بصیرت اخبار

۲۴۷ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «بصیرت اخبار» ثبت شده است

وَ نَاظِرُ قَلْبِ اللَّبِیْبِ بِهٖ یُبْصِرُ اَمَدَهٗ، وَ یَعْرِفُ غَوْرَهٗ وَ نَجْدَهٗ. دَاعٍ دَعَا، وَ رَاعٍ رَّعٰی، فَاسْتَجِیْبُوْا لِلدَّاعِیْ، وَ اتَّبِعُوا الرَّاعِیَ.

عقلمند دل کی آنکھوں سے اپنا مآلِ کار دیکھتا ہے اور اپنی اونچ نیچ (اچھی بری راہوں) کو پہچانتا ہے۔ دعوت دینے والے نے پکارا اور نگہداشت کرنے والے نے نگہداشت کی۔ بلانے والے کی آواز پر لبیک کہو اور نگہداشت کرنے والے کی پیروی کرو۔

قَدْ خَاضُوْا بِحَارَ الْفِتَنِ، وَ اَخَذُوْا بِالْبِدَعِ دُوْنَ السُّنَنِ، وَ اَرَزَ الْمُؤْمِنُوْنَ، وَ نَطَقَ الضَّالُّوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ.

کچھ لوگ فتنوں کے دریاؤں میں اترے ہوئے ہیں اور سنتوں کو چھوڑ کر بدعتوں میں پڑ چکے ہیں، ایمان والے دبکے پڑے ہیں اور گمراہوں اور جھٹلانے والوں کی زبانیں کھلی ہوئی ہیں۔

نَحْنُ الشِّعَارُ وَ الْاَصْحَابُ، وَ الْخَزَنَةُ وَ الْاَبْوَابُ، وَ لَا تُؤْتَی الْبُیُوْتُ اِلَّا مِنْ اَبْوَابِهَا، فَمَنْ اَتَاهَا مِنْ غَیْرِ اَبْوَابِهَا سُمِّیَ سَارِقًا.

ہم قریبی تعلق رکھنے والے اور خاص ساتھی اور خزانہ دار اور دروازے ہیں اور گھروں میں دروازوں ہی سے آیا جاتا ہے اور جو دروازوں کو چھوڑ کر کسی اور طرف سے آئے اس کا نام چور ہوتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

فِیْهِمْ کَرَآئِمُ الْقُرْاٰنِ، وَ هُمْ کُنُوْزُ الرَّحْمٰنِ، اِنْ نَّطَقُوْا صَدَقُوْا، وَ اِنْ صَمَتُوْا لَمْ یُسْبَقُوْا.

(آل محمدؑ) انہی کے بارے میں قرآن کی نفیس آیتیں اتری ہیں اور وہ اللہ کے خزینے ہیں۔ اگر بولتے ہیں تو سچ بولتے ہیں اور اگر خاموش رہتے ہیں تو کسی کو بات میں پہل کا حق نہیں۔

فَلْیَصْدُقْ رَآئِدٌ اَهْلَهٗ، وَ لْیُحْضِرْ عَقْلَهٗ، وَ لْیَکُنْ مِّنْ اَبْنَآءِ الْاٰخِرَةِ، فَاِنَّهٗ مِنْهَا قَدِمَ وَ اِلَیْهَا یَنْقَلِبُ. فَالنَّاظِرُ بِالْقَلْبِ الْعَامِلُ بِالْبَصَرِ یَکُوْنُ مُبْتَدَاُ عَمَلِهٖۤ اَنْ یَّعْلَمَ: اَ عَمَلُهٗ عَلَیْهِ اَمْ لَهٗ؟! فَاِنْ کَانَ لَهٗ مَضٰی فِیْهِ، وَ اِنْ کَانَ عَلیْهِ وَقَفَ عَنْهُ.

پیشرو کو اپنے قوم قبیلے سے (ہر بات) سچ سچ بیان کرنا چاہیے اور اپنی عقل کو گم نہ ہونے دے اور اہل آخرت میں سے بنے۔ اس لئے کہ وہ اُدھر ہی سے آیا ہے اور اُدھر ہی اسے پلٹ کر جانا ہے۔ دل (کی آنکھوں) سے دیکھنے والے اور بصیرت کے ساتھ عمل کرنے والے کے عمل کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ وہ (پہلے) یہ جان لیتاہے کہ یہ عمل اس کیلئے فائدہ مند ہے یا نقصان رساں۔ اگر مفید ہوتا ہے تو آگے بڑھتا ہے، مضر ہوتا ہے تو ٹھہر جاتا ہے۔

فَاِنَّ الْعَامِلَ بِغَیْرِ عِلْمٍ کَالسَّآئِرِ عَلٰی غیْرِ طَرِیْقٍ، فَلَا یَزِیْدُهٗ بُعْدُهٗ عَنِ الطَّرِیْقِ اِلَّا بُعْدًا مِّنْ حَاجَتِهٖ، وَ الْعَامِلُ بِالْعِلْمِ کَالسَّآئِرِ عَلَی الطَّرِیْقِ الْوَاضِحِ، فَلْیَنْظُرْ نَاظِرٌ: اَ سَآئِرٌ هُوَ اَمْ رَاجِـعٌ؟!.

اس لئے کہ بے جانے بوجھے ہوئے بڑھنے والا ایسا ہے جیسے کوئی غلط راستے پر چل نکلے تو جتنا وہ اس راہ پر بڑھتا جائے گا اتنا ہی مقصد سے دور ہوتا جائے گا اور علم کی (روشنی میں) عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے کوئی روشن راہ پر چل رہا ہو۔ (تو اب) دیکھنے والے کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے یا پیچھے کی طرف پلٹ رہا ہے۔

وَ اعْلَمْ اَنَّ لِکُلِّ ظَاهِرٍۭ بَاطِنًا عَلٰی مِثَالِهٖ، فَمَا طَابَ ظَاهِرُهٗ طَابَ بَاطِنُهٗ. وَ مَا خَبُثَ ظَاهِرُهٗ خَبُثَ بَاطِنُهٗ، وَ قَدْ قَالَ الرَّسُوْلُ الصَّادِقُﷺ: «اِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْعَبْدَ وَ یُبْغِضُ عَمَلَهٗ، وَ یُحِبُّ الْعَمَلَ وَ یُبْغِضُ بَدَنَهٗ».

تمہیں جاننا چاہیے کہ ہر ظاہر کا ویسا ہی باطن ہوتا ہے۔ جس کا ظاہر اچھا ہوتا ہے اس کا باطن بھی اچھا ہوتا ہے اور جس کا ظاہر برا ہوتا ہے اس کا باطن بھی برا ہوتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے جیسا رسولِ صادق ﷺ نے فرمایا ہے کہ: «اللہ ایک بندے کو (ایمان کی وجہ سے) دوست رکھتا ہے اور اس کے عمل کو برا سمجھتا ہے اور (کہیں) عمل کو دوست رکھتا ہے اور عمل کرنے والے کی ذات سے نفرت کرتا ہے»۔

وَ اعْلَمْ اَنَّ لِکُلِّ عَمَلٍ نَّبَاتًا، وَ کُلُّ نَبَاتٍ لَّا غِنٰی بِهٖ عَنِ الْمَآءِ، وَ الْمِیَاهُ مُخْتَلِفَةٌ، فَمَا طَابَ سَقْیُهٗ طَابَ غَرْسُهٗ وَ حَلَتْ ثَمَرَتُهٗ، وَ مَا خَبُثَ سَقْیُهٗ خَبُثَ غَرْسُهٗ وَ اَمَرَّتْ ثَمَرَتُهٗ.

