بصیرت اخبار

۲ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «شہید» ثبت شده است

رہبر انقلاب اسلامی نے سنیچر سولہ اکتوبر 2021 کو صوبۂ زنجان کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے منعقد ہونے والی کانفرنس کے منتظمین اور شہداء کے بعض اہل خانہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مختصر سا خطاب بھی کیا جو جمعرات کو اس کانگریس کی افتتاحی تقریب میں منظر عام پر لایا گیا۔     
اس ملاقات میں انھوں نے شہداء کے معزز اہل خانہ اور اسی طرح شہدائے زنجان کی کانگریس کا انعقاد کرنے والے افراد کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ایران میں زنجان کی تاریخی حیثیت اور اس کے کردار پر روشنی ڈالی۔ اس کے بعد آیۃ اللہ خامنہ ای نے شہید اور شہادت کے اعلی مقام اور حیثیت کا ذکر کیا اور کہا: شہداء، منتخب شدہ ہیں، خداوند عالم کی جانب سے منتخب شدہ ہیں۔ شہیدوں نے صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے اور خدا نے منزل تک پہنچنے کے لیے ان کا انتخاب کیا ہے۔ ہمارے مادی اور دنیوی حساب کتاب اور معیارات سے شہیدوں کی قدروقیمت کا اندازہ لگایا جانا ممکن نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ شہادت، روحانیت کی چوٹی ہے اور ہر چوٹی کو سر کرنے کے لیے اس پہاڑ کے دامن سے گزرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا: ہم میں سے بہت سے لوگ (شہادت کی) اس چوٹی تک پہنچنے کی تمنا رکھتے ہیں، تو ہمیں اس کے دامن سے گزرنا ہوگا، اس چوٹی کے دامن میں راستہ تلاش کرنا ہوگا اور اس راستے پر چلنا ہوگا تاکہ ہم چوٹی تک پہنچ سکیں ورنہ دامن سے گزرے بغیر چوٹی تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔

آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے اخلاص، ایثار، صداقت اور مجاہدت کو شہادت کا راستہ بتایا اور انصاف کی کوشش، اللہ کی جانب توجہ، عوام کے لیے کام اور دین کی حاکمیت کے قیام کو، اس راہ کو طے کرنے کے اہم اور مؤثر اسباب قرار دیا۔ انھوں نے اپنی تقریر میں شہداء کی یاد اور ان کے ذکر کو باقی رکھنے کے لیے انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے پروگراموں کے انعقاد کی اہمیت کا بھی تذکرہ کیا اور اسے مقدس دفاع کے اقدار کی بحالی کا ابتدائی مرحلہ قرار دیا جسے جدت طرازی کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ انھوں نے شہداء اور مقدس دفاع کے قصوں سے کتاب، فلم اور دستاویزی فلم تیار کیے جانے جیسے ثقافتی کاموں کو سراہتے ہوئے کہا: ان کاموں کے ساتھ ہی کچھ دوسرے کام بھی ہونے چاہیے جیسے شہیدوں کی لکھی گئی ڈائریوں کا دین کے عنصر کی مضبوط موجودگی کی بنیاد پر سماجی اور نفسیاتی لحاظ سے تجزیہ کیا جانا چاہیے؛ یہ بہت اہم چیز ہے۔ انھوں نے دین کو، شہداء اور ان کے اہل خانہ کے جذبۂ شجاعت، ایثار اور قربانی کو ابھارنے والا اصل عنصر بتایا اور کہا کہ یہ محرکات بجائے خود قابل تحقیق و تجزیہ ہیں۔ شہیدوں کے کپڑے دھونا، ان کے لیے کھانا پکانا، ڈبہ بند اشیائے خوردونوش تیار کرنا اور زخمیوں کی تیمار داری سمیت خواتین کے ذریعے محاذ جنگ کے پیچھے کی جانے والی خدمت جیسے مسائل کی جانب بھی رہبر انقلاب اسلامی نے اشارہ کیا اور اس طرح کے واقعات کو نقل کرنے اور ان کا تجزیہ کرنے کو گرانقدر کام بتایا۔ انھوں نے اسی کے ذیل میں محاذ جنگ کے پیچھے خواتین کے ایثار و فداکاری کے سلسلے میں اپنی کچھ یادوں کا ذکر کیا اور اسے حیرت انگیز بتایا۔

