بصیرت اخبار

۲۶۶ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «عون نقوی» ثبت شده است

زیاد ابن ابیہ کے نام

وَ قَدْ بَلَغَهٗ: اَنَّ مُعَاوِیَةَ کَتَبَ اِلَیْهِ یُرِیْدُ خَدِیْعَتَهٗ بِاسْتِلْحَاقِهٖ:

جب حضرتؑ کو یہ معلوم ہوا کہ معاویہ نے زیاد کو خط لکھ کر اپنے خاندان میں منسلک کر لینے سے اسے چکمہ دینا چاہا ہے تو آپؑ نے زیاد کو تحریر کیا:

وَ قَدْ عَرَفْتُ اَنَّ مُعَاوِیَةَ کَتَبَ اِلَیْکَ یَسْتَزِلُّ لُبَّکَ، وَ یَسْتَفِلُّ غَرْبَکَ، فَاحْذَرْهُ، فَاِنَّمَا هُوَ الشَّیْطٰنُ یَاْتِی الْمُؤْمِنَ مِنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ، وَ عَنْ یَّمِیْنِهٖ وَ عَنْ شِمَالِهٖ، لِیَقْتَحِمَ غَفْلَتَهٗ، وَ یَسْتَلِبَ غِرَّتَهٗ.

مجھے معلوم ہوا ہے کہ معاویہ نے تمہاری طرف خط لکھ کر تمہاری عقل کو پھسلانا اور تمہاری دھار کو کند کرنا چاہا ہے۔ تم اس سے ہوشیار رہو، کیونکہ وہ شیطان ہے جو مومن کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں جانب سے آتا ہے، تاکہ اسے غافل پاکر اس پر ٹوٹ پڑے اور اس کی عقل پر چھاپہ مارے۔

وَ قَدْ کَانَ مِنْ اَبِیْ سُفْیَانَ فِیْ زَمَنِ عُمَرَ فَلْتَةٌ مِنْ حَدِیْثِ النَّفْسِ، وَ نَزْغَةٌ مِّنْ نَّزَغَاتِ الشَّیْطٰنِ، لَا یَثْبُتُ بِهَا نَسَبٌ، وَ لَا یُسْتَحَقُّ بِهَا اِرْثٌ، وَ الْمُتَعَلِّقُ بِهَا کَالْوَاغِلِ الْمُدَفَّعِ، وَ النَّوْطِ الْمُذَبْذَبِ.

واقعہ یہ ہے کہ عمر (ابن خطاب) کے زمانہ میں ابو سفیان کے منہ سے بے سوچے سمجھے ایک بات نکل گئی تھی جو شیطانی وسوسوں سے ایک وسوسہ تھی، جس سے نہ نسب ثابت ہوتا ہے اور نہ وارث ہونے کا حق پہنچتا ہے۔ تو جو شخص اس بات کا سہارا کر بیٹھے وہ ایسا ہے جیسے بزمِ مے نوشی میں بن بلائے آنے والا کہ اسے دھکے دے کر نکال باہر کیا جاتا ہے، یا زین فرس میں لٹکے ہوئے اس پیالے کے مانند کہ جو ادھر سے ادھر تھرکتا رہتا ہے۔

فَلَمَّا قَرَاَ زِیَادٌ الْکِتَابَ قَالَ: شَهِدَ بِهَا وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ، وَ لَمْ یَزَلْ فِیْ نَفْسِهٖ حَتَّى ادَّعَاهُ مُعَاوِیَةُ.

سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ زیاد نے جب یہ خط پڑھا تو کہنے لگا کہ: ربّ کعبہ کی قسم! انہوں نے اس بات کی گواہی دے دی۔ چنانچہ یہ چیز اسکے دل میں رہی، یہاں تک کہ معاویہ نے اس کے اپنے بھائی ہونے کا ادّعا کر دیا۔

قَوْلُهٗ ؑ: «الْوَاغِلِ»: هُوَ الَّذِیْ یَهْجُمُ عَلَى الشُّرَّبِ لِیَشْرَبَ مَعَهُمْ وَ لَیْسَ مِنْهُمْ، فَلَا یَزَالُ مُدَفَّعًا مُّحَاجَزًا. وَ« النَّوْطِ الْمُذَبْذَبِ»: هَوَ مَا یُنَاطُ بِرَحْلِ الرَّاکِبِ، مِنْ قَعْبٍ اَوْ قَدَحٍ اَوْ مَاۤ اَشْبَهَ ذٰلِکَ، فَهُوَ اَبَدًا یَتَقَلْقَلُ اِذَا حَثَّ ظَهْرَهٗ، وَ اسْتَعْجَلَ سَیْرَهٗ.

امیر المومنین علیہ السلام نے جو لفظ «الواغل» فرمایا ہے تو یہ اس شخص کو کہتے ہیں جو مے خواروں کی مجلس میں بن بلائے پہنچ جائے، تاکہ ان کے ساتھ پی سکے، حالانکہ وہ ان میں سے نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے ایسا شخص ہمیشہ دھتکارا اور روکا جاتا ہے۔ اور «النوط المذبذب» لکڑی کے پیالہ یا جام یا اس سے ملتے جلتے ظرف کو کہا جاتا ہے کہ جو مسافر کے سامان سے بندھا رہتا ہے اور جب سوار سواری کو چلاتا اور تیز ہنکاتا ہے تو وہ برابر ادھر سے ادھر جنبش کھاتا رہتا ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 23 ، 16:37
عون نقوی

