بصیرت اخبار

۲ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «امام زمانؑ» ثبت شده است

«دروس مهدویت»

درس شرح الکافی

موضوع: غیبت کی حقیقت(۷)

تدریس: آیت الله رضا عابدینى

تدوین: عون نقوی

حجت کا زمین پر ہونا ضروری

خداوند متعال کے شکر گزار ہیں جس نے یہ علمی دسترخوان نصیب کیا۔ ان نورانی ذوات سے فیض و برکات حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا۔ شکر گزار ہیں اس خدا کے کہ جس نے ہماری ہدایت کے لیے انبیاء کرامؑ بھیجے اور حضرات معصومینؑ مقرر فرماۓ۔ہم الکافی کے ۷۹ ویں باب کی پہلی روایت پڑھ رہے تھے جس میں غیبت کی روایات کو جمع کیا گیا ہے۔ اس باب کی پہلی روایت کو ہم نےملاحظہ کیا جس میں امام نے فرمایا:

«قَالَ: أَقْرَبُ مَا یَکُونُ الْعِبَادُ مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ وَ أَرْضَى مَا یَکُونُ عَنْهُمْ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّةَ اللَّهِ».

ترجمہ: بندوں کا خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہونا اور راضی ہونا اس حالت میں ہے جب وہ حجت خدا کو غائب پائیں۔ [1]

اس قرب کے بارے میں بیان ہوا کہ اس قرب سے مراد قربِ وجودی ہے۔ قرب مکانی یا زمانی مراد نہیں۔  دوسرا بیان خدا کی رضایت کے بارے میں ہے کہ خدا ان سے راضی ہے۔ با الفاظ دیگر «اقرب ما یکون» یعنی یہ لوگ «رضوا عنہ» ہیں۔ اور «ارضی ما یکون» یعنی «رضی اللہ عنهم» ہیں۔ یہ دو بشارتیں ہیں۔ یہ دو بشارتیں لازم و ملزوم ہیں۔ ممکن نہیں کوئی «اقرب» ہو اور «ارضی» نہ ہو۔ جو اقرب ہوگا حتما ارضی بھی ہوگا۔

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهُ مَا زَکَىٰ مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ أَبَدًا».

ترجمہ: اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے ایک شخص بھی کبھی پاک نہ ہوتا۔ [2]

ممکن نہیں کوئی عمل کی توفیق حاصل کرے مگر خدا نے اسے توفیق نہ دی ہو۔ خدا توفیق دیتا ہے تو عمل وجود میں آتا ہے۔ دو نگاہ ہیں۔ ایک دفعہ ہم نیچے سے اوپر کی طرف نگاہ کرتے ہیں۔ یہ «اقرب ما یکون العباد» ہے۔ ایک دفعہ ہم اوپر سے نیچے کی طرف نگاہ کرتے ہیں جو خدا کی نگاہ ہے۔ اوراسے «ارضی ما یکون» سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ہر دو طرف سے یہ کلمات ہمارے لیے بشارت ہیں۔ تاہم یہ دوسرا کلمہ «ارضی ما یکون» زیادہ شیرین ہے کہ انسان سے اس کا اللہ راضی ہو جاۓ۔ لیکن انسان کو یہ استعداد کب حاصل ہوتی ہے؟ ہم نے روایت میں پڑھا کہ یہ استعداد انسان کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب زمانے کی حجت ان کی نظروں سے اوجھل ہو۔

«إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّةَ اللَّهِ جَلَّ وَ عَزَّ وَ لَمْ یَظْهَرْ لَهُمْ وَ لَمْ یَعْلَمُوا مَکَانَهُ».

ترجمہ: جب وہ حجت خدا کو غائب پائیں۔ اور حجت ان پر ظاہر نہ ہوں، ان کے جاۓ قیام کو نہ جانیں۔

روایت یہ نہیں کہتی کہ حجت ہے ہی نہیں یا وہ کہیں نہیں رہتی بلکہ فرمایا لوگ ان کی جاۓ رہائش کو نہیں جانتے، حجت کو دیکھ نہیں سکتے یا نہیں جانتے کہ وہ کہاں ہے؟ ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شے موجود نہیں اور ہم اس شے کا فقدان کہتے ہیں۔ لیکن ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ شے موجود ہے لیکن ہمیں میسر نہیں، اس دوسرے معنی میں جو فقدان مراد ہے وہ روایت میں وارد ہوا ہے۔

«وَ هُمْ فِی ذَلِکَ یَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَمْ تَبْطُلْ حُجَّةُ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ».

ترجمہ: اور اس کا علم رکھیں کہ حجت خدا سے زمانہ خالی نہیں ہوتا۔

زمانہ غیبت میں حجت ہے لیکن اس کو دیکھنا ممکن نہیں۔ نہ یہ کہ حجت ہی نہ ہو۔ لوگ ان کے وجود کو علم حصولی اور برہان کی صورت میں قبول کیے ہوۓ نہیں بلکہ مکاشفہ اور حضوری صورت میں ان کو دیکھتے ہیں اور ان سے ارتباط برقرار کرتے ہیں لیکن اس ظاہری آنکھ سے نہیں بلکہ قلبی بصیرت سے۔ روایت کے اگلے حصے میں امام فرماتے ہیں:

«وَ لَا مِیثَاقُهُ».

یہ لوگ جانتے ہیں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ زمین حجت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ حجت کو نہیں دیکھتے لیکن پھر بھی ان کو یقین حاصل ہے کہ زمین حجت کے بغیر نیہں ہو سکتی کیونکہ چونکہ قوس صعود میں امام واسطہ ہیں ہدایت کے پہنچنے کا اور اگر ہدایت کا سلسلہ رک جاۓ تو انسان گمراہ ہو جاۓ گا۔ حجت در اصل صراط ہے۔ اگر حجت نہ ہو مطلب یہ ہوگا کہ صراط بند ہے۔ لہذا حجت کا ہر دور میں حی ہونا ضروری ہے۔

نبی اور امام میں فرق

علامہ طباطبائیؒ المیزان میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ نبی کا کام انذار، تبشیر اور تبلیغ ہے۔ امام کا کام «ایصال الی المطلوب»  ہے۔ امام صرف راستہ نہیں بتاتا بلکہ ہاتھ پکڑتا ہے اور اس منزل تک ساتھ لے جاتا ہے۔ ایک دفعہ جب ہم سے راستہ پوچھا جاتا ہے تو ہم صرف اتنا کہہ دیتے ہیں کہ اس طرف سے جاؤ پہنچ جاؤگے۔ لیکن ایک دفعہ آپ سے راستہ پوچھا جاتا ہے تو آپ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو وہاں تک لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جگہ ہے جس کی آپ تلاش میں ہیں۔ نبی بھی امام ہونے کی حیثیت سے امام ہوتا ہے لہذا انبیاء امام بھی تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَ جَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً یَهْدُونَ بِأَمْرِنَا».