دیکھو ہر عمل ایک اُگنے والا سبزہ ہے اور ہر سبزہ کیلئے پانی کا ہونا ضروری ہے اور پانی مختلف قسم کا ہوتا ہے۔ جہاں پانی اچھا دیا جائے گا وہاں پر کھیتی بھی اچھی ہو گی اور اس کا پھل بھی میٹھا ہو گا اور جہاں پانی برا دیا جائے گا وہاں کھیتی بھی بری ہو گی اور پھل بھی کڑوا ہو گا۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 14:18
عون نقوی

وَ هُوَ فِیْ مُهْلَةٍ مِّنَ اللهِ یَهْوِیْ مَعَ الْغٰفِلِیْنَ، وَ یَغْدُوْ مَعَ الْمُذْنِبِیْنَ، بِلَا سَبِیْلٍ قَاصِدٍ، وَ لَاۤ اِمَامٍ قَآئِدٍ.

اسے اللہ کی طرف سے مہلت ملی ہے۔ وہ غفلت شعاروں کے ساتھ (تباہیوں میں) گرتا ہے، بغیر سیدھی راہ اختیار کئے اور بغیر کسی ہادی و رہبر کے ساتھ دئیے صبح سویرے ہی گنہگاروں کے ساتھ ہو لیتا ہے۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

حَتّٰۤی اِذَا کَشَفَ لَهُمْ عَنْ جَزَآءِ مَعْصِیَتِهِمْ، وَ اسْتَخْرَجَهُمْ مِنْ جَلَابِیْبِ غَفْلَتِهِمْ، اسْتَقْبَلُوْا مُدْبِرًا، وَ اسْتَدْبَرُوْا مُقْبِلًا، فَلَمْ یَنْتَفِعُوْا بِمَاۤ اَدْرَکُوْا مِنْ طَلِبَتِهِمْ، وَ لَا بِمَا قَضَوْا مِنْ وَّطَرِهِمْ.

آخر کار جب اللہ ان کے گناہوں کا نتیجہ ان کے سامنے لائے گا اور غفلت کے پردوں سے انہیں نکال باہر کرے گا تو پھر اس چیز کی طرف بڑھیں گے جسے پیٹھ دکھاتے تھے اور اس شے سے پیٹھ پھرائیں گے جس کی طرف ان کا رخ رہتا تھا۔ انہوں نے اپنے مطلوبہ سر و سامان کو پا کر اور خواہشوں کو پورا کرکے کچھ بھی تو فائدہ حاصل نہ کیا۔

وَ اِنِّیْۤ اُحَذِّرُکُمْ وَ نَفْسِیْ هٰذِهِ الْمَنْزِلَةَ، فَلْیَنْتَفِعِ امْرُؤٌۢ بِنَفْسِهٖ، فَاِنَّمَا الْبَصِیْرُ مَنْ سَمِـعَ فَتَفَکَّرَ، وَ نَظَرَ فَاَبْصَرَ، وَانْتَفَعَ بِالْعِبَرِ، ثُمَّ سَلَکَ جَدَدًا وَّاضِحًا یَّتَجَنَّبُ فِیْهِ الصَّرْعَةَ فِی الْمَهَاوِیْ، وَ الضَّلَالَ فِی الْمَغَاوِیْ، وَ لَا یُعِیْنُ عَلٰی نَفْسِهِ الْغُوَاةَ بِتَعَسُّفٍ فِیْ حَقٍّ، اَوْ تَحْرِیْفٍ فِیْ نُطْقٍ، اَوْ تَخَوُّفٍ مِّنْ صِدْقٍ.

میں تمہیں اور خود اپنے کو اس مرحلہ سے متنبہ کرتا ہوں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس سے فائدہ اٹھائے۔ اس لئے کہ آنکھوں والا وہ ہے جو سنے تو غور کرے اور نظر اٹھائے تو حقیقتوں کو دیکھ لے اور عبرتوں سے فائدہ اٹھائے۔ پھر واضح راستہ اختیار کرے جس کے بعد گڑھوں میں گرنے اور شبہات میں بھٹک جانے سے بچتا رہے اور حق سے بے راہ ہونے اور بات میں ردّ و بدل کرنے اور سچائی میں خوف کھانے سے گمراہوں کی مدد کرکے زیاں کار نہ بنے۔

فَاَفِقْ اَیُّهَا السَّامِعُ مِنْ سَکْرَتِکَ، وَاسْتَیْقِظْ مِنْ غَفْلَتِکَ، وَ اخْتَصِرْ مِنْ عَجَلَتِکَ، وَ اَنْعِمِ الْفِکْرَ فِیْمَا جَآءَکَ عَلٰی لِسَانِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ- ﷺ- مِمَّا لَابُدَّ مِنْهُ وَ لَا مَحِیْصَ عَنْهُ، وَ خَالِفْ مَنْ خَالَفَ ذٰلِکَ اِلٰی غَیْرِهٖ، وَ دَعْهُ وَ مَا رَضِیَ لِنَفْسِهٖ، وَ ضَعْ فَخْرَکَ، وَ احْطُطْ کِبْرَکَ، وَاذْکُرْ قَبْرَکَ، فَاِنَّ عَلَیْهِ مَمَرَّکَ، وَ کَمَا تَدِیْنُ تُدَانُ، وَکَمَا تَزْرَعُ تَحْصُدُ، وَمَا قَدَّمْتَ الْیَوْمَ تَقْدَمُ عَلَیْهِ غَدًا، فَامْهَدْ لِقَدَمِکَ، وَ قَدِّمْ لِیَوْمِکَ.

اے سننے والو! اپنی سرمستیوں سے ہوش میں آؤ، غفلت سے آنکھیں کھولو، اس (دنیا کی) دوڑ دھوپ کو کم کرو اور جو باتیں نبی اُمیؐ کی زبان (مبارک) سے پہنچی ہیں ان میں اچھی طرح غور و فکر کرو کہ ان سے نہ کوئی چارہ ہے اور نہ کوئی گریز کی راہ۔ جو ان کی خلاف ورزی کرے تم اس سے دوسری طرف رخ پھیر لو اور اسے چھوڑو کہ وہ اپنے نفس کی مرضی پر چلتا رہے۔ فخر کے پاس نہ جاؤ اور بڑائی (کے سر) کو نیچا کرو۔ اپنی قبر کو یاد رکھو کہ تمہارا راستہ وہی ہے اور جیسا کرو گے ویسا پاؤ گے، جو بوؤ گے وہی کاٹو گے، جو آج آگے بھیجو گے وہی کل پا لو گے، آگے کیلئے کچھ تہیہ کرو اور اس دن کیلئے سرو سامان تیار رکھو۔

