بصیرت اخبار

۳ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «دشمن» ثبت شده است

امیرالمومنینؑ کے بالمقابل جنگ جمل و نھران و صفین میں جو افراد آۓ وہ بے دین، یا دین دشمن افراد نہیں تھے بلکہ کٹر دیندار اہل نماز، قاریان قرآن مجید و عابد حضرات تھے۔ دیندار تھے دین کے پیرو تھے لیکن دین کی صحیح فہم نہیں رکھتے تھے، دینداروں کی فہم نادرست کا یہ نتیجہ نکلا کہ اپنے وقت کے امامؑ کو کہا کہ تم کافر ہوگئے ہو توبہ کرو۔


 

کربلا میں امام حسینؑ کے مدمقابل دین کے دشمن یا سیکولر افراد جمع نہیں تھے بلکہ دین کے پیروکار جمع تھے لیکن دین کی صحیح سمجھ بوجھ نہیں رکھتے تھے اس لئے وقت کے امامؑ کو بے دردی سے شھید کر کے مراسم شکرگزراری برپا کی۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کوفیوں نے امام حسینؑ کے قتل ہونے پر شکرانے کے طور پر کوفہ میں چار مساجد کی بنیاد رکھی:

۱۔ مسجد اشعث
۲۔ مسجد جریر
۳۔ مسجد سماک
۴۔ مسجد شبث بن ربعی(۱)

 

 


حوالہ:
۱. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۳، ص۴۹۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 11:04
عون نقوی

 ایک معاشرے کا بیدار و بابصیرت ہونا ہى اس کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھ سکتا ہے اگر ایک دیندار معاشرے کى اکثریت غفلت کا شکار ہو جاۓ تو دشمنانِ دین ان پر مسلط ہو جاتے ہیں اور ان کے دین و ثقافت و رسم و رواج کو بدل کر رکھ دیتے ہیں۔ یہی حال اسلامی ممالک کا بھی ہے خصوصاً مملکت عزیز پاکستان اور اس کے حکمران، جنہیں آج تک دقیق طور پر صحیح نہیں پتہ چلا کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون، کہ جس کی بنا پر ہم اپنی آزاد خارجہ پالیسیاں بناتے۔ قرآن کریم دشمنان دین کے منصبوبوں کو مرحلہ بمرحلہ ذکر کرتا ہے اور ان سے ہوشیار رہنے کى ہدایت کرتا ہے۔ ضرورت صرف ایک با بصیرت و مدبر سیاستمدار کی ہے جو خارجہ پالیسیاں مغربی تعلیمات کی بنیاد پر نہیں بلکہ قرآن کریم کی تعلیمات کی بنیاد پر بناۓ اور ملک کی درست تدبیر کرے۔ 

قرآن کریم میں ارشاد بارى تعالى ہوتا ہے:

وَلَا تَزَالُ تَطَّلِعُ عَلَىٰ خَائِنَةٍ مِنْهُمْ.

ترجمہ: اور آۓ دن ان کى کسى خیانت پر آپ آگاہ ہو رہے ہیں۔
(سورہ مائدہ ، آیت ۱۳)

دشمنان دین کبھى آرام سے نہیں بیٹھتا اور چاہتا ہے کہ کسى نہ کسى طرح سے اسلام و مسلمین کو نقصان پہنچاتا رہے اور اس منصوبے کو عملى جامہ پہنانے کے لئے طرح طرح کے منصوبے (Planning) بناتا ہے۔ ان کے منصوبے فقط سیاسى و اقتصادى مسائل تک محدود نہیں ہوتے بلکہ ان کا ہدف اسلام کا خاتمہ اور مسلمین کو دین سے منحرف کرنا ہوتا ہے۔ جیسا کہ اسى طرف قرآن کریم کى آیت مجیدہ اشارہ کرتى ہے۔

وَلَا یَزَالُونَ یُقَاتِلُونَکُمْ حَتَّى یَرُدُّوکُمْ عَنْ دِینِکُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا.

ترجمہ: اور وہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر ان سے ہو سکے تو وہ تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں۔
(سورہ بقرہ ، آیت ۲۱۷)

یاد رہے جب ایک ملک کے لوگ اپنے دین سے ہی غدار ہو جائیں تو وہ مملکت آباد رہتی ہے اور نا اہالیان مملکت، جو ہماری سرحدوں پر حملہ کرتے ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں، اور جو تہذیبیں، انجمنیں، یا این۔جی۔اوز دین کو تباہ کررہی ہیں وہ بدترین دشمن ہیں۔ اسی لیے آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ خدمت خلق کی نیت سے مختلف این۔جی۔اوز پاکستان میں فعال ہیں اور ان کا ہدف فقط اس معاشرے کو برباد کرنا ہی نہیں بلکہ بے دین کرنا ہے ان کی اصل دشمنی دین اسلام سے ہے اور اس کا کھل کر اظہار بھی کرتے ہیں۔  دشمنان دین کى دشمنى یہیں پر ختم نہیں ہو جاتى بلکہ ان کى خواہش یہ ہوتى ہے کہ اسلام کو ختم کردیا جاۓ، مسلمین کو دین سے منحرف کرکے اپنے جیسا بنا لیا جاۓ تاکہ نہ کوئى اختلاف ہو اور نہ ہى کوئى مسئلہ پیدا ہو، جب یہ ہمارے جیسے ہو جائیں گے اور ہمارے دین کو اپنا لیں گے تو ان پر حکومت کرنا آسان ہو جاۓ گا، اسی چیز کی تاثیر ہے کہ آج تک ہم کسی کو اپنا دشمن مان ہی نہیں سکے، سخت ترین دشمنوں کو اپنا دوست سمجھتے رہے ہیں اور یہی علت ہے کہ استعماری طاقتیں بھی ہمیں اپنا حریف نہیں سمجھتیں اصلا اہمیت ہی نہیں دیتیں کیونکہ وہ جانتی ہیں جس کام پہ ان کو لگا دیا جائے یہ لگے رہتے ہیں۔ 