ترجمہ: ور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے تھے۔[3]

انبیاء کرام امام تھے۔ رسول ہونے کی حیثیت سے دین کی تبیین کرتے اور امام ہونے کی حیثیت سے ایسے رہنمائی کرنے والے تھے جو ہاتھ پکڑ کر منزل تک لے جانے والا ہوتا ہے۔ دین ایک ایسا راستہ ہے جس میں اگر ہاتھ پکڑ کر پہنچانے والا نہ ہو انسان اس مسیر کو طے نہیں کرسکتا۔ دین کا راستہ وہ ہے جس پر ہم چل نہیں سکتے بلکہ کوئی چلانے والا ہو تو دین پر چلنا ممکن ہوتا ہے۔ تاہم خود ہم پر بھی ضروری ہے کہ اس راہ میں کوشش کریں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بیابان میں ہمیں لاکر کھڑا دیں ۔ ہر طرف صرف چٹیل میدان ہو اور راستے و منزل کی نشانی نہ ہو۔ یہاں پر ایک رہبر اور پرچم دار کی ضرورت ہے جو ہمیں بتاۓ اور ساتھ چلے البتہ چلنا ہم نے خود ہے  اس نے صرف رہنمائی کرنی ہے ۔

حجت در قوس صعود اور نزول

«و لا میثاقہ» بھی بہت خوبصورت بیان ہے۔ قوس صعود میں حجت کے ہونے پر دلالت کرتا ہے۔۔ اس میں احتجاج اور بینات موجود ہیں۔ تاہم حجت بمعنی عام جو کہ واسطہ فیض در قوس نزول بنتا ہے وہ بھی اس میں موجود ہے ہر دو معنی کو شامل ہے۔ «أَیْنَ السَّبَبُ الْمُتَّصِلُ بَیْنَ الْأَرْضِ وَالسَّماءِ»[4]

وہ سبب جو متصل کرتا ہے ارض و سماء کو قوس صعود ہے۔ سماء اور ارض کے مابین ارض ہے۔ اور «یدبر الامر من السماء الی الارض» بواسطہ حجت قوس نزول ہے۔

«ارادة الرب فی مقادیر الامور تهبط الیکم و تصدر من بیوتکم» یہ قوس نزول میں ہے۔ کہ تمام ارادات الہی اور تقادیر «تهبط الیکم و تصدر من بیوتکم» ان کی جانب سے سب تک رزق وغیرہ پہنچتا ہے۔ اگر قوس نزول میں حجت نہ ہو اختلال ایجاد ہو جاۓ گا کیونکہ فیض صادر نہیں ہوگا، اور قوس صعود میں بھی خلل واقع ہوگا کیونکہ ہدایت کا راستہ بند ہو جاۓ گا۔ اور بشر حیوانیت کے مرتبے میں رہ جاۓ گا مرتبہ انسانی تک نہیں پہنچ سکے گا۔

میثاق کی حقیقت

«و لا میثاقہ» یعنی اس کا میثاق باطل نہیں ہوگیا۔ میثاق کیا ہے؟ میثاق وہ رمز  اور شیرین ترین کلمہ ہے اگر اس کی آیات اور روایات میں ہم کھوج لگائیں تو بہت عالی معارف ہمیں حاصل ہو سکتے ہیں۔ ربوبیت اور مربوبیت کا بہت بہترین ربط اسی میثاق کے رابطے سے شروع ہوتا ہے جو سب اشیاء کے لیے ربطیت بنتا ہے۔

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

«وَ إِذْ أَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ».

ترجمہ: اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے)۔ [5]

یہ میثاق ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ یہ میثاق ربوبیت ہے۔ یہ میثاق تمام انبیاء کی نبوت اور ان کے اوصیاء کی وصایت کو بھی شامل ہے۔ روایات میں وارد ہوا ہے: «الی ههنا التوحید». یعنی نظام وصایت بھی میثاق ربوبیت میں شامل ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص توحید کو مانتا ہو لیکن نبی کی رسالت کو نہ مانتا ہو اس نے درحقیقت توحید کا انکار کیا۔ اگر کسی نے نبی کی نبوت اور رسالت کو قبول کر لیا لیکن اس کے وصی اور ولی کی ولایت کو قبول نہ کیا گویا اس نے نبوت کا انکار کیا۔ اگر ولایت کو قبول کرے اور آخری ولی خدا کو قبول نہ کرے توحید کامل نہیں ہوتی۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان سے انبیاء کرامؑ کی نسبت میثاق لیا گیا کہ اس امر الہی کو پورا کریں گے۔ انبیاء سے اولوالعزم انبیاء کی نسبت میثاق لیا گیا، اور اولوالعزم انبیاء سے نبی خاتم ﷺ کی نسبت میثاق لیا گیا۔ وہ میثاق جو انبیاء سے لیا گیا اس کا تسلسل امام عصرؑ تک ہے کہ وہ اس مرتبے تک اقرار اور باور رکھتے تھے۔ میثاق ایک بہت عظیم امر ہے جس کے روایات میں متعدد معنی واردہوۓ ہیں۔ میثاق کی اصل اور اساس میثاق عبودیت و ربوبیت ہے۔ یہ میثاق نبوت و وصایت تا آخرین وصی جاری ہے۔

امام زمانؑ کا انکار رسول اللہ ﷺ کا انکار

«عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مِهْرَانَ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع أَنَّهُ قَالَ: مَنْ‏ أَقَرَّ بِجَمِیعِ‏ الْأَئِمَّةِ وَ جَحَدَ الْمَهْدِیَّ کَانَ کَمَنْ أَقَرَّ بِجَمِیعِ الْأَنْبِیَاءِ وَ جَحَدَ مُحَمَّداً ص نُبُوَّتَهُ».

ترجمہ: امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: جو تمام آئمہ کی امامت کا اقرار کرے اور مہدی کا انکار کرے وہ اس شخص کی مانند ہے جو تمام انبیاء کی نبوت کو مانے اور محمد ﷺ کی نبوت کا انکار کرے۔ [6]

یہ سب کیوں کہا گیا ہے؟ کیونکہ یہ سب حقیقت واحدہ ہیں۔ ان سب کا ایک ظہور اور واقعیت ہے۔ ایسے ہی ہے کہ جیسے ایک شے کی آخری مرتبے کی کامل شکل کو نا مانیں اس سے اس آخری مرتبے کا انکار لازم نہیں آتا بلکہ اس شے کی کامل حقیقت کا انکار لازم آتا ہے۔ وہ پہلے مرتبے تو دراصل اس آخری مرتبے کا مقدمہ تھے۔مقدمہ کو مان لیں اور ذوالمقدمہ کا انکار کردیں۔ یہ سب نور واحد ہیں، الہی جہت سے واحد ہیں لیکن لوگوں سے اربتاط کی جہت سے ممکن ہے کسی کا مرتبہ ظہور پہلے ہو اور کسی کا بعد میں۔ لہذا سب انبیاء کرامؑ سے امام زمانؑ کا میثاق لیا گیا۔ میثاق کی حقیقت سادہ نہیں ہے کہ ہم اسے محض قبولیت قرار دیں۔ بلکہ میثاق ایک حقیقت عینیہ ہے۔ جو دورہ غیبت اور دوران ظہور عظیم حقیقت کی صورت میں سامنے آۓ گی۔ رسول اللہ ﷺ کے دور میں لوگ اس بلند مرتبہ کے میثاق کی استعداد نہیں رکھتے تھے۔ خود اس مرتبے کے میثاق کا حامل ہونا بھی بہت بڑا امر ہے۔

میثاق، تکوینی امر یا تشریعی

میثاق تکوینی امر ہے یا تشریعی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میثاق نظام قوس نزول کو بھی شامل ہے اور اس جہت سے تکوینی ہے اور نظام قوس صعود کو بھی شامل ہے کہ اس جہت سے تشریعی ہے۔ بقیہ انبیاء کرامؑ اپنی باور اور میثاق کی مقدار کے مطابق اپنی امت کو دعوت دیتے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ باور نہیں رکھتے تھے، بلکہ اس کے لیے ظرف وجود چاہیے تھا، لذا انبیاء خود امت ختمی مرتبت ہیں۔ لیکن ان کی امتیں انبیاء کی امتیں ہیں۔

«فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِیدًا».