فَالْحَذَرَ الْحَذَرَ اَیُّهَا الْمُسْتَمِـعُ! وَ الْجِدَّ الْجِدَّ اَیُّهَا الْغَافِلُ! ﴿وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ۠۝﴾. اِنَّ مِنْ عَزَآئِمِ اللهِ فِی الذِّکْرِ الْحَکِیْمِ، الَّتِیْ عَلَیْهَا یُثِیْبُ وَ یُعَاقِبُ، وَ لَهَا یَرْضٰی وَ یَسْخَطُ، اَنَّهٗ لَا یَنْفَعُ عَبْدًا ـ وَ اِنْ اَجْهَدَ نَفْسَهٗ، وَ اَخْلَصَ فِعْلَهٗ ـ اَنْ یَّخْرُجَ مِنَ الدُّنْیَا لَاقِیًا رَّبَّهٗ بِخَصْلَةٍ مِّنْ هٰذِهِ الْخِصَالِ لَمْ یَتُبْ مِنْهَا: اَنْ یُشْرِکَ بِاللهِ فِیْمَا افْتَرَضَ عَلَیْهِ مِنْ عِبَادَتِهٖ، اَوْ یَشْفِیَ غَیْظَهٗ بِهَلَاکِ نَفْسٍ، اَوْ یَعُرَّ بِاَمْرٍ فَعَلَهٗ غَیْرُهٗ، اَوْ یَسْتَنْجِحَ حَاجَةً اِلَی النَّاسِ بِاِظْهَارِ بِدْعَةٍ فِیْ دِیْنِهٖ، اَوْ یَلْقَی النَّاسَ بِوَجْهَیْنِ، اَوْ یَمْشِیَ فِیْهِمْ بِلِسَانَیْنِ. اِعْقِلْ ذٰلِکَ فَاِنَّ الْمِثْلَ دَلِیْلٌ عَلٰی شِبْهِهٖ.

اے سننے والو! ڈرو ڈرو اور اے غفلت کرنے والو! کوشش کرو، کوشش کرو! تمہیں خبر رکھنے والا جو بتائے گا وہ دوسرا نہیں بتا سکتا۔ قرآن حکیم میں اللہ کے ان اٹل اصول میں سے کہ جن پر وہ جزا و سزا دیتا ہے اور راضی و ناراض ہوتا ہے، یہ چیز ہے کہ کسی بندے کو چاہے وہ جو کچھ جتن کر ڈالے دنیا سے نکل کر اللہ کی بارگاہ میں جانا ذرا فائدہ نہیں پہنچا سکتا جبکہ وہ ان خصلتوں میں سے کسی ایک خصلت سے توبہ کئے بغیر مر جائے: ایک یہ کہ فرائض عبادت میں کسی کو اس کا شریک ٹھہرایا ہو، یا کسی کو ہلاک کرکے اپنے غضب کو ٹھنڈا کیا ہو، یا دوسرے کے کئے پر عیب لگایا ہو، یا دین میں بدعتیں ڈال کر لوگوں سے اپنا مقصد پورا کیا ہو، یا لوگوں سے دو رخی چال چلتا ہو، یا دو زبانوں سے لوگوں سے گفتگو کرتا ہو۔ اس بات کو سمجھو! اس لئے کہ ایک نظیر دوسری نظیر کی دلیل ہوا کرتی ہے۔

اِنَّ الْبَهَآئِمَ هَمُّهَا بُطُوْنُهَا، وَ اِنَّ السِّبَاعَ هَمُّهَا الْعُدْوَانُ عَلٰی غَیْرِهَا، وَ اِنَّ النِّسَآءَ هَمُّهُنَّ زِیْنَةُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَ الْفَسَادُ فِیْهَا.

بلاشبہ چوپاؤں کا مقصد پیٹ (بھرنا) اور درندوں کا مقصد دوسروں پر حملہ آور ہونا اور عورتوں کا مقصد اس پست دنیا کو بنانا سنوارنا اور فتنے اٹھانا ہی ہوتا ہے۔ [۱]

اِنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ مُسْتَکِیْنُوْنَ، اِنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ مُشْفِقُوْنَ، اِنَّ الْمُؤْمِنِیْنَ خَآئِفُوْنَ.

مومن وہ ہیں جو تکبر و غرور سے دور ہوں۔ مومن وہ ہیں جو خائف و ترسان ہوں۔ مومن وہ ہیں جو ہراساں ہو۔


مقصد یہ ہے کہ تمام شر و مفاسد کا سرچشمہ قوتِ شہویہ و قوتِ غضبیہ ہوتی ہے۔ اگر انسان قوتِ شہویہ سے مغلوب ہو کر پیٹ بھرنا ہی اپنا مقصد بنا لے تو اس میں اور چوپائے میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا، کیونکہ چوپائے کے پیش نظر بھی پیٹ بھرنے کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہوتا اور اگر قوت غضبیہ سے مغلوب ہو کر ہلاکت و تباہ کاری شروع کر دے تو اس میں اور درندے میں کوئی فرق نہ رہے گا، کیونکہ اس کا مقصد بھی یہی چیرنا پھاڑنا ہوتا ہے اور اگر دونوں قوتیں اس میں کارفرما ہوں تو پھر عورت کى مانند ہے، کیونکہ عورت میں یہ دونوں قوتیں کارفرما ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ بناؤ سنگار پر جان دیتی ہے اور فتنہ و فساد کو ہوا دینے میں اپنی کوششوں کو برسرکار رکھتی ہے۔ البتہ مرد مومن کبھی یہ گوارا نہ کرے گا کہ وہ ان حیوانی خصلتوں کو اپنا شعار بنائے، بلکہ وہ ان قوتوں کو دبائے رکھتا ہے۔ یوں کہ نہ وہ غرور و خود پسندی کو اپنے پاس پھٹکنے دیتا ہے اور نہ خوفِ خدا کی وجہ سے فتنہ و شر کو ہوا دیتا ہے۔

ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے کہ حضرتؑ نے یہ خطبہ بصرہ کی طرف روانہ ہوتے وقت ارشاد فرمایا اور بصرہ کا ہنگامہ چونکہ ایک عورت کے ابھارنے کا نتیجہ تھا اس لئے چوپاؤں اور درندوں کی طبعی عادتوں کا ذکر کرنے کے بعد عورت کو بھی انہی خصلتوں کا حامل قرار دیا ہے۔ چنانچہ انہی کے نتیجہ میں بصرہ کی خونریز جنگ ہوئی اور ہزاروں افراد ہلاکت و تباہی کی لپیٹ میں آ گئے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 14:16
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الدَّالِّ عَلٰی وُجُوْدِهٖ بِخَلْقِهٖ، وَ بِمُحْدَثِ خَلْقِهٖ عَلٰۤی اَزَلِیَّتِهٖ، وَ بِاشْتِبَاهِهِمْ عَلٰۤی اَنْ لَّا شَبَهَ لَهٗ. لَا تَسْتَلِمُهُ الْمَشَاعِرُ، وَ لَا تَحْجُبُهُ السَّوَاتِرُ، لِافْتِرَاقِ الصَّانِعِ وَ الْمَصْنُوْعِ، وَ الْحَادِّ وَ الْمَحْدُوْدِ، وَ الرَّبِّ وَ الْمَرْبُوْبِ.

تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے کہ جو خلق (کائنات سے) اپنے وجود کا اور پیدا شدہ مخلوقات سے اپنے قدیم و ازلی ہونے کا اور ان کی باہمی شباہت سے اپنے بے نظیر ہونے کا پتہ دینے والا ہے۔ نہ حواس اسے چھو سکتے ہیں اور نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں۔ چونکہ بنانے والے اور بننے والے، گھیرنے والے اور گھرنے والے، پالنے والے اور پرورش پانے والے میں فرق ہوتا ہے۔

اَلْاَحَدِ لَا بِتَاْوِیْلِ عَدَدٍ، وَ الْخَالِقِ لَا بِمَعْنٰی حَرَکَةٍ وَّ نَصَبٍ، وَ السَّمِیْعِ لَا بِاَدَاةٍ، وَ الْبَصِیْرِ لَا بِتَفْرِیْقِ اٰلَةٍ، وَ الشَّاهِدِ لَابِمُمَاسَّةٍ، وَ الْبَآئِنِ لَابِتَرَاخِیْ مَسَافَةٍ، وَ الظَّاهِرِ لَابِرُؤْیَةٍ، وَ الْبَاطِنِ لَا بِلَطَافَةٍ.

