بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

اِلٰى عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ الْعَبَّاسِ بَعْدَ مَقْتَلِ مُحَمَّدِ بْنِ اَبِیْ بَکْرٍ بِمِصْرَ:

مصر میں محمد ابن ابی بکر کے شہید ہو جانے کے بعد عبد اللہ ابن عباس کے نام:

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ مِصْرَ قَدِ افْتُتِحَتْ وَ مُحَمَّدُ بْنُ اَبِیْ بَکْرٍـ رَحِمَهُ اللّٰهُ ـ قَدِ اسْتُشْهِدَ، فَعِنْدَ اللّٰهِ نَحْتَسِبُهٗ وَلَدًا نَّاصِحًا، وَ عَامِلًا کَادِحًا، وَ سَیْفًا قَاطِعًا، وَ رُکْنًا دَافِعًا. وَ قَدْ کُنْتُ حَثَثْتُ النَّاسَ عَلٰى لَحَاقِهٖ، وَ اَمَرْتُهُمْ بِغِیَاثِهٖ قَبْلَ الْوَقْعَةِ، وَ دَعَوْتُهُمْ سِرًّا وَّ جَهْرًا، وَ عَوْدًا وَّ بَدْءًا، فَمِنْهُمُ الْاٰتِیْ کَارِهًا، وَ مِنْهُمُ الْمُعْتَلُّ کَاذِبًا، وَ مِنْهُمُ الْقَاعِدُ خَاذِلًا.

مصر کو دشمنوں نے فتح کر لیا اور محمد ابن ابی بکر  شہید ہو گئے۔ ہم اللہ ہی سے اجر چاہتے ہیں اس فرزند کے مارے جانے پر کہ جو ہمارا خیرخواہ، سرگرم کارکن، تیغ بران اور دفاع کا ستون تھا، اور میں نے لوگوں کو ان کی مدد کو جانے کی دعوت دی تھی اور اس حادثہ سے پہلے ان کی فریاد کو پہنچنے کا حکم دیا تھا، اور لوگوں کو علانیہ اور پوشیدہ باربار پکارا تھا، مگر ہوا یہ کہ کچھ آئے بھی تو با دلِ ناخواستہ اور کچھ حیلے حوالے کرنے لگے، اور کچھ نے جھوٹ بہانے کر کے عدم تعاون کیا۔

اَسْئَلُ اللّٰهَ اَنْ یَّجْعَلَ لِیْ مِنْهُمْ فَرَجًا عَاجِلًا، فَوَاللّٰهِ! لَوْ لَا طَمَعِیْ عِنْدَ لِقَآئِیْ عَدُوِّیْ فِی الشَّهَادَةِ، وَ تَوْطِیْنِیْ نَفْسِیْ عَلَى الْمَنِیَّةِ، لَاَحْبَبْتُ اَنْ لَّاۤ اَبْقٰى مَعَ هٰٓؤُلَآءِ یَوْمًا وَّاحِدًا، وَ لَآ اَلْتَقِیَ بِهِمْ اَبَدًا.

میں تو اب اللہ سے یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے ان کے ہاتھوں سے جلد چھٹکارا دے۔ خدا کی قسم! اگر دشمن کا سامنا کرتے وقت مجھے شہادت کی تمنا نہ ہوتی اور اپنے کو موت پر آمادہ نہ کر چکا ہوتا تو میں ان کے ساتھ ایک دن بھی رہنا پسند نہ کرتا اور انہیں ساتھ لے کر کبھی دشمن کی جنگ کو نہ نکلتا۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 19:24
عون نقوی

محمد ابن ابی بکر کے نام

لَمَّا بَلَغَهٗ تَوَجُّدُهُ مِنْ عَزْلِهِ بِالْاَشْتَرِ عَنْ مِّصْرَ، ثُمَّ تُوُفِّیَ الْاَشْتَرُ فِیْ تَوَجُّهِهٖۤ اِلٰى مِصْرَ قَبْلَ وُصُوْلِهٖۤ اِلَیْهَا:

اس موقع پر جب آپؑ کو معلوم ہوا کہ وہ مصر کی حکومت سے اپنی معزولی اور مالک اشتر کے تقرر کی وجہ سے رنجیدہ ہیں اور پھر مصر پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں انتقال فرما گئے تو آپؑ نے محمد کو تحریر فرمایا:

