بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

حکمت ۴۴

طُوْبٰى لِمَنْ ذَکَرَ الْمَعَادَ، وَ عَمِلَ لِلْحِسَابِ، وَ قَنِعَ بِالْکَفَافِ، وَ رَضِیَ عَنِ اللهِ.

خوشا نصیب اس کے جس نے آخرت کو یاد رکھا، حساب و کتاب کیلئے عمل کیا، ضرورت بھر پر قناعت کی اور اللہ سے راضی و خوشنود رہا۔

حکمت۴۵

لَوْ ضَرَبْتُ خَیْشُوْمَ الْمُؤْمِنِ بِسَیْفِیْ هٰذَا عَلٰۤى اَنْ یُّبْغِضَنِیْ مَاۤ اَبْغَضَنِیْ، وَ لَوْ صَبَبْتُ الدُّنْیَا بِجَمَّاتِهَا عَلَى الْمُنَافِقِ عَلٰۤى اَنْ یُّحِبَّنِیْ مَاۤ اَحَبَّنِیْ، وَ ذٰلِکَ اَنَّهٗ قُضِیَ فَانْقَضٰى عَلٰى لِسَانِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ ﷺ اَنَّهٗ قَالَ: «یَا عَلِیُّ! لَا یُبْغِضُکَ مُؤْمِنٌ، وَ لَا یُحِبُّکَ مُنَافِقٌ».

اگر میں مومن کی ناک پر تلواریں لگاؤں کہ وہ مجھے دشمن رکھے تو جب بھی وہ مجھ سے دشمنی نہ کرے گا، اور اگر تمام متاعِ دنیا کافر کے آگے ڈھیر کر دوں کہ وہ مجھے دوست رکھے تو بھی وہ مجھے دوست نہ رکھے گا۔ اس لئے کہ یہ وہ فیصلہ ہے جو پیغمبر اُمّی ﷺ کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: «اے علی! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا، اور کوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا»۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 17:15
عون نقوی

حکمت۴۲

لِبَعْضِ اَصْحَابِهٖ فِیْ عِلَّةٍ اعْتَلَّهَا:

اپنے ایک ساتھی سے اس کی بیماری کی حالت میں فرمایا:

جَعَلَ اللهُ مَا کَانَ مِنْ شَکْوَاکَ حَطًّا لِّسَیِّئَاتِکَ، فَاِنَّ الْمَرَضَ لَاۤ اَجْرَ فِیْهِ، وَ لٰکِنَّهٗ یَحُطُّ السَّیِّئَاتِ، وَ یَحُتُّهَا حَتَّ الْاَوْرَاقِ، وَ اِنَّمَا الْاَجْرُ فِی الْقَوْلِ بِاللِّسَانِ وَ الْعَمَلِ بِالْاَیْدِیْ وَ الْاَقْدَامِ، وَ اِنَّ اللهَ سُبْحَانَهٗ یُدْخِلُ بِصِدْقِ النِّیَّةِ وَ السَّرِیْرَةِ الصَّالِحَةِ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهِ الْجَنَّةَ.

اللہ نے تمہارے مرض کو تمہارے گناہوں کو دور کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ کیونکہ خود مرض کا کوئی ثواب نہیں ہے، مگر وہ گناہوں کو مٹاتا اور انہیں اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔ ہاں! ثواب اس میں ہوتا ہے کہ کچھ زبان سے کہا جائے اور کچھ ہاتھ پیروں سے کیا جائے، اور خداوند عالم اپنے بندوں میں سے نیک نیتی اور پاکدامنی کی وجہ سے جسے چاہتا ہے جنت میں داخل کرتا ہے۔

وَ اَقُوْلُ: صَدَقَ عَلَیْهِ‌السّلَامُ: «اِنَّ الْمَرَضَ لَاۤ اَجْرَ فِیْهِ»، لِاَنَّهٗ مِنْ قَبِیْلِ مَا یُسْتَحَقُّ عَلَیْهِ الْعِوَضُ، لِاَنَّ الْعِوَضَ یُسْتَحَقُّ عَلٰى مَا کَانَ فِیْ مُقَابَلَةِ فِعْلِ اللّٰهِ تَعَالٰى بِالْعَبْدِ مِنَ الْاٰلَامِ وَ الْاَمْرَاضِ وَ مَا یَجْرِیْ مَجْرٰى ذٰلِکَ. وَ الْاَجْرُ وَ الثَّوَابُ یُسْتَحَقَّانِ عَلٰى مَا کَانَ فِیْ مُقَابَلَةِ فِعْلِ الْعَبْدِ، فَبَیْنَهُمَا فَرْقٌ قَدْ بَیَّنَهٗ ؑ کَمَا یَقْتَضِیْهِ عِلْمُهُ الثَّاقِبُ، وَ رَاْیُهُ الصَّآئِبُ.

