بصیرت اخبار

۲ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «اچھا گھرانہ» ثبت شده است

وَ قَدْ قَامَ اِلَیْهِ رَجُلٌ مِّنْ اَصْحَابِهٖ، فَقَالَ: نَهَیْتَنَا عَنِ الْحُکُوْمَةِ ثُمَّ اَمَرْتَنَا بِهَا، فَمَا نَدْرِیْۤ اَیُّ الْاَمْرَیْنِ اَرْشَدُ؟ فَصَفَّقَ ؑ اِحْدٰی یَدَیْهِ عَلَى الْاُخْرٰى، ثُمَّ قَالَ:‏

حضرتؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص اٹھ کر آپؑ کے سامنے آیا اور کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! پہلے تو آپؑ نے ہمیں تحکیم سے روکا اور پھر اس کا حکم بھی دے دیا، نہیں معلوم کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات زیادہ صحیح ہے۔ (یہ سن کر) حضرتؑ نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا:

هٰذَا جَزَآءُ مَنْ تَرَکَ الْعُقْدَةَ! اَمَا وَاللهِ! لَوْ اَنِّیْ حِیْنَ اَمَرْتُکُمْ بِمَاۤ اَمَرْتُکُم بِهٖ حَمَلْتُکُمْ عَلَی الْمَکْرُوْهِ الَّذِیْ یَجْعَلُ اللهُ فِیْهِ خَیْرًا، فَاِنِ اسْتَقَمْتُمْ هَدَیْتُکُمْ، وَ اِنِ اعْوَجَجْتُمْ قَوَّمْتُکُمْ، وَ اِنْ اَبَیْتُمْ تَدَارَکْتُکُمْ، لَکَانَتِ الْوُثْقٰی، وَ لٰکِنْۢ بِمَنْ وَّ اِلٰی مَنْ؟ اُرِیْدُ اَنْ اُدَاوِیَ بِکُمْ وَاَنْتُمْ دَآئِیْ، کَنَاقِشِ الشَّوْکَةِ بِالشَّوْکَةِ، وَ هُوَ یَعْلَمُ اَنَّ ضَلْعَهَا مَعَهَا. اَللّٰهُمَّ قَدْ مَلَّتْ اَطِبَّآءُ هٰذَا الدَّآءِ الدَّوِیِّ، وَ کَلَّتِ النَّزَعَةُ بِاَشْطَانِ الرَّکِیِّ!.

جس نے عہدِ وفا کو توڑ دیا ہو اس کی یہی پاداش ہوا کرتی ہے۔ خدا کی قسم! جب میں نے تمہیں تحکیم کے مان لینے کا حکم دیا تھا اگر اسی امر ناگوار (جنگ) پر تمہیں ٹھہرائے رکھتا کہ جس میں اللہ تمہارے لئے بہتری ہی کرتا، چنانچہ تم اس پر جمے رہتے تو مَیں تمہیں سیدھی راہ پر لے چلتا اور اگر ٹیڑھے ہوتے تو تمہیں سیدھا کر دیتا اور اگر انکار کرتے تو تمہارا تدارک کرتا، تو بلاشبہ یہ ایک مضبوط طریق کار ہوتا، لیکن کس کی مدد سے اور کس کے بھروسے پر؟ میں تم سے اپنا چارہ چاہتا تھا اور تم ہی میرا مرض نکلے۔ جیسے کانٹے کو کانٹے سے نکالنے والا کہ وہ جانتا ہے کہ یہ بھی اسی کی طرف جھکے گا۔ خدایا! اس موذی مرض سے چارہ گر عاجز آ گئے ہیں اور اس کنوئیں کی رسیاں کھینچنے والے تھک کر بیٹھ گئے ہیں۔

اَیْنَ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ دُعُوْۤا اِلَی الْاِسْلَامِ فَقَبِلُوْهُ؟ وَ قَرَاُوا الْقُرْاٰنَ فَاَحْکَمُوْهُ؟ وَ هِیْجُوْۤا اِلَی الْجِهَادِ، فَوَلِهُوْا وَلَهَ اللِّقَاحِ اِلٰۤی اَوْلَادِهَا، وَ سَلَبُوا السُّیُوْفَ اَغْمَادَهَا، وَ اَخَذُوْا بِاَطْرَافِ الْاَرْضِ زَحْفًا زَحْفًا وَّ صَفًّا صَفًّا، بَعْضٌ هَلَکَ، وَ بَعْضٌ نَّجَا. لَایُبَشَّرُوْنَ بِالْاَحْیَآءِ، وَ لَا یُعَزَّوْنَ عَنِ الْمَوْتٰی، مُرْهُ الْعُیُوْنِ مِنَ الْبُکَآءِ، خُمْصُ الْبُطُوْنِ مِنَ الصِّیَامِ، ذُبُلُ الشِّفَاهِ مِنَ الدُّعَآءِ، صُفْرُ الْاَلْوَانِ مِنَ السَّهَرِ، عَلٰی وَجُوْهِهِمْ غَبَرَةُ الْخَاشِعِیْنَ.