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ بَلَغَنِیْ مَوْجِدَتُکَ مِنْ تَسْرِیْحِ الْاَشْتَرِ اِلٰى عَمَلِکَ، وَ اِنِّیْ لَمْ اَفْعَلْ ذٰلِکَ اسْتِبْطَآءً لَّکَ فِی الْجُهْدِ، وَ لَا ازْدِیَادًا فِی الْجِدِّ، وَ لَوْ نَزَعْتُ مَا تَحْتَ یَدِکَ مِنْ سُلْطَانِکَ لَوَلَّیْتُکَ مَا هُوَ اَیْسَرُ عَلَیْکَ مَؤٗنَةً، وَ اَعْجَبُ اِلَیْکَ وِلَایَةً.

مجھے اطلاع ملی ہے کہ تمہاری جگہ پر اشتر کو بھیجنے سے تمہیں ملال ہوا ہے تو واقعہ یہ ہے کہ میں نے یہ تبدیلی اس لئے نہیں کی تھی کہ تمہیں کام میں کمزور اور ڈھیلا پایا ہو۔ اور یہ چاہا ہو کہ تم اپنی کوشش کو تیز کر دو۔ اور اگر تمہیں اس منصب حکومت سے جو تمہارے ہاتھ میں تھا میں نے ہٹایا تھا تو تمہیں کسی ایسی جگہ کی حکومت سپرد کرتا جس میں تمہیں زحمت کم ہو اور وہ تمہیں پسند بھی زیادہ آئے۔

اِنَّ الرَّجُلَ الَّذِیْ کُنْتُ وَلَّیْتُهٗ اَمْرَ مِصْرَ کَانَ لَنَا رَجُلًا نَّاصِحًا، وَ عَلٰى عَدُوِّنَا شَدِیْدًا نَّاقِمًا، فَرَحِمَهُ اللّٰهُ! فَلَقَدِ اسْتَکْمَلَ اَیَّامَهٗ، وَ لَاقٰى حِمَامَهٗ، وَ نَحْنُ عَنْهُ رَاضُوْنَ، اَوْلَاهُ اللّٰهُ رِضْوَانَهٗ، وَ ضَاعَفَ الثَّوَابَ لَهٗ.

بلاشبہ جس شخص کو میں نے مصر کا والی بنایا تھا وہ ہمارا خیر خواہ اور دشمنوں کیلئے سخت گیر تھا۔ خدا اس پر رحمت کرے! اس نے زندگی کے دن پورے کر لئے اور موت سے ہمکنار ہو گیا، اس حالت میں کہ ہم اس سے رضا مند ہیں، خدا کی رضا مندیاں بھی اسے نصیب ہوں، اور اسے بیش از بیش ثواب عطا کرے۔

فَاَصْحِرْ لِعَدُوِّکَ، وَ امْضِ عَلٰى بَصِیْرَتِکَ، وَ شَمِّرْ لِحَرْبِ مَنْ حَارَبَکَ، وَ ادْعُ اِلٰى‏ سَبِیْلِ رَبِّکَ، وَ اَکْثِرِ الْاِسْتِعَانَةَ بِاللّٰهِ یَکْفِکَ مَاۤ اَهَمَّکَ، وَ یُعِنْکَ عَلٰى مَا نَزَلَ بِکَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ!.

اب تم دشمن کے مقابلے کیلئے باہر نکل کھڑے ہو، اور اپنی بصیرت کے ساتھ روانہ ہو جاؤ، اور جو تم سے لڑے اس سے لڑنے کیلئے آمادہ ہو جاؤ، اور اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دو، اور زیادہ سے زیادہ اللہ سے مدد مانگو کہ وہ تمہاری مہمات میں کفایت کرے گا اور مصیبتوں میں تمہاری مدد کرے گا۔ ان شاء اللہ۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 19:22
عون نقوی