ترجمہ: پس (اس دن) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ان لوگوں پر بطور گواہ پیش کریں گے۔ [7]

انبیاء کرام اپنی امتوں پر شاہد ہیں۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نا صرف اپنی امت پر شاہد ہیں بلکہ شاہدان (انبیاء کرامؑ) پر بھی شاہد ہیں۔ رسول اللہ ﷺ اپنی امت کے لیے بھی میزان ہیں اور تمام انبیاء کرامؑ کے لیے بھی میزان ہیں۔ پس ہر دو یعنی رسول اللہ ﷺ کی امت اور تمام انبیاءکرامؑ، رسول اللہﷺ کی امت ہیں۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ روز قیامت تمام انبیاءکرامؑ اپنی امتوں سمیت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں گے۔

ہر دور میں امام کا ہونا

میثاق اگر قوس نزول میں باطل ہو جاۓ فیض الہی کا سلسلہ منقطع ہو جاۓ گا، اور اگر قوس صعود میں باطل ہو جاۓ ہدایت کا سلسلہ رک جاۓ گا پس ضروری ہے کہ وہ حقیقت جو قوس صعود اور قوس نزول میں واسطہ ہے ہر دور میں موجود ہو۔

فرج کا انتظار صبح شام

روایت کے اگلے حصے میں امام کا فرمانا ہے:

«فَعِنْدَهَا فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ صَبَاحاً وَ مَسَاءً».

ترجمہ: ان کو چاہیے کہ ہر صبح و شام ظہور حضرت حجتؑ کی توقع رکھیں۔

روایت میں آیا ہے کہ «اصلح الله امر ولیه فی لیلة». کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حادثات اور واقعات ایک رات میں درست ہو جاتے ہیں۔ موسی کلیم اللہؑ آگ کی تلاش میں نکلے تھے، اللہ تعالی نے انہیں رسالت کے لیے مبعوث فرما دیا۔ حضرت موسیؑ کو توقع نہ تھی وہ آگ کی تلاش میں نکلے تھے کہ خود کو گرم کر سکیں لیکن ان کو رسالت عطا ہوگئی۔ کہاں آگ کی تلاش اور کہاں رسالت کی عظیم ذمہ داری؟ اللہ تعالی آگ کے ذریعے موسیؑ پر متجلی ہوۓ۔ آگ کی طرف احتیاج حضرت موسیؑ کو حرکت میں لایا اور وہ تلاش میں نکلے، اللہ تعالی کے لیے ممکن ہے اس کو کسی اور شکل میں عظیم امر سے پورا کر دے۔ حضرت موسیؑ کو رسالت عطا ہوگئی۔ حضرت موسیؑ کا مبعوث ہونا خود ان کے لیے فرج شخصی تھا لیکن ان کی قوم کے لیے فرج جمعی تھا۔

اس میں دوسری جہت کی طرف غور کرنا ضروری ہے جب ہم اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ظاہر سے باطن کی طرف عبور کرنا، اور یہ یقین کرنا کہ امام ہیں اور ان کا وجود  اور ان کی ہدایت گری پہلے سے زیادہ فعال تر ہے اس چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہر لحظے فرج موجود ہے۔ جب انسان اس نگاہ سے دیکھے تو یہ نیہں کہے گا کہ فرج ہوگا بلکہ اس کے لیے تو فرج موجود ہے، اس کے لیے امام کا وجود اور ان سے ارتباط کا امکان زمانہ حضور امام سے زیادہ موجود ہے۔ ان کلمات سے بھی یہی مراد ہے یعنی صبح و شام کے خاص اوقات مراد نہیں ہیں بلکہ لحظہ بہ لحظہ  یہ حقیقت موجود ہے۔ اگر کوئی اس نگاہ سے زمانہ غیبت کو دیکھے تو اس کی مثال بھی ان انبیاء کرامؑ کی جیسی ہوگی جن کے زمانے میں ان کا امام عصر غائب تھا لیکن ان کا ایمان تھا کہ امام موجود ہے اور اس کی فرج کے منتظر تھے۔ اسی باور تک اگر آج کا منتظر بھی پہنچ جاۓ اس کے لیے یہ مسئلہ اسی طرح آسان ہو جاۓ گا۔

دشمنوں پر غضب الہی

امام فرماتے ہیں:

«فَإِنَّ أَشَدَّ مَا یَکُونُ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى أَعْدَائِهِ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّتَهُ وَ لَمْ یَظْهَرْ لَهُمْ».

ترجمہ: بے شک اللہ تعالی کے دشمنوں پر شدید ترین لمحہ وہ ہے جب حجت خدا ان سے غائب ہے اور ان کے لیے آشکار نہیں۔

دوسری جانب زمانہ غیبت میں اللہ تعالی کا اپنے دشمنوں پر غضب بھی شدید تر ہو جاۓ گا۔ کیونکہ دشمنان غیبت کی طولانیت کا باعث بنیں گے اور نزول برکات میں مانع قرار پائیں گے۔ آیت اللہ بہجتؒ فرمایا کرتے تھے کہ فرج کی تاخیر کی وجہ سے ہم کتنی برکات اور منافع سے محروم ہو گئے ہیں اس کا ہمیں علم نہیں، اگر ہمیں علم ہو جاتا کہ فرج کی تاخیر کی وجہ سے ہمارا کتنا نقصان ہو رہا ہے تو اتنی آرام کی زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔ دشمنان کیوں «اشد ما یکون غضب الله علی اعدائه» بن گئے ہیں؟ اس لیے کہ لوگ رحمت الہی کے نزول میں مانع بن رہے ہیں۔

غضب الہی کسی بھی دور میں اتنا شدید نہیں رہا ہوگا جتنا زمانہ غیبت میں غضب الہی شدید ہو جاۓ گا حتی نمرود اور فرعون کے زمانے سے بھی شدید تر اللہ اپنے دشمنوں پر غضب فرماۓ گا۔ کیونکہ جو محرومیت اس زمانے میں لوگوں کو حاصل ہو رہی ہے وہ کسی بھی زمانے میں حاصل نہ ہوئی تھی اور اس محرومیت کا باعث یہ دشمن ہیں۔ یہ دور اشد محرومیت کا دور ہے۔ عذاب الہی بھی حقائق کے تابع ہے اعتبارات کے تابع نہیں۔ اس زمانے میں جو مانعیت اور محرومیت ایجاد ہوئی ہے بالاترین کمال کی محرومیت ہے۔ لذا دشمنان الہی بالاترین غضب کے حقدار ہیں۔ یہ الفاظ واقعیات ہستی کو بیان کر رہے ہیں۔ معصوم کی زبان ان حقائق کو بیان کر رہی ہے۔ کیوں کہ شدت محرومیت ایجاد ہوئی ہے اس لیے غضب بھی شدید ہو۔ شدید ترین صورت میں «سدّ عن الطریق» واقع ہوۓ ہیں لذا خدا بھی شدید ترین صورت میں غضب فرماۓ گا۔  ہمیں ہر وقت دعا کرنی چاہیے کہ خدا نہ کرے ہم سے کوئی ایسا کام سرزد ہو جو غضب الہی کا باعث بنے۔