 دشمن کے اس ھدف کو قرآن کریم کى آیت مجیدہ آشکار کرتى ہے:

وَلَنْ تَرْضَىٰ عَنْکَ الْیَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ.

ترجمہ: اور آپ سے یہود و نصارى اس وقت تک خوش نہیں ہو سکتے جب تک آپ ان کے مذہب کے پیرو نہ بن جائیں۔
(سورہ بقرہ ، آیت ۱۲۰)

 قرآن کریم دشمن کے ان خبیثانہ اھداف کو ذکر کرتا ہے اور پھر یہ بھى بیان کرتا ہے کہ ان مراحل کو کس طرح سے طے کرتے ہیں:

وَفِیکُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ.

ترجمہ: اور تمہارے درمیان ان کے جاسوس موجود ہیں۔
( سورہ توبہ ، آیت ۴۷)

 قرآن کریم کى دشمن شناسى پر ان صریح آیات سے واضح ہوتا ہے کہ دشمنان دین و دشمنان مسلمین کس طرح سے اسلام و مسلمین کى نابودى کے لئے مرحلہ بمرحلہ اقدامات اٹھاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسلام و مسلمین کو سرکوب کریں۔  یہاں ضرورت اس بات کى ہے کہ مومنین کى صفوں میں شعور و بصیرت پیدا کى جاۓ اور یہ احساس اجاگر کیا جاۓ کہ اسلام و مسلمین خطر میں ہیں، جب تک خطرے کا احساس بیدار نہ ہوگا دشمن کى دشمنى کى زد میں رہیں گے لیکن اگر شعور و بصیرت سے کام لیں تو دشمن کے منصوبوں پر غلبہ پا سکتے ہیں۔

 


(اقتباس از کتاب ولایت فقیہ ولایت فقاہت و عدالت، مؤلف آیت اللہ العظمی جوادی آملی حفظہ اللہ۔)

۱ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:11
عون نقوی


امام حسینؑ کے راستے کا مطلب ہے دشمن سے نہ ڈرنا


رہبر معظم فرماتے ہیں:
آپ بھائیوں اور بہنوں اور ایران قوم کے تمام لوگوں کو یہ جاننا چاہئے کہ کربلا ہمارے لئے ہمیشہ رہنے والا نمونہ عمل ہے ۔ کربلا ہمارا مثالیہ ہے اور اس کا پیام ہے کہ دشمن کی طاقت کے سامنے انسان کے قدم متزلزل نہیں ہونے چاہئے ۔ یہ ایک آزمایا ہوا نمونہ عمل ہے ۔ صحیح ہے کہ صدر اسلام میں ، حسین بن علی علیہ السلام بہتر لوگوں کے ساتھ شہید کر دئے گئے لیکن اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ جو بھی امام حسین علیہ السلام کے راستے پر چلے یا جو بھی قیام و جد و جہد کرے اسے شہید ہو جانا چاہئے ، نہیں ۔ ملت ایران ، بحمد اللہ آج امام حسین علیہ السلام کے راستے کو آزما چکی ہے اور سر بلندی و عظمت کے ساتھ اقوام اسلام اور اقوام عالم کے درمیان موجود ہے ۔ وہ کارنامہ جو آپ لوگوں نے انقلاب کی کامیابی سے قبل انجام دیا وہ امام حسین علیہ السلام کا راستہ تھا امام حسین علیہ السلام کے راستے کا مطلب ہے دشمن سے نہ ڈرنا اور طاقتور دشمن کے سامنے ڈٹ جانا ہے ۔ جنگ کے دوران بھی ایسا ہی تھا ۔ ہماری قوم سمجھتی تھی کہ اس کے مقابلے میں مغرب و مشرق کی طاقتیں اور پورا سامراج کھڑا ہوا ہے لیکن وہ ڈری نہیں ۔ البتہ ہماری پیارے شہید ہوئے ۔ کچھ لوگوں کے اعضائے بدن کٹ گئے اور کچھ لوگوں نے برسوں جیلوں میں گزارے اور کچھ لوگ اب بھی بعثیوں کی جیل میں ہیں لیکن قوم ان قربانیوں کی بدولت عزت و عظمت کے اوج پر پہنچ گئ ۔ اسلام ہر دل عزیز ہو گیا ہے ، اسلام کا پرچم لہرا رہا ہے یہ سب کچھ مزاحمت کی برکت سے ہے۔

حوالہ:

آفیشل سائٹ رہبر معظم

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 17 August 21 ، 10:35
عون نقوی