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے مقدس دفاع کے دوران بھی اور اس کے بعد بھی شہداء کے پاک جنازوں کو الوداع کہنے کے پروگراموں میں عوام کی شرکت کو ان باتوں میں قرار دیا جن کی جانب مقدس دفاع کے میدان میں غفلت برتی گئی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے آخر میں ہر شہر کی گلیوں، سڑکوں اور شاہراہوں کا نام اس شہر کے شہیدوں کے نام پر رکھے جانے کو اس شہر کے لیے ایک افتخار بتایا اور ذمہ داروں سے کہا کہ وہ ان چیزوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے رہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ ایرانی قوم، جلد ہی اپنی مجاہدتوں کے نتائج یعنی ایرانی قوم کی کامیابی کا مشاہدہ کرے گی اور مشکلات پر غلبہ حاصل کر لے گی۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 October 21 ، 16:42
عون نقوی

گابریل انکری فرانسیسی محقق اپنی کتاب "علی و حسین قہرمان اسلام" میں لکھتے ہیں کہ کربلا کے واقعے میں امام حسین علیہ السلام کی بے مثال قربانی و شجاعت کے بعد انکے طرفداروں میں ڈر ختم ہوگیا، اس واقعے کے بعد بجائے ڈر و خوف پیدا ہونے کے انکے طرفدار پہلے سے زیادہ شجاع تر ہوگئے۔ (١)

ایروینگ امریکی مورخ کہتا ہے: عراق کی سرزمین کربلا میں تپتے سورج کے نیچے اس خشک و ویران صحرا میں حسین کی روح فنا ناپذیر ہے، اے میرے ہیرو، اے شجاعت کے نمونے میرے حسین۔ (٢)

کارل بروکلمان جرمنی کے مشہور و معروف محقق، تجزیہ نگار اور پروفیسر لکھتے ہیں: امام حسین علیہ السلام کی شہادت اس چیز کا باعث بنی کہ  شیعہ مذہب محکم ہوگیا اور بہت زیادہ پھیلنے لگا۔ (٣)

ایڈورڈ برون انگریز مورخ لکھتا ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد کہ جس میں رسول کے بیٹے کو قتل کیا گیا، انکو بھوکا پیاسا رکھا گیا اور انکی لاشوں کو پائمال کیا گیا، اس واقعے نے سست ترین عقائد کے لوگوں کو بھی غمگین کردیا، اور انکے طرفداروں میں ایسا غم بھر دیا کہ وہ موت کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ (٤)

ایلیا پاولوچ پطرشفسکی روسی مورخ لکھتے ہیں: حسین علیہ کو ایک نابرابر جنگ میں شہید کیا گیا، ان کے جسم پر 33 نیزوں کے زخم، اور 34 تلوار کے وار لگے، اور انکے ساتھیوں کو بھی اس جنگ میں قتل کردیا گیا۔ (٥)

بورشو تامداس تونڈول: امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے بچپن سے ہی مجھے بے قرار کیا ہوا تھا، مجھے اس تاریخی واقعے کی عظمت کا بخوبی علم ہے، امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے عالمی سطح پر بشریت کو ارتقا بخشا ہے، اس واقعہ کی یاد کو ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے۔ (٦)

آرنلڈ ٹوین بی انگریز فیلسوف و مورخ لکھتا ہے معاویہ قریش کے خاندان میں سے مقتدر ترین شخص تھا، یہاں تک کہ اسکی چالاکیوں اور ریاکاریوں کے آگے امام علی بھی مقابلہ نہ کرسکے، لذا وہ خود اور انکے بیٹے مظلومانہ طور پر شہید ہو گئے۔ (٧)

