بصیرت اخبار

۲ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «خطبہ شقشقیہ» ثبت شده است

وَ ھِیَ الْمَعْرُوْفَةُ بِالشِّقْشِقِیَّةِ

یہ خطبہ ’’ شقشقیہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔

اَمَا وَ اللهِ! لَقَدْ تَقَمَّصَهَا ابْنُ اَبِیْ قُحَافَۃَ، وَ اِنَّهٗ لَیَعْلَمُ اَنَّ مَحَلِّیْ مِنهَا مَحَلُّ الْقُطْبِ مِنَ الرَّحٰی، یَنْحَدِرُ عَنِّی السَّیْلُ، وَ لَا یَرْقٰى اِلَیَّ الطَّیْرُ، فَسَدَلْتُ دُوْنَهَا ثَوْبًا، وَ طَوَیْتُ عَنْهَا کَشْحًا، وَ طَفِقْتُ اَرْتَئِیْ بَیْنَ اَنْ اَصُوْلَ بِیَدٍ جَذَّآءَ، اَوْ اَصْبِرَ عَلٰى طَخْیَةٍ عَمْیَآءَ، یَهْرَمُ فِیْهَا الْکَبِیْرُ، وَ یَشِیْبُ فِیْهَا الصَّغِیْرُ، وَ یَکْدَحُ فِیْهَا مُؤْمِنٌ حَتّٰى یَلْقٰى رَبَّهٗ. فَرَاَیْتُ اَنَّ الصَّبْرَ عَلٰى هَاتَاۤ اَحْجٰى، فَصَبَرتُ وَ فِی الْعَیْنِ قَذًى،وَ فِی الْحَلْقِ شَجًا، اَرٰى تُرَاثِیْ نَهْبًا.

خدا کی قسم! فرزند ابو قحافہ نے پیراہنِ خلافت پہن لیا، حالانکہ وہ میرے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرا خلافت میں وہی مقام ہے جو چکی کے اندر اس کی کیلی کا ہوتا ہے۔ میں وہ (کوہ بلند ہوں) جس پر سے سیلاب کا پانی گزر کر نیچے گر جاتا ہے اور مجھ تک پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ (اس کے باوجود) میں نے خلافت کے آگے پردہ لٹکا دیا اور اس سے پہلو تہی کر لی اور سوچنا شروع کیا کہ اپنے کٹے ہوئے ہاتھوں سے حملہ کروں یا اس سے بھیانک تیرگی پر صبر کر لوں، جس میں سن رسیدہ بالکل ضعیف اور بچہ بوڑھا ہو جاتا ہے اور مومن اس میں جدوجہد کرتا ہوا اپنے پروردگار کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس اندھیر پر صبر ہی قرینِ عقل نظر آیا۔ لہٰذا میں نے صبر کیا، حالانکہ آنکھوں میں (غبار اندوہ کی )خلش تھی اور حلق میں (غم و رنج کے) پھندے لگے ہوئے تھے۔ میں اپنی میراث کو لٹتے دیکھ رہا تھا۔

حَتّٰى مَضَى الْاَوَّلُ لِسَبِیْلِهٖ، فَاَدْلٰى بِهَا اِلَى ابْنِ الْخَطَّابِ بَعْدَهٗ.

یہاں تک کہ پہلے نے اپنی راہ لی اور اپنے بعد خلافت ابنِ خطاب کو دے گیا۔

ثُمَّ تَمَثَّلَ بَقَوْلِ الْاَعْشٰى:

پھر حضرتؑ نے بطورِ تمثیل اعشیٰ کا یہ شعر پڑھا:

شَتَّانَ مَا یَوْمِیْ عَلٰى کُوْرِهَا

’’کہاں یہ دن جو ناقہ کے پالان پر کٹتا ہے اور کہاں وہ دن جو حیان برادرِ جابر کی صحبت میں گزرتا تھا‘‘۔

وَ یَوْمُ حَیَّانَ اَخِیْ جَابِرِ

فَیَا عَجَبًا! بَیْنَا هُوَ یَسْتَقِیْلُهَا فِیْ حَیَاتِهٖ اِذْ عَقَدَهَا لِاٰخَرَ بَعْدَ وَفَاتِهٖ، لَشَدَّ مَا تَشَطَّرَا ضَرْعَیْهَا! فَصَیَّرَهَا فِیْ حَوْزَةٍ خَشْنَآءَ، یَغْلُظُ کَلْمُهَا وَ یَخْشُنُ مَسُّهَا، وَ یَکْثُرُ الْعِثَارُ فِیْهَا وَ الْاِعْتِذَارُ مِنْهَا، فَصَاحِبُهَا کَرَاکِبِ الصَّعْبَةِ، اِنْ اَشْنَقَ لَهَا خَرَمَ وَ اِنْ اَسْلَسَ لَهَا تَقَحَّمَ، فَمُنِیَ النَّاسُ ـ لَعَمْرُ اللهِ! ـ بِخَبْطٍ وَّ شِمَاسٍ وَّ تَلَوُّنٍ وَّ اعْتِرَاضٍ. فَصَبَرْتُ عَلٰى طُوْلِ الْمُدَّةِ، وَ شِدَّةِ الْمِحْنَةِ.

