بنو امیہ کا بدترین سفاک آمرانہ دوارن حکومت ختم ہوا تو بنو عباس بر سر اقتدار آگئے۔ بنو عباس نے انتقام خون اہلبیتؑ کا نعرہ لگایا اور اس وقت کے مسلمانوں اور بالخصوص شیعوں کو ورغلا کر اپنی طاغوتی حکومت کی بنیاد ڈالی۔ بنو عباس کی حکومت اگرچہ رفاہی طور پر ایک کامیاب حکومت تھی اور اس دور میں امت اسلامی نے مختلف شعبوں میں ترقی کی لیکن مکتب تشیع کی فکر کے مطابق ایک طاغوتی و غاصب حکومت تھی، دین دشمن، الحاد اور سیکولرزم کی حامی حکومت تھی۔ اور اسی حکومت نے گھرانہ اہلبیتؑ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ اس خاندان نے چھ آئمہ معصومینؑ کو شہید کیا۔ مکتب تشیع کے پیروان و شیعیان علی ابن ابی طالبؑ کو ہمیشہ دباؤ میں رکھا اور ان کو سرکوب کیا۔ بنو عباس نے تین امام ابتدائی جوانی کی عمر میں ہی شہید کر دیے، امام جوادؑ ۲۵ سال، امام ہادیؑ ۴۱ سال اور امام حسن عسکریؑ کو ۲۸ سال کی عمر میں ہی شہید کر دیا گیا۔ یعنی ۹۲ سال کے مختصر عرصہ میں تین آئمہ معصومینؑ اس سفاک خاندان کے ہاتھوں شہید ہوۓ۔
امام حسن عسکریؑ نے جس زمانے میں منصب امامت کو سنبھالا مکتب تشیع اور پیروان علی ابن ابی طالبؑ کے لیے سخت ترین دور تھا۔ بعض محققین کے بقول بقیہ آئمہ معصومینؑ کی نسبت امام عسکریؑ کا دور دو وجوہات کی بنا پر زیادہ سخت تھا۔ اولا اس بنا پر کہ آپؑ کے دور میں شیعہ عراق میں ایک عظیم قدرت بن کر ابھرے اور وقت کی حکومتوں کو نامشروع سمجھتے تھے۔ وہ معتقد تھے کہ اللہ تعالی کی جانب سے حقیقی الہی حاکم فرزندان امام علیؑ ہیں۔ صرف ان کو امت پر حاکمیت و امامت کا حق ہے اس کے علاوہ بقیہ سب حاکم غاصب ہیں اور ان کو امت پر حاکمیت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مکتب تشیع کا ہر دور میں یہی نظریہ رہا ہے۔ دنیا میں شیعہ فرقہ وہ واحد فرقہ ہے جو سیاسی سوچ کی بنا پر دوسرے فرقوں سے جدا ہو جاتا ہے۔ اسی سوچ نے ۱۱ ہجری کو بھی امت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ جو لوگ خلیفہ اول حضرت ابوبکر کی بجاۓ امام علیؑ کو خلیفہ حق و منصوص من اللہ امام سمجھتے تھے وہ حقیقی معنی میں شیعہ قرار پاۓ اور جنہوں نے دوسرے خلفاء کو اپنا خلیفہ مان لیا وہ اہلسنت قرار پاۓ۔ یہ سوچ فقط امام علیؑ کے دور تک ہی محدود نہ تھی بلکہ ہر دور میں ہی شیعہ نے اپنے وقت کے حاکم کو تسلیم نہیں کیا بلکہ فقط اسی شخص کو اپنا حاکم، رہبر، رہنما و امام مانا جسے اللہ تعالی کی جانب سے حق حاکمیت حاصل تھا۔ یہی سوچ اور تفکر آج کے دور میں بھی ہے یعنی جو آج بھی امام برحق کے ہوتے ہوۓ کسی غیر الہی حاکم کو اپنا حاکم مان لے وہ حقیقی معنی میں وہی ۱۱ ہجری کے سنی کی طرح ہے اگرچہ خود کو شیعہ کہتا ہے اگر الہی حاکم کو اپنا حاکم مانتا ہے تو وہ شیعہ ہے۔ امام حسن عسکریؑ کے دور میں بھی اسی سوچ کی بنا پر شیعوں نے عراق میں اپنا زور پکڑا اور حکومت وقت کے خلاف مبارزہ شروع کیا۔ اور دوسری وجہ جس کی وجہ سے وقت کی ظالم و سفاک حکومت نے امام حسن عسکریؑ پر شدید دباؤ تھا وہ یہ تھی کہ امامؑ منجی عالم بشریت کے والد تھے۔ عباسی خلفاء نے متواتر روایات سن رکھی تھیں جن میں واضح الفاظ میں بیان ہوا تھا کہ مکتب تشیع کے بارہویں امام دنیا بھر کی ظالم و غاصب حکومتوں پر غلبہ پا جائیں گے۔ یہ خوف تھا اس وقت کی ظالم حکومت کو کہ کہیں وہ بارہواں نہ آ جاۓ اور اس حکومت کو گرا کر عدل و انصاف کی عالمی حکومت قائم کر دے۔
امام عسکریؑ نے تین عباسی خلفاء کا دور دیکھا۔ معتز، مہتدی، اور معتمد۔ ان تینوں نے بالترتیب امامؑ کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا لیکن پہلے دو ناکام رہے اور معتمد کے دور میں امامؑ کو مسموم کر کے شہید کر دیا گیا۔ یہاں پر بعض افراد اعتراض کرتے ہیں کہ آپ کا یہ دعوی کرنا کہ مکتب تشیع کے رہبروں اور شیعوں نے ہمیشہ قیام کب کیا؟ فقط امام حسینؑ نے قیام کیا بعد میں آنے والے تو کسی بھی امام نے قیام نہیں کیا اور امت اسلامی کو طاغوتوں کے حوالے کر دیا۔ ایسا اعتراض کرنا فقط جاہلیت کی بنا پر ہے۔ اگر ہم کسی بھی امام کی زندگی کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں ہر امام کی زندگی میں اجتماعی و سیاسی فعالیتیں روشن طور پر نظر آتی ہیں۔ ان کا امام برحق ہونا اور امت کا ہادی و رہنما ہونا، صرف ان کا حق ہی نہیں بلکہ امت کی رہبری، رہنمائی اور ان کی امامت کرنا آئمہ معصومینؑ کا فریضہ تھا۔ اس لیے سب امام نے اپنے تئیں اور حالات کی مناسبت سے قیام کیا۔ بعض آئمہ معصومینؑ نے مسلحانہ قیام فرمایا اور بعض نے غیر مسلحانہ۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ہر امام حالت قیام میں ہی شہید ہوا ہے اور ایک لحظے کے لیے ظالم نظام کا حصہ نہیں بنے بلکہ اس کے خلاف مبارزہ کرتے ہوۓ شہید ہوۓ۔ امام عسکریؑ کو شہید کیا جانا اور حکومت وقت کی جانب سے ان پر شدید دباؤ اور ان کا تحت نظر رکھا جانا اس سب پر شاہد ہے۔
امام حسن عسکریؑ کو ان کے والد امام ہادیؑ کی موجودگی میں ہی حکومت وقت نے سامراء طلب کر لیا۔ مدینہ سے عراق کی طرف جبری طور پر حکومت کا ان اماموں کو منتقل کرنا حکمت سے خالی نہیں تھا۔ اس طرح سے وہ ایک طرح سے امام کو ان کی اجتماعی و سیاسی فعالیتوں سے محروم رکھنا چاہتے تھے اور دوسرا کام یہ مد نظر تھا کہ ان کو تحت نظر رکھا جاۓ۔ صرف تحت نظر رکھنا ہی کافی نہ تھا بلکہ امامؑ کو اسیر کر لیا گیا۔ تاریخ میں وارد ہوا ہے کہ خلیفہ معتز نے امامؑ کو احضار کیا اور انہیں اسیر کر لیا۔ امامؑ کو شہید کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اسی بنا پر اپنے مامور سعید حاجب کو حکم دیا کہ امام کو کوفہ کی طرف لے جاتے ہوۓ راستے میں قتل کر دے لیکن خود تین روز بعد ترکوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔(۱)