سیّد رضی فرماتے ہیں کہ: حضرتؑ نے سچ فرمایا کہ: مرض کا کوئی ثواب نہیں ہے، کیونکہ مرض تو اس قسم کی چیزوں میں سے ہے جن میں عوض کا استحقاق ہوتا ہے۔ اس لئے کہ عوض اللہ کی طرف سے بندے کے ساتھ جو امر عمل میں آئے جیسے دکھ، درد، بیماری وغیرہ، اس کے مقابلہ میں اسے ملتا ہے، اور اجر و ثواب وہ ہے کہ کسی عمل پر اسے کچھ حاصل ہو۔ لہٰذا عوض اور ہے اور اجر اور ہے۔ اور اس فرق کو امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے علم روشن اور رائے صائب کے مطابق بیان فرما دیا ہے۔

حکمت۴۳

فِیْ ذِکْرِ خَبَّابِ بْنِ الْاَرَتِّ:

خباب ابن ارت ؓکے بارے میں فرمایا:

یَرْحَمُ اللهُ خَبَّابَ ابْنَ الْاَرَتِّ، فَلَقَدْ اَسْلَمَ رَاغِبًا، وَ هَاجَرَ طَآئِعًا، وَ قَنِعَ بِالْکَفَافِ، وَ رَضِیَ عَنِ اللهِ، وَ عَاشَ مُجَاهِدًا.

خدا خباب ابن ارتؓ پر اپنی رحمت شامل حال فرمائے! وہ اپنی رضا مندی سے اسلام لائے، اور بخوشی ہجرت کی، اور ضرورت بھر پر قناعت کی، اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہے، اور مجاہدانہ شان سے زندگی بسر کی۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 17:13
عون نقوی

حکمت۴۰

لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَآءَ قَلْبِهِ، وَ قَلْبُ الْاَحْمَقِ وَرَآءَ لِسَانِهٖ.

عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے۔

قَالَ الرَّضِیُّ: وَ هٰذَا مِنَ الْمَعَانِی الْعَجِیْبَةِ الشَّرِیْفَةِ، وَ الْمُرَادُ بِهٖ: اَنَّ الْعَاقِلَ لَا یُطْلِقُ لِسَانَهٗ، اِلَّا بَعْدَ مُشَاوَرَةِ الرَّوِیَّةِ وَ مُؤَامَرَةِ الْفِکْرَةِ. وَ الْاَحْمَقُ تَسْبِقُ حَذَفَاتُ لِسَانِهٖ وَ فَلَتَاتُ کَلَامِهٖ، مُرَاجَعَةَ فِکْرِهٖ وَ مُمَاخَضَةَ رَاْیِهٖ. فَکَاَنَّ لِسَانَ الْعَاقِلِ تابِـعٌ لِّقَلْبِهٖ، وَ کَاَنَّ قَلْبَ الْاَحْمَقِ تَابِعٌ لِلِسَانِهٖ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: یہ جملہ عجیب و پاکیزہ معنی کا حامل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ عقلمند اس وقت زبان کھولتا ہے جب دل میں سوچ بچار اور غور و فکر سے نتیجہ اخذ کر لیتا ہے۔ لیکن بے وقوف بے سوچے سمجھے جو منہ میں آتا ہے کہہ گزرتا ہے۔ اس طرح گویا عقلمند کی زبان اس کے دل کے تابع ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے تابع ہے۔

حکمت ۴۱

هَذَا الْمَعْنٰى بِلَفْظٍ اٰخَرَ وَ هُوَ قَوْلُهٗ:

یہی مطلب دوسرے لفظوں میں بھی حضرتؑ سے مروی ہے اور وہ یہ کہ:

قَلْبُ الْاَحْمَقِ فِیْ فِیْهِ، وَ لِسَانُ الْعَاقِلِ فِیْ قَلْبِهٖ.

بے وقوف کا دل اس کے منہ میں ہے اور عقلمند کی زبان اس کے دل میں ہے۔

وَ مَعْنَاهُمَا وَاحِدٌ.