وہ ایک ہے لیکن نہ ویسا کہ جو شمار میں آئے، وہ پیدا کرنے والا ہے لیکن نہ اس معنی سے کہ اسے حرکت کرنا اور تعب اٹھانا پڑے، وہ سننے والا ہے لیکن نہ کسی عضو کے ذریعہ سے اور دیکھنے والا ہے، لیکن نہ اس طرح کہ آنکھیں پھیلائے، وہ حاضر ہے لیکن نہ اس طرح کہ چھوا جا سکے، وہ جدا ہے نہ اس طرح کہ بیچ میں فاصلہ کی دوری ہو۔ وہ ظاہر بظاہر ہے مگر آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ذاتا پوشیدہ ہے نہ لطافت جسمانی کی بنا پر۔

بَانَ مِنَ الْاَشْیَآءِ بِالْقَهْرِ لَهَا، وَ الْقُدْرَةِ عَلَیْهَا، وَ بَانَتِ الْاَشْیَآءُ مِنْهُ بِالْخُضُوْعِ لَهٗ، وَ الرُّجُوْعِ اِلَیْهِ.

وہ سب چیزوں سے اس لئے علیحدہ ہے کہ وہ ان پر چھایا ہوا ہے اور ان پر اقتدار رکھتا ہے اور تمام چیزیں اِس لئے اُس سے جدا ہیں کہ وہ اس کے سامنے جھکی ہوئی اور اس کی طرف پلٹنے والی ہیں۔

مَنْ وَّصَفَهٗ فَقَدْ حَدَّهٗ، وَ مَنْ حَدَّهٗ فَقَدْ عَدَّهٗ، وَ مَنْ عَدَّهٗ فَقَدْ اَبْطَلَ اَزَلَهٗ، وَ مَنْ قَالَ: »کَیْفَ« فَقَدِ اسْتَوْصَفَهٗ، وَ مَنْ قَالَ: »اَیْنَ« فَقَدْ حَیَّزَهٗ.

جس نے (ذات کے علاوہ) اس کیلئے صفات تجویز کئے اس نے اس کی حد بندی کر دی اور جس نے اسے محدود خیال کیا وہ اسے شمار میں آنے والی چیزوں کی قطار میں لے آیا اور جس نے اسے شمار کے قابل سمجھ لیا اس نے اس کی قدامت ہی سے انکار کر دیا اور جس نے یہ کہا کہ وہ ’’کیسا‘‘ ہے وہ اس کیلئے (الگ سے) صفتیں ڈھونڈھنے لگا اور جس نے یہ کہا کہ وہ ’’کہاں‘‘ ہے اس نے اسے کسی جگہ میں محدود سمجھ لیا۔

عَالِمٌ اِذْ لَا مَعْلُوْمٌ، وَ رَبٌّ اِذْ لَا مَرْبُوْبٌ، وَ قَادِرٌ اِذْ لَا مَقْدُوْرٌ.

وہ اس وقت بھی عالم تھا جب کہ معلوم کا وجود نہ تھا اور اس وقت بھی ربّ تھا جب کہ پرورش پانے والے نہ تھے اور اس وقت بھی قادر تھا جب کہ یہ زیر قدرت آنے والی مخلوق نہ تھی۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

قَدْ طَلَعَ طَالِعٌ، وَ لَمَعَ لَامِعٌ، وَ لَاحَ لَاۗئِحٌ، وَ اعْتَدَلَ مَآئِلٌ، وَ اسْتَبْدَلَ اللهُ بِقَوْمٍ قَوْمًا، وَ بِیَوْمٍ یَّوْمًا، وَ انْتَظَرْنَا الْغِیَـرَ انْتِظَارَ الْمُجْدِبِ الْمَطَرَ.

ابھرنے والا ابھر آیا، چمکنے والا چمک اٹھا، ظاہر ہونے والا ظاہر ہوا اور ٹیڑھے معاملے سیدھے ہو گئے۔ اللہ نے جماعت کو جماعت سے اور زمانہ کو زمانہ سے بدل دیا ہے۔ ہم اس انقلاب کے اس طرح منتظر تھے جس طرح قحط زدہ بارش کا۔

وَاِنَّمَا الْاَئِمَّةُ قُوَّامُ اللهِ عَلٰی خَلْقِهٖ، وَعُرَفَآئُهٗ عَلٰی عِبَادِهٖ، لَا یَدْخُلُ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ عَرَفَهُمْ وَ عَرَفُوْهُ، وَلَا یَدْخُلُ النَّارَ اِلَّا مَنْ اَنْکَرَهُمْ وَ اَنْکَرُوْهُ.

بلاشبہ آئمہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حاکم ہیں اور اس کو بندوں سے پہچنوانے والے ہیں۔ جنت میں وہی جائے گا جسے ان کی معرفت ہو اور وہ بھی اسے پہچانیں اور دوزخ میں وہی ڈالا جائے گا جو نہ انہیں پہچانے اور نہ وہ اسے پہچانیں۔

اِنَّ اللهَ تَعَالٰی خَصَّکُمْ بِالْاِسْلَامِ، وَ اسْتَخْلَصَکُمْ لَهٗ، وَ ذٰلِکَ لِاَنَّهُ اسْمُ سَلَامَةٍ، وَ جِمَاعُ کَرَامَةٍ، اصْطَفَی اللهُ تَعَالٰی مَنْهَجَهٗ، وَ بَیَّنَ حُجَجَهٗ، مِنْ ظَاهِرِ عِلْمٍ، وَ بَاطِنِ حِکَمٍ، لَا تَفْنٰی غَرَآئِبُهٗ، وَ لَا تَنْقَضِیْ عَجَآئِبُهٗ، فِیْهِ مَرَابِیْعُ النِّعَمِ، وَ مَصَابِیْحُ الظُّلَمِ. لَا تُفْتَحُ الْخَیْرَاتُ اِلَّا بِمَفَاتِیْحِهٖ، وَ لَا تُکْشَفُ الظُّلُمٰتُ اِلَّا بِمَصَابِیِحِهٖ، قَدْ اَحْمٰی حِمَاهُ، وَ اَرْعٰی مَرْعَاهُ، فِیْهِ شِفَآءُ الْمُسْتَشْفِیْ، وَ کِفَایَةُ الْمُکْتَفِیْ.