اِلٰى قُثَمِ بْنِ الْعَبَّاسِ، وَ هُوَ عَامِلُهٗ عَلٰى مَکَّةَ

والی مکہ قثم ابن عباس کے نام

اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ عَیْنِیْ بِالْمَغْرِبِ کَتَبَ اِلَیَّ، یُعْلِمُنِیْۤ اَنَّهٗ وُجِّهَ عَلَى الْمَوْسِمِ اُنَاسٌ مِّنْ اَهْلِ الشَّامِ، الْعُمْیِ الْقُلُوْبِ، الصُّمِّ الْاَسْمَاعِ، الْکُمْهِ الْاَبْصَارِ، الَّذِیْنَ یَلْتَمِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ، وَ یُطِیْعُوْنَ الْمَخْلُوْقَ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ، وَ یَحْتَلِبُوْنَ الدُّنْیَا دَرَّهَا بِالدِّیْنِ، وَ یَشْتَرُوْنَ عَاجِلَهَا بِاٰجِلِ الْاَبْرَارِ وَ الْمُتَّقِیْنَ.

مغربی علاقہ کے میرے جاسوس نے مجھے تحریر کیا ہے کہ کچھ شام کے لوگوں کو (مکہ) حج کیلئے روانہ کیا گیا ہے، جو دل کے اندھے، کانوں کے بہرے اور آنکھوں کی روشنی سے محروم ہیں، جو حق کو باطل کی راہ سے ڈھونڈتے ہیں، اور اللہ کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت کرتے ہیں، اور دین کے بہانے دنیا (کے تھنوں)سے دودھ دوہتے ہیں، اور نیکوں اور پرہیز گاروں کے اجر آخرت کو ہاتھوں سے دے کر دنیا کا سودا کر لیتے ہیں۔

وَ لَنْ یَّفُوْزَ بِالْخَیْرِ اِلَّا عَامِلُهٗ، وَ لَا یُجْزٰى جَزَآءَ الشَّرِّ اِلَّا فَاعِلُهٗ، فَاَقِمْ عَلٰى مَا فِیْ یَدَیْکَ قِیَامَ الْحَازِمِ الصَّلِیْبِ، وَ النَّاصِحِ اللَّبِیْبِ، وَ التَّابِـعِ لِسُلْطَانِهِ الْمُطِیْعِ لِاِمَامِهٖ. وَ اِیَّاکَ وَ مَا یُعْتَذَرُ مِنْهُ، وَ لَا تَکُنْ عِنْدَ النَّعْمَآءِ بَطِرًا، وَ لَا عِنْدَ الْبَاْسَآءِ فَشِلًا، وَ السَّلَامُ.

دیکھو! بھلائی اسی کے حصہ میں آتی ہے جو اس پر عمل کرتا ہے اور برا بدلہ اسی کو ملتا ہے جو برے کام کرتا ہے، لہٰذا تم اپنے فرائض منصبی کو اس شخص کی طرح ادا کرو جو بافہم، پختہ کار، خیر خواہ اور دانشمند ہو، اور اپنے حاکم کا فرماں بردار اور اپنے امام کا مطیع رہے۔ اور خبردار! کوئی ایسا کام نہ کرنا کہ تمہیں معذرت کرنے کی ضرورت پیش آئے، اور نعمتوں کی فراوانی کے وقت کبھی اتراؤ نہیں، اور سختیوں کے موقعہ پر بودا پن نہ دکھاؤ۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 19:20
عون نقوی

کَانَ یَکْتُبُهَا لِمَنْ یَّسْتَعْمِلُهٗ عَلَى الصَّدَقَاتِ، وَ اِنَّمَا ذَکَرْنَا هُنٰا جُمَلًا مِّنْهَا لِیُعْلَمَ بِهَا اَنَّهٗ ؑ کَانَ یُقِیْمُ عِمَادَ الْحَقِّ، وَ یَشْرَعُ اَمْثِلَةَ الْعَدْلِ فِیْ صَغِیْرِ الْاُمُوْرِ وَ کَبِیْرِهَا، وَ دَقِیْقِهَا وَ جَلِیْلِهَا:

جن کارندوں کو زکوٰۃ و صدقات کے وصول کرنے پر مقرر کرتے تھے ان کیلئے یہ ہدایت نامہ تحریر فرماتے تھے اور ہم نے اس کے چند ٹکڑے یہاں پر اس لئے درج کئے ہیں کہ معلوم ہو جائے کہ آپؑ ہمیشہ حق کے ستون کھڑے کرتے تھے اور ہر چھوٹے بڑے اور پوشیدہ و ظاہر امور میں عدل کے نمونے قائم فرماتے تھے:

اِنْطَلِقْ عَلٰی تَقْوَی اللهِ وَحْدَهٗ لَا شَرِیْکَ لَهٗ، وَ لَا تُرَوِّعَنَّ مُسْلِمًا، وَ لَا تَجْتَازَنَّ عَلَیْهِ کَارِهًا، وَ لَا تَاْخُذَنَّ مِنْهُ اَکثَرَ مِنْ حَقِّ اللهِ فِیْ مَالِهٖ. فَاِذَا قَدِمْتَ عَلَی الْحَیِّ فَانْزِلْ بِمَآئِهِمْ مِنْ غَیْرِ اَنْ تُخَالِطَ اَبْیَاتَهُمْ، ثُمَّ امْضِ اِلَیْهِمْ بِالسَّکِیْنَةِ وَ الْوَقَارِ، حَتّٰی تَقُوْمَ بَیْنَهُمْ فَتُسَلِّمَ عَلَیْهِمْ، وَ لَا تُخْدِجْ بِالتَّحِیَّةِ لَهُمْ، ثُمَّ تَقُوْلَ:

اللہ وحدہٗ لا شریک کا خوف دل میں لئے ہوئے چل کھڑے ہو، اور دیکھو! کسی مسلمان کو خوفزدہ نہ کرنااور اس(کے املاک) پر اس طرح سے نہ گزرنا کہ اسے ناگوار گزرے اور جتنا اس کے مال میں اللہ کا حق نکلتا ہو اس سے زائد نہ لینا۔ جب کسی قبیلے کی طرف جانا تو لوگوں کے گھروں میں گھسنے کی بجائے پہلے ان کے کنوؤں پر جا کر اترنا، پھر سکون و وقار کے ساتھ ان کی طرف بڑھنا، یہاں تک کہ جب ان میں جا کر کھڑے ہو جاؤ تو ان پر سلام کرنا اور آداب و تسلیم میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا۔ اس کے بعد ان سے کہنا کہ:

عِبَادَ اللهِ! اَرْسَلَنِیْۤ اِلَیْکُمْ وَلِیُّ اللهِ وَ خَلِیْفَتُهٗ،لِاٰخُذَ مِنْکُمْ حَقَّ اللهِ فِیْۤ اَمْوَالِکُمْ، فَهَلْ لِلّٰهِ فِیْۤ اَمْوَالِکُمْ مِنْ حَقٍّ فَتُؤَدُّوْهُ اِلٰی وَلِیِّهِ؟

اے اللہ کے بندو! مجھے اللہ کے ولی اور اس کے خلیفہ نے تمہارے پاس بھیجا ہے، اگر تمہارے مال میں اللہ کا کوئی حق نکلتا ہے تو اسے وصول کروں، لہٰذا تمہارے مال میں اللہ کا کوئی واجب الاداء حق ہے کہ جسے اللہ کے ولی تک پہنچاؤ؟

فَاِنْ قَالَ قَآئِلٌ: لَا، فَلَا تُرَاجِعْهُ، وَ اِنْ اَنْعَمَ لَکَ مُنْعِمٌ فَانْطَلِقْ مَعَهٗ مِنْ غَیْرِ اَنْ تُخِیْفَهٗ اَوْ تُوْعِدَهٗ اَوْ تَعْسِفَهٗ اَوْ تُرْهِقَهٗ، فَخُذْ مَاۤ اَعْطَاکَ مِنْ ذَهَبٍ اَ وْ فِضَّةٍ.

اگر کوئی کہنے والا کہے کہ: نہیں، تو پھر اس سے دہرا کر نہ پوچھنا۔ اور اگر کوئی ہاں کہنے والا ہاں کہے تو اسے ڈرائے دھمکائے یا اس پر سختی و تشدد کئے بغیر اس کے ساتھ ہو لینا اور جو سونا یا چاندی (درہم و دینار) وہ دے لے لینا۔

فَاِنْ کَانَ لَهٗ مَاشِیَةٌ اَوْ اِبِلٌ فَلَا تَدْخُلْهَاۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ، فَاِنَّ اَکْثَرَهَا لَهٗ، فَاِذاۤ اَتَیْتَهَا فَلَا تَدْخُلْ عَلَیْهَا دُخُوْلَ مُتَسَلِّطٍ عَلَیْهِ وَ لَا عَنِیْفٍ بِهٖ، وَ لَا تُنَفِّرَنَّ بَهِیْمَةً وَّ لَا تُفْزِعَنَّهَا،وَ لَا تَسُوْٓءَنَّ صَاحِبَهَا فِیْهَا.

