آزادی سب کی آرزو
سعادت اور آزادی کا حصول سب انسانوں کی آرزو ہے لیکن سعادت کسے کہتے ہیں اور آزادی کیا ہے اس کے مفہوم سے اجمالی طور پر تو سب آگاہ ہیں لیکن اس کی دقیق تفسیر روشن نہیں۔ آزادی کو سب چاہتے ہیں لیکن کیا آزادی کی کوئی حدود بھی ہیں یا نہیں اس کی تعیین آسان نہیں۔
آزادی انسانی اوصاف میں سے ایک وصف
انسان متعدد صفات کی حامل ذات ہے، ایک صفت جو ہر انسان میں پائی جاتی ہے آزادی ہے۔ ہر انسان آزادی کو پسند کرتا ہے کیونکہ آزادی اوصاف انسانی میں سے ہے۔ لیکن آزادی کہتے کسے ہیں اس کا معنی اور مفہوم کیا ہے؟ اس کے جواب میں کہا جاۓ گا کہ جس طرح سے آپ کی ہستی شناسی اور جہان بینی ہے اسی کی بنا پر آپ انسان شناسی کی تعریف کریں گے اور جو آپ کی انسان شناسی کی تعریف ہے اسی کے مطابق آزادی کی تعریف کی جاۓ گی۔ اسی سے معلوم ہو جاۓ گا کہ آزادی کی جو تعریف اسلام نے کی ہے اور وہ تعریف جو مغربی مکاتب فکر نے آزادی کی تعریف کی ہے ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ اس فرق کی وجہ بھی معلوم ہے، اسلام کی جہان اور انسان کی سعادت کے بارے میں جو نظر ہے وہ اس سے بالکل متفاوت ہے جو مغربی مکاتب نے جہان اور انسان کے بارے میں پیش کی ہے۔
محدود ذات کو محدود آزادی میسر ہو سکتی ہے
استاد کی نظر میں انسان کو کسی بھی صورت میں مطلق اور نامحدود آزادی نہیں دی جا سکتی۔ ایک فلسفی قاعدے کے مطابق ہر موجود کی اوصاف اس موصوف کے تابع ہیں۔ اگر موجود محدود ہو تو اس کی اوصاف بھی محدود ہوں گی۔ اور اگر موجود نامحدود ہے تو اس کی اوصاف بھی نا محدود ہونگی۔ مثال کے طور پر ذات باری تعالی ایک مطلق اور نامحدود وجود رکھتا ہے اس کی سب اوصاف بھی مطلق اور نامحدود ہونگی۔ اور انسان جو کہ محدود وجود رکھتا ہے ناچار اس کی اوصاف بھی محدود ہوں گی۔ مثلا حیات، آزادی، علم، قدرت اور ارادہ وغیرہ۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ انسان کو لامحدود حیات حاصل ہو جاۓ اور وہ کبھی بھی نہ مرے یا اس کو لامتناہی قدرت دے دی جاۓ، ایسا نہیں ہو سکتا۔ بر فرض مثال اگر ایک موجود محدود ہو اور ہم اس کے لیے نامحدود وصف قرار دے دیں تو اس سے ’’تجاوز وصف از موصوف‘‘ لازم آتا ہے جو محال ہے۔ اگر تجاوز وصف از موصوف لازم آ جاۓ تو کیا ہوتا ہے اور یہ کیوں محال ہے جواب میں کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ذات کی کوئی صفت ایک ایسی جگہ پائی جا رہی ہے جہاں خود موصوف نہیں پہنچا، جب کہ ضروری ہے کہ صفت وہاں ہو جہاں موصوف موجود ہو۔ اگر موصوف موجود نہیں تو اس پر صفت کہاں سے عارض ہو گئی؟
خدا نے انسان کو آزاد خلق کیا ہے مگر؟
اللہ تعالی نے انسان کو جب خلق کیا تو اس کو محدود ذات عطا کی پس ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک محدود ذات کو نامحدود آزادی عطا کر دی جاۓ۔ انسان اپنی اوصاف میں اپنی ذات کی تابع ہے۔ اس کی ذات محدود ہے لذا اس کی آزادی بھی محدود ہوگی۔ اگرچہ اللہ تعالی نے انسان کو آزاد خلق کیا ہے اور اسے ارادہ اور اختیار دیا ہے، لیکن اس کا ارادہ اور اختیار ہر دو محدود ہیں۔ انسان کا ارادہ اور اختیار نامحدود نہیں ہیں کہ وہ ان دونوں کی بل پر ہر کام کا ارادہ کر سکے یا اپنے نامحدود اختیار سے ہر کام کر گزرے۔ طبیعی اور تکوینی طور پر انسان کے لیے محدودیتیں قرار دی گئیں، اور پھر یہی انسان جب اجتماعی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو قانونی، حقوقی اور اجتماعی محدودیتیں بھی اس کی آزادی کو مزید کم کر دیتی ہیں۔ یعنی ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایک فرد جو معاشرے کا حصہ ہے اسے نامحدود آزادی دے دی جاۓ، کیوکہ اگر اس کو مطلق آزادی دے دی گئی تو معاشرہ ہرج و مرج کا شکار ہو جاۓ گا۔ نامحدود آزادی کیسے معاشرے میں ہرج و مرج کا باعث بنتی ہے اور انسانی طبع طغیان گری کا باعث کیسے بنتی ہے اس کو اگلی تحریر میں پیش کیا جاۓ گا۔
(اقتباس از کتاب ولایت فقیہ، ولایت، فقاہت و عدالت، آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ۔)