اللہ نے تمہیں اسلام کیلئے مخصوص کر لیا ہے اور اس کیلئے تمہیں چھانٹ لیا ہے اور یہ اس طرح کہ اسلام سلامتی کا نام اور عزت انسانی کا سرمایہ ہے۔ اس کی راہ کو اللہ نے تمہارے لئے چن لیا ہے اور اس کے کھلے ہوئے احکام اور چھپی ہوئی حکمتوں سے اس کے دلائل واضح کر دئیے ہیں۔ نہ اس کے عجائبات مٹنے والے ہیں اور نہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں، اسی میں نعمتوں کی بارشیں اور تاریکیوں کے چراغ ہیں، اسی کی کنجیوں سے نیکیوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اسی کے چراغوں سے تیرگیوں کا دامن چاک کیا جاتا ہے۔ خدا نے اس کے ممنوعہ مقامات سے روکا ہے اور اس کی چراگاہوں میں چرنے کی اجازت دی ہے۔ شفا چاہنے والے کیلئے اس میں شفا اور بے نیازی چاہنے والے کیلئے اس میں بے نیازی ہے۔


اس خطبہ کا پہلا جز علم الٰہیات کے اہم مطالب پر مشتمل ہے جس میں خلق کائنات سے خالق کائنات کے وجود پر استدلال فرماتے ہوئے اس کی ازلیت و عینیت صفات پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ جب ہم کائنات پر نظر کرتے ہیں تو ہر حرکت کے پیچھے کسی محرک کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے جس سے ایک سطحی ذہن والا انسان بھی یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کوئی اثر مؤثر کے بغیر ظاہر نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ چند دنوں کا ایک بچہ بھی اپنے جسم کے چھوئے جانے سے اپنے شعور کے دھندلکوں میں یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی چھونے والا ہے جس کا اظہار وہ آنکھوں کو کھولنے یا مڑ کر دیکھنے سے کرتا ہے تو پھر کس طرح دنیائے کائنات کی تخلیق اور عالم کون و مکاں کا نظم و نسق کسی خالق و منتظم کے بغیر مانا جا سکتا ہے؟۔

جب ایک خالق کا اعتراف ضروری ہوا تو اسے موجود بالذات ہونا چاہیے، کیونکہ ہر وہ چیز جس کی ابتدا ہے اس کیلئے ایک مرکز وجود کا ہونا ضروری ہے کہ جس تک وہ منتہی ہو۔ تو اگر وہ بھی کسی موجد کا محتاج ہوگا تو پھر اس موجد کیلئے سوال ہو گا کہ وہ از خود ہے یا کسی کا بنایا ہوا اور جب تک ایک موجود بالذات ہستی کا اقرار نہ کیا جائے کہ جو تمام ممکنات کیلئے علۃ العلل ہو، عقل علت و معلول کے نامتناہی سلسلوں میں بھٹک کر سلسلہ موجودات کی آخری کڑی کا تصور بھی نہ کر سکے گی اور تسلسل کے چکر میں پڑ کر اسے کہیں ٹھہراؤ نصیب نہ ہوگا اور اگر خود اسی کو اپنی ذات کا خالق فرض کیا جائے تو دو صورتوں سے خالی نہیں ہوگا یا تو وہ معدوم ہوگا یا موجود، اگر معدوم ہو گا تو معدوم کسی کو موجود نہیں بنا سکتا اور اگر موجود ہو گا تو اسے دوبارہ موجود کرنے کے کوئی معنی نہیں ہوتے، لہٰذا اسے ایسا موجود ماننا پڑے گا جو اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہ ہو اور اس کے ماسوا ہر چیز اس کی محتاج ہو اور یہی احتیاج کائنات اس سرچشمہ وجود کے ازلی اور ہمیشہ سے برقرار ہونے کی شاہد ہے۔

اور اس کے علاوہ چونکہ ہر چیز تغیر پذیر ہے، محل و مکان کی محتاج ہے اور عوارض و صفات میں ایک دوسرے کے مشابہ ہے اور مشابہت کثرت کی آئینہ دار ہوتی ہے اور وحدت اپنی آپ ہی نظیر ہے، اس لئے کوئی چیز اس کی مثل و نظیر نہیں ہو سکتی اور ایک کہی جانے والی چیزوں کو بھی اس کی یکتائی پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ ہر اعتبار سے واحد و یگانہ ہے۔ وہ ان تمام چیزوں سے منزہ و مبرا ہے جو جسم و جسمانیات میں پائی جاتی ہیں۔ کیونکہ نہ وہ جسم ہے، نہ رنگ ہے، نہ شکل ہے، نہ کسی جہت میں واقع ہے اور نہ کسی محل و مکان میں محدود ہے۔ اس لئے انسان اپنے حواس و مشاعر کے ذریعہ اس کا ادراک و مشاہدہ نہیں کر سکتا، کیونکہ حواس انہی چیزوں کا ادراک کر سکتے ہیں جو زمان و مکان اور مادہ کے حدود کی پابند ہوں۔ لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ دیکھا جا سکتا ہے اس کیلئے جسم مان لینا ہے اور جب وہ جسم ہی نہیں ہے اور نہ جسم کے ساتھ قائم ہے اور نہ کسی جہت و مکان میں واقع ہے تو اس کے دیکھے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی یہ پوشیدگی ان لطیف اجسام کی طرح نہیں ہے کہ جن سے ان کی لطافت کی وجہ سے نگاہیں آر پار ہو جاتی ہیں اور آنکھیں انہیں دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں۔ جیسے فضا کی پہنائیوں میں ہوا، بلکہ وہ ذاتی طور پر پوشیدہ ہے۔ البتہ اس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے۔

وہ دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے، لیکن آلات سماعت و بصارت کا محتاج نہیں، کیونکہ اگر وہ دیکھنے سننے کیلئے اعضا کا محتاج ہو گا تو اس کی ذات اپنے کمالات میں خارجی چیزوں کی دست نگر ہو گی اور بحیثیت ذات کامل نہ رہے گی، حالانکہ وہ ہر لحاظ سے کامل ہے اور اس کا کوئی کمال اس کی ذات سے الگ نہیں، کیونکہ ذات کے علاوہ الگ سے صفات ماننے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذات ہو گی اور کچھ صفتیں اور اس ذات و صفات کے مجموعہ کا نام ہوگا ’’خدا‘‘ اور جو چیز اجزا سے مرکب ہو وہ اپنے وجود میں اجزا کی محتاج ہوتی ہے اور ان اجزا کو مرکب کے ترکیب پانے سے پہلے موجود ہونا چاہیے۔ تو جب اجزا اس پر مقدم ہوں گے تو وہ ہمیشہ سے موجود اور ازلی کیونکر ہو سکتا ہے، جبکہ اس کا وجود اجزا سے متاخر ہے۔ حالانکہ وہ اس وقت بھی علم و قدرت و ربوبیت لئے ہوئے تھا جبکہ کوئی چیز موجود نہ تھی، کیونکہ اس کی کوئی صفت خارج سے اس میں پیدا نہیں ہوئی، بلکہ جو صفت ہے وہی ذات ہے اور جو ذات ہے وہی صفت ہے۔ اس لئے اس کا علم اس پر منحصر نہیں ہے کہ معلوم کا وجود ہو لے تو پھر وہ جانے، کیونکہ اس کی ذات حادث ہونے والے معلومات سے مقدم ہے اور نہ اس کی قدرت کیلئے ضروری ہے کہ مقدور کا وجود ہو تو وہ قادر سمجھا جائے، کیونکہ قادر اسے کہتے ہیں جو ترک و فعل پر یکساں اختیار رکھتا ہو اور اس کیلئے مقدور کا ہونا ضروری نہیں اور یونہی ربّ کے معنی مالک کے ہیں اور وہ جس طرح معدوم کا اس کے موجود ہونے کے بعد مالک ہے اسی طرح موجود کے پردہ عدم میں ہونے کی صورت میں اسے موجود کرنے پر اختیار رکھتا ہے کہ چاہے اسے معدوم رہنے دے اور چاہے اسے وجود بخش دے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 14:11
عون نقوی

وَ اَحْمَدُ اللهَ وَ اَسْتَعِیْنُهٗ عَلٰی مَدَاحِرِ الشَّیْطٰنِ وَ مَزَاجِرِهٖ، وَ الْاِعْتِصَامِ مِنْ حَبَآئِلِهٖ وَ مَخَاتِلِهٖ.