تعجب ہے کہ وہ زندگی میں تو خلافت سے سبکدوش ہونا چاہتا تھا، لیکن اپنے مرنے کے بعد اس کی بنیاد دوسرے کیلئے استوار کرتا گیا۔ بے شک ان دونوں نے سختی کے ساتھ خلافت کے تھنوں کو آپس میں بانٹ لیا۔ اس نے خلافت کو ایک سخت و درشت محل میں رکھ دیا جس کے چرکے کاری تھے، جس کو چھو کر بھی درشتی محسوس ہوتی تھی، جہاں بات بات میں ٹھوکر کھانا اور پھر عذر کرنا تھا، جس کا اس سے سابقہ پڑے وہ ایسا ہے جیسے سرکش اونٹنی کا سوار کہ اگر مہار کھینچتا ہے تو (اس کی منہ زوری سے) اس کی ناک کا درمیانی حصہ ہی شگافتہ ہوا جاتا ہے (جس کے بعد مہار دینا ہی ناممکن ہو جائے گا) اور اگر باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مہلکوں میں پڑ جائے گا۔ اس کی وجہ سے بقائے ایزد کی قسم! لوگ کجروی، سرکشی، متلون مزاجی اور بے راہ روی میں مبتلا ہو گئے۔ میں نے اس طویل مدت اور شدید مصیبت پر صبر کیا۔

حَتّٰۤى اِذَا مَضٰى لِسَبِیْلِهٖ جَعَلَهَا فِیْ جَمَاعَةٍ زَعَمَ اَنِّیْۤ اَحَدُهُمْ.

یہاں تک کہ دوسرا بھی اپنی راہ لگا، اور خلافت کو ایک جماعت میں محدود کر گیا اور مجھے بھی اس جماعت کا ایک فرد خیال کیا۔

فَیَا لَـلّٰهِ وَ لِلشُّوْرٰى! مَتَى اعْتَرَضَ الرَّیْبُ فِیَّ مَعَ الْاَوَّلِ مِنْهُمْ، حَتّٰى صِرْتُ اُقْرَنُ اِلٰى هٰذِهِ النَّظَآئِرِ لٰکِنِّیْۤ اَسْفَفْتُ اِذْ اَسَفُّوْا، وَ طِرْتُّ اِذْ طَارُوْا، فَصَغٰی رَجُلٌ مِّنْهُمْ لِضِغْنِهٖ وَ مَالَ الْاٰخَرُ لِصِهْرِهٖ، مَعَ هَنٍ وَّهَنٍ.

اے اللہ! مجھے اس شوریٰ سے کیا لگاؤ؟ ان میں سب سے پہلے کے مقابلہ ہی میں میرے استحقاق و فضیلت میں کب شک تھا جو اَب ان لوگوں میں مَیں بھی شامل کر لیا گیا ہوں۔ مگر میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ جب وہ زمین کے نزدیک ہو کر پرواز کرنے لگیں تو میں بھی ایسا ہی کرنے لگوں اور جب وہ اونچے ہو کر اڑنے لگیں تو میں بھی اسی طرح پرواز کروں (یعنی حتی الامکان کسی نہ کسی صورت سے نباہ کرتا رہوں ان میں سے ایک شخص تو کینہ و عناد کی وجہ سے مجھ سے منحرف ہو گیا اور دوسرا دامادی اور بعض ناگفتہ بہ باتوں کی وجہ سے ادھر جھک گیا۔

اِلٰۤى اَنْ قَامَ ثَالِثُ الْقَوْمِ، نَافِجًا حِضْنَیْهِ بَیْنَ نَثِیْلِهٖ وَ مُعْتَلَفِهٖ وَ قَامَ مَعَهٗ بَنُوْۤ اَبِیْهِ یَخْضِمُوْنَ مَالَ اللهِ خَضْمَۃَ الْاِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِیْعِ، اِلٰۤى اَنِ انْتَکَثَ فَتْلُهٗ، وَ اَجْهَزَ عَلَیْهِ عَمَلُهٗ وَ کَبَتْ بِهٖ بِطْنَتُهٗ.