وہ لوگ کہاں ہیں کہ جنہیں اسلام کی طرف دعوت دی گئی تو انہوں نے اسے قبول کر لیا اور قرآن کو پڑھا تو اس پر عمل بھی کیا، جہاد کیلئے انہیں ابھارا گیا تو اس طرح شوق سے بڑھے جیسے دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے بچوں کی طرف۔ انہوں نے تلواروں کو نیاموں سے نکال لیا اور دستہ بدستہ اور صف بصف بڑھتے ہوئے زمین کے اطراف پر قابو پا لیا۔ (ان میں سے) کچھ مر گئے کچھ بچ گئے۔ نہ زندہ رہنے والوں کے مژدہ سے وہ خوش ہوتے ہیں اور نہ مرنے والوں کی تعزیت سے متاثر ہوتے ہیں۔ رونے سے ان کی آنکھیں سفید، روزوں سے ان کے پیٹ لاغر، دُعاؤں سے ان کے ہونٹ خشک اور جاگنے سے ان کے رنگ زرد ہو گئے تھے اور فروتنی و عاجزی کرنے والوں کی طرح ان کے چہرے خاک آلود رہتے تھے۔

اُولٰٓئِکَ اِخْوَانِیَ الذَّاهِبُوْنَ، فَحَقَّ لَـنَا اَنْ نَّظْمَاَ اِلَیْهِمْ وَ نَعَضَّ الْاَیْدِیَ عَلٰی فِرَاقِهِمْ! اِنَّ الشَّیْطٰنَ یُسَنِّیْ لَکُمْ طُرُقَهٗ، وَ یُرِیْدُ اَنْ یَّحُلَّ دِیْنَکُمْ عُقْدَةً عُقْدَةً، وَ یُعْطِیَکُمْ بِالْجَمَاعَةِ الْفُرْقَةَ، فَاصْدِفُوْا عَنْ نَّزَغَاتِهٖ وَ نَفَثَاتِهٖ، وَ اقْبَلُوا النَّصِیْحَةَ مِمَّنْ اَهْدَاهَاۤ اِلَیْکُمْ، وَ اعْقِلُوْهَا عَلٰۤی اَنْفُسِکُمْ.

یہ میرے وہ بھائی تھے جو (دنیا سے) گزر گئے۔ اب ہم حق بجانب ہیں اگر ان کی دید کے پیاسے ہوں اور ان کے فراق میں اپنی بوٹیاں کاٹیں۔ بے شک تمہارے لئے شیطان نے اپنی راہیں آسان کر دی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تمہارے دین کی ایک ایک گرہ کھول دے اور تم میں یکجائی کے بجائے پھوٹ ڈلوائے۔ تم اس کے وسوسوں اور جھاڑ پھونک سے منہ موڑے رہو اور نصیحت کی پیشکش کرنے والے کا ہدیہ قبول کرو اور اپنے نفسوں میں اس کی گرہ باندھ لو۔