آیت اللہ بہجتؒ جب یزید یا شمر کا نام سنتے یا ذکر کرتے تو فرماتے کہ ایسا مت سوچیں کہ ہم ان بدترین مرتبوں سے بَری ہیں، ہمارے لیے کبھی پیش ہی نہیں آیا، اگر ہمارے لیے یہ مرحلہ پیش آتا تو معلوم نہیں ہم کہاں کھڑے ہوۓ؟ اس روایت میں وارد ہوا ہے کہ اس زمانے کے لوگ «اشد ما یکون غضب الله» ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی نے زمانہ غیبت میں اپنی تکلیف پر درست طور پر عمل نہ کیا، نعوذباللہ کوئی مانعیت ایجاد کرتا ہے، یا عناد کے مرتبے تک پہنچ جاتا ہے، وہ «أشدّ ما یکون» کا کامل مصداق بن سکتا ہے یا ان (شمر و یزید و فرعون و نمرود) سے بھی اشد تر ممکن ہے بن جاۓ۔

اصلِ غیبت اللہ تعالی کی جانب سے

«وَ قَدْ عَلِمَ أَنَّ أَوْلِیَاءَهُ لَا یَرْتَابُونَ وَ لَوْ عَلِمَ أَنَّهُمْ یَرْتَابُونَ مَا غَیَّبَ حُجَّتَهُ عَنْهُمْ طَرْفَةَ عَیْنٍ وَ لَا یَکُونُ ذَلِکَ إِلَّا عَلَى رَأْسِ شِرَارِ النَّاسِ».

ترجمہ: اور بتحقیق خدا جانتا تھا کہ (غیبت کی وجہ سے) اس کے اولیاء شک میں نہیں پڑیں گے اور اگر وہ جانتا کہ وہ شک میں پڑ جائیں گے تو وہ اپنی حجت کو پلک جھپکنے کی مدت تک بھی نہ چھپاتا۔ اور یہ غیبت نہیں ہوگی مگر بدترین لوگوں کی وجہ سے۔ (غیبت کی وجہ بدترین لوگ ہیں)۔ [8]

معلوم ہوتا ہے کہ غیبت ایک الہی امر ہے۔ جزائی امر نہیں ہے۔ اگر جزائی امر ہوتا تو کہا جاتا کہ تم لوگ خود اسکا باعث بنے ہو اور یہ اس کی جزا ہے۔ اگر خدا کو معلوم ہوتا کہ غیبت سے کوئی شک میں پڑ جاۓ گا، نہیں فرمایا کسی کو یقین ہو جاۓ گا، بلکہ اگر کوئی غیبت کی وجہ سے شک میں بھی پڑ جاتا تو غیبت کو خدا کبھی قرار نہ دیتا۔ پس «اصل الغیبة من الله» ہے۔ اصلِ غیبت کسی کی گمراہی یا شک میں پڑنے کا باعث نہ بنے گی۔ لیکن طولِ غیبت اور اس کا دوام باعث بن سکتا ہے کہ جو اولیاء الہی نہیں ہیں اور ان کے دل مریض ہیں گمراہ ہو جائیں۔ ان کا گمراہ ہو جانا یا شک میں پڑ جانا اصلِ غیبت کی وجہ سے نہیں بلکہ طول غیبت کی وجہ سے ہے۔ اس کی علت خود ان کے اعمال ہیں۔ «فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا» [9] ان کے قلوب میں پہلے سے ہی مرض موجود تھا خدا ان کے مرض میں اور زیادہ اضافہ فرما دے گا۔

دوران غیبت، شریر ترین حکومتوں کا دوران

امام کا یہ فرمانا کہ «و لا یکون ذلک الا علی راس شرار الناس» بتاتا ہے کہ دوران غیبت ایک ایسا دور ہے جس میں شر ترین، و بد ترین ظالمین اپنے شر اور ظلم کے بالاترین مرتبے پر موجود ہیں اور شر و ظلم ایجاد کر رہے ہیں۔ دوران غیبت میں «راس شرار الناس» لوگ حاکم ہیں۔ ہمارے سب آئمہ معصومینؑ شرار  ناس کے ظلم سے متاثر رہے ہیں لیکن ان سب شرار ناس کے رأس اور ان کا آخری درجہ دوران غیبت حاکم ہے۔ لذا اس دور میں رہنے والے مومنین ہی «ارضی و اقرب ما یکون» ہو سکتے ہیں۔ جس طرح سے وارد ہوا ہے کہ ہر دور کا شیطان اور اس کے وسوسے اس دور کے نبی کے درجے کے مطابق ہے۔ لذا جب حضرت عیسیؑ مبعوث ہوۓ شیطان کو چوتھے آسمان تک رسائی سے منع کر دیا گیا، یعنی سقوط کے چار مرتبے امکان پذیر ہو گئے اور جب رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوۓ تو ساتوں آسمانوں سے شیطان کی رسائی کو روک دیا گیا مطلب سقوط بہ ارضین سبع ممکن ہو گیا۔ شیطان ہر وجود کے پاس اس کے مرتبہ وجودی کے مطابق آتا ہے، عالم کے پاس عالمانہ انداز میں اور جاہل کے پاس جاہلانہ طور پر۔

دجال کا گزشتہ ظالمین سے اشد ہونا

یہاں سوال ہے کہ کیا دجال، فرعون اور نمرود سے اشد ہوگا؟ روایات کا ظاہر بتاتا ہے کہ اشد ہوگا۔ اس کے پاس مکاریت اور حیلہ گری کے وسائل زیادہ ہیں۔ اس کے پاس گزشتہ تمام شیاطین کے مراتب، با اضافہ ان تمام وسائل کہ جو جدید ہیں اور بالا مرتبے کے ہیں سب موجود ہیں۔ اس وجہ سے ان کو «علی راس شرار الناس» قراردیا گیا ہے۔ البتہ ہمیں اس کلام کو ان روایات سےسازگار کرنا ہوگا کہ جن میں ان سات افراد کا ذکر ہے جو جہنم کی بدترین جگہ میں موجود ہیں اور «ویل» کے کنویں میں ہیں یا آگ کی صندوق میں موجود ہیں۔ کبھی ایک مسئلے کو از جہت مبدئیت دیکھا جاتا ہے اور کبھی اس کے نتیجے کی جہت سے۔ از لحاظ نتیجہ دجال بدتر ہے اور از لحاظ مبدئیت وہ سات افراد بدتر ہیں۔

عبادات کی افضلیت

سوال یہ ہے کہ ظاہری عبادات زمانہ ظہور میں افضل ہیں یا زمانہ غیبت میں سِری عبادات افضل ہیں۔

روایت میں واردہوا ہے:

«عَنْ عَمَّارٍ السَّابَاطِیِّ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع أَیُّمَا أَفْضَلُ الْعِبَادَةُ فِی السِّرِّ مَعَ الْإِمَامِ مِنْکُمُ الْمُسْتَتِرِ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ أَوِ الْعِبَادَةُ فِی ظُهُورِ الْحَقِّ وَ دَوْلَتِهِ مَعَ الْإِمَامِ مِنْکُمُ الظَّاهِرِ».