بہر حال ان دونوں جملوں کا مقصد ایک ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 17:11
عون نقوی

اِلٰى طَلْحَةَ وَ الزُّبَیْرِ، مَعَ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَیْنِ الْخُزَاعِىِّ، ذَکَرَهٗۤ اَبُوْ جَعْفَرٍ الْاِسْکَافِىُّ فِیْ کِتَابِ الْمَقَامَاتِ فِیْ مَنَاقِبِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ

جو عمران ابن حصین خزاعی کے ہاتھ طلحہ و زبیر کے پاس بھیجا۔ اس خط کو ابو جعفر اسکافی نے اپنی کتاب ’’مقامات‘‘ میں کہ امیرالمومنین علیہ السلام کے فضائل میں ہے ذکر کیا ہے۔

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ عَلِمْتُمَا وَ اِنْ کَتَمْتُمَا، اَنِّیْ لَمْ اُرِدِ النَّاسَ حَتّٰۤى اَرَادُوْنِیْ، وَ لَمْ اُبَایِعْهُمْ حَتّٰى بَایَعُوْنِیْ، وَ اِنَّکُمَا مِمَّنْ اَرَادَنِیْ وَ بَایَعَنِیْ، وَ اِنَّ الْعَامَّةَ لَمْ تُبَایِعْنِیْ لِسُلْطَانٍ غَالِبٍ، وَ لَا لِعَرَضٍ حَاضِرٍ، فَاِنْ کُنْتُمَا بَایَعْتُمَانِیْ طَآئِعَیْنِ، فَارْجِعَا وَ تُوْبَا اِلَى اللّٰهِ مِنْ قَرِیْبٍ، وَ اِنْ کُنْتُمَا بَایَعْتُمَانِیْ کَارِهَیْنِ، فَقَدْ جَعَلْتُمَا لِیْ عَلَیْکُمَا السَّبِیْلَ بِاِظْهَارِکُمَا الطَّاعَةَ، وَ اِسْرَارِکُمَا الْمَعْصِیَةَ.

چاہے تم کتنا ہی چھپاؤ مگر تم دونوں واقف ہو کہ میں لوگوں کی طرف نہیں بڑھا، بلکہ وہ بڑھ کر میری طرف آئے۔ میں نے اپنا ہاتھ بیعت لینے کیلئے نہیں بڑھایا، بلکہ انہوں نے خود میرے ہاتھ پر بیعت کی، اور تم دونوں بھی انہی لوگوں میں سے ہو کہ جو میری طرف بڑھ کر آئے تھے اور بیعت کی تھی، اور عوام نے میرے ہاتھ پر نہ تسلط و اقتدار (کے خوف) سے بیعت کی تھی اور نہ مال و دولت کے لالچ میں۔ اب اگر تم دونوں نے اپنی رضا مندی سے بیعت کی تھی تو اس (عہد شکنی) سے پلٹو اور جلد اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو، اور اگر ناگواری کے ساتھ بیعت کی تھی تو اطاعت کو ظاہر کر کے اور نافرمانی کو چھپا کر تم نے اپنے خلاف میرے لئے حجت قائم کر دی ہے۔

وَ لَعَمْرِیْ! مَا کُنْتُمَا بِاَحَقِّ الْمُهَاجِرِیْنَ بِالتَّقِیَّةِ وَ الْکِتْمَانِ، وَ اِنَّ دَفْعَکُمَا هٰذَا الْاَمْرَ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَدْخُلَا فِیْهِ، کَانَ اَوْسَعَ عَلَیْکُمَا مِنْ خُرُوْجِکُمَا مِنْهُ بَعْدَ اِقْرَارِکُمَا بِهٖ، وَ قَدْ زَعَمْتُمَا اَنِّیْ قَتَلْتُ عُثْمَانَ، فَبَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمَا مَنْ تَخَلَّفَ عَنِّیْ وَ عَنْکُمَا مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ، ثُمَّ یُلْزَمُ کُلُّ امْرِئٍۭ بِقَدْرِ مَا احْتَمَلَ.

اور مجھے اپنی زندگی کی قسم! کہ تم قلبی کیفیت پر پردہ ڈالنے اور اسے چھپانے میں دوسرے مہاجرین سے زیادہ سزا وار نہ تھے ،اور بیعت کرنے سے پہلے اسے ردّ کرنے کی تمہارے لئے اس سے زیادہ گنجائش تھی کہ اب اقرار کے بعد اس سے نکلنے کی کو شش کرو، اور تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ میں نے عثمان کو قتل کیا ہے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان مدینہ کے وہ لوگ کہ جو تم سے بھی اور ہم سے بھی کنارہ کش ہیں گواہی دینے کو موجود ہیں۔ اس کے بعد جس نے جتنا حصہ لیا ہو اتنے کا اسے ذمہ دار سمجھا جائے گا۔

فَارْجِعَاۤ اَیُّهَا الشَّیْخَانِ عَنْ رَّاْیِکُمَا، فَاِنَّ الْاٰنَ اَعْظَمُ اَمْرِکُمَا الْعَارُ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّجْتَمِـعَ الْعَارُ وَ النَّارُ، وَ السَّلَامُ.