جیمز فریڈرک: امام حسین اور انکے ساتھیوں کی شہادت نے ہمیں یہ درس دیا ہے کہ کچھ اصول تغییر ناپذیر ہیں مثلا عدالت، رحمدلی، اور محبت۔ جو کوئی بھی ان انسانی ابدی صفات کے خلاف جنگ کرے گا اسکے خلاف قیام کرنا ہوگا، یہ اصول ہمیشہ دنیا میں باقی و پائیدار رہیں گے۔ (٨)

رینو جوزف فرانسیسی مستشرق اور کتاب اسلام و مسلمین کے مصنف لکھتے ہیں کہ شیعہ نے اپنا مکتب تلوار سے نہیں پھیلایا، مکتب تشیع نے تبلیغ دعوت اور عزاداری امام حسین علیہ السلام کے مراسم سے پوری دنیا می اپنا پیغام پہنچایا اور اب نا صرف ایک تہائی مسلمان بلکہ بقیہ مذاہب مثلا ہندو و مجوسی بھی عزاء حسین میں شریک ہوتے ہیں۔ (٩)

چارلز ڈیکنس: اگر واقعی امام حسین دنیائی مقام و منصب کے حصول کے لیے نکلے تھے تو یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ وہ اپنے بچوں اور عورتوں کو ساتھ کیوں لے گئے، عقل مانتی ہے کہ انہوں نے فقط اسلام کی خاطر یہ فداکاری انجام دی۔ (١٠

مورس ڈوکبری فرانسیسی دانشمند کہتا ہے شیعوں نے یہ سب امام حسین سے سیکھا ہے کہ کبھی بھی کسی استعماری و استثماری پست حکومت کو قبول نہیں کرنا، انکے پیشوا و امام کا یہ شعار تھا کہ ظلم کے آگے تن دے دینا ہے سر نہیں جھکانا۔ (١١)

جورج زیدان لبنان کے مسیحی مصنف لکھتے ہیں رحلت رسول اسلام کے بعد لوگوں میں حب جاہ و مال پیدا ہوگیا، اخلاقی اقدار و افکار اور آل علی کے نظریات لوگوں میں بے اثر ہو کر رہ گئے۔ اسی وجہ سے کوفہ کے لوگوں نے امام حسین کی بیعت کرکے بھی اسے توڑ دیا اور مال و زر کی خاطر انکو شہید کردیا۔ (١٢)

مان ٹومس جرمنی کے معروف دانشور کہتے ہیں کہ اگر عیسی مسیح اور امام حسین کی فداکاری کا مقائسہ کیا جائے تو یقیناً حسین کی فداکاری پر مغز تر اور زیادہ اہمیت کی حامل دکھائی دیتی ہے، کیونکہ جس دن مسیح کو صلیب پر چڑھایا گیا کم از کم وہ اس فکر میں نہیں تھے کہ انکے بعد انکے بال بچوں اور ناموس کا کیا ہوگا لیکن امام حسین کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے جن میں سے کچھ واقعی بہت کم عمر تھے جنکو باپ کی ضرورت تھی۔ (١٣)

کورٹ فریشکر جرمن مورخ کہتے ہیں کہ امام حسین نے نا صرف اپنی جان قربان کی بلکہ اپنے بچے بھی فدا کردیئے۔ اس فداکاری کو نہ تو آپ ضد بازی و ہٹ دھرمی کہہ سکتے ہیں اور نہ اقتدار کا ہوس۔ امام عقل کے پیروکار تھے اور انہوں نے اپنے ارادے سے یہ فداکاری انجام دی تاکہ یزید بن معاویہ کی خواہش اور اسکے عقیدے کے مطابق زندگی نہ گزارنی پڑے۔ حسین خود کو فدا کرنے کے آمادہ تھے اس لیے آخر تک گھوڑے کو دوڑاتے رہے۔ (١٤)

تھامس کارلایل انگریز دانشور کہتے ہیں امام حسین اور انکے ساتھیوں کی شہادت سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ انکا خدا پر مکمل ایمان تھا۔ انہوں نے واضح کرکے رکھ دیا کہ جب بات حق و باطل کی اجاۓ تو افرادکا کم ہونا اہم نہیں، حسین کی اس اقلیت کے ساتھ اس اکثریت پر جیت سمجھ سے بالاتر ہے۔ (١٥)

