رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای دام ظلہ العالی
ہمارے یہاں بعض لوگ دین کو ایک ذاتی(personal) حد تک اور ایک ایسے رابطے کے طور پر مانتے ہیں جو صرف دل کی گہرائیوں میں انسان اور خدا کا آپس میں ارتباط ہے۔ دین کی سیاست میں دخالت، دین کی حکومت، اور لوگوں کی مدیریت کے لیے دین کو موزوں نہیں سمجھتے۔ ان کے بقول ہم دین کے قائل ہیں لیکن یہ کونسا دین ہے اس کا نہیں علم! جس دین کی رسول اللہ ﷺ نے تبلیغ کی اور اپنی تبلیغ کی ابتدائی ترین فعالیتوں میں، بعثت کے دوران جن شعاروں کو بلند کیا ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑ گئی، اور مدینہ جا کر نظام اسلامی ایجاد کیا۔ ورنہ جو رسول اللہ ﷺ نے شعار بلند کیے انکا کوئی اور مطلب نہیں بنتا۔ سب سے پہلا شعار توحید کا شعار تھا وہ توحید کہ جس کی رسول اللہ ﷺ نے ترویج کی، یہ وہ توحید تھی جس نے معاشرے میں تبعیضی نظام کی نفی کی۔ یہ وہ توحید تھی کہ جس نے غلاموں کو اپنے آقاؤں کے خلاف کھڑا کر دیا، یہ وہ توحید تھی کہ جس سے باایمان اور پُر احساس نوجوان اپنے ہی باپ داداؤں کی غلط رسومات ، برے کاموں، اور انحرافی نظریات کے خلاف اٹھ کھڑے ہوۓ۔ یہ وہ توحید نہیں تھی جو دل کی گہرائیوں میں فردی اور قلبی عقیدہ ہے (کہ جس کے آج کل ہم مسلمان قائل ہیں۔) بلکہ یہ وہ توحید تھی کہ جس کا پرچم بلند کر کے اس کے نظام کے اندر ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ یعنی وہی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کا دور۔ اس توحید نے مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کیا اور وہاں جا کر توحید کے ذیل میں مسلمانوں نے اسلامی نظام تشکیل دیا۔ رسول اللہﷺ نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے حکومت تشکیل دی، اب جو شخص کہتا ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ﷺ کے دین کو قبول کرتا ہوں، لیکن ان کی ہجرت، ان کی حکومت، ان کی ولایت، اور ان کے اقتدار کو قبول نہیں کرتا، نہیں معلوم اس نے اپنے دین کی کیسے توجیہ کی ہوئی ہے؟(۱)