اِلٰۤى اَخِیْهِ عَقِیْلِ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ فِیْ ذِکْرِ جَیْشٍ اَنفَذَهٗۤ اِلٰى بَعْضِ الْاَعْدَآءِ، وَهُوَ جَوَابُ کِتَابٍ کَتَبَهٗ اِلَیْهِ عَقِیْلٌ:

جو امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے خط کے جواب میں لکھا ہے، جس میں کسی دشمن کی طرف بھیجی ہوئی ایک فوج کا ذکر کیا گیا ہے:

فَسَرَّحْتُ اِلَیْهِ جَیْشًا کَثِیْفًا مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ، فَلَمَّا بَلَغَهٗ ذٰلِکَ شَمَّرَ هَارِبًا وَّ نَکَصَ نَادِمًا، فَلَحِقُوْهُ بِبَعْضِ الطَّرِیْقِ، وَ قَدْ طَفَّلَتِ الشَّمْسُ لِلْاِیَابِ، فَاقْتَتَلُوْا شَیْئًا کَلَا وَ لَا، فَمَا کَانَ اِلَّا کَمَوْقِفِ سَاعَةٍّ، حَتّٰى نَجَا جَرِیْضًۢا بَعْدَ مَاۤ اُخِذَ مِنْهُ بِالْمُخَنَّقِ، وَ لَمْ یَبْقَ مِنْهُ غَیْرُ الرَّمَقِ، فَلَاْیًۢا بِلَاْیٍ مَا نَجَا.

میں نے اس کی طرف مسلمانوں کی ایک بھاری فوج روانہ کی تھی۔ جب اس کو پتہ چلا تو وہ دامن گردان کر بھاگ کھڑا ہوا اور پشیمان ہو کر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو گیا۔ سورج ڈوبنے کے قریب تھا کہ ہماری فوج نے اسے ایک راستہ میں جا لیا اور نہ ہونے کے برابر کچھ جھڑپیں ہوئی ہوں گی، اور گھڑی بھر ٹھہرا ہو گا کہ بھاگ کر جان بچا لے گیا، جبکہ اسے گلے سے پکڑا جا چکا تھا، اور آخری سانسوں کے سوا اس میں کچھ باقی نہ رہ گیا تھا، اس طرح بڑی مشکل سے وہ بچ نکلا۔

فَدَعْ عَنْکَ قُرَیْشًا وَّ تَرْکَاضَهُمْ فِی الضَّلَالِ، وَ تَجْوَالَهُمْ فِی الشِّقَاقِ، وَ جِمَاحَهُمْ فِی التِّیْهِ، فَاِنَّهُمْ قَدْ اَجْمَعُوْا عَلٰى حَرْبِیْ کَاِجْمَاعِهِمْ عَلٰى حَرْبِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ قَبْلِیْ، فَجَزَتْ قُرَیْشًا عَنِّی الْجَوَازِیْ، فَقَدْ قَطَعُوْا رَحِمِیْ، وَ سَلَبُوْنِیْ سُلْطَانَ ابْنِ اُمِّیْ.

تم قریش کے گمراہی میں دوڑ لگانے، سرکشی میں جولانیاں کرنے اور ضلالت میں منہ زوری دکھانے کی باتیں چھوڑ دو۔انہوں نے مجھ سے جنگ کرنے میں اسی طرح ایکا کیا ہے جس طرح وہ مجھ سے پہلے رسول ﷺ سے لڑنے کیلئے ایکا کئے ہوئے تھے۔ خدا کرے ان کی کرنی ان کے سامنے آئے! انہوں نے میرے رشتے کا کوئی لحاظ نہ کیا اور میرے ماں جائے کی حکومت مجھ سے چھین لی۔

وَ اَمَّا مَا سَئَلْتَ عَنْهُ مِنْ رَّاْیِیْ فِی الْقِتَالِ، فَاِنَّ رَاْیِیْ فِیْ قِتَالِ الْمُحِلِّیْنَ حَتّٰى اَلْقَى اللّٰهَ،‏ لَا یَزِیْدُنِیْ کَثْرَةُ النَّاسِ حَوْلِیْ عِزَّةً، وَ لَا تَفَرُّقُهُمْ عَنِّیْ وَحْشَةً.

اور جو تم نے جنگ کے بارے میں میری رائے دریافت کی ہے تو میری آخر دم تک رائے یہی رہے گی کہ جن لوگوں نے جنگ کو جائز قرار دے لیا ہے ان سے جنگ کرنا چاہیے۔ اپنے گرد لوگوں کا جمگھٹا دیکھ کر میری ہمت نہیں بڑھتی اور نہ ان کے چھٹ جانے سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے۔

وَ لَا تَحْسَبَنَّ ابْنَ اَبِیْکَ وَ لَوْ اَسْلَمَهُ النَّاسُ مُتَضَرِّعًا مُّتَخَشِّعًا، وَ لَا مُقِرًّا لِّلضَّیْمِ وَاهِنًا، وَ لَا سَلِسَ الزِّمَامِ لِلْقَآئِدِ، وَ لَا وَطِئَ الظَّهْرِ لِلرَّاکِبِ الْمُتَقَعِّدِ، وَ لٰکِنَّهٗ کَمَا قَالَ اَخُوْ بَنِیْ سُلَیْمٍ:

دیکھو! اپنے بھائی کے متعلق چاہے کتنا ہی لوگ اس کا ساتھ چھوڑ دیں، یہ خیال کبھی نہ کرنا کہ وہ بے ہمت و ہراساں ہو جائے گا، یا کمزوری دکھاتے ہوئے ذلت کے آگے جھکے گا، یا مہار کھینچنے والے ہاتھ میں بآسانی اپنی مہار دے دے گا، یا سوار ہونے والے کیلئے اپنی پشت کو مرکب بننے دے گا، بلکہ وہ تو ایسا ہے جیسا قبیلہ بنی سلیم والے نے کہا ہے:

فَاِنْ تَسْئَلِیْنِیْ کَیْفَ اَنْتَ؟ فَاِنَّنِیْ صَبُورٌ عَلٰى رَیْبِ الزَّمَانِ صَلِیْبُ‏ یَعِزُّ عَلَیَّ اَنْ تُرٰى بِیْ کَاٰبَةٌ فَیَشْمَتَ عَادٍ اَوْ یُسَآءَ حَبِیْبُ‏

’’اگر تم مجھ سے پوچھتی ہو کہ کیسے ہو تو سنو کہ میں زمانہ کی سختیاں جھیل لے جانے میں بڑا مضبوط ہوں۔ مجھے یہ گوارا نہیں کہ مجھ میں حزن و غم کے آثار دکھائی پڑیں کہ دشمن خوش ہو نے لگیں اور دوستوں کو رنج پہنچے‘‘۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 23 ، 16:32
عون نقوی

معاویہ کے نام

وَ هُوَ مِنْ مَّحَاسِنِ الْکُتُبِ

یہ مکتوب امیرالمومنین علیہ السلام کے بہترین مکتوبات میں سے ہے:

اَمَّا بَعْدُ! فَقَدْ اَتَانِیْ کِتَابُکَ تَذْکُرُ فِیْهِ اصْطِفَآءَ اللهِ مُحَمَّدًا ﷺ لِدِیْنِهٖ، وَ تَاْیِیْدَهٗ اِیَّاهُ بِمَنْ اَیَّدَهٗ مِنْ اَصْحَابِهٖ، فَلَقَدْ خَبَّاَ لَنَا الدَّهْرُ مِنْکَ عَجَبًا، اِذْ طَفِقْتَ تُخْبِرُنَا بِبَلَآءِ اللهِ عِنْدَنَا وَ نِعْمَتِهٖ عَلَیْنَا فِیْ نَبِیِّنَا، فَکُنْتَ فِیْ ذٰلِکَ کَنَاقِلِ التَّمْرِ اِلٰی هَجَرَ، اَوْ دَاعِیْ مُسَدِّدِهٖ اِلَی النِّضَالِ.

تمہارا خط پہنچا تم نے اس میں یہ ذکر کیا ہے کہ اللہ نے محمد ﷺ کو اپنے دین کیلئے منتخب فرمایا اور تائید و نصرت کرنے والے ساتھیوں کے ذریعہ ان کو قوت و توانائی بخشی۔ زمانہ نے تمہارے عجائبات پر اب تک پردہ ہی ڈالے رکھا تھا جو یوں ظاہر ہو رہے ہیں کہ تم ہمیں ہی خبر دے رہے ہو، ان احسانات کی جو خود ہمیں پر ہوئے ہیں اور اس نعمت کی جو ہمارے رسول ﷺ کے ذریعہ سے ہمیں پر ہوئی ہے۔ اس طرح تم ویسے ٹھہرے جیسے ہجر کی طرف کھجوریں لاد کر لے جانے والا، یا اپنے استاد کو تیر اندازی کے مقابلے کی دعوت دینے والا۔

وَ زَعَمْتَ اَنَّ اَفْضَلَ النَّاسِ فِی الْاِسْلَامِ فُلَانٌ وَّ فُلَانٌ، فَذَکَرْتَ اَمْرًا اِنْ تَمَّ اعْتَزَلَکَ کُلُّهٗ، وَ اِنْ نَّقَصَ لَمْ یَلْحَقْکَ ثَلْمُهٗ، وَ مَاۤ اَنْتَ وَ الْفَاضِلَ وَ الْمَفْضُوْلَ، وَ السَّآئِسَ وَ الْمَسُوْسَ! وَ مَا لِلطُّلَقَآءِ وَ اَبْنَآءِ الطُّلَقَآءِ وَ التَّمْیِیْزَ بَیْنَ الْمُهَاجِرِیْنَ الْاَوَّلِیْنَ، وَ تَرْتِیْبَ دَرَجَاتِهِمْ وَ تَعْرِیْفَ طَبَقَاتِهِمْ!. هَیْهَاتَ لَقَدْ حَنَّ قِدْحٌ لَّیْسَ مِنْهَا، وَ طَفِقَ یَحْکُمُ فِیْهَا مَنْ عَلَیْهِ الْحُکْمُ لَهَا!

تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلام میں سب سے افضل فلاں اور فلاں (ابو بکر و عمر) ہیں۔ یہ تم نے ایک ایسی بات کہی ہے کہ اگر صحیح ہو تو تمہارا اس سے کوئی واسطہ نہیں اور غلط ہو تو اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اور بھلا کہاں تم اور کہاں یہ بحث کہ کون افضل ہے اور کون غیر افضل؟ اور کون حاکم ہے اور کون رعایا؟! بھلا آزاد کردہ لوگوں اور ان کے بیٹوں کو یہ حق کہاں سے ہو سکتا ہے کہ وہ مہاجرین اولین کے درمیان امتیاز کرنے، ان کے درجے ٹھہرانے اور ان کے طبقے پہچنوانے بیٹھیں۔ کتنا نامناسب ہے کہ جوئے کے تیروں میں نقلی تیر آواز دینے لگے اور کسی معاملہ میں وہ فیصلہ کرنے بیٹھے جس کے خود خلاف بہرحال اس میں فیصلہ ہونا ہے۔

اَ لَا تَرْبَعُ اَیُّهَا الْاِنْسَانُ عَلٰی ظَلْعِکَ وَ تَعْرِفُ قُصُوْرَ ذَرْعِکَ؟ وَ تَتَاَخَّرُ حَیْثُ اَخَّرَکَ الْقَدَرُ! فَمَا عَلَیْکَ غَلَبَةُ الْمَغْلُوْبِ، وَ لَا لَکَ ظَفَرُ الظَّافِرِ! وَ اِنَّکَ لَذَهَّابٌ فِی التِّیْهِ، رَوَّاغٌ عَنِ الْقَصْدِ.

