘ یہ اشارہ ہے کہ ہر صواب سے نور تک ہمیں پہنچنا ہے۔ کیونکہ حقیقی امام شناس اور حجت شناس وہ ہے جس کے لیے اشارہ بھی کافی ہو۔ جیسے ہی اس کو کسی طرف سے اشارہ ملتا ہے فورا منتقل ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی ظاہر کو دیکھتا ہے اس کے باطن تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن یہ قدرت انسان کو ایسے ہی نہیں مل جاتی بلکہ طہارت سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک مرحلہ اس کا علمی بصیرت پیدا کرنا ہے جو کہ ضروری ہے لیکن کافی نہیں بلکہ علم کے ساتھ باطنی طہارت کا حصول بھی ضروری ہے۔

دوران ظہور۔ خالص سازی کا محور

 ایک اہم نکتہ جو اس موضوع میں بہت اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ زمانہ ظہور میں خالص سازی کا محور اغیار ہیں، نا کہ خالصان۔ اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ خالص سازی خالصان کی ہوگی اس کا مطلب یہ ہے کہ خالص سازی کی اساس خالص افراد ہونگے۔ لیکن اگر ہم اس بات کے قائل ہو جائیں کہ اس خالص سازی سے اغیار جدا ہونگے اس کی اساس ناخالص افراد قرار پائیں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ خدا کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ کوئی بھی خود کو راہ ہدایت سے دور نہیں کرتا، شیطان کی نگاہ اس کے برعکس ہے۔ شیطان کی نگاہ یہ ہے کہ اصل خالصان کی جدائی میں ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں شیطان کا مؤقف اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے:

قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَأُغْوِیَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ إِلَّا عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِینَ.

کہنے لگا: مجھے تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو بہکا دوں گا۔ ان میں سے سواۓ تیرے خالص بندوں کے۔ (۸)

اللہ تعالی نے اس کے جواب میں فرمایا:

إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ.

 جو میرے بندے ہیں ان پر یقینا تیری بالادستی نہ ہو گی سوائے ان بہکے ہوئے لوگوں کے جو تیری پیروی کریں۔ (۹)

شیطان کی نظر میں اصل ہلاکت پر ہے۔ لیکن اللہ تعلی کی نظر میں اصل ہدایت پر ہے۔ زمانہ ظہور کی خالص سازی کے جریان میں بقیہ ہلاک نہیں ہونگے۔ ان میں جو نجات پائیں گے یہ سابقون ہونگے۔ باقی نچلے درجے کے طبقات میں رہ جائیں گے۔ ہلاک ہونے والے چند گروہ ہونگے جو جدا ہو جائیں گے۔ وارد ہوا ہے کہ مبطلون افراد خالص سازی کے بعد جدا ہو جائیں گے۔ اس قدر شدید حوادث پیش آئیں گے کہ منحرفین خود ہی مخلصین سے جدا ہو جائیں گے۔ 

نورانیتِ امام کا حصول

أَحْمَدُ بْنُ مِهْرَانَ عَنْ عَبْدِ الْعَظِیمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَسَنِیِّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَسْبَاطٍ وَ الْحَسَنِ بْنِ مَحْبُوبٍ عَنْ أَبِی أَیُّوبَ عَنْ أَبِی خَالِدٍ الْکَابُلِیِّ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا جَعْفَرٍ(ع) عَنْ‏ قَوْلِ‏ اللَّهِ‏ تَعَالَى‏– «فَآمِنُوا بِاللَّهِ‏ وَ رَسُولِهِ وَ النُّورِ الَّذِی أَنْزَلْنا» فَقَالَ یَا أَبَا خَالِدٍ النُّورُ وَ اللَّهِ الْأَئِمَّةُ ع یَا أَبَا خَالِدٍ لَنُورُ الْإِمَامِ فِی قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ أَنْوَرُ مِنَ الشَّمْسِ الْمُضِیئَةِ بِالنَّهَارِ. 

ابو خالد کابلی کہتے ہیں کہ میں نے امام باقرؑ سے اس قول تبارک و تعالی «فَآمِنُوا بِاللَّهِ‏ وَ رَسُولِهِ وَ النُّورِ الَّذِی أَنْزَلْنا» کی تفسیر معلوم کی۔ امام نے فرمایا اے ابا خالد! خدا کی قسم نور سے مراد آئمہ معصومینؑ ہیں۔ اے ابا خالد مومنین کے دل میں آئمہ کا نور دن میں چمکتے ہوۓ سورج کے نور سے زیادہ روشن ہوتا ہے۔(۱۰)

ہم میں سے کوئی ایسا ہے جو چمکتے سورج کے نور کو نہ دیکھ سکتا ہو؟ امام فرماتے ہیں کہ وجود امام کا نور سورج کے نور سے بھی قوی تر ہوتا ہے پھر ہماری آنکھیں اس نور کو کیوں نہیں دیکھ رہیں؟ شاید ہم «سیعمی» ہو گئے ہیں۔ انحرافات نے ہمیں اندھا کر دیا ہے۔ ورنہ اگر امام کی بات درست ہے جو کہ سو فیصد درست ہے تو ہمیں امام کا نور نظر آنا چاہیے تھا۔ اگر ابو ہارون مکفوف امام کو نابینائی کی حالت میں دیکھ سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام کا نور ساطع ہے، معلوم ہوتا ہے امام حقیقت میں قلوب میں رہتے ہیں۔ امام کی تبعیت انسان کے قلب میں ایک ربط ایجاد کر دیتی ہے اور جب یہ ربط بن جاتا ہے نور امام سورج کے نور سے بھی روشن تر دکھائی دیتا ہے۔ اسی روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

وَ هُمُ وَ اللَّهِ یُنَوِّرُونَ قُلُوبَ الْمُؤْمِنِینَ.

اور خدا کی قسم! وہ (آئمہ) مومنین کے قلوب کو منور کر دیتے ہیں۔

اگر ہم مومن ہیں تو یا تو یہ نور ہمارے اندر موجود ہے اور ہمیں اس کے ہونے کا علم نہیں۔ ہدایت کے نور کو اعمال اور اپنے قلوب میں پاتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہ نور امام ہے۔ یا کم از کم اس نور کا کمترین درجہ ہمارے قلوب میں موجود ہے لیکن اس کے بارے میں بھی علم نہیں رکھتے کہ یہ نور امام ہے۔ خود یہ بھی بہت بڑا خسارہ ہے۔ انسان کے اعمال صالح اس کے دل میں نور پیدا کرتے ہیں، دل میں نور کا ایجاد ہونا یعنی امام کا ہمارے دل میں وارد ہونا اگر انسان اس حالت کو درک کر لے تو یقینا منقلب ہو جاۓ گا۔ اس کی حالت یقینا متغیر ہو جاۓ گی اور احساس کرے گا کہ امام نے اس کے دل میں اپنے قدم مبارک رکھے ہیں۔ اس وقت انسان اس نور کی حفاظت کرے گا۔ اور یہی مطلوب ہے اگر انسان جان لے کہ ہرعمل صالح «یُنَوِّرُونَ قُلُوبَ اَلْمُؤْمِنِینَ» اس کے قلب کو نورانی کر دیتا ہے یہ احساس بہت لذت بخش ہے۔ مثلا کہا جاۓ کہ رہبر معظم آپ کے گھر تشریف لا رہے ہیں۔ انسان اپنے گھر کو صاف ستھرا کرے گا اور ہر میل کچیل سے اس کو پاک کرے گا۔ کیوں؟ کیونکہ ایک بہت ہی معزز ترین مہمان اس کے گھر آ رہا ہے۔ عمل صالح کا انجام دینا بھی یہی صورت رکھتا ہے۔

امام کا قلب مومن میں ورود

ہم اعمال انجام دیتے ہیں لیکن اس بات پر ایمان نہیں رکھتے کہ اس عمل سے امام ہمارے قلب میں داخل ہو گئے ہیں۔ عمل کو صرف اس کے عمل ہونے کی حد تک دیکھتے ہیں۔ اس لحن اور حقیقت تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے جو امام «لکل صواب نورا» اس جملے میں بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم ایک درست عمل انجام دیتے ہیں یعنی امام سے مرتبط ہو گئے ہیں۔ اور امام کا نور «یُنَوِّرُونَ قُلُوبَ اَلْمُؤْمِنِینَ» ایسا نور ہے جو مومنین کے قلوب کو منور کر دیتا ہے۔ لیکن ہم اسے نہیں دیکھتے۔ یہ نہ دیکھنا بہت بڑا خسارہ ہے۔ روز قیامت جب سب حضرت کی محضریت میں ہونگے اس وقت اس آیت مجیدہ کے مصداق بن جائیں گے۔

یَا حَسْرَتَا عَلَىٰ مَا فَرَّطْتُ فِی جَنْبِ اللَّهِ وَإِنْ کُنْتُ لَمِنَ السَّاخِرِینَ.