ترجمہ: عمار ساباطی کہتے ہیں کہ میں نے امام سے عرض کی: باطل کی حکومت میں امام مستتر کے ساتھ سِری عبادت انجام دینا افضل ہے یا حق کی حکومت میں امام ظاہر کے ساتھ ظاہری عبادت؟ [10]

دوران غیبت میں باطل کی حکومت ہے اور عبادات کو علنی طور پر انجام دینا ممکن نہیں۔ امام بھی مخفی ہے۔ عبادات کو سری اور مخفی طور پر کر سکتے ہیں۔ یہ دوران صرف آج کے دور کو شامل نہیں کہ جب بارہویں امام غیبت میں ہیں بلکہ اس دور کو بھی شامل ہے جب آئمہ معصومینؑ لوگوں میں ظاہری طور پر موجود تھے لیکن حکومت باطل کی تھی، امام سب کے لیے آشکار نہیں ہوتے تھے تاہم ظہور کا ایک مرتبہ ان کو میسر تھا۔ لذا استتار کا ایک مرتبہ ان کے دور کو بھی شامل ہے۔ مثلا امام رضاؑ نے چار سال تک اپنے والد گرامی امام کاظمؑ کی شہادت کے بعد اپنی امامت کو ظاہر نہ کیا۔ فقط خواص میں سے کچھ افراد جانتے تھے لیکن عام شیعہ نہیں جانتے تھے۔ حتی بعض خواص میں سے بھی کچھ کو پتہ نہ تھا کہ امام کاظمؑ کے بعد امام کون ہیں؟ یہ بہت سخت دور تھا استتار کا ایک مرتبہ اس دور کو بھی شامل ہے۔معلوم ہوا امام کا مستتر ہونا تشکیکی ہے۔ اسی طرح باطل کی حکومت بھی تشکیکی ہے، مثلا بعض حکومتیں ایسی ہیں جن کو مسلمانوں سے کوئی سروکار نہیں۔ پس ایک طرف سِری عبادت ہے، باطل کی حکومت ہے اور امام بھی مستتر ہیں، ظاہری طور پر عبادات انجام دینا یا اجتماعی عبادات انجام دینا یا تو مشکل ہے یا نا ممکن۔ اور دوسری طرف امام ظاہر ہیں، حق کی حکومت ہے اور ظاہری عبادت؟ کونسی عبادت افضل ہے؟ عبادتِ ظاہر در دوران ظہور یا عبادتِ سری در زمان غیبت؟ ممکن ہے دوران ظہور میں ہم عبادت امام کی اقتداء میں انجام دے رہے ہیں، امام پورے معاشرے پر حاکم ہیں اور پورے سیطرے کے ساتھ ، پورے ظہور کے ساتھ حجت امامت کرتی ہے اس جاہ و جلال و شکوہ کے ساتھ اس نماز کا کیا ہی معراج ہوگا؟ اور ایک طرف غیبت کا دور، امام بھی مستتر، حکومت بھی باطل کی، مخفیانہ نماز وہ بھی ممکن ہے فرادی؟ کس نماز کو افضل قراردیا جاۓ گا؟

«فَقَالَ یَا عَمَّارُ الصَّدَقَةُ فِی السِّرِّ وَ اللَّهِ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ فِی الْعَلَانِیَةِ وَ کَذَلِکَ وَ اللَّهِ عِبَادَتُکُمْ فِی السِّرِّ مَعَ إِمَامِکُمُ‌ الْمُسْتَتِرِ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ تَخَوُّفُکُمْ مِنْ عَدُوِّکُمْ فِی دَوْلَةِ الْبَاطِلِ وَ حَالِ الْهُدْنَةِ أَفْضَلُ».

ترجمہ: امام نے فرمایا: اے عمار وہ صدقہ جو مخفی طور پر دیا جاتا ہے خدا کی قسم اس صدقے سے افضل ہے جو علانیہ دیا جاتا ہے اسی طرح خدا کی قسم! امام کے مستتر ہونے کی حالت میں، باطل کی حکومت میں، دشمن سے خوف اور اس باطل کی حکومت میں اس حال میں تمہاری عبادتیں افضل ہیں۔

لیکن سوال پیدا ہوگا کہ صدقہ تو مستحب عمل ہے کیا واجبات کو بھی یہ امر شامل ہے؟ وارد ہوا ہے کہ نماز جماعت میں شرکت کرو چاہے اس میں تمہارا حضور قلب کم ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ خود جماعت، نماز کا علنی ہونا، مسلمانوں کا جمع ہونا اور یہ اجتماع خود مطلوب امر ہے اور اس کے آثار ہیں۔ جب امام نے دوران غیبت کی اتنی فضیلت بیان کی تو راوی نے پوچھا کہ یا امام پھر ہم ظہور کی دعا نہ کریں؟ امام نے فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھنا چاہتے کہ حکم خدا ہر جگہ جاری ہوتا نظر آۓ؟ اگر کوئی اس مطلب کو درک کر لے تو اس کے لیے یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ خدا کسی اور طرح سے جبران فرما دے گا۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ دوران غیبت کی ہمیں دقیق معرفت عطا فرماۓ اور دوران ظہور کا درک عنایت فرماۓ۔

 

 

 

 


منابع:

↑1 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔
↑2 نور: ۲۱۔
↑3 انبیاء: ۷۳۔
↑4 مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج۱۰۲، ص۱۰۷۔
↑5 اعراف: ۱۷۲۔
↑6 صدوق، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، ج۲، ص۳۳۳۔
↑7 نساء: ۴۱۔
↑8 کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔
↑9 بقره: ۱۰۔
↑10 کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 March 22 ، 14:06
عون نقوی

غیبت امام زمانؑ محرومیت کا نہیں، رشد کا زمانہ ہے

تدریس: استاد عابدینی

تحریر: عون نقوی

درس: ۳۲۱

 

مقدمہ

اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں جس نے ہمیں روایات آئمہ اطہارؑ کو پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ مرحوم کلینیؒ کی کتاب الکافی سے غیبت امام زمانؑ کے موضوع پر ہم پہنچے ہیں۔ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی اس باب (نادر فی حال الغیبۃ) میں بیان کردہ روایات میں دقیق طور پر غور و فکر کرنے توفیق عطا کرے۔ اس باب میں کوشش کریں گے اس باب سے مربوط دیگر روایات کو بھی ملائیں تاکہ ایک جامع و کامل تحفہ مہدویت کے باب میں حاصل ہو جسے ہم عملی زندگی میں بھی اپنے لیے نمونہ قرار دے سکیں۔

باب نادر فی حال الغیبۃ

پہلی روایت

۱- عَلِیُّ بْنُ إِبْرَاهِیمَ عَنْ أَبِیهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ عَمَّنْ حَدَّثَهُ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ وَ مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عِیسَى عَنْ أَبِیهِ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ عُمَرَ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ:

أَقْرَبُ مَا یَکُونُ الْعِبَادُ مِنَ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ وَ أَرْضَى مَا یَکُونُ عَنْهُمْ إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّةَ اللَّهِ جَلَّ وَ عَزَّ وَ لَمْ یَظْهَرْ لَهُمْ وَ لَمْ یَعْلَمُوا مَکَانَهُ وَ هُمْ فِی ذَلِکَ یَعْلَمُونَ أَنَّهُ لَمْ تَبْطُلْ حُجَّةُ اللَّهِ جَلَّ ذِکْرُهُ وَ لَا مِیثَاقُهُ فَعِنْدَهَا فَتَوَقَّعُوا الْفَرَجَ صَبَاحاً وَ مَسَاءً فَإِنَّ أَشَدَّ مَا یَکُونُ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى أَعْدَائِه إِذَا افْتَقَدُوا حُجَّتَهُ وَ لَمْ یَظْهَرْ لَهُمْ. 