اے شخص! تو اپنے پیروں کے لنگ کو دیکھتے ہوئے اپنی حد پر ٹھہرتا کیوں نہیں؟ اور اپنی کوتاہ دستی کو سمجھتا کیوں نہیں؟ اور کیوں نہیں پیچھے ہٹ کر رکتا؟ وہیں جہاں قضا و قدر کا فیصلہ تجھے پیچھے ہٹا چکا ہے۔ آخر تجھے کسی مغلوب کی شکست سے اور کسی فاتح کی کامرانی سے سر و کار ہی کیا ہے؟ تمہیں محسوس ہو نا چاہیے کہ تم حیرت و سرگشتگی میں ہاتھ پاؤں مار رہے ہو اور راہ راست سے منحرف ہو۔

اَلَا تَرٰی ـ غَیْرَ مُخْبِرٍ لَّکَ وَ لٰکِنْۢ بِنِعْمَةِ اللهِ اُحَدِّثُ ـ اَنَّ قَوْمًا اسْتُشْهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللهِ مِنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، وَ لِکُلٍّ فَضْلٌ، حَتّٰۤی اِذَا اسْتُشْهِدَ شَهِیْدُنَا قِیْلَ: “سَیِّدُ الشُّهَدَآءِ”، وَ خَصَّهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِسَبْعِیْنَ تَکْبِیْرَةً عِنْدَ صَلٰوتِهٖ عَلَیْهِ!

آخر تم نہیں دیکھتے؟ اور یہ میں جو کہتا ہوں تمہیں کوئی اطلاع دینا نہیں ہے، بلکہ اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ کرنا ہے کہ: مہاجرین و انصار کا ایک گروہ خدا کی راہ میں شہید ہوا اور سب کیلئے فضیلت کا ایک درجہ ہے، مگر جب ہم میں سے شہید نے جامِ شہادت پیا تو اسے ’’سیّد الشہداء‘‘ کہا گیا اور پیغمبر ﷺ نے صرف اسے یہ خصوصیت بخشی کہ اس کی نماز جنازہ میں ستر (۷۰) تکبیریں کہیں۔

اَوَ لَا تَرٰۤی اَنَّ قَوْمًا قُطِعَتْ اَیْدِیْهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ ـ وَ لِکُلٍّ فَضْلٌ ـ حَتّٰۤی اِذَا فُعِلَ بِوَاحِدِنَا مَا فُعِلَ بِوَاحِدِهِمْ، قِیْلَ: “الطَّیَّارُ فِی الْجَنَّةِ” وَ “ذُو الْجَنَاحَیْنِ”!

اور کیا نہیں دیکھتے؟ کہ بہت لوگوں کے ہاتھ خدا کی راہ میں کاٹے گئے اور ہر ایک کیلئے ایک حد تک فضیلت ہے، مگر جب ہمارے آدمی کیلئے یہی ہوا جو اَوروں کے ساتھ ہو چکا تھا تو اسے ’’الطیار فی الجنہ (جنت میں پرواز کرنے والا) اور ’’ذو الجناحین‘‘ (دو پروں والا) کہا گیا۔

وَ لَوْ لَا مَا نَهَی اللهُ عَنْهُ مِنْ تَزْکِیَةِ الْمَرْءِ نَفْسَهٗ، لَذَکَرَ ذَاکِرٌ فَضَآئِلَ جَمَّةً، تَعْرِفُهَا قُلُوْبُ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَ لَا تَمُجُّهَا اٰذَانُ السَّامِعِیْنَ. فَدَعْ عَنْکَ مَنْ مَّالَتْ بِهِ الرَّمِیَّةُ، فَاِنَّا صَنَآئِعُ رَبِّنَا، وَ النَّاسُ بَعْدُ صَنَآئِعُ لَـنَا.

اور اگر خدا وند عالم نے خود ستائی سے روکا نہ ہوتا تو بیان کرنے والا اپنے بھی وہ فضائل بیان کرتا کہ مومنوں کے دل جن کا اعتراف کرتے ہیں اور سننے والوں کے کان انہیں اپنے سے الگ نہیں کر نا چاہتے۔ ایسوں کا ذکر کیوں کرو؟ جن کا تیر نشانوں سے خطا کر نے والا ہے۔ ہم وہ ہیں جو براہ راست اللہ سے نعمتیں لے کر پروان چڑھے ہیں اور دوسرے ہمارے احسان پروردہ ہیں۔

لَمْ یَمْنَعْنَا قَدِیْمُ عِزِّنَا وَ لَا عَادِیُّ طَوْلِنَا عَلٰی قَوْمِکَ اَنْ خَلَطْنَاکُمْ بِاَنْفُسِنَا، فَنَکَحْنَا وَ اَنْکَحْنَا فِعْلَ الْاَکْفَاۗءِ، وَ لَسْتُمْ هُنَاکَ! وَ اَنّٰی یَکُوْنُ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ وَ مِنَّا النَّبِیُّ وَ مِنْکُمُ الْمُکَذِّبُ، وَ مِنَّاۤ اَسَدُ اللهِ وَ مِنْکُمْ اَسَدُ الْاَحْلَافِ، وَ مِنَّا سَیِّدَا شَبَابِ اَهْلِ الْجَنَّةِ وَ مِنْکُمْ صِبْیَةُ النَّارِ، وَ مِنَّا خَیْرُ نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنِ وَ مِنْکُمْ حَمَّالَةُ الْحَطَبِ، فِیْ کَثِیْرٍ مِّمَّا لَنَا وَ عَلَیْکُمْ!

