آزادی کا ڈھونگ رچانے والے
اب تک ہم نے اسلام کے انسان کی اندرونی، بیرونی، انفرادی اور اجتماعی آزادی کے بارے نظریات کو جانا۔ اب دیکھتے ہیں ان افراد کی تاریخ اور وہ سیاہ کارنامے کہ جو اب دعوے دار ہیں کہ اسلام، آزادی اور حقوقِ بشر کے متضاد نظریات رکھتا ہے، جبکہ ہم آزادی اور حقوق بشر کے علمبردار ہیں۔ عملی طور پر ہم دیکھتے ہیں وہ لوگ جو اسلام کو آزادی کے متضاد سمجھتے ہیں، انہوں نے ’’ماڈرن غلامی‘‘ کو اجراء کیا ہے۔ ماڈرن غلامی کیسے بھلا؟ یعنی ماضی کی طرح لوگوں کو غلام بنانا لیکن اور طریقے سے، جنگ عظیم دوم میں جب یورپ بھرپور ترقی کر چکا تھا اور غلامی کو لغو کرنے کا دعوے دار تھا، اسی یورپ نے کئی ملین افراد کو آوارہ کیا، لاکھوں لوگوں کو اسیر کیا، غلامی سے بدتر افراد کو برباد اور آوارہ کیا۔ نمونے کے طور پر ’’الجزائر‘‘ کا نام پیش کیا جا سکتا ہے کہ جس کو فرانس نے بدترین شکل میں تباہ و برباد کیا اور اس ملک کو اپںا مستعمرہ قرار دیتے ہوۓ ظلم ڈھاۓ۔ کیا یہ غلامی نہیں؟ کیا لوگوں کو قتل و غارت کی بھینٹ چڑھانا، اسارت میں لینا، ان کے اموال کو غارت کرنا اور ان کے غنائم کو چرا کر لے جانا آزادی ہے؟ یہ کسی کو غلام بنانا نہیں تو اور کیا ہے؟ جنگ عظیم میں بہت سے ملکوں کو لوٹا اور حقیقت میں ان کو اپںا غلام بنایا گیا۔ ممالک سے ان کا استقلال چھینا ان کی آزادی چھینی اور بری طرح سے استعمار کیا۔
ایران میں استعماریت
خود ایران میں جنگ عظیم ثانی کے بعد شاہِ ایران رضا خان کو انہوں نے ہٹا کر اس کے بیٹے کو بٹھایا، اور اس کے ذریعے بدترین طریقے سے ایرانی قوم کو لوٹا اور ان کے مال و متاع پر شب خون مارا۔ یہ شاہ ایک کٹھ پتلی کی طرح ان کے انگلیوں کے اشاروں پر ناچتا۔ یہ استعماری طاقتیں ایران میں دلسوزی کے عنوان سے آئیں، شمالِ ایران پر سوویت یونین قابض ہو گئی اور مغرب اور جنوب میں امریکی اور برطانوی۔ دوستی اور صلح کے عنوان سے ملک میں داخل ہوۓ اور کہا کہ شاہ کے جانے کے بعد ملک میں امنیت کو بحال کرنے کے لیے ہم آپ کی مدد کرنے کے لیے آۓ ہیں لیکن بدترین طریقے سے ایران کو غارت کیا۔ ایرانی عوام کے اندر اسلامی فرہنگ، اسلامی آداب و رسوم، کو تبدیل کر کے رکھ دیا اور معدنیات کو بھی بری طرح سے لوٹا۔ ایران کا شمال کہ جہاں پر سوویت یونین کے کمانڈوز مستقر تھے، کسی تہران کے باشندے کا اس علاقے میں جانا اتنا سخت کر دیا گیا کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی اور ملک میں داخل ہو رہے ہوں، یہاں تک کہ اس نالائق اور کٹھ پتلی شاہ کو ایک دن انہوں نے کہا کہ ایران کے سترہ شہروں کو ہمارے حوالے کر دیں اور اس نالائق نے یہ سترہ شہر پلیٹ میں ڈال کر ان کے آگے رکھ دیے۔ کیا یہ غلامی نہیں تھی تو اور کیا تھی؟ آپ لوگ جو آزادی اور حقوق بشر کا شعار دے کر قوموں کو لوٹتے ہو کیا یہ بھی آزادی کا حصہ ہے یا غلامی ہے جس کا اسلام کو طعنہ دیا جاتا ہے؟
ممالک کی خودمختاری
ایران کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والے ممالک کی بازخواست کیوں کی جاتی ہے؟ اگر ایران کے ساتھ کوئی ملک قراداد باندھتا ہے تو اس کو کیوں مجبور کیا جاتا ہے کہ اس قرارداد کو ختم کیا جاۓ؟ کیا کوئی ملک کسی دوسرے ملک سے قرار داد باندھنے میں بھی آپ کا پابند ہے؟ اس کو آزادی کیوں نہیں دی جاتی کہ جس سے تعلق رکھے اور جس سے تعلق نہ رکھے اس سب میں وہ آزاد ہو؟ کیا امریکا کے سب غلام ہیں کہ اس کی بات مانیں؟ کیا یہ دوسروں کو اپنا غلام سمجھنے کے مترادف نہیں؟ بے شک اس کو آپ کوئی دوسرا نام دے دو اور اپنے کام کی جس طرح سے بھی دلیل لے آؤ بہرحال یہ کسی بھی ملک کی آزادی اور استقلال کے متضاد ہے۔ اسی بیسویں صدی میں جب مغرب حقوقِ بشر کا جھنڈا اٹھا کر پوری دنیا کے لوگوں کو آزادی اور ان کے حقوق کی بات کر رہا ہے مسلمانوں کی سرزمین فسلطین پر غاصب اور صیہونی ریاست اسرائیل نے قبضہ کر لیا اور پوری دنیا اور آزادی کے ٹھیکیدار خاموش تماشائی بنے رہے۔ نا صرف فلسطینیوں کے قتل عام اور ان کے استحصال پر خاموش اور تماشائی بنے رہے بلکہ خود آزادی کے دعوے دار امریکا نے اسرائیل کی پشت پناہی کی اور اب تک کر رہا ہے۔ ایک ملت کو ان کے گھروں سے آوارہ کر کے نکال دیا گیا اور ان کی جگہ بے گانوں کو مقیم کر دیا گیا۔ کیا یہ بھی آزادی ہے؟(۱)
حوالہ:
۱۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت، و عدالت، ص۴۷،۴۶۔