بزرگوارو! اپنے اس رویہ سے باز آؤ، کیونکہ ابھی تو تم دونوں کے سامنے ننگ و عار ہی کا بڑا مرحلہ ہے، مگر اس کے بعد تو اس ننگ و عار کے ساتھ (دوزخ کی) آگ بھی جمع ہو جائے گی۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 17:03
عون نقوی

اِلٰى مُعَاوِیَةَ

معاویہ کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَهٗ قَدْ جَعَلَ الدُّنْیَا لِمَا بَعْدَهَا، وَ ابْتَلٰى فِیْهَا اَهْلَهَا، لِیَعْلَمَ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا، وَ لَسْنَا لِلدُّنْیَا خُلِقْنَا، وَ لَا بِالسَّعْیِ فِیْهَاۤ اُمِرْنَا، وَ اِنَّمَا وُضِعْنَا فِیْهَا لِنُبْتَلٰی بِهَا، وَ قَدِ ابْتَلَانِی اللّٰهُ بِکَ وَ ابْتَلَاکَ بِیْ، فَجَعَلَ اَحَدَنَا حُجَّةً عَلَى الْاٰخَرِ، فَعَدَوْتَ عَلٰى طَلَبِ الدُّنْیَا بِتَاْوِیْلِ الْقُرْاٰنِ، فَطَلَبْتَنِیْ بِمَا لَمْ تَجْنِ یَدِیْ وَ لَا لِسَانِیْ، وَ عَصَبْتَهٗ اَنْتَ وَ اَهْلُ الشَّامِ بِیْ، وَ اَلَّبَ عَالِمُکُمْ جَاهِلَکُمْ، وَ قَآئِمُکُمْ قَاعِدَکُمْ.

بعد حمد و صلوٰۃ! معلوم ہونا چاہیے کہ خداوند عالم نے دنیا اس کے بعد کی منزل کیلئے بنائی ہے اور اس میں لوگوں کو آزمائش میں ڈالا ہے، تاکہ یہ معلوم ہو کہ ان میں کس کے اعمال بہتر ہیں۔ اور ہم دنیا کیلئے پیدا نہیں کئے گئے اور نہ اس میں تگ و دَو کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ ہم تو یہاں اس لئے لائے گئے ہیں تاکہ اس کے ذریعے ہماری آزمائش ہو۔ چنانچہ اللہ نے تمہارے ذریعہ سے مجھے اور میرے ذریعہ سے تمہیں آزمائش میں ڈالا ہے اور ایک کو دوسرے پر حجت ٹھہرایا ہے، مگر تم قرآن کی (غلط سلط) تاویلیں کر کے دنیا پر چھاپہ مارنے لگے اور مجھ سے اس چیز کا مواخذہ کرنے لگے جس میں میرا ہاتھ اور زبان دونوں بے گناہ تھے، مگر تم نے اور شامیوں نے مل کر اسے میرے سر منڈھ دیا۔ تم میں کے واقف کاروں نے ناواقفوں کو اور کھڑے ہوؤں نے بیٹھے ہوؤں کو آمادۂ پیکار کر دیا۔

فَاتَّقِ اللّٰهَ فِیْ نَفْسِکَ،‏ وَ نَازِعِ الشَّیْطٰنَ قِیَادَکَ، وَ اصْرِفْ اِلَى الْاٰخِرَةِ وَجْهَکَ، فَهِیَ طَرِیْقُنَا وَ طَرِیْقُکَ، وَ احْذَرْ اَنْ یُّصِیْبَکَ اللّٰهُ مِنْهُ بِعَاجِلِ قَارِعَةٍ تَمَسُّ الْاَصْلَ، وَ تَقْطَعُ الدَّابِرَ، فَاِنِّیْۤ اُوْلِیْ لَکَ بِاللّٰهِ اَلِیَّةً غَیْرَ فَاجِرَةٍ، لَئِنْ جَمَعَتْنِیْ وَ اِیَّاکَ جَوَامِعُ الْاَقْدَارِ، لَاۤ اَزَالُ بِبَاحَتِکَ، ﴿حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَا ۚ وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ۝﴾.

اپنے دل میں کچھ اللہ کا خوف کر و۔ شیطان سے اپنی باگ چھڑانے کی کوشش کرو، اور آخرت کی طرف اپنا رخ موڑ و۔ کیونکہ ہمارا اور تمہارا راستہ وہی ہے، اور اس بات سے ڈرو کہ اللہ تمہیں کسی ایسی ناگہانی مصیبت میں نہ جکڑ لے کہ جس سے نہ تمہاری جڑ رہے نہ شاخ۔ میں تم سے قسم کھاتا ہوں! ایسی قسم کہ جس کے ٹوٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اگر اسبابِ تقدیر نے مجھے اور تمہیں ایک جگہ جمع کر دیا تو اس وقت تک تمہارے مقابلہ میں میدان نہیں چھوڑوں گا، جب تک کہ خدا ہمارے درمیان فیصلہ نہ کردے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

https://balagha.org

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 January 23 ، 16:42
عون نقوی