ہم نے اپنی نسلاً بعد نسل چلی آنے والی عزت اور تمہارے خاندان پر قدیمی برتری کے باوجود کوئی خیال نہ کیا اور تم سے میل جول رکھا اور برابر والوں کی طرح رشتے دیئے لئے، حالانکہ تم اس منزلت پر نہ تھے اور ہو کیسے سکتے ہو؟ جب کہ ہم میں نبی اور تم میں جھٹلانے والا، ہم میں اسداللہ اور تم میں اسد الاحلاف، ہم میں دو سردارانِ جوانانِ اہل جنت اور تم میں جہنمی لڑکے، ہم میں سردارِ زنانِ عالمیان اور تم میں حمالۃ الحطب، اور ایسی ہی بہت باتیں جو ہماری بلندی اور تمہاری پستی کی آئینہ دار ہیں۔

فَاِسْلَامُنَا قَدْ سُمِـعَ، وَجَاهِلِیَّتُنَا لَا تُدْفَعُ، وَ کِتَابُ اللهِ یَجْمَعُ لَنَا مَا شَذَّ عَنَّا، وَ هُوَ قَوْلُهٗ: ﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰهِ ؕ ﴾، وَ قَوْلُهٗ تَعَالٰی: ﴿اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰهِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ وَ هٰذَا النَّبِیُّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ؕ وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ۝﴾،

چنانچہ ہمارا ظہور اسلام کے بعد کا دور بھی وہ ہے جس کی شہرت ہے اور جاہلیت کے دور کا بھی ہمارا امتیاز ناقابل انکار ہے اور اس کے بعد جو رہ جائے وہ اللہ کی کتاب جامع الفاظ میں ہمارے لئے بتا دیتی ہے، ارشاد الٰہی ہے: ’’قرابتدار آپس میں ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں‘‘۔ دوسری جگہ پر ارشاد فرمایا ہے: ’’ابراہیمؑ کے زیادہ حق دار وہ لوگ تھے جو ان کے پیروکار تھے اور یہ نبیؐ اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اللہ ایمان والوں کا سرپرست ہے‘‘۔

فَنَحْنُ مَرَّةً اَوْلٰی بِالْقَرَابَةِ، وَ تَارَةً اَوْلٰی بِالطَّاعَةِ. وَ لَمَّا احْتَجَّ الْمُهَاجِرُوْنَ عَلَی الْاَنْصَارِ یَوْمَ السَّقِیْفَةِ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَلَجُوْا عَلَیْهِمْ، فَاِنْ یَّکُنِ الْفَلَجُ بِهٖ فَالْحَقُّ لَنَا دُوْنَکُمْ، وَ اِنْ یَّکُنْۢ بِغَیْرِهٖ فَالْاَنْصَارُ عَلٰی دَعْوَاهُمْ.

تو ہمیں قرابت کی وجہ سے بھی دوسروں پر فوقیت حاصل ہے اور اطاعت کی وجہ سے بھی ہمارا حق فائق ہے۔ اور سقیفہ کے دن جب مہاجرین نے رسول ﷺ کی قرابت کو استدلال میں پیش کیا تو انصار کے مقابلہ میں کامیاب ہوئے۔ تو ان کی کامیابی اگر قرابت کی وجہ سے تھی تو پھر یہ خلافت ہمارا حق ہے نہ کہ ان کا، اور اگر استحقاق کا کچھ اور معیار ہے تو انصار کا دعویٰ اپنے مقام پر برقرار رہتا ہے۔

وَ زَعَمْتَ اَنِّیْ لِکُلِّ الْخُلَفَآءِ حَسَدْتُّ، وَ عَلٰی کُلِّهِمْ بَغَیْتُ، فَاِنْ یَّکُنْ ذٰلِکَ کَذٰلِکَ فَلَیْسَ الْجِنَایَةُ عَلَیْکَ، فَیَکُوْنَ الْعُذْرُ اِلَیْکَ.

اور تم نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ میں نے سب خلفاء پر حسد کیا اور ان کے خلاف شورشیں کھڑی کیں۔ اگرایسا ہی ہے تو اس سے میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم سے معذرت کروں، (بقول شاعر:)

وَ تِلْکَ شَکَاةٌ ظَاهِرٌ عَنْکَ عَارُهَا

’’یہ ایسی خطا ہے جس سے تم پر کوئی حرف نہیں آتا‘‘

وَ قُلْتَ: اِنِّیْ کُنْتُ اُقَادُ کَمَا یُقَادُ الْجَمَلُ الْمَخْشُوْشُ حَتّٰۤی اُبَایِـعَ، وَ لَعَمْرُ اللهِ! لَقَدْ اَرَدْتَّ اَنْ تَذُمَّ فَمَدَحْتَ، وَ اَنْ تَفْضَحَ فَافْتَضَحْتَ! وَ مَا عَلَی الْمُسْلِمِ مِنْ غَضَاضَةٍ فِیْۤ اَنْ یَّکُوْنَ مَظْلُوْمًا مَّا لَمْ یَکُنْ شَاکًّا فِیْ دِیْنِهٖ، وَ لَا مُرْتَابًۢا بِیَقِیْنِهٖ! وَ هٰذِهٖ حُجَّتِیْۤ اِلٰی غَیْرِکَ قَصْدُهَا، وَ لٰکِنِّیْۤ اَطْلَقْتُ لَکَ مِنْهَا بِقَدْرِ مَا سَنَحَ مِنْ ذِکْرِهَا.