اور اگر اس کے پاس گائے، بکری یا اونٹ ہوں تو ان کے غول میں اس کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہونا، کیونکہ ان میں زیادہ حصہ تو اسی کا ہے۔ اور جب (اجازت کے بعد)ان تک جانا تو یہ انداز اختیار نہ کرنا کہ جیسے تمہیں اس پر پورا قابو ہے اور تمہیں اس پر تشدد کرنے کا حق حاصل ہے۔ دیکھو! نہ کسی جانور کو بھڑکانا، نہ ڈرانا اور نہ اس کے بارے میں اپنے غلط رویہ سے مالک کو رنجیدہ کرنا۔

وَ اصْدَعِ الْمَالَ صَدْعَیْنِ ثُمَّ خَیِّرْهُ، فَاِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعَرَّضَنَّ لِمَا اخْتَارَهٗ، ثُمَّ اصْدَعِ الْبَاقِیَ صَدْعَیْنِ ثُمَّ خَیِّرْهُ، فَاِذَا اخْتَارَ فَلَا تَعَرَّضَنَّ لِمَا اخْتَارَہٗ. فَلَا تَزَالُ کَذٰلِکَ حَتّٰی یَبْقٰی مَا فِیْهِ وَفَآءٌ لِّحَقِّ اللهِ فِیْ مَالِهٖ، فَاقْبِضْ حَقَّ اللهِ مِنْهُ. فَاِنِ اسْتَقَالَکَ فَاَقِلْهُ، ثُمَّ اخْلِطْهُمَا، ثُمَّ اصْنَعْ مِثْلَ الَّذِیْ صَنَعْتَ اَوَّلًا حَتّٰی تَاْخُذَ حَقَّ اللهِ فِیْ مَالِهٖ.

جتنا مال ہو اس کے دو حصے کر دینا اور مالک کو یہ اختیار دینا(کہ وہ جونسا حصہ چاہے) پسند کر لے۔ اور جب وہ کوئی سا حصہ منتخب کر لے تو اس کے انتخاب سے تعرض نہ کرنا۔ پھر بقیہ حصے کے دو حصے کر دینا اور مالک کو اختیار دینا (کہ وہ جو حصہ چاہے لے لے) اور جب وہ ایک حصہ منتخب کر لے تو اس کے انتخاب پر معترض نہ ہونا۔ یونہی ایسا ہی کرتے رہنا، یہاں تک کہ بس اتنا رہ جائے جتنے سے اس مال میں جو اللہ کا حق ہے وہ پورا ہو جائے تو اسے بس تم اپنے قبضہ میں کرلینا اور (اس پر بھی) اگر وہ پہلے انتخاب کو مسترد کر کے دوبارہ انتخاب کرنا چاہے تو اسے اس کا موقع دو اور دونوں حصوں کو ملا کر پھر نئے سرے سے وہی کرو جس طرح پہلے کیا تھا، یہاں تک کہ اس کے مال سے اللہ کا حق لے لو۔

وَ لَا تَاْخُذَنَّ عَوْدًا، وَ لَا هَرِمَةً، وَ لَا مَکْسُوْرَةً، وَ لَا مَهْلُوْسَةً، وَ لَا ذَاتَ عَوَارٍ.

ہاں دیکھو! کوئی بوڑھا، بالکل پھونس اونٹ اور جس کی کمر شکستہ یا پیر ٹوٹا ہوا ہو، یا بیماری کا مارا ہوا یا عیب دار ہو، نہ لینا۔

وَ لَا تَاْمَنَنَّ عَلَیْهَاۤ اِلَّا مَنْ تَثِقُ بِدِیْنِهٖ، رَافِقًۢا بِمَالِ الْمُسْلِمِیْنَ حَتّٰی یُوَصِّلَهٗ اِلٰی وَلِیِّهِمْ فَیَقْسِمَهٗ بَیْنَهُمْ، وَ لَا تُوَکِّلْ بِهَاۤ اِلَّا نَاصِحًا شَفِیْقًا وَّ اَمِیْنًا حَفِیْظًا، غَیْرَ مُعْنِفٍ وَّ لَا مُجْحِفٍ، وَ لَا مُلْغِبٍ وَّ لَا مُتْعِبٍ. ثُمَّ احْدُرْ اِلَیْنَا مَا اجْتَمَعَ عِنْدَکَ، نُصَیِّرْهُ حَیْثُ اَمَرَ اللهُ بِهٖ.

