بصیرت اخبار

۲ مطلب با کلمه‌ی کلیدی «ابن سینا» ثبت شده است

تدریس: استاد حسن رضوی

تدوین: عون نقوی

 

گزشتہ اقساط میں ہم نے آزادی، عبودیت اور قانون کے بارے میں جانا۔ قانون کے بارے میں ہم نے کہا کہ اس کا الہی ہونا ضروری ہے۔ الہی قانون کے حصول کے لیے نبوت کے واسطے کو ہم نے نقلی اور عقلی دلائل سے ثابت کیا۔ نبوت کی ضرورت پر ابن سیناؒ کی عقلی دلیل پر خواجہ طوسیؒ نے اعتراض کیا اورفرمایا کہ آپ نے برہان بیان کیا ہے لیکن اس میں نقص ہے کامل نہیں۔ کیونکہ جو برہان آپ نے قائم کیا ہے اس سے نبوت کی ضرورت تو ثابت ہو جاتی ہے لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انسان کو اسلامی حکومت کی ضرورت ہے یا نہیں؟ آپ کا برہان فقط یہاں تک بتاتا ہے کہ قانون لینے کے لیے نبی کی ضرورت ہے۔ لیکن اس قانون کو لاگو کون کرے؟ معاشرے میں حاکمیت کس کی ہوگی؟ اس لیے بعد میں خواجہ طوسیؒ نے اس برہان کو کامل کیا اور فرمایا کہ انسان کو شریعت اور نبوت کی ضرورت ہے ساتھ ہی اسے اجتماعی نظام کی بھی ضرورت ہے۔

حوزہ علمیہ کے معروف استاد آیت اللہ یزدان پناہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی تمام آیات انسان کی اجتماعی زندگی کی بات کرتی ہیں۔ قرآن جب بھی بات کرتا ہے امت کی بات کرتا ہے، قوموں کی بات کرتا ہے۔ قرآن کریم میں اصحاب کا ذکر ہوا ہے، معاشروں میں موجود علاقائی وڈیرے جن کو قرآنی اصطلاح میں ’’ مَلا‘‘ کہا جاتا ہے ، ان کا ذکر ہے۔ ہمیں اجتماعی نظام کو بہت زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔ تشیع نے قرآن کے اس پہلو پر بہت کم توجہ کی ہے۔ لیکن انقلابِ اسلامی ایران کے بعد اس کا دروازہ کھلا اور دین کے اجتماعی پہلوؤں پر موضوعات لکھے گئے۔ کیونکہ ظاہر ہے جب تک انسان انفرادی سوچتا رہے گا خود بھی ڈوبے گا اور جس معاشرے میں رہتا ہے اس کو لے ڈوبے گا۔ مثلا خود امام علیؑ اگر انفرادی سوچتے اور اپنی ذات کو مدنظر رکھتے کبھی بھی ان پر اتنی مصیبتیں نہ آتیں۔ سکون کی زندگی گزارتے۔ انہوں نے اپنی ذات کو قربان کیا اور اجتماعی مفاد کا سوچا۔ تمام آئمہ معصومینؑ نے یہی کیا اور خود کو قربان کر کے اسلام کے اجتماعی مفاد کو مدنظر قرار دیا۔ خواجہ طوسیؒ نے بھی ابن سیناؒ کے برہان پر یہی اعتراض کیا اور فرمایا کہ جو کلام آپ نے پیش کیا ہے اس سے تو غیر اسلامی نظام سے بھی کام چل جاۓ گا۔ ظاہری طور پر اگر آج مغربی معاشرہ دیکھیں تو رفاہی لحاظ سے ہم سے زیادہ خوشحال ہیں ان کو تمام سہولیات میسر ہیں۔ لیکن آخرت سے یکسرہ طور پر جدا ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اضطراب کا شکار بھی ہیں۔ اسلام نے انسان کی صرف دنیوی حاجات کو مدنظر نہیں رکھا بلکہ آخرت کو بھی مدنظر رکھا ہے ۔ اگر انسان کو صرف مادی ضروریات اور دنیوی حاجات چاہییں تو پھر تو اسلام کی ضرورت نہیں، اور نا ہی ظہور کی ضرورت ہے۔ انسان کو ایک کامل اور جامع قانون اور ایک اجتماعی نظام کی ضرورت ہے  جس سے اس کی دنیوی زندگی بھی آباد ہواور اخروی بھی کامیاب ہو۔اور اس کے لیے نبی کا آنا ضروری ہے۔