مہاتما گاندھی کہتے ہیں کہ میں نے امام حسین اس شہید بزرگوار کی زندگی کا بخوبی مطالعہ کیا اور کربلا کے واقعے کو بھی پڑھا ہے، اس سے مجھ پر واضح ہوا کہ اگر کسی ملک کو فتح حاصل کرنی ہو تو وہ امام حسین کو اپنا سرمشق قرار دیں۔ (١٦)

میسو گبن: کربلا کے اندر جو فاجعہ پیش آیا اور امام حسین پر جو مصیبت نازل ہوئی صدیوں بعد بھی اگر کوئی سخت ترین شخص اس واقعے کو پڑھے تو اسکا دل منقلب ہوجاتا ہے۔ (١٧)

مادام، دائرة المعارف قرن 19 کے لکھاری لکھتے ہیں کہ امام حسین کی مظلومیت کی سب سے بڑی دلیل انکا اپنے شیر خوار بچے کی قربانی دینا ہے کہ اس کی مثل پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ ایک بچے کو پانی پلانے کے لیے لایا لیکن ادھر سے دشمن نے بچے کو قتل کردیا، اس عمل نے امام حسین کی مظلومیت کو ثابت اور بنو امیہ کے خاندان کو پورے عالم میں رسوا کردیا۔ اور اسکے نتیجے میں دین محمدی کو حیات جاوداں عطا ہوئی۔ (١٨)

تھوماس مساریک یورپین دانشور و مشہور کشیش لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح پر بھی بہت سے مصائب ڈھاۓ گئے لیکن اس کے مقابلے میں جو امام حسین پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے بہت کم ہیں۔ (١٩)

 

 


حوالہ جات:

١۔ علی و حسین دو قہرمان اسلام: گابریل انکری، فارسی ترجمہ فروغ شہاب، ص٢٨٢۔

٢۔ درسی کہ حسین (ع) بہ انسان ہا آموخت، سید عبدالکریم ہاشمی نژاد، ص٤٥١۔

٣۔ تاریخ ملل و دول اسلامی: کارل بروکلمان، فارسی ترجمہ ہادی جزایری، ص١٠٨۔

٤۔ عظمت حسین بن علی (ع)، تالیف ابوعبداللہ زنجانی، ص٤٤۔

٥۔ اسلام در ایران، ایلیا پاولویچ پطروشفسکی، فارسی ترجمہ کریم کشاورز، ص٥٤۔

٦۔ درسی کہ حسین (ع) بہ انسان ہا آموخت، ص٤٤٨۔

٧۔ تاریخ تمدن: ارنولد توین بی، ترجمہ یعقوب آژند، ص٤٥۔

٨۔ درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، ص٤٤٩۔

٩۔ پرتویی از عظمت حسین (ع)، لطف اللہ صافی، ص٤٤٠۔

١٠۔ درسی کہ حسین (ع) بہ انسان ہا آموخت، ص٤٤٨۔

١١۔ درسی کہ حسین (ع) بہ انسان ہا آموخت، ص٤٤٨۔

١٢۔ تاریخ تمدن اسلام، جرجی زیدان، فارسی ترجمہ علی جواہر کلام، ص٦٥۔

١٣۔ تحریف شناسی عاشورا در پرتو امام شناسی، داود الہامی، مکتب اسلام، ص١٣٠۔

١٤۔ امام حسین (ع) و ایران، کورت فریشلر فارسی ترجمہ ذبیح اللہ منصوری، ص٤٤٤۔

١٥۔ درسی کہ حسین بہ انسان ہا آموخت، ص٤٤٨۔

١٦۔ درسی کہ حسین بہ انسان ہا آموخت، ص٤٤٨۔

١٧۔ تاریخ اسلام و عرب، امیر علی، ص٩٣۔

١٨۔ چہرہ درخشان حسین بن علی (ع) ، علی ربانی خلخالی، ص١٣٤۔

١٩۔ درسی کہ حسین (ع) بہ انسان ہا آموخت، ص٤٥١۔

 

تحریر: عون نقوی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 August 21 ، 12:57
عون نقوی