 افسوس ہے اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو مذاق اڑانے والوں میں سے تھا۔(۱۱)

ہم خدا کے پاس ہی محشور تھے لیکن جس کو نہ دیکھا وہ خود خدا ہی تھا۔ ہم خدا کے پاس تھے لیکن اس کو اپنے پاس قرار نہ دیا۔

هُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُم.

تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔(۱۲) اور یہ معیت امام کے وجود کے ساتھ اپنا معنی کامل کرتی ہے۔ پہلی روایت کو اگر اس روایت کے ساتھ ضمیمہ کیا جاۓ تو معلوم ہوتا ہے کہ قلب کو عمل صالح سے نورانی کیا جا سکتا ہے۔ امام اسی عمل صالح کی انجام دہی سے قلب میں وارد ہوتے ہیں۔ مطلب جب امام حکم دیتے ہیں اور ہم اس پر عمل کرتے ہیں تو امام تمامِ وجود کے ساتھ ہمارے قلب میں وارد ہو جاتے ہیں۔ ہم صرف عمل کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس لحن اور جملے کے عمق کو نہیں سمجھ رہے ہوتے، اگر ہماری آنکھیں کھل جائیں اور اس کو دیکھ لیں تو ہماری حالت متغیر ہو جاۓ گی۔ ساری عمر ہم نے نمازیں پڑھیں، روزے رکھے اور اعمال صالحہ انجام دیے، امام کے ساتھ محشور تھے ان کی معیت میں تھے لیکن ہم نہیں سمجھے اور ہمیشہ کہتے رہے کہ ہمارے امام کہاں ہیں؟ ہمارا یہ کہنا ہی ہمارے اندھے پن کا ثبوت ہے۔ کیونکہ امام تو غائب ہی نہیں ہیں۔ ایک اور روایت میں بھی اسی طرح سے وارد ہوا ہے کہ سب اعمال صالحہ جو ہم انجام دیتے ہیں ان کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم امام کے ساتھ محشور ہو جائیں۔ لیکن ہم ان سب اعمال صالحہ کو امام سے جدا دیکھتے ہیں۔ 

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ یہ قدرت، فہم و شعور اور ارتباط با امام ہمیں نصیب فرماۓ۔ اور یہ غیبت، فرج انفسی و شخصی میں تبدیل ہو جاۓ۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبۃ للنعمانی، ص۱۴۱۔

۲۔ الحویزی، عبد علی، تفسیر نور الثقلین، ج۳، ص۲۱۴۔

۳۔ توبہ: ۶۱۔

۴۔ بقرہ: ۲۱۳۔
۵۔ بقرہ: ۳۶،۳۷۔

۶۔ بقرہ: ۳۸۔

۷۔ یس: ۳۰۔

۸۔ ص: ۸۲،۸۳۔

۹۔ حجر: ۴۲۔

۱۰۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۱۹۵۔

 ۱۱۔ زمر: ۵۶۔

۱۲۔ حدید: ۴۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 March 22 ، 10:12
عون نقوی

زمانہ غیبت کی حقیقت

 

 

تدریس: حجت الاسلام والمسلمین آقای رضا عابدینی

تدوین: عون نقوی

درس: ۳۲۴

 

 

 

گزشتہ دروس میں عرض ہوا کہ زمانہ غیبت امت کے رُشد و ارتقاء کا زمانہ ہے۔ اس زمانے کے مومنین ایمان کے اعلی ترین درجات پر فائز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس زمانے کے مومنین کو دیکھنے کی حسرت کی۔ امیرالمومنینؑ اور امام صادقؑ سے بھی روایات وارد ہوئی ہیں جن میں ان دو بزرگوار نے زمانہ غیبت میں زندگی بسر کرنے والے مومنین سے دیدار کی خواہش ظاہر فرمائی اور ان کے بارے میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اگرچہ ہمیں ظاہری آنکھوں سے نہیں دیکھا بلکہ’’آمنو بسواد علی بیاض‘‘(۱)  ہیں اور ایک کاغذ کے نوشتے کے اوپر ہم پر ایمان لائیں گے۔

زمانہ غیبت میں مومنین اپنے زمانے کی حجت پر ایمان لانے کے لیے حواس ظاہرہ پر اکتفاء نہیں کرتے، بلکہ امام کو بغیر حِس کیے اور بغیر دیکھے نظام عقول کے تحت ایمان لاتے ہیں۔ یہ مومنین نظام تن سے عبور کرچکے ہیں اور قلبی ارتباط سے امام کے ساتھ منسلک ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ یہ دور بشریت کے عظیم ترین ادوار میں سے ہے۔ اس زمانہ میں عبادات کی مقبولیت بالاترین درجے پر ہوگی۔ اس لیے تکراری طور پر ذکر ہو رہا ہے کہ خود غیبت عقاب نہیں اور امت کی غفلت کی وجہ سے غیبت قرار نہیں دی گئی بلکہ غیبت اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ لیکن غیبت کا طولانی ہونا اللہ تعالی کی طرف سے نہیں اور اس میں امت قصور وار ہے۔ بہرحال غیبت اللہ تعالی کے اسرار میں سے ایک سِر ہے جس کی حقیقت ظہور کے بعد فاش ہوگی۔ روایات کے مضامین بتاتے ہیں کہ جب ظہور ہوگا اس وقت روشن ہوگا کہ یہ غیبت کتنا عظیم امر تھا۔ بعض روایات میں غیبت کی اجمالی طور پر حکمت بیان ہوئی ہے لیکن اس کی حقیقی حکمت صرف زمانہ ظہور میں روشن ہوگی۔ خداوند متعال کی مظہریت زمانہ حضور میں ’’اسم الظاہر‘‘، زمانہ غیبت میں ’’اسم الباطن‘‘ اور زمانہ ظہور میں ’’اسم الجامع بین الباطن و الظاہر‘‘ کی جہت سے ہمارے سامنے ظاہر ہوگی۔ ان اسماء الہی کا اقتدار بشریت کے لحاظ سے ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی کا ظاہر یا باطن نہیں۔ یہ ظاہر اور باطن امت کی جہت سے ہے۔ امت کے فقر اور احتیاج کی وجہ سے اللہ تعالی ظاہر اور باطن کی حیثیت اختیار کرتا ہے۔ ورنہ اس کے لیے کوئی شے مخفی نہیں۔ وہ ’’عالم الغیب و الشهادة‘‘ ہے۔ وہ واحد حقیقت ہے ’’هو الاول و الاخر و الظاهر و الباطن‘‘۔(۲) یہ نہیں کہا گیا کہ وہ دو جہات سے اول اور آخر ہے۔ بلکہ جو اول ہے وہی آخر بھی ہے۔ اور جو ظاہر ہے وہی باطن ہے۔