اور تم نے لکھا ہے کہ مجھے بیعت کیلئے یوں کھینچ کر لایا جاتا تھا جس طرح نکیل پڑے اونٹ کو کھینچا جاتا ہے، تو خالق کی ہستی کی قسم! تم اترے تو برائی کرنے پر تھے کہ تعریف کرنے لگے، چاہا تو یہ تھا کہ مجھے رسوا کرو کہ خود ہی رسوا ہو گئے۔ بھلا مسلمان آدمی کیلئے اس میں کون سی عیب کی بات ہے کہ وہ مظلوم ہو، جبکہ وہ نہ اپنے دین میں شک کرتا ہو، نہ اس کا یقین ڈانواں ڈول ہو۔ اور میری اس دلیل کا تعلق اگرچہ دوسروں سے ہے مگر جتنا بیان یہاں مناسب تھا تم سے کر دیا۔

ثُمَّ ذَکَرْتَ مَا کَانَ مِنْ اَمْرِیْ وَ اَمْرِ عُثْمَانَ، فَلَکَ اَنْ تُجَابَ عَنْ هٰذِهٖ لِرَحِمِکَ مِنْهُ، فَاَیُّنَا کَانَ اَعْدٰی لَهٗ وَ اَهْدٰی اِلٰی مَقَاتِلِهٖ؟! اَ مَنْۢ بَذَلَ لَهٗ نُصْرَتَهٗ فَاسْتَقْعَدَهٗ وَ اسْتَکَفَّهٗ؟ اَمْ مَنِ اسْتَنْصَرَهٗ فَتَرَاخٰی عَنْهُ، وَ بَثَّ الْمَنُوْنَ اِلَیْهِ حَتّٰۤی اَتٰی قَدَرُهٗ عَلَیْهِ؟ کَلَّا! وَاللهِ! لَقَدْ عَلِمَ ﴿اللّٰهُ الْمُعَوِّقِیْنَ مِنْکُمْ وَ الْقَآىِٕلِیْنَ لِاِخْوَانِهِمْ هَلُمَّ اِلَیْنَا ۚ وَ لَا یَاْتُوْنَ الْبَاْسَ اِلَّا قَلِیْلًاۙ۝۱۸﴾

پھر تم نے میرے اور عثمان کے معاملہ کا ذکر کیا ہے، تو ہاں اس میں تمہیں حق پہنچتا ہے کہ تمہیں جواب دیا جائے، کیونکہ تمہاری ان سے قرابت ہوتی ہے۔ اچھا تو پھر (سچ سچ) بتاؤ کہ ہم دونوں میں ان کے ساتھ زیادہ دشمنی کرنے والا اور ان کے قتل کا سر و سامان کرنے والا کون تھا؟ وہ کہ جس نے اپنی امداد کی پیشکش کی اور انہوں نے اسے بٹھا دیا اور روک دیا؟، یا وہ کہ جس سے انہوں نے مدد چاہی اور وہ ٹال گیا اور ان کیلئے موت کے اسباب مہیا کئے، یہاں تک کہ ان کے مقدر کی موت نے انہیں آ گھیرا؟ ہرگز نہیں!۔ خدا کی قسم!(وہ پہلا زیادہ دشمن ہرگز قرار نہیں پا سکتا)۔ اللہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو جنگ سے دوسروں کو روکنے والے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے کہنے والے ہیں کہ آؤ ہماری طرف آؤ اور خود بھی جنگ کے موقع پر برائے نام ٹھہرتے ہیں۔

وَمَا کُنْتُ لِاَعْتَذِرَ مِنْ اَنِّیْ کُنْتُ اَنْقِمُ عَلَیْهِ اَحْدَاثًا، فَاِنْ کَانَ الذَّنْۢبُ اِلَیْهِ اِرْشَادِیْ وَ هِدَایَتِیْ لَهٗ، فَرُبَّ مَلُوْمٍ لَّا ذَنْۢبَ لَهٗ.

بیشک میں اس چیز کیلئے معذرت کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ میں ان کی بعض بدعتوں کو ناپسند کرتا تھا۔ اگر میری خطا یہی ہے کہ میں انہیں صحیح راہ دکھاتا تھا اور ہدایت کرتا تھا تو اکثر ناکردہ گناہ ملامتوں کا نشانہ بن جایا کرتے ہیں۔

وَ قَدْ یَسْتَفِیْدُ الظِّنَّةَ الْمُتَنَصِّحُ

’’اور کبھی نصیحت کرنے والے کو بدگمانی کا مرکز بن جانا پڑتا ہے‘‘۔

وَ مَاۤ اَرَدْتُّ ﴿اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ؕ وَ مَا تَوْفِیْقِیْۤ اِلَّا بِاللّٰهِ ؕ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ۝﴾.