میں اللہ کی حمد و ثنا کرتا ہوں اور ان چیزوں کیلئے اس سے مدد مانگتا ہوں کہ جو شیطان کو راندہ اور دور کرنے والی اور اس کے پھندوں اور ہتھکنڈوں سے اپنی پناہ میں رکھنے والی ہیں۔

وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَ رَسُوْلُهٗ، وَ نَجِیْبُهٗ وَ صَفْوَتُهٗ، لَا یُؤَازٰی فَضْلُهٗ، وَ لَا یُجْبَرُ فَقْدُهٗ، اَضَآءَتْ بِهِ الْبِلَادُ بَعْدَ الضَّلَالَةِ الْمُظْلِمَةِ، وَ الْجَهَالَةِ الْغَالِبَةِ، وَ الْجَفْوَةِ الْجَافِیَةِ، وَ النَّاسُ یَسْتَحِلُّوْنَ الْحَرِیْمَ، وَ یَسْتَذِلُّوْنَ الْحَکِیْمَ، یَحْیَوْنَ عَلٰی فَتْرَةٍ، وَ یَمُوْتُوْنَ عَلٰی کَفْرَةٍ!.

میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے عبد و رسول اور منتخب و برگزیدہ ہیں۔نہ ان کے فضل و کمال کی برابری اور نہ ان کے اٹھ جانے کی تلافی ہوسکتی ہے۔ تاریک گمراہیوں اور بھرپور جہالتوں اور سخت و درشت (خصلتوں) کے بعد شہروں (کے شہر) ان کی وجہ سے روشن و منور ہو گئے، جبکہ لوگ حلال کو حرام اور مرد زیرک و دانا کو ذلیل سمجھتے تھے۔ نبیوں سے خالی زمانہ میں جیتے تھے اور گمراہی کی حالت میں مر جاتے تھے۔

ثُمَّ اِنَّکُمْ مَّعْشَرَ الْعَرَبِ! اَغْرَاضُ بَلَایَا قَدِ اقْتَرَبَتْ، فَاتَّقُوْا سَکَرَاتِ النِّعْمَةِ، وَ احْذَرُوْا بَوَآئِقَ النِّقْمَةِ، وَ تَثَبَّتُوْا فِیْ قَتَامِ الْعَشْوَةِ، وَ اعْوِجَاجِ الْفِتْنَةِ عِنْدَ طُلُوْعِ جَنِیْنِهَا، وَ ظُهُوْرِ کَمِیْنِهَا، وَ انْتِصَابِ قُطْبِهَا، وَ مَدَارِ رَحَاهَا. تَبْدَاُ فِیْ مَدَارِجَ خَفِیَّةٍ، وَ تَؤُوْلُ اِلٰی فَظَاعَةٍ جَلِیَّةٍ، شِبَابُهَا کَشِبَابِ الْغُلَامِ، وَ اٰثَارُهَا کَـاٰثَارِ السِّلَامِ، تَتَوَارَثُهَا الظَّلَمَةُ بِالْعُهُوْدِ! اَوَّلُهُمْ قَآئِدٌ لِّاٰخِرِهِمْ، وَ اٰخِرُهُمْ مُقْتَدٍۭ بِاَوَّلِهِمْ، یَتَنَافَسُوْنَ فِیْ دُنْیَا دَنِیَّةٍ، وَ یَتَکَالَبُوْنَ عَلٰی جِیْفَةٍ مُّرِیْحَةٍ، وَ عَنْ قَلِیْلٍ یَتَبَرَّاُ التَّابِـعُ مِنَ الْمَتْبُوْعِ، وَ الْقَآئِدُ مِنَ الْمَقُوْدِ، فَیَتَزَایَلُوْنَ بِالْبَغْضَآءِ، وَ یَتَلَاعَنُوْنَ عِنْدَ اللِّقَآءِ.

پھر یہ کہ اے گروہ عرب! تم ایسی ابتلاؤں کا نشانہ بننے والے ہو کہ جو قریب پہنچ چکی ہیں۔ عیش و تنعم کی بدمستیوں سے بچو اور عذاب کی تباہ کاریوں سے ڈرو۔ شبہات کے دھندلکوں اور فتنہ کی کجرویوں میں اپنے قدموں کو روک لو، جبکہ اس کا چھپا ہوا خدشہ سر اٹھائے اور مخفی اندیشہ سامنے آ جائے اور اس کا کھونٹا مضبوط ہو جائے۔ فتنے ہمیشہ چھپے ہوئے راستوں سے ظاہر ہوا کرتے ہیں اور انجام کار ان کی کھلم کھلا برائیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے اور ان کی اٹھان ایسی ہوتی ہے جیسے نوخیز بچے کی اور ان کے نشانات ایسے ہوتے ہیں جیسے پتھر (کی چوٹوں) کے۔ ظالم آپس کے عہد و پیمان سے اس کے وارث ہوتے چلے آتے ہیں۔ اگلا پچھلے کا رہنما اور پچھلا اگلے کا پیرو ہوتا ہے۔ وہ اسی رذیل دنیا پر مر مٹتے ہیں اور اس سڑے ہوئے مردار پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ جلد ہی پیروکار اپنے پیشرو رہنماؤں سے اظہار بیزاری کریں گے اور ایک دوسرے کی دشمنی کے ساتھ علیحدگی اختیار کر لیں گے اور سامنے ہونے پر ایک دوسرے کو لعنت کریں گے۔

ثُمَّ یَاْتِیْ بَعْدَ ذٰلِکَ طَالِعُ الْفِتْنَةِ الرَّجُوْفِ، وَ الْقَاصِمَةِ الزَّحُوْفِ، فَتَزِیْغُ قُلُوْبٌۢ بَعْدَ اسْتِقَامَةٍ، وَ تَضِلُّ رِجَالٌۢ بَعْدَ سَلَامَةٍ، وَ تَخْتَلِفُ الْاَهْوَآءُ عِنْدَ هُجُوْمِهَا، وَ تَلْتَبِسُ الْاٰرَآءُ عِنْدَ نُجُوْمِهَا، مَنْ اَشْرَفَ لَهَا قَصَمَتْهُ، وَ مَنْ سَعٰی فِیْهَا حَطَمَتْهُ، یَتَکَادَمُوْنَ فِیْهَا تَکَادُمَ الْحُمُرِ فِی الْعَانَةِ! قَدِ اضْطَرَبَ مَعْقُوْدُ الْحَبْلِ، وَ عَمِیَ وَجْهُ الْاَمْرِ، تَغِیْضُ فِیْهَا الْحِکْمَةُ، وَ تَنْطِقُ فِیْهَا الظَّلَمَةُ، وَ تَدُقُّ اَهْلَ الْبَدْوِ بِمِسْحَلِهَا، وَ تَرُضُّهُمْ بِکَلْکَلِهَا! یَضِیْعُ فِیْ غُبَارِهَا الْوُحْدَانُ، وَ یَهْلِکُ فِیْ طَرِیْقِهَا الرُّکْبَانُ، تَرِدُ بِمُرِّ الْقَضَآءِ، وَ تَحْلُبُ عَبِیْطَ الدِّمَآءِ، وَ تَثْلِمُ مَنَارَ الدِّیْنِ، وَ تَنْقُضُ عَقْدَ الْیَقِیْنِ، تَهْرُبُ مِنْهَا الْاَکْیَاسُ، وَ تُدَبِّرُهَا الْاَرْجَاسُ، مِرْعَادٌ مِّبْرَاقٌ، کَاشِفَةٌ عَنْ سَاقٍ! تُقْطَعُ فِیْهَا الْاَرْحَامُ، وَ یُفَارَقُ عَلَیْهَا الْاِسْلَامُ! بَرِیُّهَا سَقِیْمٌ، وَ ظَاعِنُهَا مُقِیْمٌ!.