اور انہیں کسی ایسے شخص کی امانت میں سونپنا جس کی دینداری پر تم کو اعتماد ہو کہ جو مسلمانوں کے مال کی نگہداشت کر تا ہوا ان کے امیر تک پہنچا دے، تاکہ وہ اس مال کو مسلمانوں میں بانٹ دے۔ کسی ایسے ہی شخص کے سپرد کرنا جو خیر خواہ، خدا ترس، امانتدار اور نگران ہو کہ نہ تو ان پر سختی کرے اور نہ دوڑا دوڑا کر انہیں لاغر و خستہ کرے، نہ انہیں تھکا مارے اور نہ تعب و مشقت میں ڈالے۔ پھر جو کچھ تمہارے پاس جمع ہو اسے جلد سے جلد ہماری طرف بھیجتے رہنا، تاکہ ہم جہاں جہاں اللہ کا حکم ہے اسے کام میں لائیں۔

فَاِذَاۤ اَخذَهَاۤ اَمِیْنُکَ فَاَوْعِزْ اِلَیْهِ اَنْ لَّا یَحُوْلَ بَیْنَ نَاقَةٍ وَّ بَیْنَ فَصِیْلِهَا، وَ لَا یَمْصُرَ لَبَنَهَا فَیَضُرَّ ذٰلِکَ بِوَلَدِهَا، وَ لَا یَجْهَدَنَّهَا رُکُوْبًا، وَ لْیَعْدِلْ بَیْنَ صَوَاحِبَاتِهَا فِیْ ذٰلِکَ وَ بَیْنَهَا، وَ لْیُرَفِّهْ عَلَی الَّلاغِبِ، وَ لْیَسْتَاْنِ بِالنَّقِبِ وَ الظَّالِعِ، وَ لْیُوْرِدْهَا مَا تَمُرُّ بِهٖ مِنَ الْغُدُرِ، وَ لَا یَعْدِلْ بِهَا عَنْ نَّبْتِ الْاَرْضِ اِلٰی جَوَادِّ الطَّرِیْقِ، وَ لْیُرَوِّحْهَا فِی السَّاعَاتِ، وَلْیُمْهِلْهَا عِنْدَ النِّطَافِ وَ الْاَعْشَابِ، حَتّٰی تَاْتِیَنَا بِاِذْنِ اللهِ بُدُنًا مُّنْقِیَاتٍ، غَیْرَ مُتْعَبَاتٍ وَّ لَا مَجْهُوْدَاتٍ، لِنَقْسِمَهَا عَلٰی کِتَابِ اللهِ وَ سُنَّةِ نَبِیِّهٖ ﷺ فَاِنَّ ذٰلِکَ اَعْظَمُ لِاَجْرِکَ، وَ اَقْرَبُ لِرُشْدِکَ، اِنْ شَآءَ اللهُ.

جب تمہارا امین اس مال کو اپنی تحویل میں لے لے تو اسے فہمائش کرنا کہ وہ اونٹنی اور اس کے دودھ پیتے بچے کو الگ الگ نہ رکھے اور نہ اس کا سارے کا سارا دودھ دوہ لیا کرے کہ بچے کیلئے ضرر رسانی کا باعث بن جائے اور اس پر سواری کر کے اسے ہلکان نہ کر ڈالے۔ اس میں اور اس کے ساتھ کی دوسری اونٹنیوں میں (سواری کرنے اور دوہنے میں) انصاف و مساوات سے کام لے، تھکے ماندے اونٹ کو سستانے کا موقع دے اور جس کے کھر گھس گئے ہوں یا پیر لنگ کرنے لگے ہوں اسے آہستگی اور نرمی سے لے چلے اور ان کی گزر گاہوں میں جو تالاب پڑیں وہاں انہیں پانی پینے کیلئے اتارے، اور زمین کی ہریالی سے ان کا رخ موڑ کر (بے آب و گیاہ) راستوں پر نہ لے چلے، اور وقتاً فوقتاً انہیں راحت پہنچاتا رہے، اور جہاں تھوڑا بہت پانی یا گھاس سبزہ ہو انہیں کچھ دیر کیلئے مہلت دے تاکہ جب وہ ہمارے پاس پہنچیں تو وہ بحکم خدا موٹے تازے ہوں اور ان کی ہڈیوں کا گودا بڑھ چکا ہو، وہ تھکے ماندے اور خستہ حال نہ ہوں، تاکہ ہم اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق انہیں تقسیم کریں۔ بیشک یہ تمہارے لئے بڑے ثواب کا باعث اور منزل ہدایت تک پہنچنے کا ذریعہ ہو گا۔ ان شاء اللہ۔