میں نے تو جہاں تک بن پڑا یہی چاہا کہ اصلاح حال ہو جائے اور مجھے توفیق حاصل ہونا ہے تو صرف اللہ سے، اسی پر میرا بھروسا ہے اور اسی سے لو لگاتا ہوں۔

وَ ذَکَرْتَ اَنَّهٗ لَیْسَ لِیْ وَ لِاَصْحَابِیْ عِنْدَکَ اِلَّا السَّیْفُ، فَلَقَدْ اَضْحَکْتَ بَعْدَ اسْتِعْبَارٍ ! مَتٰۤی اَلْفَیْتَ بَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَنِ الْاَعْدَآءِ نَاکِلِیْنَ، و بِالسُّیُوْفِ مُخَوَّفِیْنَ؟

تم نے مجھے لکھا ہے کہ میرے اور میرے ساتھیوں کیلئے تمہارے پاس بس تلوار ہے۔ یہ کہہ کر تو تم روتوں کو بھی ہنسانے لگے۔ بھلا یہ تو بتاؤ کہ تم نے اولادِ عبد المطلب کو کب دشمن سے پیٹھ پھراتے ہوئے پایا اور کب تلواروں سے خوفزدہ ہوتے دیکھا؟ (اگر یہی ارادہ ہے تو پھر بقول شاعر):

لَبِّثْ قَلِیْلًا یَلْحَقِ الْهَیْجَا حَمَلْ

’’تھوڑی دیر دم لو کہ حمل میدان جنگ میں پہنچ لے‘‘۔

فَسَیَطْلُبُکَ مَنْ تَطْلُبُ، وَ یَقْرُبُ مِنْکَ مَا تَسْتَبْعِدُ، وَ اَنَا مُرْقِلٌ نَّحْوَکَ فِیْ جَحْفَلٍ مِّنَ الْمُهَاجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ، وَ التَّابِعِیْنَ لَهُمْ بِاِحْسَانٍ، شَدِیْدٍ زِحَامُهُمْ، سَاطِعٍ قَتَامُهُمْ، مُتَسَرْبِلِیْنَ سَرَابِیْلَ الْمَوْتِ، اَحَبُّ اللِّقَآءِ اِلَیْهِمْ لِقَآءُ رَبِّهِمْ، قَدْ صَحِبَتْهُمْ ذُرِّیَّةٌۢ بَدْرِیَّةٌ، وَ سُیُوْفٌ هَاشِمِیَّةٌ، قَدْ عَرَفْتَ مَوَاقِعَ نِصَالِهَا فِیْۤ اَخِیْکَ وَ خَالِکَ وَ جَدِّکَ وَ اَهْلِکَ، ﴿وَ مَا هِیَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ بِبَعِیْدٍ۠۝﴾.

عنقریب جسے تم طلب کر رہے ہو، وہ خود تمہاری تلاش میں نکل کھڑا ہو گا اور جسے دور سمجھ رہے ہو وہ قریب پہنچے گا۔ میں تمہاری طرف مہاجرین و انصار اور اچھے طریقے سے ان کے نقش قدم پر چلنے والے تابعین کا لشکر جرار لے کر عنقریب اڑتا ہوا آ رہا ہوں۔ ایسا لشکر کہ جس میں بے پناہ ہجوم اور پھیلا ہوا گرد و غبار ہو گا۔ وہ موت کے کفن پہنے ہوئے ہوں گے۔ ہر ملاقات سے زیادہ انہیں لقائے پروردگار محبوب ہو گی۔ ان کے ساتھ شہدائے بدر کی اولاد اور ہاشمی تلواریں ہوں گی کہ جن کی تیز دھار کی کاٹ تم اپنے ماموں، بھائی، نانا اور کنبہ والوں میں دیکھ چکے ہو، ’’وہ ظالموں سے اب بھی دور نہیں ہیں‘‘۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 23 ، 16:29
عون نقوی

بِمَا یُعْمَلُ فِیْۤ اَمْوَالِهٖ کَتَبَهَا بَعْدَ مُنْصَرَفِهٖ مِنْ صِفِّیْنَ:

حضرتؑ کی وصیت اس امر کے متعلق کہ آپؑ کے اموال میں کیا عمل درآمد ہو گا۔ اسے صفین سے پلٹنے کے بعد تحریر فرمایا:

هٰذَا مَاۤ اَمَرَ بِهٖ عَبْدُ اللهِ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ فِیْ مَالِهٖ، ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللهِ، لِیُوْلِجَهٗ بِهِ الْجَنَّةَ، وَ یُعْطِیَهٗ بِهِ الْاَمَنَةَ.

یہ وہ ہے جو خدا کے بندے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے اپنے اموال (اوقاف) کے بارے میں حکم دیا ہے، محض اللہ کی رضا جوئی کیلئے تاکہ وہ اس کی وجہ سے مجھے جنت میں داخل کرے اور امن و آسائش عطا فرمائے۔

[مِنْهَا]

[اس وصیت کا ایک حصہ یہ ہے]

وَاِنَّهٗ یَقُوْمُ بِذٰلِکَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ، یَاْکُلُ مِنْهُ بِالْمَعْرُوْفِ، وَ یُنْفِقُ مِنْهُ بِالْمَعْرُوْفِ، فَاِنْ حَدَثَ بِحَسَنٍ حَدَثٌ وَّ حُسَیْنٌ حَیٌّ، قَامَ بِالْاَمْرِ بَعْدَهٗ وَ اَصْدَرَهٗ مَصْدَرَهٗ.