اس کے بعد مہتدی نے امامؑ کو اسیر کیا اور ان کے قتل کا حکم دیا، لیکن وہ بھی اس امر میں کامیاب نہ ہو سکا اور یہ بھی ترکوں کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا۔(۲) امامؑ کو دوران اسیری میں بھی آسودہ خاطر نہیں رہنے دیتے تھے۔ یعنی زندان میں بھی امامؑ پر جاسوس مقرر کیے ہوۓ تھے۔ تاکہ امام اگر کوئی خفیہ طور پر اجتماعی فعالیتیں انجام دیتے ہیں تو ان کا سدباب کیا جاسکے۔
ابو ہاشم داوود بن قاسم کہتے ہیں کہ ہم چند لوگ زندان میں اسیر تھے۔ امام عسکریؑ کو بھی اسی زندان میں اسیر کر کے لایا گیا۔ ہم لوگ عرض ادب و سلام کرنے امام کی خدمت میں حاضر ہوۓ۔ اسی زندان میں ایک جمحی نامی شخص بھی اسیر تھا جو دعوی کرتا تھا کہ علویوں میں سے ہے۔ امام نے اس کے بارے میں ہمیں متنبہ کیا کہ وہ شخص تم میں سے نہیں ہے بلکہ اس سے بچ کر رہو کیونکہ وہ جاسوس ہے اور یہاں پر ہماری جاسوسی پر مامور ہے۔ بعد میں ہم میں سے ایک شخص نے اس کی تفتیش کی تو اس کے لباس میں ایک نوشتہ چھپا ہوا ملا جس میں اہم ترین و خطرناک مطالب لکھے ہوۓ تھے۔(۳) اس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ حتی امامؑ کو زندان میں بھی تحت نظر رکھا ہوا تھا۔
احمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ ایک دن امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ کچھ ایسا لکھ کر دیں جس سے مجھے علم ہو جاۓ کہ آپ کا خط کیسا ہے تاکہ بعد میں اگر آپ کی طرح سے کوئی نوشتہ ملے تو یقین ہو جاۓ کہ آپ کی طرف سے ہی ہے اور کسی نے جعلی نوشتہ نہیں بنایا۔ امامؑ نے فرمایا کہ میرا خط کبھی باریک قلم سے لکھا ہوگا اور بعض جگہ موٹے خط میں اگر اس طرح کا کوئی خط پاؤ تو سمجھ جانا۔ (۴)
یقینا اس طرح کا خوف اور ڈر کسی عام انسان سے نہیں ہو سکتا۔ یعنی جس کے والد کو بھی شہید کیا گیا اور خود بھی عین جوانی کی عمر میں تحت نظر ہے اور اسے کسی بھی اجتماعی اور سیاسی فعالیت کرنے سے محدود رکھا گیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی طور پر حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ عباسی خلفاء اس ڈر میں اپنی ناجائز حکومت کو بچانے کے لیے ایک جہت سے حق بجانب تھے۔ چند اہم ترین وجوہات تھیں جن کی بنا پر حکومت وقت امام عسکریؑ سے شدید خوف کا شکار تھی۔
پہلی وجہ مکتب تشیع کا پھیلاؤ تھا۔ علویوں کے پے در پے قیام عباسی حکومت کے لیے بہت بڑا خطرہ بنتے جا رہے تھے۔ اور عباسی خلفاء اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر ان قیاموں کی رہبری اگر علویوں کے حقیقی رہبر کے ہاتھ میں آ گئی تو کام تمام ہے۔ امام عسکریؑ کے دور میں علویوں کے جانب سے چند قیام ہوۓ۔