زمانہ غیبت۔اسم باطن کا دور

زمانہ غیبت میں اسم باطن کی سلطنت ہے۔ خدا کا خلیفہ جو امت کا امام ہے امت میں سے غائب ہے۔ لیکن باطنی طور پر امام اپنی امت میں موجود ہیں۔ اسم باطن کی اپنی مخصوص برکات اور نتائج ہیں جو الگ بحث ہے، اس کی اپنی اہمیت ہے۔ خوابوں کی تعبیر کے بارے میں بھی وارد ہوا ہے کہ خواب تأویل اور تعبیر رکھتے ہیں جس طرح ہر واقعے اور حادثے کی تعبیر اور تأویل ہے۔ زمانہ غیبت کی بھی تعبیر ہے۔ روایت میں آیا ہے: الناس نیام اذا ماتوا انتبهو. (۳) یہ دنیا اور اس کے تمام واقعات اور حادثات، اخروی زندگی کے مقابلے میں خواب ہیں۔ اس لیے انسان جب مرے گا تو خواب سے بیدار ہوگا اور سب حقیقت اس کے سامنے آ جائے گی۔ اسی طرح روایت میں آیا ہے کہ برزخ کے مراحل گزارنے کے بعد جب انسان قیامت کے لیے تیار ہوگا تو اسے قبر، منکر اور نکیر کے سوالات وغیرہ سب خواب لگیں گے۔ قیامت کی نسبت برزخ کا عالَم پھر خواب محسوس ہوگا۔ خواب کے احکام میں وارد ہوا ہے کہ خواب میں انسان کی صرف صورت موجود ہے اس کی حقیقت بعد میں تعبیر یا تاویل ہوگی۔ انسان جب اس دنیا میں خواب دیکھ رہا ہوتا ہے جب تک خواب کی حالت میں ہے اسے علم نہیں ہوتا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ بیدار ہے اور حقیقت دیکھ رہا ہے۔ انسان جب تک اس دنیا میں ہے اگر اسے برزخ کی نسبت سے دیکھیں تو وہ خواب دیکھ رہا ہے، اور جب برزخ میں ہوگا تو قیامت کی نسبت خواب میں ہوگا لیکن دنیا کی نسبت بیدار۔ ہر دور کی حقیقت اس سے اگلے آنے والے عالَم میں ظاہر ہوگی۔ ہم جو اعمال انجام دیتے ہیں ان سب کی حقیقت ہے جو آخرت میں مجسم ہو کر سامنے آ جاۓ گی۔ ایک گناہ جو ہم اس دنیا میں انجام دیتے ہیں ظاہری طور پر ایک جسمانی عمل انجام ہوا ہے، لیکن اس کی کیا حقیقت ہے اور کیا صورت ہے؟ وہ اس وقت دکھائی دے گی جب اس کام کی تعبیر اور تأویل دکھائی جاۓ گی۔ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے: 

اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡیَتٰمٰی ظُلۡمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِهِمْ نَارًا. 

جو لوگ نا حق یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس آگ بھرتے ہیں۔ (۴) انسان ہر عمل جو انجام دیتا ہے در اصل دانہ ہے جو اس نے کاشت کیا ہے اور اس کا پھل بعد میں آشکار ہوگا۔ ظاہری طور پر یتیم کا مال کھانے والا کیا کر رہا ہے؟ فرض کر لیں اس کے مال سے کوئی کھانا کھا رہا ہے لیکن اس کی حقیقت یہ نہیں جو نظر آ رہی ہے بلکہ وہ اپنے وجود میں آگ بھر رہا ہے۔ 

غیبت کی سنت

امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبْدُوسٍ الْعَطَّارُ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنِی‏ عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُتَیْبَةَ النَّیْسَابُورِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا حَمْدَانُ بْنُ سُلَیْمَانَ النَّیْسَابُورِیُّ قَالَ حَدَّثَنِی أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمَدَائِنِیُّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ الْهَاشِمِیِّ قَالَ سَمِعْتُ الصَّادِقَ جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ ع یَقُولُ‏ إِنَّ لِصَاحِبِ هَذَا الْأَمْرِ غَیْبَةً لَا بُدَّ مِنْهَا یَرْتَابُ فِیهَا کُلُّ مُبْطِلٍ فَقُلْتُ وَ لِمَ جُعِلْتُ فِدَاکَ قَالَ لِأَمْرٍ لَمْ یُؤْذَنْ لَنَا فِی کَشْفِهِ لَکُمْ‌ قُلْتُ فَمَا وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِی غَیْبَتِهِ قَالَ وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِی غَیْبَتِهِ وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِی غَیْبَاتِ مَنْ تَقَدَّمَهُ مِنْ حُجَجِ اللَّهِ تَعَالَى ذِکْرُهُ إِنَّ وَجْهَ الْحِکْمَةِ فِی ذَلِکَ لَا یَنْکَشِفُ إِلَّا بَعْدَ ظُهُورِهِ کَمَا لَمْ یَنْکَشِفْ وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِیمَا أَتَاهُ الْخَضِرُ ع مِنْ خَرْقِ السَّفِینَةِ وَ قَتْلِ الْغُلَامِ وَ إِقَامَةِ الْجِدَارِ لِمُوسَى ع إِلَى وَقْتِ افْتِرَاقِهِمَا یَا ابْنَ الْفَضْلِ إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى وَ سِرٌّ مِنْ سِرِّ اللَّهِ وَ غَیْبٌ مِنْ غَیْبِ اللَّهِ وَ مَتَى عَلِمْنَا أَنَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ حَکِیمٌ صَدَّقْنَا بِأَنَّ أَفْعَالَهُ کُلَّهَا حِکْمَةٌ وَ إِنْ کَانَ وَجْهُهَا غَیْرَ مُنْکَشِفٍ.

عبداللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادقؑ سے سنا کہ وہ فرما رہے تھے بے شک اس امر کے صاحب کے لیے غیبت حتمی ہے۔ اس غیبت میں ہر مُبطل (جو شخص خود باطل پر ہے اور باطل کو پھیلاتا ہے) شک میں پڑ جاۓ گا، میں نے کہا میں آپ پر فدا ہو جاؤں غیبت کس لیے قرار دی جاۓ گی؟ فرمایا اس امر کو  کشف کرنے کا ہمیں اذن نہیں۔ میں نے کہا اس غیبت میں کیا حکمت چھپی ہے؟ فرمایا: اس کی غیبت میں وہی حکمت چھپی ہے جو اس سے پہلے آنے والی اللہ تعالی کی حجتوں کی غیبت میں چھپی ہے۔ اس غیبت کی حکمت آشکار نہ ہوگی مگر اس کے ظہور کے بعد۔ جس طرح حضرت خضرؑ کا، کشتی کو خراب کرنا، لڑکے کو قتل کرنا، اور دیوار کو گرانے کی حکمت، اس وقت کشف ہوئی جب دونوں جدا ہوۓ۔ اے فضل کے بیٹے! یہ امر اللہ تعالی کے امور میں سے ہے، اللہ تعالی کے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اللہ تعالی کے غیوبات میں سے ایک غائب ہے اس لیے جب ہم نے جان لیا کہ اللہ تعالی حکیم ہے پس تصدیق کریں گے اس کے تمام افعال حکمت کے ساتھ ہیں اگرچہ اس امر کی صحیح وجہ ہم پر آشکار نہ ہو۔(۵)

زمانہ غیبت کو سمجھنے کے لیے اس روایت کے ایک ایک کلمے پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ابتداء میں امام فرماتے ہیں کہ صاحب امر کے لیے غیبت لازم ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اگر حضرات معصومینؑ مثلا امام حسن عسکریؑ کو ظاہری طور پر امت اپنا امام مان لیتی اور ان کو حاکمیت مل جاتی تب بھی غیبت ہونا تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ امام کو فقط اس وجہ سے غیبت حاصل ہوئی کہ امت نے ان کو اپنا امام نہ مانا اور ان کی ظاہری حکومت تک رسائی حاصل نہ ہو سکی۔ ہاں یہ غیبت کی ایک علت ہے لیکن علت تامہ نہیں۔ غیبت اللہ تعالی کی طرف سے ہے، لیکن اس غیبت کا طویل ہو جانا اللہ تعالی کی طرف سے نہیں جیسا کہ تکراری طور پر پہلے بھی عرض ہوا کہ غیبت کے طولانی ہونے میں امت قصور وار ہے۔ خود غیبت کی سنت گزشتہ انبیاء کرامؑ میں بھی جاری ہوئی۔