اس دور کے بعد ایک فتنہ ایسا آئے گا جو امن و سلامتی کو تہ و بالا کرنے والا اور تباہی مچانے والا اور خلق خدا پر سختی کے ساتھ حملہ آور ہو گا تو بہت سے دل ٹھہراؤ کے بعد ڈانواں ڈول اور بہت سے لوگ (ایمان کی) سلامتی کے بعد گمراہ ہو جائیں گے۔ اس کے حملہ آور ہونے کے وقت خواہشیں بٹ جائیں گی اور اس کے اُبھرنے کے وقت رائیں مشتبہ ہو جائیں گی۔ جو اس فتنہ کی طرف جھک کر دیکھے گا وہ اسے تباہ کر دے گا اور جو اس میں سعی و کوشش کرے گا اسے جڑ بنیاد سے اکھیڑ دے گا اور آپس میں ایک دوسرے کو اس طرح کاٹنے لگیں گے جس طرح وحشی گدھے اپنی بھیڑ میں ایک دوسرے کو دانتوں سے کاٹتے ہیں۔ اسلام کی بٹی ہوئی رسی کے بل کھل جائیں گے، صحیح طریق کار چھپ جائے گا، حکمت کا پانی خشک ہو جائے گا اور ظالموں کی زبان کھل جائے گی۔ وہ فتنہ بادیہ نشینوں کو اپنے ہتھوڑوں سے کچل دے گا اور اپنے سینہ سے ریزہ ریزہ کر دے گا۔ اس کے گرد و غبار میں اکیلے دوکیلے تباہ و برباد ہو جائیں گے اور سوار اس کی راہوں میں ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ حکم الہٰی کی تلخیاں لے کر آئے گا اور (دودھ کے بجائے) خالص خون دوہے گا۔ دین کے میناروں کو ڈھا دے گا اور یقین کے اصولوں کو توڑ دے گا۔ عقلمند اس سے بھاگیں گے اور شر پسند اس کے کرتا دھرتا ہوں گے۔ وہ گرجنے اور چمکنے والا ہو گا اور پورے زوروں کے ساتھ سامنے آئے گا۔ سب رشتے ناطے اس میں توڑ دئیے جائیں گے اور اسلام سے علیحدگی اختیار کر لی جائے گی۔ اس سے الگ تھلگ رہنے والا بھی اس میں مبتلا ہو جائے گا اور اس سے نکل بھاگنے والا بھی اپنے قدم اس سے باہر نہ نکال سکے گا۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے (جس میں ایمان والوں کی حالت کا ذکر ہے)]

بَیْنَ قَتِیْلٍ مَّطْلُوْلٍ، وَ خَآئِفٍ مُّسْتَجِیْرٍ، یُخْتَلُوْنَ بِعَقْدِ الْاَیْمَانِ وَ بِغُرُوْرِ الْاِیْمَانِ، فَلَا تَکُوْنُوْۤا اَنْصَابَ الْفِتَنِ، وَ اَعْلَامَ الْبِدَعِ، وَ الْزَمُوْا مَا عُقِدَ عَلَیْهِ حَبْلُ الْجَمَاعَةِ، وَ بُنِیَتْ عَلَیْهِ اَرْکَانُ الطَّاعَةِ، وَ اقْدَمُوْا عَلَی اللهِ مَظْلُوْمِیْنَ، وَ لَا تَقْدَمُوْا عَلَیْهِ ظَالِـمِیْنَ، وَ اتَّقُوْا مَدَارِجَ الشَّیْطٰنِ وَ مَهَابِطَ الْعُدْوَانِ، وَ لَا تُدْخِلُوْا بُطُوْنَکُمْ لُعَقَ الْحَرَامِ، فَاِنَّکُمْ بِعَیْنِ مَنْ حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَعْصِیَةَ، وَ سَهَّلَ لَکُمْ سُبُلَ الطَّاعَةِ.

کچھ تو ان میں سے شہید ہوں گے کہ جن کا بدلہ نہ لیا جا سکے گا اور کچھ خوف زدہ ہوں گے جو اپنے لئے پناہ ڈھونڈتے پھریں گے۔ انہیں قَسموں اور (ظاہری) ایمان کی فریب کاریوں سے دھوکا دیا جائے گا۔ تم فتنوں کی طرف راہ دکھانے والے نشان اور بدعتوں کے سربراہ نہ بنو۔ تم (ایمان والی) جماعت کے اصولوں اور ان کی عبادت و اطاعت کے طور طریقوں پر جمے رہو۔ اللہ کے پاس مظلوم بن کر جاؤ ظالم بن کر نہ جاؤ۔ شیطان کی راہوں اور تمرد و سرکشی کے مقاموں سے بچو۔ اپنے پیٹ میں حرام کے لقمے نہ ڈالو۔ اس لئے کہ تم اس کی نظروں کے سامنے ہو جس نے معصیت و خطا کو تمہارے لئے حرام کیا ہے اور اطاعت کی راہیں آسان کر دی ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:27
عون نقوی

فِی الْمَلَاحِمِ

(حوادث کے بارے میں)

وَ اَخَذُوْا یَمِیْنًا وَّ شِمَالًا ظَعْنًا فِیْ مَسَالِکِ الْغَیِّ، وَ تَرْکًا لِّمَذَاهِبِ الرُّشْدِ. فَلَا تَسْتَعْجِلُوْا مَا هُوَ کَـآئِنٌ مُّرْصَدٌ، وَ لَا تَسْتَبْطِئُوْا مَا یَجِیْٓءُ بِهِ الْغَدُ. فَکَمْ مِّنْ مُّسْتَعْجِلٍۭ بِمَاۤ اِنْ اَدْرَکَهٗ وَدَّ اَنَّهٗ لَمْ یُدْرِکْهُ. وَ مَاۤ اَقْرَبَ الْیَوْمَ مِنْ تَبَاشِیْرِ غَدٍ!.

(وہ لوگ) گمراہی کے راستوں پر لگ کر اور ہدایت کی راہوں کو چھوڑ کر (افراط و تفریط کے) دائیں بائیں راستوں پر ہو لئے ہیں۔ جو بات کہ ہو کر رہنے والی اور محل انتظار میں ہو اس کیلئے جلدی نہ مچاؤ اور جسے ’’کل‘‘ اپنے ساتھ لئے آ رہا ہے اس کی دوری محسوس کرتے ہوئے ناگواری ظاہر نہ کرو۔ بہتیرے لوگ ایسے ہیں کہ جو کسی چیز کیلئے جلدی مچاتے ہیں اور جب اسے پا لیتے ہیں تو پھر یہ چاہنے لگتے ہیں کہ اسے نہ ہی پاتے تو اچھا تھا۔ ’’آج‘‘ آنے والے ’’کل‘‘ کے اجالوں سے کتنا قریب ہے۔

یَا قَوْمِ! هذَاۤ اِبَّانُ وُرُوْدِ کُلِّ مَوْعُوْدٍ، وَ دُنُوٍّ مِّنْ طَلْعَةِ مَا لَا تَعْرِفُوْنَ.