معتزلہ اور اشاعرہ کے قول کا رد

ہم نے کہا کہ اجتماعی نظام کے لیے انسان کو نبی کی ضرورت ہے۔ یہاں پر اسلامی مکاتب فکر میں ایک اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آیا اللہ تعالی پر واجب ہے کہ وہ نبی بھیجے۔ کیا یہ کہنا کہ  اللہ تعالی پر واجب ہے  اس سے اللہ تعالی کی ذات پر جبر لازم نہیں آتا؟ یعنی کیا اللہ تعالی مجبور ہے؟معتزلہ فرقہ اس بات کا قائل تھا کہ اللہ تعالی پر واجب ہے  کہ وہ انسانوں کی ہدایت کے لیے نبی کو بھیجے۔ یہ فرقہ اللہ تعالی کے جبر کا قائل تھا۔ اس کے برعکس اشاعرہ انسان کے مجبور ہونےکے قائل ہیں اور اس بات کے شدت سے مخالف ہیں کہ  اللہ تعالی کے لیے کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جاۓ جس سے اس کی ذات پر جبر لازم آۓ۔یہاں پر علماء امامیہ کا قول یہ ہے کہ اللہ تعالی پر کچھ لازم نہیں ۔ ہم اللہ تعالی پر کچھ بھی واجب قرار نہیں دے سکتے بلکہ یہ اللہ تعالی کی ذات ہے جو کسی عمل کو ہم پر واجب قرار دے سکتی ہے ۔ ہم جب ’’ واجب علی اللہ‘‘ کہتے ہیں تو اس سے مرادیہ ہرگز نہیں ہوتا کہ ہم نے اللہ تعالی پر لازم قراردیا ہے۔ اللہ تعالی خود حاکم ہے اس پر حاکمیت نہیں جمائی جا سکتی۔ واجب علی اللہ سے مراد یہ ہوتا ہے کہ خود خدا نے اپنی ذات پر یہ ضروری قرار دیا ہے۔ خود اس کی ذات تقاضا کرتی ہے کہ جب اس نے انسان بنایا ہے تو اس کی ہدایت کے لیے نبی بھیجے۔مؤلف نے یہی کہا کہ ابن سیناؒ نے بھی صحیح امامی نظریہ بیان کیا ہے۔انہو ں نے اپنے برہان میں افراط کیا ہے اور نہ تفریط۔(۱)

 


حوالہ:

۱۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت ، فقاہت و عدالت،ص۵۹تا۶۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 01 February 22 ، 18:05
عون نقوی

مؤلف کا فلسفی مشرب حکمت متعالیہ ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ حکمت متعالیہ قرآن، برہان اور عرفان کو ایک ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اس لیے اس مشرب کے فلاسفہ جب بھی کسی مطلب پر دلیل لاتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ قرآن، برہان اور عرفان سے دلیل لائی جاۓ۔ اس کتاب میں بھی مؤلف نے ضرورتِ نبوت کو پہلے قرآن و روایات سے ثابت کیا اور بعد میں عقلی دلیل پیش کی۔ نبوت کو عقلی طور پر ہم کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟ اس پر سب سے پہلے ابن سینا نے عقلی دلیل قائم کی۔ ابن سینا ایک ایسی جامع شخصیت ہیں جن سے عالم اسلام کے تقریبا سب فرقے متاثر ہیں۔ حتی وہ افراد جو فلسفہ کے مخالف ہیں انہوں نے بھی علمِ کلام میں ابن سینا کی دلیلوں سے استفادہ کیا۔