انبیاء کرامؑ کا غیبت میں جانا

اگر کتاب ’’کمال الدین‘‘ کی طرف رجوع کریں تو اس میں بہت سی روایات دیکھنے کو ملتی ہیں کہ بہت سے انبیاء کرامؑ کو غیبت حاصل ہوئی۔ حتی بعض انبیاء کرام کو ان کی حاکمیت کے دور میں غیبت حاصل ہوئی۔ سلیمان نبیؑ یا موسی کلیم اللہؑ کے بارے میں آیا ہے کہ ان کو غیبت اس دور میں حاصل ہوئی جب قدرت ان کے ہاتھوں میں تھی اور ان کی حاکمیت کا دور تھا۔ ایسا نہیں کہ حجتِ خدا کو غیبت صرف اس صورت میں حاصل ہوتی ہے جب اس کی محجوریت کا دور ہو، امت نے امام کو تنہا کر دیا ہو اور حجتِ خدا کے قتل کے خوف سے اسے غیبت عطا ہوئی ہو۔ غیبت اس لیے قرار دی جاتی ہے کہ امت ظاہر سے باطن کی طرف عبور کرے۔ بلکہ زمانے کی حدت کے لیے غیبت حاکمیت اور اقتدار کے دور میں زیادہ لازم ہو جاتی ہے۔ خود ’’صاحب هذا الامر‘‘ کے الفاظ بہت دقیق ہیں۔ امام فرماتے ہیں اگرچہ ہم سب اولی الامر ہیں لیکن اس امر کے ایک صاحب ایسے جن کو غیبت حاصل ہوگی حو حتمی ہے۔

ضلالت۔ ابتدائی یا جزائی

’’یَرْتَابُ فِیهَا کُلُّ مُبْطِلٍ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ زمانہ غیبت میں جس انسان کے وجود میں باطل ہوگا اور باطل کو پھیلاتا ہوگا وہ شک میں پڑ جاۓ گا۔ اس سے پہلے ایک روایت میں ہم نے پڑھا تھا کہ غیبت کی وجہ سے کوئی بھی شک میں مبتلا نہیں ہوگا۔ اس روایت میں آیا تھا کہ اگر اللہ تعالی کو علم ہوتا کہ غیبت کی وجہ سے کوئی ایک فرد بھی امرِ امامت میں شک میں پڑ جاۓ گا تو یہ غیبت کبھی بھی قرار نہ دی جاتی۔ ان دو روایات کو کیسے جمع کیا جا سکتا ہے۔ ایک روایت کہہ رہی ہے کہ غیبت سے کوئی شک میں نہیں پڑے گا اور دوسری روایت کہہ رہی ہے کہ ’’مبطل‘‘ شک میں پڑجاۓ گا؟ ان دو روایات کا جمع ممکن ہے۔ اللہ تعالی ابتدائی طور پر ضال نہیں ہے۔ ضلالت انسان کو اس کے اعمال کی جزاء کی صورت میں ملتی ہے، نا یہ کہ خدا کسی کو ابتدائی طور پر ضلالت میں ڈال دے۔ قرآن کریم میں جب ذکر ہوا:

یُضِلُّ مَنْ یَشَاءُ.(۶) اگر کسی انسان کو اس کے اعمال کی وجہ سے ضلالت حاصل ہو جاۓ تو اس کا باعث وہ خود ہے اور اس کے نتیجے میں فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا.(۷) بن جاتا ہے اور اس کے دل میں خدا مرض کو زیادہ کر دیتا ہے۔ یہ مرض خدا کی طرف سے نہیں تھی خود ان کے وجود کے اندر تھی اب ان کی ضلالت کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوتا رہے گا۔ پس ضلالت ابتدائی نہیں ہو سکتی، ہاں! ہدایت ابتدائی ہو سکتی ہے، نتیجتا ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیبت شک اور گمراہی کا باعث نہ بنے گی مگر یہ کہ خود کسی کے وجود میں پہلے سے شک اور گمراہی موجود ہو۔ وَ مَا یُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِینَ.(۸) صرف مبطل شک میں پڑے گا۔ مبطل مفسد کی مانند ہے۔ فاسد اور مفسد میں فرق ہے۔ فاسد وہ ہوتا ہے جو خود فساد میں ہے لیکن دوسروں کو فساد میں نہیں دھکیلتا۔ مفسد وہ ہوتا ہے جو خود تو فساد میں ہے دوسروں کو بھی فساد میں ڈالتا ہے۔

غیبت کی علت

روایت کے اگلے حصے میں راوی امامؑ سے غیبت کی علت کے بارے میں پوچھتا ہے: فَقُلْتُ وَ لِمَ جُعِلْتُ فِدَاکَ. اس کے جواب میں امام نے فرمایا کہ اس امر کو کھولنے کا ہمیں اذن نہیں۔ یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ امام نے غیبت کی علت کیوں بیان نہیں فرمائی؟ کیا یہ علت قابل بیان ہے؟ یا قابل بیان ہی نہیں؟ علت بیان کرنے کی تکوینی طور پر اجازت نہیں دی گئی یا اجازت تو ہے لیکن خود امام نہیں بیان کرتے۔ روایت کے تتمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ غیبت ایک ایسا امر ہے جس کی علت کو کشف کرنا امام کے لیے تکوینی طور پر مأذون نہیں۔ یعنی بیان کرنے کا امکان نہیں بلکہ ایک ایسا امر ہے جسے شہود کیا جاۓ تو سمجھ آتا ہے ذکر و بیان سے سمجھ نہیں آتا۔

غیبت کی حکمت

راوی نے جب دیکھا کہ امام نے غیبت کی علت نہیں بتائی تو پوچھا: قُلْتُ فَمَا وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِی غَیْبَتِهِ. اس غیبت کی حکمت کیا ہے؟ امام فرماتے ہیں: وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِی غَیْبَتِهِ وَجْهُ الْحِکْمَةِ  فِی غَیْبَاتِ مَنْ تَقَدَّمَهُ مِنْ حُجَجِ اللَّهِ تَعَالَى ذِکْرُهُ. تمام گزشتہ امتوں نے زمانہ غیبت کو گزارا۔ اللہ تعالی نے تمام امتوں کے لیے یہ کمال قرار دیا ہے۔ ہر امت کے لیے غیبت اور ظہور قرار دیا گیا، ظہور کے بعد اس حکمت کو امت نے سمجھا۔ لہذا امام زمانؑ کی غیبت جو گزشتہ تمام انبیاء، و اوصیاء کی غیبت کی اتم اور اکمل شکل ہے، اس کی حکمت بھی ظہور کے بعد آشکار ہوگی۔ یہ ایک عینی حقیقت ہے۔ اس کو بیان کرنے کا امکان نہیں۔ باالفاظ دیگر غیبت کی حقیقت نظری نہیں بلکہ حسی ہے اس کو آنکھوں سے دیکھیں گے تو تب سمجھ آ سکتی ہے۔ جیسا کہ روح کے بارے میں فرمایا:

وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّ.(۹) اللہ تعالی نے روح کے متعلق سوال پر فرمایا کہ اس کا امر میری طرف سے ہے۔ یعنی عالَم امر میں سے ہے۔ یہاں پر ایسا نہیں کہ روح کے متعلق سوال کو بنا جواب دیے چھوڑ دیا بلکہ یہی جواب ہے۔ غیبت اور اس کی حکمت کے متعلق سوال بھی اسی سنخ کا ہے۔ اور یہ حقائق عینیہ سے تعلق رکھتا ہے جب تک آنکھوں سے دیکھ نہ لیں حقیقت آشکار نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک امر کی ایک جزء بیان کر دی جاۓ ممکن ہوتا ہے وہ شے معلوم ہو جاۓ لیکن بعض امور ایسے ہیں جب تک ان کی آخری فصل ان سے ملحق نہ ہو جاۓ وہ شے معلوم نہیں ہو سکتی۔ غیبت کی آخری فصل جو کہ ظہور ہے، جب تک وہ اس کے ساتھ ملحق نہیں ہو جاتی تب تک اس کی علت آشکار نہیں ہو سکتی۔ لہذا ایسا نہیں تھا کہ امام فرمانا چاہتے ہوں کہ اس کی حقیقت کو میں بیان نہیں کرتا کہ تم نافہم ہو اور نہیں درک کر سکتے۔ غیبت کی حکمت اصلاََ بیان ہونے والی شے نہیں بلکہ حقیقت عینیہ ہے جسے صرف دیکھ کر سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی حد اکثر بیان میں آنے والی مقدار یہی ہے جو امام نے بیان فرما دی اس سے زیادہ مقدار قابل بیان نہیں۔

حضرت موسیؑ اور حضرت خضرؑ کے واقعے سے تشبیہ

کَمَا لَمْ یَنْکَشِفْ وَجْهُ الْحِکْمَةِ فِیمَا أَتَاهُ الْخَضِرُ ع مِنْ خَرْقِ السَّفِینَةِ وَ قَتْلِ الْغُلَامِ وَ إِقَامَةِ الْجِدَارِ لِمُوسَى ع إِلَى وَقْتِ افْتِرَاقِهِمَا.

روایت کے اگلے حصے میں امامؑ نے غیبت اور ظہور کے جریان کو حضرت موسیؑ اور حضرت خضرؑ کے اس واقعے سے تشبیہ دی جس میں حضرت موسیؑ نے حضرت خضرؑ کے تین کاموں پر اعتراض کیا۔ حضرت خضرؑ کا کشتی کو سوراخ کرنا، بچے کو قتل کرنا اور دیوار تعمیر کرنا اگرچہ ظاہری طور پر نظام تشریعی میں ایک قبیح عمل تھا لیکن ان تین کاموں کے پیچھے ایک حقیقت چھپی تھی، ایک تعبیر اور تأویل چھپی تھی جو دونوں کے درمیان جدائی کے وقت آشکار ہوئی۔ حضرت خضرؑ نے اپنے تینوں کاموں کی وجہ بیان کی اور حضرت موسیؑ قانع ہو گئے۔ غیبت کی حکمت بھی اس وقت آشکار ہوگی جب ظہور ہوگا اور سب پر واضح ہو جاۓ گا کہ غیبت نے لوگوں کے ساتھ کیا کام کیا ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جب ظہور ہوگا تو حضرت تشریف لائیں گے اور ظاہری طور پر حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے جو ان کا حق ہے اور اس سے پہلے ان کے آباء کو نہ مل سکا۔ جی نہیں! فقط اتنا نہیں۔ بلکہ اس عالَم کو اپنی غایت اور انتہا تک پہنچانا ہے۔ روایات میں آیا ہے کہ اللہ تعالی کے ارادات، غایات اور نہایات ہیں۔ ان سب غایات اور نہایات تک پہنچنا ہے اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ ان سب ارادوں کو پورا کرے اور یہ سب ظہور کے وقت پورا ہونگے۔

غیبت۔ سِر اور امر کا دور

روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

یَا ابْنَ الْفَضْلِ إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ أَمْرٌ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ تَعَالَى.

یہ موضوع عالَم امر سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ دور اسم باطن کا دور ہے۔ جس طرح سے روح کے بارے میں فرمایا کہ وہ نظام امر سے ہے۔ روایات میں مختلف عوالم کے بارے میں وارد ہوا ہے مثلا ان میں سے ایک عالَم خلق ہے اور دوسرا عالَم امر۔

وَ سِرٌّ مِنْ سِرِّ اللَّهِ وَ غَیْبٌ مِنْ غَیْبِ اللَّهِ.

امام نے دوران غیبت کو دوران غیب قرار دیا ہے۔ یہ بہت دقیق اور غور طلب الفاظ ہیں۔ سِر اور امر کا دور ہے۔ ہم جانتے ہیں اگر سِر بیان ہو جاۓ وہ سِر نہیں رہتا، یا امر اگر بیان ہو جاۓ وہ امر نہیں۔ غیب اگر بیان ہو جاۓ وہ غیب نہیں کہلاتا۔ ان کو بیان نہیں کیا جا سکتا، اگر بیان کر دیا تو ظاہر ہو جاۓ گا جبکہ یہ سب امور انسان کے درون میں مشہود ہونے والے ہیں۔ جب کہا گیا ہے کہ دوران غیبت کی حقیقت غیب، سر اور امر ہے۔ فقط دوران ظہور آشکار ہوگی اس لیے کہ ظہور کا دور اسم جامع کا مظہر ہے۔ اس وقت غیب ظاہر ہو جاۓ گا، صرف مفہومی صورت میں ظاہر نہ ہوگا بلکہ شہودی علم کی صورت میں آشکار ہو جاۓ گا۔

ظہور امام کے وقت لوگوں کو حصولی طور پر نہیں بلکہ شہودی طور پر علم حاصل ہو جاۓ گا اور اس حقیقت کو دیکھیں گے۔ لہذا اس دور کو بیان نہیں کیا جا سکتا بلکہ جب اس دور کو پہنچیں گے تو علم حاصل ہو جاۓ گا۔ ان مطالب کے آگے ہم ایک گونگے بہرے انسان کی مانند ہیں جو بول سکتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں۔ ایسے حقائق ان کے سامنے رکھ دیے گئے ہیں جن کے بارے میں امام فرماتے ہیں کہ ان کو کشف کرنے کی ان کو اجازت نہیں۔ لیکن ہم ان حقائق کو ہاتھ پیر مار کر کھولنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں اور جتنی کوشش کرتے ہیں حقیقت سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ اگر ہم اتنی مقدار میں سمجھ لیں کہ غیبت کی حقیقت بیان کرنے کی سنخ سے نہیں، مفاہیم اور ظاہر کی سنخ سے نہیں بلکہ غیب کی سنخ سے ہے تو اتنا کافی ہے۔ لذا وارد ہوا ہے کہ ’’یومنون بالغیب‘‘ کے مصادیق میں سے ایک مصداق یہی غیبت امام زمان پر ایمان لانا ہے۔

غیب کے مراتب

ہمارے پاس غیب کے مراتب موجود ہیں۔ ایک دفعہ از لحاظِ بدن غیبت ہے۔ اور ایک دفعہ غیبت از لحاظ نظامِ روح ہے۔ نظامِ روح، نظامِ عالم امر یا نظام عالمِ غیب ہے۔ اس کو نظام عالَم سِر بھی کہہ سکتے ہیں۔ نظام روح ہمارے لیے جو کہ عالمِ بدن اور عالمِ محسوس میں موجود ہیں وہ عالَم ہمارے لیے غائب اور باطن ہے۔ لیکن اگر کسی کا نظام روح پر تسلط حاصل ہے اس کے لیے غیبت کا دور نظامِ غیب قرار نہیں پاۓ گا با الفاظ دیگر اس کے لیے امام غیبت میں بھی آشکار ہونگے۔ امیرالمومنینؑ اور بقیہ آئمہ معصومینؑ عام لوگوں کے لیے دوران اسم ظاہر میں موجود تھے۔ ہاں کچھ خواص کے لیے اور اصحاب سِر کے لیے اسرار بیان کرتے اور غیب کو ان کے لیے آشکار کرتے۔ لیکن زمانہ غیبت میں یہی خواص عمومیت حاصل کر لیں گے، سب مخاطب اس مرتبہ کو پہنچ جائیں گے جو امام علیؑ کے دور میں صرف چند خواص کو حاصل تھا۔ اس لیے ہم نے گزشتہ دروس میں بھی عرض کیا کہ امام زمانؑ بقیہ آئمہ معصومینؑ کی نسبت زیادہ فعال تر ہیں۔ آئمہ معصومینؑ کے دور میں عام افراد امام سے جسمانی ارتباط برقرار کرتے لیکن امام زمانؑ سے لوگوں کا ارتباط جسمانی نہیں بلکہ نظام روح سے سب کا ارتباط ہے۔ سب سورج کے نور کو محسوس کر رہے ہیں اور محضر میں ہیں، اس طرح سے نہیں کہ سورج کی ٹکیہ ابھی فلاں جگہ پر ہے تو اسی سے نور ہم تک پہنچ رہا ہے بلکہ سورج کی ٹکیہ ظاہری طور پر غائب ہے لیکن پھر بھی اس کا نور سب تک پہنچ رہا ہے۔ سروج کی ٹکیہ نظر نہیں آ رہی ایسا نہیں کہ خود سورج بھی چلا گیا ہو۔ ظہور کے زمانے میں بدن بھی ہوگا اور نظام روح بھی لیکن بدن روح کے نظام کے تابع ہوگا۔