امام جعفر صادقؑ نے فرمایا بندوں کا خدا سے سب سے زیادہ نزدیک ہونا اور راضی ہونا اس حالت میں ہے جب وہ حجت خدا کو غائب پائیں۔ اور حجت ان پر ظاہر نہ ہوں اور ان کے جاۓ قیام کو نہ جانیں۔ اور اس کا علم رکھیں کہ حجت خدا سے زمانہ خالی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا عہد باطل ہوتا ہے جو بندوں پر ہوتا ہے۔ ان کو چاہیے کہ ہر صبح و شام ظہور حضرت حجتؑ کی توقع رکھیں۔ بے شک اللہ تعالی کے دشمنوں پر شدید ترین لمحہ وہ ہے جب حجت خدا ان سے غائب ہے اور ان کے لیے آشکار نہیں۔(۱)

غیبت۔ رشد کا زمانہ

اس روایت میں بہت سے معارف موجود ہیں۔ اس روایت میں پہلا مطلب جو بہت اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ اس روایت میں غیبت کے دور کو بشریت کے لیے سزا کا دور قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ اس روایت کے مطابق غیبت بشریت کی پاداش کا دور ہے۔ عموما سمجھا جاتا ہے اور جیسا کہ چند روایات میں بھی یہ ذکر ہوا ہے کہ لوگوں نے امام کی قدر نہ کی، امام کی جان کو خطرہ تھا اور دیگر وجوہات کی بنا پر امت سے ان کے امام کو غائب کر دیا گیا۔ لذا غیبت سزا ہے۔ درست ہے کہ ہمارے پاس اس مضمون پر روایات وارد ہوئی ہیں لیکن جیسا کہ اس روایت کو ہم دیکھتے ہیں اور اس طرح کی دیگر چند روایات اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں کہ غیبت کا زمانہ بشریت کے رشد اور ارتقاء کا زمانہ ہے۔ مثلا رسول اللہ ﷺ، امیرالمومنینؑ اور امام باقرؑ سے نقل ہوا ہے جس میں فرماتے ہیں:

’’ان افراد سے دیدار کا بہت مشتاق ہوں جو اس زمانہ میں زندگی کر رہے ہیں کہ أمنوا بسواد علی بیاض ایک نوشتے پر ایمان لے آتے ہیں۔ ان افراد نے حجت کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن ان کی عقول اس مرتبے تک رشد اور ارتقاء حاصل کر چکی ہیں کہ خداوند متعال بھی ان سے ان کے عقلی رشد کے مطابق پیش آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیبت کے زمانے سے پہلے بشریت کی عقول اس مرحلے کے رشد تک نہیں پہنچی تھیں کہ ان میں سے حجت کو غائب کر دیا جاتا، اور ضروری تھا کہ حجت ان کے اندر اسی ظاہری جسمانی وجود کے ساتھ موجود ہو۔ لیکن غیبت کے زمانے کے لوگ اپنے زمانے کے امام پر یقین رکھتے ہوں گے اور ان سے میثاق باندھیں گے جب کہ ان کے درمیان ظاہری طور پر امام موجود نہ ہوگا۔ امام کے وجود کو ان کی فعالیت، ہستی اور نقش سے دیکھیں گے اگرچہ ظاہری طور پر آنکھوں سے دیکھنے سے قاصر ہوں گے۔ ان کی عقول اس مرتبے تک پہنچ چکی ہوں گی کہ وہ غائب امام پر ویسے ہی ایمان لے آئیں گے جیسے ظہور کے زمانے میں افراد ظاہری حجت پر ایمان لے آتے ہیں۔

ظاہر سے باطن تک عبور

اگر غیبت کے زمانے کو بہتر تعبیر کے ساتھ بیان کرنا چاہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک زمانہ ’’اسم الظاہر‘‘ کا مصداق ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرات معصومینؑ ظاہری طور پر لوگوں کے درمیان موجود تھے۔ اور ایک زمانہ ’’اسم الباطن‘‘ کا مصداق ہے جو غیبت کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں حجت ظاہر نہیں لیکن لوگوں کی عقول اس مرتبے تک پہنچ چکی ہیں کہ حجت سے ارتباط برقرار کر سکتے ہیں۔ اور ایک وہ زمانہ ہے کہ جسے ’’اسم جامع ظاہر و باطن‘‘ کہا جا سکتا ہے یہ ظہور کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں ’’اسم ظاہر‘‘ اپنے اوج کو دیکھے گا اور ’’اسم باطن‘‘ کا بھی اوج اور عروج ہوگا۔ غیبت اس میں وہ زمانہ ہے جب بشریت نے اسم ظاہر سے اسم باطن تک کے زمانے کو عبور کرنا ہے۔ عقول کو ظاہر اور محسوس چیزوں سے رشد دے کر اس مرحلے تک پہنچانا ہے کہ باطنی اور معنوی چیزوں پر ایمان لے آئیں۔

محق و تمحیص

قرآن کریم میں وارد ہوا ہے:

وَ لِیُمَحِّصَ اللَّهُ الَّذینَ آمَنُوا وَ یَمْحَقَ الْکافِرینَ.

نیز اللہ ایمان والوں کو چھانٹنا اور کافروں کو نابود کرنا چاہتا ہے۔(۲)