 https://balagha.org

 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 19:03
عون نقوی

اِلٰى مَصْقَلَةَ بْنِ هُبَیْرَةَ الشَّیْبَانِیِّ

مصقلہ ابن ہبیرہ شیبانی کے نام

وَ هُوَ عَامِلُهٗ عَلٰۤى اَرْدَشِیْرَخُرَّةَ:

جو آپؑ کی طرف سے اردشیر خرہ کا حاکم تھا:

بَلَغَنِیْ عَنْکَ اَمْرٌ اِنْ کُنْتَ فَعَلْتَهٗ فَقَدْ اَسْخَطْتَّ اِلٰهَکَ وَ اَغْضَبْتَ اِمَامَکَ، اَنَّکَ تَقْسِمُ فَیْ‏ءَ الْمُسْلِمِیْنَ الَّذِیْ حَازَتْهُ رِمَاحُهُمْ وَ خُیُوْلُهُمْ، وَ اُرِیْقَتْ عَلَیْهِ دِمَآؤُهُمْ، فِیْمَنِ اعْتَامَکَ مِنْ اَعْرَابِ قَوْمِکَ.

مجھے تمہارے متعلق ایک ایسے امر کی خبر ملی ہے جو اگر تم نے کیا ہے تو اپنے خدا کو ناراض کیا اور اپنے امامؑ کو بھی غضبناک کیا۔ وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اس مال غنیمت کو کہ جسے ان کے نیزوں (کی انیوں) اور گھوڑوں (کی ٹاپوں) نے جمع کیا تھا اور جس پر ان کے خون بہائے گئے تھے، تم اپنی قوم کے ان بدؤں میں بانٹ رہے ہو جو تمہارے ہوا خواہ ہیں۔

فَوَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاَ النَّسَمَةَ! لَئِنْ کَانَ ذٰلِکَ حَقًّا لَّتَجِدَنَّ بِکَ عَلَیَّ هَوَانًا، وَ لَـتَخِفَّنَّ عِنْدِیْ مِیْزَانًا، فَلَا تَسْتَهِنْ بِحَقِّ رَبِّکَ، وَ لَا تُصْلِحْ دُنْیَاکَ بِمَحْقِ دِیْنِکَ، فَتَکُونَ مِنَ الْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًا.

اس ذات کی قسم جس نے دانے کو چیرا اور جاندار چیزوں کو پیدا کیا ہے! اگر یہ صحیح ثابت ہوا تو تم میری نظروں میں ذلیل ہو جاؤ گے اور تمہارا پلہ ہلکا ہو جائے گا۔ اپنے پروردگار کے حق کو سبک نہ سمجھو اور دین کو بگاڑ کر دنیا کو نہ سنوارو، ورنہ عمل کے اعتبار سے خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو گے۔

اَلَا وَ اِنَّ حَقَّ مَنْ قِبَلَکَ وَ قِبَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فِیْ قِسْمَةِ هٰذَا الْفَیْ‏ءِ سَوَآءٌ، یَرِدُوْنَ عِنْدِیْ عَلَیْهِ، وَ یَصْدُرُوْنَ عَنْهُ.

دیکھو! وہ مسلمان جو میرے اور تمہارے پاس ہیں، اس مال کی تقسیم کے برابر کے حصہ دار ہیں۔ اسی اصول پر وہ اس مال کو میرے پاس لینے کیلئے آتے ہیں اور لے کر چلے جاتے ہیں۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 January 23 ، 15:25
عون نقوی