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ صدوقؒ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۱، ص۲۸۸۔

۲۔ حدید: ۳۔

۳۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۴، ص۴۳۔ 

۴۔ نساء: ۱۰۔

۵۔ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲، ص۴۸۲۔

۶۔ رعد: ۲۷۔

۷۔ بقرہ: ۱۰۔

۸۔ بقرہ: ۲۶۔

۹۔ اسراء: ۸۵۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 February 22 ، 11:39
عون نقوی

غیبت امام زمانؑ محرومیت کا نہیں، رشد کا زمانہ ہے

تدریس: استاد عابدینی

تحریر: عون نقوی

درس: ۳۲۱

 

مقدمہ

اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں جس نے ہمیں روایات آئمہ اطہارؑ کو پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ مرحوم کلینیؒ کی کتاب الکافی سے غیبت امام زمانؑ کے موضوع پر ہم پہنچے ہیں۔ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس باب (نادر فی حال الغیبۃ) میں بیان کردہ روایات میں دقیق طور پر غور و فکر کرنے توفیق عطا کرے۔ اس باب میں کوشش کریں گے اس باب سے مربوط دیگر روایات کو بھی ملائیں تاکہ ایک جامع و کامل تحفہ مہدویت کے باب میں حاصل ہو جسے ہم عملی زندگی میں بھی اپنے لیے نمونہ قرار دے سکیں۔

باب نادر فی حال الغیبۃ

پہلی روایت

۱- عَلِیُّ بْنُ إِبْرَاهِیمَ عَنْ أَبِیهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ وَ مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَى عَنْ أَبِیهِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ:

أَقْرَبُ مَا یَکُونُ الْعِبَادُ مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ وَ أَرْضَى مَا یَکُونُ عَنْهُمْ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّةَ اللَّهِ جَلَّ وَ عَزَّ وَ لَمْ یَظْهَرْ لَهُمْ وَ لَمْ یَعْلَمُوا مَکَانَهُ وَ هُمْ فِی ذَلِکَ یَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَمْ تَبْطُلْ حُجَّةُ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ وَ لَا مِیثَاقُهُ فَعِنْدَهَا فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ صَبَاحاً وَ مَسَاءً فَإِنَّ أَشَدَّ مَا یَکُونُ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى أَعْدَائِه إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّتَهُ وَ لَمْ یَظْهَرْ لَهُمْ. 

امام جعفر صادقؑ نے فرمایا بندوں کا خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہونا اور راضی ہونا اس حالت میں ہے جب وہ حجت خدا کو غائب پائیں۔ اور حجت ان پر ظاہر نہ ہوں اور ان کے جاۓ قیام کو نہ جانیں۔ اور اس کا علم رکھیں کہ حجت خدا سے زمانہ خالی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا عہد باطل ہوتا ہے جو بندوں پر ہوتا ہے۔ ان کو چاہیے کہ ہر صبح و شام ظہور حضرت حجتؑ کی توقع رکھیں۔ بے شک اللہ تعالی کے دشمنوں پر شدید ترین لمحہ وہ ہے جب حجت خدا ان سے غائب ہے اور ان کے لیے آشکار نہیں۔(۱)

غیبت۔ رشد کا زمانہ

اس روایت میں بہت سے معارف موجود ہیں۔ اس روایت میں پہلا مطلب جو بہت اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت میں غیبت کے دور کو بشریت کے لیے سزا کا دور قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ اس روایت کے مطابق غیبت بشریت کی پاداش کا دور ہے۔ عموما سمجھا جاتا ہے اور جیسا کہ چند روایات میں بھی یہ ذکر ہوا ہے کہ لوگوں نے امام کی قدر نہ کی، امام کی جان کو خطرہ تھا اور دیگر وجوہات کی بنا پر امت سے ان کے امام کو غائب کر دیا گیا۔ لذا غیبت سزا ہے۔ درست ہے کہ ہمارے پاس اس مضمون پر روایات وارد ہوئی ہیں لیکن جیسا کہ اس روایت کو ہم دیکھتے ہیں اور اس طرح کی دیگر چند روایات اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں کہ غیبت کا زمانہ بشریت کے رشد اور ارتقاء کا زمانہ ہے۔ مثلا رسول اللہ ﷺ، امیرالمومنینؑ اور امام باقرؑ سے نقل ہوا ہے جس میں فرماتے ہیں:

’’ان افراد سے دیدار کا بہت مشتاق ہوں جو اس زمانہ میں زندگی کر رہے ہیں کہ أمنوا بسواد علی بیاض ایک نوشتے پر ایمان لے آتے ہیں۔ ان افراد نے حجت کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن ان کی عقول اس مرتبے تک رشد اور ارتقاء حاصل کر چکی ہیں کہ خداوند متعال بھی ان سے ان کے عقلی رشد کے مطابق پیش آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیبت کے زمانے سے پہلے بشریت کی عقول اس مرحلے کے رشد تک نہیں پہنچی تھیں کہ ان میں سے حجت کو غائب کر دیا جاتا، اور ضروری تھا کہ حجت ان کے اندر اسی ظاہری جسمانی وجود کے ساتھ موجود ہو۔ لیکن غیبت کے زمانے کے لوگ اپنے زمانے کے امام پر یقین رکھتے ہوں گے اور ان سے میثاق باندھیں گے جب کہ ان کے درمیان ظاہری طور پر امام موجود نہ ہوگا۔ امام کے وجود کو ان کی فعالیت، ہستی اور نقش سے دیکھیں گے اگرچہ ظاہری طور پر آنکھوں سے دیکھنے سے قاصر ہوں گے۔ ان کی عقول اس مرتبے تک پہنچ چکی ہوں گی کہ وہ غائب امام پر ویسے ہی ایمان لے آئیں گے جیسے ظہور کے زمانے میں افراد ظاہری حجت پر ایمان لے آتے ہیں۔

ظاہر سے باطن تک عبور

اگر غیبت کے زمانے کو بہتر تعبیر کے ساتھ بیان کرنا چاہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک زمانہ ’’اسم الظاہر‘‘ کا مصداق ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرات معصومینؑ ظاہری طور پر لوگوں کے درمیان موجود تھے۔ اور ایک زمانہ ’’اسم الباطن‘‘ کا مصداق ہے جو غیبت کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں حجت ظاہر نہیں لیکن لوگوں کی عقول اس مرتبے تک پہنچ چکی ہیں کہ حجت سے ارتباط برقرار کر سکتے ہیں۔ اور ایک وہ زمانہ ہے کہ جسے ’’اسم جامع ظاہر و باطن‘‘ کہا جا سکتا ہے یہ ظہور کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں ’’اسم ظاہر‘‘ اپنے اوج کو دیکھے گا اور ’’اسم باطن‘‘ کا بھی اوج اور عروج ہوگا۔ غیبت اس میں وہ زمانہ ہے جب بشریت نے اسم ظاہر سے اسم باطن تک کے زمانے کو عبور کرنا ہے۔ عقول کو ظاہر اور محسوس چیزوں سے رشد دے کر اس مرحلے تک پہنچانا ہے کہ باطنی اور معنوی چیزوں پر ایمان لے آئیں۔

محق و تمحیص

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

وَ لِیُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذینَ آمَنُوا وَ یَمْحَقَ الْکافِرینَ.