امیر المومنین علیہ السلام کے پرچم کے نیچے جنگ کرنے والے گو آپؑ ہی کی جماعت میں شمار ہوتے تھے مگر جن کی آنکھوں میں آنسو، چہروں پر زردی، زبانوں پر قرآنی نغمہ، دلوں میں ایمانی ولولہ، پیروں میں ثبات و قرار، روح میں عزم و ہمت اور نفس میں صبر و استقامت کا جوہر ہوتا تھا انہی کو صحیح معنوں میں شیعانِ علیؑ کہا جا سکتا ہے اور یہی وہ لوگ تھے جن کی جدائی میں امیر المومنین علیہ السلام کے دل کی بے تابیاں آہ بن کر زبان سے نکل رہی ہیں اور آتش فراق کے لوکے قلب و جگر کو پھونکے دے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو دیوانہ وار موت کی طرف لپکتے تھے اور بچ رہنے پر انہیں مسرت و شادمانی نہ ہوتی تھی، بلکہ ان کے دل کی آواز یہ ہوتی تھی کہ:
شرمندہ ماندہ ایم کہ چرا زندہ ماندہ ایم
جس انسان میں ان صفات کی تھوڑی بہت جھلک ہوگی وہی متبع آلِ محمد علیہم السلام اور شیعہ علی علیہ السلام کہلا سکتا ہے۔ ورنہ یہ ایک ایسا لفظ ہو گا جو اپنے معنی کو کھو چکا ہو اور بے محل استعمال ہونے کی وجہ سے اپنی عظمت کو گنوا چکا ہو۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے ایک جماعت کو اپنے دروازہ پر دیکھا تو قنبر سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ قنبر نے کہا کہ: یا امیر المومنین علیہ السلام یہ آپؑ کے شیعہ ہیں۔ یہ سن کر حضرتؑ کی پیشانی پر بَل آیا اور فرمایا: مَا لِیْ لَاۤ اَرٰى فِیهِمْ سِیْمَآءَ الشِّیْعَةِ؟: ’’کیا وجہ ہے کہ یہ شیعہ کہلاتے ہیں اور ان میں شیعوں کی کوئی بھی علامت نظر نہیں آتی‘‘؟ اس پر قنبر نے دریافت کیا کہ شیعوں کی علامت کیا ہوتی ہے؟ تو حضرتؑ نے جواب میں فرمایا:
خُمُصُ الْبُطُوْنِ مِنَ الطَّوٰى، یُبْسُ الشِّفَاةِ مِنَ الظَّمَإِ، عُمْشُ الْعُیُوْنِ مِنَ الْبُکَآءِ.
بھوک سے ان کے پیٹ لاغر، پیاس سے ان کے ہونٹ خشک اور رونے سے ان کی آنکھیں بے رونق ہو گئی ہوتی ہیں۔(۱)

[۱]۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ۲، ص ۱۲۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 30 January 23 ، 15:36
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

ایک اچھا گھرانہ وہ ہے جس میں میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ مہربان ہوں، ایک دوسرے کے ساتھ وفا کریں اور صمیمیت سے رہتے ہوں۔ باہم عشق و محبت سے پیش آئیں اور ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت اور مصلحتوں کا خیال رکھیں۔ یہ سب امور اولویت رکھتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں جب ان کی اولاد ہو تو اولاد کی نسبت مسؤولیت پذیر بنیں۔ اس کو اپنے حال پر مت چھوڑ دیں اس کی مادی اور معنوی ضروریات کی لحاظ کریں۔ اگر اس کی مادی و معنوی سلامت کے خواہاں ہوں تو اسے سکھائیں یاد کرائیں، کچھ کام کرنے پر اکسائیں اور کچھ کاموں سے حتما روکیں، اور اچھی صفات اس کے اندر پیدا کریں۔ اس طرح کا گھرانہ ایک ملک کی اصلاحات کی اساس بن سکتا ہے۔ اگر انسان اس طرح کے گھرانوں میں تربیت پائیں گے تو ان کے اندر بڑی صفات پائی جاتی ہونگیں، شجاعت، عقلی طور پر مستقل ہونا، با فکر، با احساس مسؤولیت، با احساس محبت، جرأت مند، فیصلے کرنے والا، خیر خواہ، اور با نجابت بچے معاشرے میں سامنے آئیں گے۔ اگر اس طرح کا معاشرہ لوگوں سے بھر گیا تو یہ معاشرہ کبھی بھی بد بختی کی طرف نہیں جا سکتا۔

اصلی متن

خانواده‌ی خوب یعنی، زن و شوهری که با هم مهربان باشند، با وفا و صمیمی باشند و به یکدیگر محبت و عشق بورزند، رعایت همدیگر را بکنند، مصالح همدیگر را گرامی و مهم بدارند، این در درجه اول.
بعد، اولادی که در آن خانواده به وجود می‌آید، نسبت به او احساس مسئولیت کنند، بخواهند او را از لحاظ مادی و معنوی سالم بزرگ کنند. بخواهند از لحاظ مادی و معنوی او را به سلامت برسانند، چیزهایی به او یاد بدهند؛ به چیزهایی او را وادار کنند، از چیزهایی او را بازدارند و صفات خوبی را در او تزریق کنند. یک چنین خانواده‌ای اساس همه اصلاحات واقعی در یک کشور است. چون انسانها در چنین خانواده‌ای خوب تربیت می‌شوند، با صفات خوب بزرگ می‌شوند. با شجاعت، با استقلال عقل، با فکر، با احساس مسئولیت، با احساس محبت، با جرئت، جرئت تصمیم گیری، با خیرخواهی -  نه بدخواهی – با نجابت، خب وقتی مردم جامعه‌ای این خصوصیات را داشته باشد، این جامعه دیگر روی بدبختی را نخواهد دید.(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 28 October 21 ، 11:18
عون نقوی