یہاں پر درس سے ہٹ کر ایک امر کی وضاحت کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ابن سینا کی شخصیت کے بارے میں بہت سے شاذ و نادر اقوال سننے کو ملتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ توحید کے قائل نہ تھے، کافر تھے اور فسق و فجور میں مشغول رہتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ان کے مخالفین کی طرف سے لگاۓ گئے الزامات ہیں اور ہمارے بزرگ علماء ان کی شخصیت کا اس طور پر دفاع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس طرح کا کلام انہوں نے لکھا ہے وہ ایک عام شخصیت سے صادر نہیں ہو سکتا۔ اور بالخصوص ان کی زندگی کے آخر کے ایام میں جو کلام انہوں نے لکھا ہے وہ کسی عارف شخصیت سے ہی صادر ہو سکتا ہے۔ بہرحال نبوت کی ضرورت پر اس برہان کو ابن سینا نے اپنی کتاب ’’الاشارات و التنبیہات‘‘ میں بیان کیا ہے۔ اس کتاب کی شرح خواجہ طوسیؒ نے لکھی۔ جس کا نام ’’شرح الاشارات و التنبیہات‘‘ ہے۔ اس شرح کی شرح آیت اللہ حسن زادہ آملیؒ نے کی ہے۔ اس کتاب سے نبوت پر عقلی برہان کو یہاں پر ذکر کیا جا رہا ہے۔

دلیل کے مقدمات

نبوت پر اس وقت عقلی دلیل قائم کی جا سکتی ہے جب ہم توحید کے قائل ہو چکے ہوں۔ پس فرض یہ ہے کہ ہم توحید کو مان چکے ہیں۔ جب ہم نے توحید کو مان لیا تو یہ بات ہم پہلے سے ثابت کر چکے ہیں کہ انسان کی دنیوی اور اخری سعادت کے لیے اسے قانون کی ضرورت ہے۔ اور یہ قانون بھی جامع قانون ہونا چاہیے جو اس کے نا صرف جسم کو مدنظر رکھے بلکہ روح کو بھی سعادت تک پہنچا سکے۔

پہلا قاعدہ

انسان مدنی الطبع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان ایسی زندگی کرنا چاہتا ہے جو قانونی اور تمدن کے ہمراہ ہو۔ باالفاظ دیگر انسان اجتماعی زندگی بسر کرنے والا موجود ہے۔ اگر انسان کو اجتماعی زندگی میسر نہ ہو تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ ظاہر ہے انسان کو لین دین کرنا ہے، کھانا پینا، لباس، رہائش، صحت کی سہولیات، دفاع اور تعلیم۔ یہ سب انسان اکیلا مہیا نہیں کر سکتا مگر یہ کہ انسانوں کا ایک مجموعہ ہو، ان میں سے چند افراد گندم مہیا کریں، کچھ تجارت کریں، ان میں سے کچھ افراد ڈاکٹر بنیں اور کچھ ان سب کا دفاع کریں۔ اگر لوگوں کا ایک مجموعہ نہ بنے اور انسان اجتماعی زندگی بسر نہ کرے تو زندہ نہیں رہ سکتا۔

دوسرا قاعدہ

جب ہم نے مان لیا کہ انسان معاشرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس کے بعد ہمیں ماننا پڑے گا کہ معاشرہ بھی قانون کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا۔ اگر معاشرے میں قانون موجود ہو اور عدالت سے افراد ایک دوسرے کے ساتھ رہیں تو تب ہی اجتماعی زندگی بسر کر سکتے ہیں ورنہ ہرج مرج لازم آۓ گا اور اس کے نتیجے میں بھی انسان کی نابودی نظر آتی ہے۔ اس کے ذیل میں ایک سوال ابھرے گا اور وہ یہ کہ قانون کیسا ہو جو معاشرے میں امنیت کا ضامن ہو؟ کیونکہ اگر قانون ہی ناقص ہوا تو وہ کیسے انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر ابھارے گا؟ اس لیے ضروری ہے کہ قانون جامع اور کلی ہو۔ قانون جزئی نہیں ہو سکتا۔ کلی سے مراد یہ ہے کہ ایسا قانون ہو جو معاشرے کے سب افراد پر لاگو ہو۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ معاشرے کا ہر فرد اپنا اپنا جزئی قانون بناۓ اور کہے کہ میرا قانون یہ ہے اور میں تو اسی قانون کے مطابق زندگی بسر کروں گا۔ مثال کے طور پر اگر ایک ملک میں شراب پر پابندی کا قانون بنانا ہے تو کلی قانون بنائیں گے۔ اور کہیں گے کہ آج کے بعد ملک کا کوئی بھی باشندہ یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ شراب نوشی کرے۔ یہ کلی قانون ہے۔ اب اس کلی قانون کے آ جانے کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ قانون مجھ پر لاگو نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ شخص اسی معاشرے کا حصہ ہے، اسی معاشرے کا ایک جز ہے۔ اور کلی قانون اپنی تمام جزئیات پر لاگو ہوتا ہے اس لیے حکومت صرف اعلان کر دیتی ہے الگ الگ ہر فرد کو جا کر نہیں بتاتی۔ قانون کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ سب پر برابر لاگو ہونا ہے۔