یہاں تک کہ اس قوم کا تیسرا شخص پیٹ پھلائے سرگین اور چارے کے درمیان کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ اس کے بھائی بند اٹھ کھڑے ہوئے جو اللہ کے مال کو اس طرح نگلتے تھے جس طرح اونٹ فصل ربیع کا چارہ چرتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا جب اس کی بٹی ہوئی رسی کے بل کُھل گئے اور اس کی بداعمالیوں نے اس کا کام تمام کر دیا اور شکم پری نے اسے منہ کے بل گرا دیا۔

فَمَا رَاعَنِیْۤ اِلَّا وَ النَّاسُ کَعُرْفِ الضَّبُعِ اِلَیَّ، یَنْثَالُوْنَ عَلَیَّ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ، حَتّٰى لَقَدْ وُطِئَ الْحَسَنَانِ، وَ شُقَّ عِطْفَایَ، مُجْتَمِعِیْنَ حَوْلِیْ کَرَبِیْضَةِ الْغَنَمِ، فَلَمَّا نَهَضْتُ بِالْاَمْرِ نَکَثَتْ طَآئِفَةٌ وَّ مَرَقَتْ اُخْرٰى وَ قَسَطَ اٰخَرُوْنَ، کَاَنَّهُمْ لَمْ یَسْمَعُوْا کَلَامَ اللهِ حَیْثُ یَقُوْلُ: ﴿تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ۝﴾، بَلٰى! وَاللهِ لَقَدْ سَمِعُوْهَا وَ وَعَوْهَا، وَ لٰکِنَّهُمْ حَلِیَتِ الدُّنْیَا فِیْۤ اَعْیُنِهِمْ، وَ رَاقَهُمْ زِبْرِجُهَا.

اس وقت مجھے لوگوں کے ہجوم نے دہشت زدہ کر دیا جو میری جانب بجُّو کے ایال کی طرح ہر طرف سے لگاتار بڑھ رہا تھا، یہاں تک کہ عالم یہ ہوا کہ حسنؑ اور حسینؑ کچلے جا رہے تھے اور میری رِدا کے دونوں کنارے پھٹ گئے تھے۔ وہ سب میرے گرد بکریوں کے گلے کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے۔ مگر اس کے باوجود جب میں امر خلافت کو لے کر اٹھا تو ایک گروہ نے بیعت توڑ ڈالی اور دوسرا دین سے نکل گیا اور تیسرے گروہ نے فسق اختیار کر لیا۔ گویا انہوں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہی نہ تھا کہ: ’’یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کیلئے قرار دیا ہے جو دنیا میں نہ (بے جا) بلندی چاہتے ہیں، نہ فساد پھیلاتے ہیں اور اچھا انجام پرہیز گاروں کیلئے ہے‘‘۔ ہاں ہاں خدا کی قسم! ان لوگوں نے اس آیت کو سنا تھا اور یاد کیا تھا، لیکن ان کی نگاہوں میں دنیا کا جمال کُھب گیا اور اس کی سج دھج نے انہیں لبھا دیا۔

اَمَا وَ الَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَاَ النَّسَمَةَ! لَوْ لَا حُضُوْرُ الْحَاضِرِ وَ قِیَامُ الْحُجَّةِ بِوُجُوْدِ النَّاصِرِ وَ مَاۤ اَخَذَ اللهُ عَلَى الْعُلَمَآءِ اَنْ لَّا یُقَارُّوْا عَلٰى کِظَّةِ ظَالِمٍ وَّ لَا سَغَبِ مَظْلُوْمٍ، لَاَلْقَیْتُ حَبْلَهَا عَلٰى غَارِبِهَا وَ لَسَقَیْتُ اٰخِرَهَا بِکَاْسِ اَوَّلِهَا، وَ لَاَلْفَیْتُمْ دُنْیَاکُمْ هٰذِهِ اَزْهَدَ عِنْدِیْ مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ.

دیکھو! اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں! اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتنا پاتے۔

قَالُوْا: وَ قَامَ اِلَیْهِ رَجُلٌ مِّنْ اَهْلِ السَّوَادِ عِنْدَ بُلُوْغِهٖ اِلٰى هٰذَا الْمَوْضِعِ مِنْ خُطْبَتِهٖ، فَنَاوَلَهٗ کِتَابًا، فَاَقْبَلَ یَنْظُرُ فِیْهِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَآئَتِهٖ قَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! لَوِ اطَّرَدْتَّ خُطْبَتَکَ مِنْ حَیْثُ اَفْضَیْتَ.

لوگوں کا بیان ہے کہ: جب حضرتؑ خطبہ پڑھتے ہوئے اس مقام تک پہنچے تو ایک عراقی باشندہ آگے بڑھا اور ایک نوشتہ حضرتؑ کے سامنے پیش کیا۔ آپؑ اسے دیکھنے لگے۔ جب فارغ ہوئے تو ابنِ عباس نے کہا: یا امیر المومنینؑ! آپؑ نے جہاں سے خطبہ چھوڑا تھا وہیں سے اس کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔

فَقَالَ ؑ:

حضرتؑ نے فرمایا کہ:

هَیْهَاتَ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! تِلْکَ شِقْشِقَةٌ هَدَرَتْ ثُمَّ قَرَّتْ.