نیز اللہ ایمان والوں کو چھانٹنا اور کافروں کو نابود کرنا چاہتا ہے۔(۲)

’’تمحیص‘‘ قرآنی اصطلاح ہے۔ جس کے معنی چھانٹنے یا خالص کرنے کے ہیں۔ اگر کسی شے میں خالص اور ناخالص مواد موجود ہو تو اسے چھانٹ کر خالص سے ناخالص کو جدا کر دینا تمحیص کہلاتا ہے۔ مومنین کو تمحیص ہونا ہے اور برائیوں سے دور ہونا ہے۔ تمحیص یعنی خالص سازی۔ یہ اللہ تعالی کی سنت ہے۔ حضرت آدمؑ کے دور سے ہی بشریت اس تکامل کی طرف حرکت کر رہی ہے۔ اس کی مثال انسان کی زندگی کی سی ہے۔ انسان کا ایک بچپن ہے جس میں اس کو زیادہ سوجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ بچپن سے لڑکپن کا دور اور بالغ ہونے کے بعد ایک حد تک انسان سمجھدار ہو جاتا ہے اور اچھے برے کی تمیز سیکھتا ہے۔ اور ایک دور انسان کا وہ ہے جس میں اسے عقلی پختگی حاصل ہوتی ہے۔ یہ عقلی پختگی ۳۰ سے ۴۰ سال کی عمر میں ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس عقلی پختگی کے حصول کے زمانے کو اصطلاح میں ’’اشُد‘‘ کہتے ہیں۔ بشریت بھی اسی تکامل کی سیر کو طے کر رہی ہے۔ بشریت کا ایک بچپن کا دور تھا، ایک تمیز حاصل کرنے کا دور گزرا اور پھر بشریت کے بلوغ کا دور ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت آدمؑ سے حضرت خاتمﷺ تک بشریت حد بلوغ تک پہنچ گئی۔ حضرت خاتمﷺ سے ظہور تک کا دور بشریت کے اشد کا دور یعنی پختہ تر ہونے کا دور ہے۔ حضرت خاتمﷺ کے دور کو اس لیے بشریت کے بلوغ کا دور کہا جا سکتا ہے کہ اس دور تک بشریت اس انتہائی کمال تک پہنچ جکی تھی کہ انہیں اس حقیقت عظمی ختم نبوت اور پھر ان کے بعد وصایت کے سلسلے سے تمحیص کیا گیا۔ لیکن وہ دور کہ جب بشریت اپنے تمام مراتب کے ساتھ شعور اور خالص سازی کے مراحل کو طے کر کے عروج کو پہنچے گی، وہ ظہور کا زمانہ ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیبت سے ظہور تک کا زمانہ بشریت کے لیے بلوغ حاصل کر لینے کے بعد ’’اشُد‘‘ کا زمانہ ہے۔

حضرات معصومینؑ کے زمانے میں یہ تمام حضرات لوگوں کے اندر موجود تھے اور اپنے حضور سے ان کے رشد کا باعث بنتے۔ اور لوگ بھی اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ امام زندہ ہیں اور ہمارے پاس اپنے جسمانی وجود کے ساتھ موجود ہیں۔ افراد بھی ان کے ساتھ ارتباط برقرار کرتے۔ یہ دور بھی بشریت کے ایک تکامل کا دور تھا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اور ان کے بعد آنے والی تمام حجتوں نے امت کو غیبت کے دور کے لیے آمادہ کیا۔ بشریت کو اگلے مرتبے کے رشد کے حصول کے لیے تیار کیا۔ ہم آئمہ معصومینؑ کی زندگی میں یہ بات بہت دیکھتے ہیں کہ انہوں نے امت کو غیبت اور اس کے بعد ظہور کے جریان سے بارہا آگاہ کیا۔ لذا اس سے بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ غیبت صرف اس لیے نہیں تھی کہ بشریت کو سزا دی جاۓ۔ بلکہ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ اگر حتی امام جوادؑ، امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کو ظاہری خلافت مل جاتی اور لوگ ان کو اپنا حاکم مان لیتے تب بھی غیبت لازمی ہونا تھی۔ اس طرح سے نہیں کہ چونکہ امام کو حاکمیت حاصل نہیں ہو سکی تو غیبت محقق ہو گئی۔

اصلِ غیبت اور طول غیبت

اگر خود غیبت کو دیکھیں تو یہ اللہ تعالی کی جانب سے ہے۔ غیبت اللہ تعالی کے اسرار میں سے ہے اور یہ راز تب کھلے گا جب ظہور ہوگا۔ غیبت کو محقق ہونا ہی تھا۔ لیکن غیبت کے طولانی ہونے میں بشریت کا نقص ہے۔ غیبت کے عرصے کا لمبا ہو جانا عقاب ہے، سزا ہے۔ کیا اس بات پر ہمارے پاس کوئی دلیل ہے کہ خود غیبت بشریت کے لیے سزا نہیں ہے؟ اور صرف غیبت کے دور کے لمبا ہو جانے میں بشریت قصور وار ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں شیخ صدوقؒ کی کتاب ’’کمال الدین‘‘ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس کتاب میں ہم روایات دیکھتے ہیں کہ تمام انبیاء کرام کے لیے اللہ تعالی نے غیبت قرار دی۔ اور امامؑ کی غیبت کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ ان کی غیبت کی مدت، تمام انبیاء کرامؑ کی غیبت کی مدت، اور وہ تمام اغراض و مقاصد جو ان کی غیبتوں میں موجود تھے وہ سب موارد امامؑ کی غیبت میں پیش آئیں گے۔ انبیاء کرام کی غیبتیں بھی مختلف لحاظ سے تھیں۔ مثلا کبھی خود نبیؑ کی جہت سے، کبھی امت اور کبھی مومنین اور کفار دونوں کی جہت سے جس پر بحث ہونا ضروری ہے۔ حضرت موسیؑ کے بارے میں آیا ہے کہ وہ میقات تشریف لے گئے۔ وہاں ۴۰ دن غیبت اختیار فرمائی۔ حضرت موسیؑ کے بارے میں ایک سے زیادہ بار غیبت کا وارد ہوا ہے۔ میقات پر جا کر غیبت حاصل کرنا خود حضرت موسیؑ کے لیے بھی رشد تھا اور ان کی امت کے لیے بھی ایک آزمائش۔ اسی غیبت کے نتیجے میں ان کی قوم گوسالہ پرست ہو گئی۔ یہ سب بشریت کے تکامل کی سیر ہے کہ حضرت آدمؑ سے حضرت ادریسؑ، ان کے بعد حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ سے لے کر غیبت امام زمانؑ کا زمانہ ہے۔ بشریت کو وہ تمام کمالات حاصل کرنے ہیں اور ان سب آزمائشوں سے گزرنا ہے جن سے گزشتہ ادوار میں وہ پہلے سے گزر چکی ہے یا آزمائی گئی ہے۔ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ غیبت کا زمانہ در اصل اس دوران کی مانند ہے جو حضرت موسیؑ نے حضرت خضرؑ کے ساتھ گزارا۔ حضرت خضرؑ کے وہ تین کام جس پر حضرت موسیؑ نے ان پر اعتراض کیا جبکہ اس کی اصل حکمت اس وقت ظاہر ہوئی جب دونوں جدا ہوۓ۔ جدائی کے وقت کو ظہور کا نام دیا گیا ہے۔ جدائی کے وقت پتہ چلا کہ حضرت خضرؑ کا اس بچے کو قتل کرنا، کشتی میں سوراخ کرنا، اور دیوار کھڑی کرنے کے پیچھے کیا اغراض تھے۔ غیبت کی حقیقت کا راز اس وقت کھلے گا جب ظہور ہوگا۔ اس وقت پتہ چلے گا کہ غیبت نے بشریت کے ساتھ کیا کیا ہے۔