’’تمحیص‘‘ قرآنی اصطلاح ہے۔ جس کے معنی چھانٹنے یا خالص کرنے کے ہیں۔ اگر کسی شے میں خالص اور ناخالص مواد موجود ہو تو اسے چھانٹ کر خالص سے ناخالص کو جدا کر دینا تمحیص کہلاتا ہے۔ مومنین کو تمحیص ہونا ہے اور برائیوں سے دور ہونا ہے۔ تمحیص یعنی خالص سازی۔ یہ اللہ تعالی کی سنت ہے۔ حضرت آدمؑ کے دور سے ہی بشریت اس تکامل کی طرف حرکت کر رہی ہے۔ اس کی مثال انسان کی زندگی کی سی ہے۔ انسان کا ایک بچپن ہے جس میں اس کو زیادہ سوجھ بوجھ نہیں ہوتی۔ بچپن سے لڑکپن کا دور اور بالغ ہونے کے بعد ایک حد تک انسان سمجھدار ہو جاتا ہے اور اچھے برے کی تمیز سیکھتا ہے۔ اور ایک دور انسان کا وہ ہے جس میں اسے عقلی پختگی حاصل ہوتی ہے۔ یہ عقلی پختگی ۳۰ سے ۴۰ سال کی عمر میں ہی حاصل ہوتی ہے۔ اس عقلی پختگی کے حصول کے زمانے کو اصطلاح میں ’’اشُد‘‘ کہتے ہیں۔ بشریت بھی اسی تکامل کی سیر کو طے کر رہی ہے۔ بشریت کا ایک بچپن کا دور تھا، ایک تمیز حاصل کرنے کا دور گزرا اور پھر بشریت کے بلوغ کا دور ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت آدمؑ سے حضرت خاتمﷺ تک بشریت حد بلوغ تک پہنچ گئی۔ حضرت خاتمﷺ سے ظہور تک کا دور بشریت کے اشد کا دور یعنی پختہ تر ہونے کا دور ہے۔ حضرت خاتمﷺ کے دور کو اس لیے بشریت کے بلوغ کا دور کہا جا سکتا ہے کہ اس دور تک بشریت اس انتہائی کمال تک پہنچ جکی تھی کہ انہیں اس حقیقت عظمی ختم نبوت اور پھر ان کے بعد وصایت کے سلسلے سے تمحیص کیا گیا۔ لیکن وہ دور کہ جب بشریت اپنے تمام مراتب کے ساتھ شعور اور خالص سازی کے مراحل کو طے کر کے عروج کو پہنچے گی، وہ ظہور کا زمانہ ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ غیبت سے ظہور تک کا زمانہ بشریت کے لیے بلوغ حاصل کر لینے کے بعد ’’اشُد‘‘ کا زمانہ ہے۔

حضرات معصومینؑ کے زمانے میں یہ تمام حضرات لوگوں کے اندر موجود تھے اور اپنے حضور سے ان کے رشد کا باعث بنتے۔ اور لوگ بھی اس حقیقت کو سمجھتے تھے کہ امام زندہ ہیں اور ہمارے پاس اپنے جسمانی وجود کے ساتھ موجود ہیں۔ افراد بھی ان کے ساتھ ارتباط برقرار کرتے۔ یہ دور بھی بشریت کے ایک تکامل کا دور تھا۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اور ان کے بعد آنے والی تمام حجتوں نے امت کو غیبت کے دور کے لیے آمادہ کیا۔ بشریت کو اگلے مرتبے کے رشد کے حصول کے لیے تیار کیا۔ ہم آئمہ معصومینؑ کی زندگی میں یہ بات بہت دیکھتے ہیں کہ انہوں نے امت کو غیبت اور اس کے بعد ظہور کے جریان سے بارہا آگاہ کیا۔ لذا اس سے بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ غیبت صرف اس لیے نہیں تھی کہ بشریت کو سزا دی جاۓ۔ بلکہ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ اگر حتی امام جوادؑ، امام ہادیؑ اور امام حسن عسکریؑ کو ظاہری خلافت مل جاتی اور لوگ ان کو اپنا حاکم مان لیتے تب بھی غیبت لازمی ہونا تھی۔ اس طرح سے نہیں کہ چونکہ امام کو حاکمیت حاصل نہیں ہو سکی تو غیبت محقق ہو گئی۔

اصلِ غیبت اور طول غیبت

اگر خود غیبت کو دیکھیں تو یہ اللہ تعالی کی جانب سے ہے۔ غیبت اللہ تعالی کے اسرار میں سے ہے اور یہ راز تب کھلے گا جب ظہور ہوگا۔ غیبت کو محقق ہونا ہی تھا۔ لیکن غیبت کے طولانی ہونے میں بشریت کا نقص ہے۔ غیبت کے عرصے کا لمبا ہو جانا عقاب ہے، سزا ہے۔ کیا اس بات پر ہمارے پاس کوئی دلیل ہے کہ خود غیبت بشریت کے لیے سزا نہیں ہے؟ اور صرف غیبت کے دور کے لمبا ہو جانے میں بشریت قصور وار ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں شیخ صدوقؒ کی کتاب ’’کمال الدین‘‘ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس کتاب میں ہم روایات دیکھتے ہیں کہ تمام انبیاء کرام کے لیے اللہ تعالی نے غیبت قرار دی۔ اور امامؑ کی غیبت کے بارے میں وارد ہوا ہے کہ ان کی غیبت کی مدت، تمام انبیاء کرامؑ کی غیبت کی مدت، اور وہ تمام اغراض و مقاصد جو ان کی غیبتوں میں موجود تھے وہ سب موارد امامؑ کی غیبت میں پیش آئیں گے۔ انبیاء کرام کی غیبتیں بھی مختلف لحاظ سے تھیں۔ مثلا کبھی خود نبیؑ کی جہت سے، کبھی امت اور کبھی مومنین اور کفار دونوں کی جہت سے جس پر بحث ہونا ضروری ہے۔ حضرت موسیؑ کے بارے میں آیا ہے کہ وہ میقات تشریف لے گئے۔ وہاں ۴۰ دن غیبت اختیار فرمائی۔ حضرت موسیؑ کے بارے میں ایک سے زیادہ بار غیبت کا وارد ہوا ہے۔ میقات پر جا کر غیبت حاصل کرنا خود حضرت موسیؑ کے لیے بھی رشد تھا اور ان کی امت کے لیے بھی ایک آزمائش۔ اسی غیبت کے نتیجے میں ان کی قوم گوسالہ پرست ہو گئی۔ یہ سب بشریت کے تکامل کی سیر ہے کہ حضرت آدمؑ سے حضرت ادریسؑ، ان کے بعد حضرت موسیؑ اور حضرت عیسیؑ سے لے کر غیبت امام زمانؑ کا زمانہ ہے۔ بشریت کو وہ تمام کمالات حاصل کرنے ہیں اور ان سب آزمائشوں سے گزرنا ہے جن سے گزشتہ ادوار میں وہ پہلے سے گزر چکی ہے یا آزمائی گئی ہے۔ بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ غیبت کا زمانہ در اصل اس دوران کی مانند ہے جو حضرت موسیؑ نے حضرت خضرؑ کے ساتھ گزارا۔ حضرت خضرؑ کے وہ تین کام جس پر حضرت موسیؑ نے ان پر اعتراض کیا جبکہ اس کی اصل حکمت اس وقت ظاہر ہوئی جب دونوں جدا ہوۓ۔ جدائی کے وقت کو ظہور کا نام دیا گیا ہے۔ جدائی کے وقت پتہ چلا کہ حضرت خضرؑ کا اس بچے کو قتل کرنا، کشتی میں سوراخ کرنا، اور دیوار کھڑی کرنے کے پیچھے کیا اغراض تھے۔ غیبت کی حقیقت کا راز اس وقت کھلے گا جب ظہور ہوگا۔ اس وقت پتہ چلے گا کہ غیبت نے بشریت کے ساتھ کیا کیا ہے۔

غیبت۔ غیب پر ایمان لانے کا مصداق

سورہ بقرہ میں وارد ہوا:

الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ.(۳)

اس کے علاوہ بھی غیب کے مصداق ہیں۔ لیکن غیب کا ایک اہم ترین مصداق یہی دوران غیبت ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ غیبت کا دور بشریت کے لیے سزا نہیں ہے بلکہ بشریت کے اکرام کا دور ہے۔