اے ابن عباس! یہ تو ’’شقشقہ‘‘ (گوشت کا وہ نرم لوتھڑا جو اونٹ کے منہ سے مستی و ہیجان کے وقت نکلتا ہے) تھا جو اُبھر کر دب گیا۔

قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَوَاللّٰهِ مَاۤاَسِفْتُ عَلٰى کَلَامٍ قَطُّ کَاَسَفِیْ عَلٰى هٰذَا الْکَلَامِ اَنْ لَّا یَکُوْنَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ بَلَغَ مِنْهُ حَیْثُ اَرَادَ.

ابن عباس کہتے تھے کہ: مجھے کسی کلام کے متعلق اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا اس کلام کے متعلق اس بنا پر ہوا کہ حضرت وہاں تک نہ پہنچ سکے جہاں تک وہ پہنچنا چاہتے تھے۔

https://balagha.org/

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 January 23 ، 15:17
عون نقوی

امیرالمومنین علی علیہ الصلوة والسلام فرماتے ہیں:

أَما وَالَّذِی فَلَقَ الْحَبَّةَ، وَبَرَأَ النَّسَمَةَ، لَوْلاَ حُضُورُ الْحاضِرِ، وَقِیامُ الْحُجَّةِ بِوُجُودِالنَّاصِرِ، وَما أَخَذَاللّه ُ عَلَى الْعُلَماءِ أَلاَّ یُقارُّوا عَلَى کِظَّةِ ظالِمٍ، وَلاَ سَغَبِ مَظْلُومٍ، لَأَلْقَیْتُ حَبْلَها عَلَى غارِبِها، وَلَسَقَیْتُ آخِرَها بِکَأْسِ أَوَّلِها.

’’اس ذات کی قسم ! جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں اگر بیعت کرنے والوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہو گئی ہوتی اور وہ عھد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی بھوک پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ دوڑ اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اس پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کو اول سیراب کیا تھا‘‘۔

لمحہ غور و فکر:
اسلام ایک جامع مذھب ہے جس میں انسان کی انفرادی ترین ضروریات سے لے کر معاشرتی و اجتماعی ضرورتوں کو بیان کیا گیا، انسان کی اجتماعی ضروریات میں سے ایک اہم ترین ضرورت حکومت ہے۔ سیکولرزم کے نظریہ کے مطابق دین انسان کی انفرادی ضرورت ہے اگر کوئی انفرادی طور پر دین کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو وہ دین پر عمل کرے لیکن دین کا اجتماعی طور پر انسانی زندگی میں کسی قسم کا دخل نہیں اور نہ ہی دینی قوانین کو اجتماعی طور پر لاگو کیا جاۓ۔ دین اسلام اس نظریہ کو قبول نہیں کرتا بلکہ دین شناسوں پر فرض ہے کہ وہ سیاست و حکومت میں حصہ لیں جیسا کہ امیرالمومنین ع اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خداوند متعال نے علماء اسلام سے عھد لیا ہے کہ وہ ظالم کے ظلم پر خاموش نہ رہیں اور مظلوم کی مظلومیت پر اٹھ کھڑے ہوں۔ لیکن ظالم کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اور مظلوم کی مدد کیلئے کیا کیا جاۓ اور کونسا وسیلہ اختیار کیا جاۓ ؟؟

اس کیلئے بھترین وسیلہ حکومت کا حصول ہے۔ امیرالمومنین علیہ السلام حکومت جیسی اہم ترین معاشرے کی ضرورت کا ھدف بیان کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ حکومت ایک ذریعہ و وسیلہ ہے کہ جس کے ذریعے ہم مظلوم کو اس کا حق دلا سکتے ہیں اور ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دے سکتے ہیں۔ خود بذات خود حکومت کا حصول کوئی معنی نہیں رکھتا جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام ایک خطبہ میں حصول حکومت کو اپنی پھٹی پرانی جوتی سے بھی بد تر قرار دیتے ہیں ، پھر فرماتے ہیں کہ مگر یہ کہ حکومت کو وسیلہ بنا کر عدالت برپا کی جاۓ۔ نتیجتا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دین اسلام سیاست و حکومت کی نفی نہیں کرتا لیکن حکومت و سیاست اس معنی میں کہ جو خود کلام معصوم میں بیان ہوئی ہے نہ وہ سیاست جو آج معاشروں میں رائج ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:
۱۔ نہج البلاغہ، خطبہ شقشقیہ، ص٨٥۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 September 21 ، 00:38
عون نقوی