۱۔ علی بن زید و عیسی بن جعفر کا قیام
یہ دونوں بزرگوار امام حسن مجتبیؑ کی اولاد میں سے تھے۔ ۲۵۵ ہجری میں کوفہ میں قیام کیا۔(۵)
۲۔ علی بن زید بن حسین کا قیام
آپ امام حسینؑ کی اولاد میں سے ہیں۔ مہتدی عباسی کے دور میں کوفہ میں قیام کیا۔(۶)
۳۔ احمد بن محمد بن عبداللہ کا قیام
آپ نے معتمد عباسی کے دور میں مصر میں برقہ و اسکندریہ کے درمیان قیام کیا۔(۷) اس کے علاوہ دیگر قیام بھی علویوں کی جانب سے یا علویوں کے نام پر اس دوران ہوۓ۔ ان میں سے ایک صاحب زنج کا قیام ہے جس کی رہبری علی بن محمد نے کی۔ امام حسن عسکریؑ نے واضح طور پر اس کے قیام سے اظہار بیزاری فرمایا۔(۸)
دوسری وجہ کہ جس کی وجہ سے عباسی خلفاء امامؑ سے شدید خوف میں تھے وہ امت کا امام کی طرف میلان تھا۔ امت مسلمہ اپنا حقیقی رہبر امام کو ہی مانتی تھی اور اسی بنا پر اپنے انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کے لیے امام کی طرف رجوع کرتی تھی۔ بھاری مقدار میں شرعی اموال امام کی خدمت میں پیش کیا جاتا تھا بعنوان مثال آپؑ نے ایک دفعہ ایک لاکھ دینار ( ایک لاکھ مثقال سونا) اپنے مورد اعتماد صحابی علی بن جعفر ہمدانی کو دیا اور فرمایا کہ اس سب مال کو حج کے موقع پر مستمندوں اور شیعوں میں تقسیم کر دو۔(۹) شرعی اموال کا امام تک پہنچنا اور امام کا اقتصادی طور پر شیعوں کو قوی کرنا بھی ایک خطرہ تھا جس سے عباسی بہت ڈرتے تھے۔ اور جانتے تھے کہ اگر پیروان حسن عسکریؑ اقتصادی طور پر قوی ہو گئے اور امام کے پاس اتنے اموال موجود ہوں تو حکومت کے لیے خطرہ کا باعث بن سکتے ہیں۔
در نتیجہ کہا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکریؑ نے اپنی قلیل مگر بابرکت زندگی میں ایک لحظے کے لیے بھی امت اسلامی کی امامت و رہبری سے ہاتھ نہیں کھینچا۔ امت کی حقیقی معنی میں رہبری کی اور انہیں اسلام کے حقیقی معارف سے آگاہ کیا، ظالم حکومتوں کے خلاف بر سرپیکار رہے اور اسی حالت میں ۸ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری کو شہید ہوۓ۔ والد گرامی امام ہادیؑ کے جوار میں سامراء میں مدفون ہوۓ۔
حوالہ جات:
۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج۵۰، ص۳۱۳۔
۲۔ طوسی، محمد بن حسین، الغیبۃ،ص۱۳۴۔
۳۔ شیخ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ص۳۷۳۔
۴۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۴، ص۴۳۳۔
۵۔ مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ۹۴۔
۶۔ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۷، ص۲۳۹۔
۷۔ مسعودی، مروج الذہب، ج۴، ص۱۰۸۔
۸۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۵۲۹۔
۹۔ شیخ طوسی، محمد بن حسن، الغیبۃ، ج۱، ص۳۱۸۔