تیسرا قاعدہ

ہم نے مان لیا کہ انسان کو معاشرے میں زندگی بسر کرنے کے لیے قانون کی ضرورت ہے۔ اگلے مرحلے میں اب پوچھا جاۓ گا کہ قانون کون بناۓ؟ آیا عوام قانون بنائیں؟ سیاستدان قانون بناۓ یا فوج؟ اگر ہم مان لیتے ہیں کہ قانون انسان بناۓ تو اس پر وہی اشکال لازم آۓ گا جو پچھلے اوراق میں گزرا ہے۔ قانون وہی بنا سکتا ہے جو انسان اور جہان کے بارے میں دقیق معلومات رکھتا ہو۔ اور ایسی ذات فقط اللہ تعالی کی ہے جو انسان اور جہان کو اس کی ابتدا سے انتہا تک جانتی ہے۔

چوتھا قاعدہ

پہلے تین قواعد کی بنا پر ہم نے عقلی طور پر ثابت کیا ہے کہ انسان کو ایک کامیاب معاشرتی زندگی گزارنی ہے۔ کامیابی سے زندگی گزارنے کے لیے اسے ایک جامع اور کامل قانون کی ضرورت ہے۔ اب یہاں پر چند مزید سوال ابھریں گے کہ یہ قانون کون نافذ کرے؟ معاشرے میں قانون کے ذریعے عدالت کون برپا کرے؟ انسانوں کو اس الہی قانون پر عمل کرنے پر کون مجبور کرے اور کیسے مجبور کرے؟ کیونکہ انسانی طبع تو قانون کے مطابق زندگی گزارنے سے گریز کرے گی۔ اب اس کی طبع کو کون کنٹرول کرے؟ کیا ایک فاسق انسان معاشرے میں عدالت قائم کر سکتا ہے؟ یا عدالت کو صرف عادل انسان قائم کر سکتا ہے؟ جو شخص خود الہی حدود کا خیال نہیں رکھتا کیا اسے الہی قانون نافذ کرنے کے لیے مقرر کیا جا سکتا ہے؟ جو شخص خود کرپٹ ہے اسے مالیات کا امین بنا سکتے ہیں؟ جو خود غدار ہے اسے پہرہ دار بنایا جا سکتا ہے؟ یہاں سے معاشروں کو ایک معصوم اور عادل نبی کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو الہی قانون کو من و عن معاشرے میں نافذ کرتا ہے۔ نبی اپنی بات نہیں کرتا یا اپنا قانون نہیں لاتا، ہمارے اعتقاد کے مطابق نبی معصوم ہوتا ہے اور کسی فسق و فجور کو انجام نہیں دیتا۔ انسان اگر معاشروں میں امنیت چاہتے ہیں دنیوی و اخروی سعادت چاہتے ہیں تو حجت الہی کی اطاعت ضروری ہے۔(۱)

اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ انسانوں پر قانونگذاری اور حکومتداری کا حق صرف اللہ تعالی کو حاصل ہے۔ اللہ تعالی نے یہ حق انبیاء کرامؑ اور آئمہ معصومینؑ کو واگذار کیا ہے۔ ولایت فقیہ اسی نبوت اور امامت کا استمرار ہے۔ ولایت فقیہ کی جب بات کی جاتی ہے اس سے مراد فتوی دینا نہیں ہوتا بلکہ سیاسی اور حکومتی امور میں نیابت امام کی بات کی جا رہی ہوتی ہے۔ اس لیے واضح رہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے ہر مجتہد ولی فقیہ ہوتا ہے، اشتباہ ہے۔ ولی فقیہ سے مراد فتوی دینے والا مجتہد نہیں ہے بلکہ نیابت امام مہدیؑ میں جس فقیہ کے پاس حکومت ہو اس کو ولی فقیہ کہا جاتا ہے۔(۲)

 

 


حوالہ جات:

۱۔ حسن زادہ آملی، حسن، شرح اشارات و تنبیہات، ج۹، نمط۹، ص۷۹۔

۲۔ جوادی آملی، عبداللہ، ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، ص۵۹۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 19 January 22 ، 19:17
عون نقوی