اے میری قوم! یہی تو وعدہ کی ہوئی چیزوں کے آنے اور ان فتنوں کے نمایاں ہو کر قریب ہونے کا زمانہ ہے کہ جن سے ابھی تم آگاہ نہیں ہو۔

اَلَا وَ اِنَّ مَنْ اَدْرَکَهَا مِنَّا یَسْرِیْ فِیْهَا بِسِرَاجٍ مُّنِیْرٍ، وَ یَحْذُوْ فِیْهَا عَلٰی مِثَالِ الصَّالِحِیْنَ، لِیَحُلَّ فِیْهَا رِبْقًا، وَ یُعْتِقَ رِقًّا، وَ یَصْدَعَ شَعْبًا، وَ یَشْعَبَ صَدْعًا، فِیْ سُتْرَةٍ عَنِ النَّاسِ، لَا یُبْصِرُ الْقَآئِفُ اَثَرَهٗ وَ لَوْ تَابَعَ نَظَرَهٗ. ثُمَّ لَیُشْحَذَنَّ فِیْهَا قَوْمٌ شَحْذَ الْقَیْنِ النَّصْلَ تُجْلٰی بِالتَّنْزِیْلِ اَبْصَارُهُمْ، وَ یُرْمٰی بِالتَّفْسِیْرِ فِیْ مَسَامِعِهِمْ، وَ یُغْبَقُوْنَ کَاْسَ الْحِکْمَةِ بَعْدَ الصَّبُوْحِ!.

دیکھو! ہم (اہلبیتؑ) میں سے جو (ان فتنوں کا دور) پائے گا وہ اس میں (ہدایت کا) چراغ لے کر بڑھے گا اور نیک لوگوں کی راہ و روش پر قدم اٹھائے گا، تاکہ بندھی ہوئی گرہوں کو کھولے اور بندوں کو آزاد کرے اور حسب ضرورت جڑے ہوئے کو توڑے اور ٹوٹے ہوئے کو جوڑے۔ وہ لوگوں کی (نگاہوں سے) پوشیدہ ہو گا۔ کھوج لگانے والے پیہم نظریں جمانے کے باوجود بھی اس کے نقش قدم کو نہ دیکھ سکیں گے- اس وقت ایک قوم کو (حق کی سان پر) اس طرح تیز کیا جائے گا جس طرح لوہار تلوار کی باڑ تیز کرتا ہے۔ قرآن سے ان کی آنکھوں میں جلا پیدا کی جائے گی اور اس کے مطالب ان کے کانوں میں پڑتے رہیں گے اور حکمت کے چھلکتے ہوئے ساغر انہیں صبح و شام پلائے جائیں گے ۔

[مِنْهَا]

[اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے]

وَ طَالَ الْاَمَدُ بِهِمْ لِیَسْتَکْمِلُوْا الْخِزْیَ، وَ یَسْتَوْجِبُوا الْغِیَرَ، حَتّٰۤی اِذَا اخْلَوْلَقَ الْاَجَلُ، وَ اسْتَرَاحَ قَوْمٌ اِلَی الْفِتَنِ، وَ اَشَالُوْا عَنْ لَّقَاحِ حَرْبِهِمْ، لَمْ یَمُنُّوْا عَلَی اللهِ بِالصَّبْرِ، وَ لَمْ یَسْتَعْظِمُوْا بَذْلَ اَنْفُسِهِمْ فِی الْحَقِّ، حَتّٰۤی اِذَا وَافَقَ وَارِدُ الْقَضَآءِ انْقِطَاعَ مُدَّةِ الْبَلَآءِ، حَمَلُوْا بَصَآئِرَهُمْ عَلٰۤی اَسْیَافِهِمْ، وَ دَانُوْا لِرَبِّهِمْ بِاَمْرِ وَاعِظِهِمْ، حَتّٰۤی اِذَا قَبَضَ اللهُ رَسُوْلَهٗ ﷺ رَجَعَ قَوْمٌ عَلَی الْاَعْقَابَ، وَ غَالَتْهُمُ السُّبُلُ، وَ اتَّکَلُوْا عَلَی الْوَلَاۗئِجِ، وَ وَصَلُوْا غَیْرَ الرَّحِمِ، وَ هَجَرُوا السَّبَبَ الَّذِیْ اُمِرُوْا بِمَوَدَّتِهٖ، وَ نَقَلُوا الْبِنَآءَ عَنْ رَّصِّ اَسَاسِهٖ، فَبَنَوْهُ فِیْ غَیْرِ مَوْضِعِهٖ. مَعَادِنُ کُلِّ خَطِیْٓئَةٍ وَّ اَبْوَابُ کُلِّ ضَارِبٍ فِیْ غَمْرَةٍ. قَدْ مَارُوْا فِی الْحَیْرَةِ، وَ ذَهَلُوْا فِی السَّکْرَةِ، عَلٰی سُنَّةٍ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ: مِنْ مُّنْقَطِعٍ اِلَی الدُّنْیَا رَاکِنٍ، اَوْ مُفَارِقٍ لِّلدِّیْنِ مُبَایِنٍ.

ان کی (گمراہیوں کا) زمانہ بڑھتا ہی رہا، تاکہ وہ اپنی رسوائیوں کی تکمیل اور سختیوں کا استحقاق پیدا کر لیں۔ یہاں تک کہ جب وہ مدت ختم ہونے کے قریب آ گئی اور ایک (فتنہ انگیز) جماعت فتنوں کا سہارا لے کر بڑھی اور جنگ کی تخم پاشیوں کیلئے کھڑی ہو گئی تو اس وقت (ایمان لانے والے) اپنے صبر و شکیب سے اللہ پر احسان نہیں جتاتے تھے اور نہ حق کی راہ میں جان دینا کوئی بڑا کارنامہ سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب حکم قضا نے مصیبت کا زمانہ ختم کر دیا تو انہوں نے بصیرت کے ساتھ تلواریں اٹھا لیں اور اپنے ہادی کے حکم سے اپنے رب کے احکام کی اطاعت کرنے لگے اور جب اللہ نے رسول اللہ ﷺ کو دنیا سے اٹھا لیا تو ایک گروہ الٹے پیروں پلٹ گیا اور گمراہی کی راہوں نے اسے تباہ و برباد کر دیا اور وہ اپنے غلط سلط عقیدوں پر بھروسا کر بیٹھا، (قریبیوں کو چھوڑ کر) بیگانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے لگا اور جن (ہدایت کے) وسیلوں سے اسے مودّت کا حکم دیا گیا تھا انہیں چھوڑ بیٹھا اور (خلافت کو) اس کی مضبوط بنیادوں سے ہٹا کر وہاں نصب کر دیا جو اس کی جگہ نہ تھی۔ یہی تو گناہوں کے مخزن اور گمراہی میں بھٹکنے والوں کا دروازہ ہیں۔ وہ حیرت و پریشانی میں سرگرداں اور آل فرعون کی طرح گمراہی کے نشہ میں مدہوش پڑے تھے۔ کچھ تو آخرت سے کٹ کر دنیا کی طرف متوجہ تھے اور کچھ حق سے منہ موڑ کر دین چھوڑ چکے تھے۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 23 ، 19:23
عون نقوی