غیبت۔ غیب پر ایمان لانے کا مصداق

سورہ بقرہ میں وارد ہوا:

الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ.(۳)

اس کے علاوہ بھی غیب کے مصداق ہیں۔ لیکن غیب کا ایک اہم ترین مصداق یہی دوران غیبت ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ غیبت کا دور بشریت کے لیے سزا نہیں ہے بلکہ بشریت کے اکرام کا دور ہے۔

غیبت کا دور اور مراتبِ انسان

غیبت کے دور نے انسان کو بدن کے مرتبے سے روح کے مرتبے تک پہنچانا ہے۔ غیبت کے دور میں لوگوں کی نظر امام کے جسم کی طرف نہیں، امام کو ایک نقطے میں محدود نہیں سمجھتے بلکہ ان کی نظر یہ ہے کہ امام ہر جگہ حضور رکھتے ہیں۔ اگر روایت کی تعبیر کو دیکھیں تو بہت حسین تعبیر ہے، بیان ہوا ہے کہ غیبت میں لوگ جانتے ہونگے کہ امام ان کے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے ایمان کو محفوظ رکھا ہوا ہے اور اپنے اوپر ایک حجت کو قرار دیتے ہیں۔ اس دور میں لوگ فرج کو صبح شام محقق دیکھتے ہیں، امام کو ہر جگہ اور ہر زمان اپنے درمیان محسوس کرتے ہیں، آئمہ معصومینؑ کے دور کی طرح نہیں کہ لوگ امام سے ملنے کے لیے مدینہ یا سامراء کی طرف جائیں اور وہاں جا کر امام سے ملاقات کریں۔ غیبت وہ دور ہے جب لوگ امام کے وجود کو جسمانی طور پر تو نہیں دیکھتے لیکن ان کے وجود کو اپنے اوپر حاکم محسوس کرتے ہیں۔ اور اس مقام کو پہنچ چکے ہیں کہ مقامِ بدن سے عبور کر کے مقام روح تک پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ امام کا جسم ان کے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے حقیقی وجود سے ارتباط برقرار کرتے ہیں۔

روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام باقرؑ نے ابوبصیر سے فرمایا کہ مسجد میں موجود تمام افراد سے پوچھو کہ ابو جعفرؑ کہاں ہیں؟ جب ابو بصیر نے پوچھا تو لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے نہیں دیکھا۔ بعد میں ابوبصیر نے ابو مکفوف سے پوچھا جو نابینا تھے۔ ابو مکفوف نے کہا امام آپ کے ساتھ ہی تو کھڑے ہیں ان کا نور ساطع ہے۔ دوران غیبت لوگوں کی امام کی طرف یہی نگاہ ہوگی۔ ٹھیک ہے حسی طور پر انسان آنکھوں سے ان کو نہیں دیکھ سکتا لیکن اس سے محرومیت ایجاد نہ ہوگی۔ جیسا کہ ابو مکفوف ظاہری طور پر نابینا تھے لیکن پھر بھی امام کو دیکھ سکتے تھے۔ غیبت کے دور میں امام کا بدن ہمارے درمیان نہیں لیکن ان سے رابطہ برقرار ہے۔ بلکہ اس دور میں امام زمانؑ ادراک اور ارتباط کے حوالے سے بقیہ آئمہ معصومینؑ سے زیادہ فعال تر ہیں۔ کیونکہ غیبت کبری میں امامؑ نے لوگوں تک اپںا بیان پہنچانے کے لیے اور ان سے ارتباط برقرار کرنے کے لیے وکیل اور سفیر معین نہیں فرماۓ۔ بلکہ خود سب لوگوں سے ہر وقت اور ہر جگہ ارتباط میں ہیں۔ سب اماموں کا یہ وظیفہ ہے کہ لوگوں کے درمیان رہے ان سے ارتباط برقرار رکھے۔ ان کی ہدایت کرے اور ان تک اپنے پیغامات پہنچاۓ، یہ ماموریت دوران غیبت میں زیادہ فعال ہے۔

یہاں تک اگر ہم بحث کا نتیجہ نکالنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ غیبت کا دور محرومیت کا دور نہیں۔ بلکہ رشد کا دور ہے۔ اسم ظاہر سے اسم باطن تک عبور کرنے کا زمانہ ہے۔ بشریت کے لیے یہ عبور ضروری ہے تاکہ وہ بدنی ارتباط سے روحی ارتباط برقرار کرنے کے مرحلے تک پہنچ سکیں۔ وہ امام کو خود پر حجت قرار دیں بے شک امام ان کے درمیان جسمانی طور پر موجود نہ ہوں۔ 

غیبت۔ ولایت پر ثابت قدم رہنے کا دور

روایات میں وارد ہوا ہے کہ غیبت کے دور میں ولایت پر ثابت قدم رہنے والے شخص کا اجر بدر اور احد کے ہزار شہداء کی پاداش کے برابر ہے۔ بدر اور احد کا دور ایک مَثل ہے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں نے اخلاص کے ساتھ سختیوں اور غربتوں کو برداشت کیا اور مظلومیت کے ساتھ شہادتیں پیش کیں۔ یہ افراد خلوص میں مثال ہیں۔ انہوں نے اس وقت اسلام قبول کیا جب اسلام قبول کرنے پر انعام نہیں ملتا تھا بلکہ معاشرہ آپ کو ترک کر دیتا تھا، صرف ترک نہیں کرتا تھا بلکہ جان کا خطرہ تھا۔ مسلمان قلیل تھے اور کفار کثرت میں لیکن انہوں نے پھر بھی اسلام کے لیے قربانیاں دیں۔ اب خود فیصلہ کریں کہ اس خلوص کے مرحلے تک پہنچنے والے شہید کا کیا مقام ہوگا؟ اور اب فرض کریں اس جیسے ہزار شہید ہوں۔ یہ اجر ایسے ہی نہیں قرار دے دیا گیا بلکہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ غیبت کا دور اس دور سے ہزار گنا سخت تر ہوگا جب ان بدر و احد کے مسلمانوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ جس نے غیبت کے دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کی ’’أَعْجَبُ النَّاسِ إِیمَاناً وَ أَعْظَمُهُمْ یَقِینا‘‘ (۴) کا مصداق ہیں۔ ان افراد کے ایمان کے بارے میں اس حد تک تعبیر کا وارد ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ یعنی ایسا کیا ہے غیبت کے زمانے میں کہ ان کے ایمان کی اتنی قیمت لگائی گئی؟ یعنی صرف امام کا ان کے درمیان سے غائب ہوجانا اس کی وجہ ہے؟ ظاہر ہے یہ وجہ نہیں بلکہ ان کا ایمان اور عقلی رشد اس کمال کی حد تک پہنچا ہوا ہوگا کہ امام کو غیب ہوتے ہوۓ بھی اپنے درمیان پائیں گے۔ ایک اور روایت میں ان افراد کے ایمان کے بارے میں وارد ہوا ہے:

’’آمَنُوا بِسَوَادٍ عَلَى بَیَاضٍ‘‘ (۵) یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے ایک کتاب کی سیاہی پر ایمان لایا۔ امامؑ فرماتے ہیں کہ تم لوگوں نے تو مجھے دیکھا اور میرے کمال کو دیکھتے ہوۓ مجھ سے انس اختیار کیا۔ لیکن یہ وہ لوگ ہونگے جو ایک نوشتہ پر ایمان لے آئیں گے۔

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ شیخ کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔

۲۔ آل عمران: ۱۴۱۔

۳۔ بقرہ: ۳۔

۴۔ شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۴، ص۳۶۶۔

۵۔ ایضا۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 22 ، 08:02
عون نقوی