غیبت کا دور اور مراتبِ انسان

غیبت کے دور نے انسان کو بدن کے مرتبے سے روح کے مرتبے تک پہنچانا ہے۔ غیبت کے دور میں لوگوں کی نظر امام کے جسم کی طرف نہیں، امام کو ایک نقطے میں محدود نہیں سمجھتے بلکہ ان کی نظر یہ ہے کہ امام ہر جگہ حضور رکھتے ہیں۔ اگر روایت کی تعبیر کو دیکھیں تو بہت حسین تعبیر ہے، بیان ہوا ہے کہ غیبت میں لوگ جانتے ہونگے کہ امام ان کے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے ایمان کو محفوظ رکھا ہوا ہے اور اپنے اوپر ایک حجت کو قرار دیتے ہیں۔ اس دور میں لوگ فرج کو صبح شام محقق دیکھتے ہیں، امام کو ہر جگہ اور ہر زمان اپنے درمیان محسوس کرتے ہیں، آئمہ معصومینؑ کے دور کی طرح نہیں کہ لوگ امام سے ملنے کے لیے مدینہ یا سامراء کی طرف جائیں اور وہاں جا کر امام سے ملاقات کریں۔ غیبت وہ دور ہے جب لوگ امام کے وجود کو جسمانی طور پر تو نہیں دیکھتے لیکن ان کے وجود کو اپنے اوپر حاکم محسوس کرتے ہیں۔ اور اس مقام کو پہنچ چکے ہیں کہ مقامِ بدن سے عبور کر کے مقام روح تک پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ امام کا جسم ان کے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے حقیقی وجود سے ارتباط برقرار کرتے ہیں۔

روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام باقرؑ نے ابوبصیر سے فرمایا کہ مسجد میں موجود تمام افراد سے پوچھو کہ ابو جعفرؑ کہاں ہیں؟ جب ابو بصیر نے پوچھا تو لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے نہیں دیکھا۔ بعد میں ابوبصیر نے ابو مکفوف سے پوچھا جو نابینا تھے۔ ابو مکفوف نے کہا امام آپ کے ساتھ ہی تو کھڑے ہیں ان کا نور ساطع ہے۔ دوران غیبت لوگوں کی امام کی طرف یہی نگاہ ہوگی۔ ٹھیک ہے حسی طور پر انسان آنکھوں سے ان کو نہیں دیکھ سکتا لیکن اس سے محرومیت ایجاد نہ ہوگی۔ جیسا کہ ابو مکفوف ظاہری طور پر نابینا تھے لیکن پھر بھی امام کو دیکھ سکتے تھے۔ غیبت کے دور میں امام کا بدن ہمارے درمیان نہیں لیکن ان سے رابطہ برقرار ہے۔ بلکہ اس دور میں امام زمانؑ ادراک اور ارتباط کے حوالے سے بقیہ آئمہ معصومینؑ سے زیادہ فعال تر ہیں۔ کیونکہ غیبت کبری میں امامؑ نے لوگوں تک اپںا بیان پہنچانے کے لیے اور ان سے ارتباط برقرار کرنے کے لیے وکیل اور سفیر معین نہیں فرماۓ۔ بلکہ خود سب لوگوں سے ہر وقت اور ہر جگہ ارتباط میں ہیں۔ سب اماموں کا یہ وظیفہ ہے کہ لوگوں کے درمیان رہے ان سے ارتباط برقرار رکھے۔ ان کی ہدایت کرے اور ان تک اپنے پیغامات پہنچاۓ، یہ ماموریت دوران غیبت میں زیادہ فعال ہے۔

یہاں تک اگر ہم بحث کا نتیجہ نکالنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ غیبت کا دور محرومیت کا دور نہیں۔ بلکہ رشد کا دور ہے۔ اسم ظاہر سے اسم باطن تک عبور کرنے کا زمانہ ہے۔ بشریت کے لیے یہ عبور ضروری ہے تاکہ وہ بدنی ارتباط سے روحی ارتباط برقرار کرنے کے مرحلے تک پہنچ سکیں۔ وہ امام کو خود پر حجت قرار دیں بے شک امام ان کے درمیان جسمانی طور پر موجود نہ ہوں۔ 

غیبت۔ ولایت پر ثابت قدم رہنے کا دور

روایات میں وارد ہوا ہے کہ غیبت کے دور میں ولایت پر ثابت قدم رہنے والے شخص کا اجر بدر اور احد کے ہزار شہداء کی پاداش کے برابر ہے۔ بدر اور احد کا دور ایک مَثل ہے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں نے اخلاص کے ساتھ سختیوں اور غربتوں کو برداشت کیا اور مظلومیت کے ساتھ شہادتیں پیش کیں۔ یہ افراد خلوص میں مثال ہیں۔ انہوں نے اس وقت اسلام قبول کیا جب اسلام قبول کرنے پر انعام نہیں ملتا تھا بلکہ معاشرہ آپ کو ترک کر دیتا تھا، صرف ترک نہیں کرتا تھا بلکہ جان کا خطرہ تھا۔ مسلمان قلیل تھے اور کفار کثرت میں لیکن انہوں نے پھر بھی اسلام کے لیے قربانیاں دیں۔ اب خود فیصلہ کریں کہ اس خلوص کے مرحلے تک پہنچنے والے شہید کا کیا مقام ہوگا؟ اور اب فرض کریں اس جیسے ہزار شہید ہوں۔ یہ اجر ایسے ہی نہیں قرار دے دیا گیا بلکہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ غیبت کا دور اس دور سے ہزار گنا سخت تر ہوگا جب ان بدر و احد کے مسلمانوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ جس نے غیبت کے دور میں اپنے ایمان کی حفاظت کی ’’أَعْجَبُ النَّاسِ إِیمَاناً وَ أَعْظَمُهُمْ یَقِینا‘‘ (۴) کا مصداق ہیں۔ ان افراد کے ایمان کے بارے میں اس حد تک تعبیر کا وارد ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ یعنی ایسا کیا ہے غیبت کے زمانے میں کہ ان کے ایمان کی اتنی قیمت لگائی گئی؟ یعنی صرف امام کا ان کے درمیان سے غائب ہوجانا اس کی وجہ ہے؟ ظاہر ہے یہ وجہ نہیں بلکہ ان کا ایمان اور عقلی رشد اس کمال کی حد تک پہنچا ہوا ہوگا کہ امام کو غیب ہوتے ہوۓ بھی اپنے درمیان پائیں گے۔ ایک اور روایت میں ان افراد کے ایمان کے بارے میں وارد ہوا ہے:

’’آمَنُوا بِسَوَادٍ عَلَى بَیَاضٍ‘‘ (۵) یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے ایک کتاب کی سیاہی پر ایمان لایا۔ امامؑ فرماتے ہیں کہ تم لوگوں نے تو مجھے دیکھا اور میرے کمال کو دیکھتے ہوۓ مجھ سے انس اختیار کیا۔ لیکن یہ وہ لوگ ہونگے جو ایک نوشتہ پر ایمان لے آئیں گے۔

 

 

 


حوالہ جات:

۱۔ شیخ کلینیؒ، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۱، ص۳۳۳۔

۲۔ آل عمران: ۱۴۱۔

۳۔ بقرہ: ۳۔

۴۔ شیخ صدوقؒ، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۴، ص۳۶۶۔

۵۔ ایضا۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 January 22 ، 08:02
عون نقوی