حسن ابن علی علیہما السلام اس کے متولی ہوں گے جو اس مال سے مناسب طریقہ پر روزی لیں گے اور امور خیر میں صرف کریں گے۔ اگر حسن علیہ السلام کو کچھ ہو جائے اور حسین علیہ السلام زندہ ہوں تو وہ ان کے بعد اس کو سنبھال لیں گے اور انہی کی راہ پر چلائیں گے۔

وَ اِنَّ لِابْنَیْ فَاطِمَةَ مِنْ صَدَقَةِ عَلِیٍّ مِّثْلَ الَّذِیْ لِبَنِیْ عَلِیٍّ، وَ اِنِّیْۤ اِنَّمَا جَعَلْتُ الْقِیَامَ بِذٰلِکَ اِلَی ابْنَیْ فَاطِمَةَ ابْتِغَآءَ وَجْهِ اللهِ، وَ قُرْبَةً اِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَ تَکْرِیْمًا لِّحُرْمَتِهٖ، وَ تَشْرِیْفًا لِّوُصْلَتِهٖ.

علی علیہ السلام کے اوقاف میں جتنا حصہ فرزندانِ علیؑ کا ہے اتنا ہی اولادِ فاطمہؑ کا ہے۔ بیشک میں نے صرف اللہ کی رضا مندی، رسول ﷺ کے تقرب، ان کی عزت و حرمت کے اعزاز اور ان کی قرابت کے احترام کے پیش نظر اس کی تولیت فاطمہ کے دونوں فرزندوں سے مخصوص کی ہے۔

وَ یَشْتَرِطُ عَلَی الَّذِیْ یَجْعَلُهٗۤ اِلَیْهِ اَنْ یَّتْرُکَ الْمَالَ عَلٰۤی اُصُوْلِهٖ، وَ یُنْفِقَ مِنْ ثَمَرِهٖ حَیْثُ اُمِرَ بِهٖ وَ هُدِیَ لَهٗ،

اور جو اس جائیداد کا متولی ہواس پر یہ پابندی عائد ہو گی کہ وہ مال کو اس کی اصلی حالت پر رہنے دے اور اس کے پھلوں کو ان مصارف میں جن کے متعلق ہدایت کی گئی ہے تصرف میں لائے۔

وَ اَنْ لَّا یَبِیْعَ مِنْ اَوْلَادِ نَخْلِ هٰذِهِ الْقُرٰی وَدِیَّةً حَتّٰی تُشْکِلَ اَرْضُهَا غِرَاسًا.

اور یہ کہ وہ ان دیہاتوں کے نخلستانوں کی نئی پود کو فروخت نہ کرے، یہاں تک کہ ان دیہاتوں کی زمین کا ان نئے درختوں کے جم جانے سے عالم ہی دوسرا ہو جائے۔

وَ مَنْ کَانَ مِنْ اِمَآئِیْ ـ اللَّاتِیْۤ اَطُوْفُ عَلَیْهِنَّ ـ لَهَا وَلَدٌ، اَوْ هِیَ حَامِلٌ، فَتُمْسَکُ عَلٰی وَلَدِهَا وَ هِیَ مِنْ حَظِّهٖ، فَاِنْ مَّاتَ وَلَدُهَا وَ هِیَ حَیَّةٌ فَهِیَ عَتِیْقَةٌ، قَدْ اُفْرِجَ عَنْهَا الرِّقُّ، وَ حَرَّرَهَا الْعِتْقُ.

اور وہ کنیزیں جو میرے تصرف میں ہیں ان میں سے جس کی گود میں بچہ یا پیٹ میں ہے تو وہ بچے کے حق میں روک لی جائے گی اور اس کے حصہ میں شمار ہو گی۔ پھر اگر بچہ مر بھی جائے اور وہ زندہ ہو تو بھی وہ آزاد ہو گی۔ اس سے غلامی چھٹ گئی ہے اور آزادی اسے حاصل ہو چکی ہے۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 23 ، 16:19
عون نقوی

معاویہ ابن ابی سفیان کے نام

فَسُبْحَانَ اللّٰه!ِ مَاۤ اَشَدَّ لُزُوْمَکَ لِلْاَهْوَآءِ الْمُبْتَدَعَةِ، وَ الْحَیْرَةِ الْمُتْعِبَةِ، مَعَ تَضْیِیْعِ الْحَقَآئِقِ، وَ اطِّرَاحِ الْوَثَآئِقِ، الَّتِیْ هِیَ لِلّٰهِ طِلْبَةٌ، وَ عَلٰى عِبَادِهٖ حُجَّۃٌ، فَاَمَّا اِکْثَارُکَ الْحِجَاجَ فِیْ عُثْمَانَ وَ قَتَلَتِهٖ، فَاِنَّکَ اِنَّمَا نَصَرْتَ عُثْمَانَ حَیْثُ کَانَ النَّصْرُ لَکَ، وَ خَذَلْتَهٗ حَیْثُ کَانَ النَّصْرُ لَهٗ، وَ السَّلَامُ.

اللہ اکبر! تم نفسانی خواہشوں اور زحمت و تعب میں ڈالنے والی حیرت و سرگشتگی سے کس بری طرح چمٹے ہوئے ہو، اور ساتھ ہی حقائق کو برباد کر دیا ہے، اور ان دلائل کو ٹھکرا دیا ہے جو اللہ کو مطلوب اور بندوں پر حجت ہیں۔ تمہارا عثمان اور ان کے قاتلوں کے بارے میں جھگڑا بڑھانا کیا معنی رکھتا ہے جبکہ تم نے عثمان کی اس وقت مدد کی جب وہ مدد خود تمہاری ذات کیلئے تھی اور اس وقت انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا کہ جب تمہاری مدد ان کے حق میں مفید ہو سکتی تھی۔ والسلام۔

https://balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 10 January 23 ، 16:11
عون نقوی