بصیرت اخبار

۱۹۰ مطلب با موضوع «نہج البلاغہ :: خطبات» ثبت شده است

وَاللهِ! لَا یَزَالُوْنَ حَتّٰی لَا یَدَعُوْا لِلّٰهِ مُحَرَّمًا اِلَّا اسْتَحَلُّوْهُ، وَ لَا عَقْدًا اِلَّا حَلُّوْهُ، وَ حَتّٰی لَا یَبْقٰی بَیْتُ مَدَرٍ وَّ لَا وَبَرٍ اِلَّا دَخَلَهٗ ظُلْمُهُمْ وَ نَبَا بِهٖ سُوْٓءُ رَعْیِهِمْ، وَ حَتّٰی یَقُوْمَ الْبَاکِیَانِ یَبْکِیَانِ: بَاکٍ یَّبْکِیْ لِدِیْنِهٖ، وَ بَاکٍ یَّبْکِیْ لِدُنْیَاهُ، وَ حَتّٰی تَکُوْنَ نُصْرَةُ اَحَدِکُمْ مِنْ اَحَدِهِمْ کَنُصْرَةِ الْعَبْدِ مِنْ سَیِّدِهٖ، اِذَا شَهِدَ اَطَاعَهٗ، وَ اِذَا غَابَ اغْتَابَهٗ، وَ حَتّٰی یَکُوْنَ اَعْظَمَکُمْ فِیْهَا عَنَآءً اَحْسَنُکُمْ بِاللهِ ظَنًّا، فَاِنْ اَتَاکُمُ اللهُ بِعَافِیَةٍ فَاقْبَلُوْا، وَ اِنِ ابْتُلِیْتُمْ فَاصْبِرُوْا، فَـ ﴿اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِیْنَ۠۝﴾.

خدا کی قسم! وہ ہمیشہ یونہی (ظلم ڈھاتے) رہیں گے اور کوئی اللہ کی حرام کی ہوئی چیز ایسی نہ ہو گی جسے وہ حلال نہ سمجھ لیں گے اور ایک بھی عہد و پیمان ایسا نہ ہو گا جسے وہ توڑ نہ ڈالیں گے۔ یہاں تک کہ کوئی اینٹ پتھر کا گھر اور اُون کا خیمہ ان کے ظلم کی زد سے محفوظ نہ رہے گا اور ان کی بُری طرز نگہداشت سے لوگوں کا اپنے گھروں میں رہنا مشکل ہو جائے گا اور یہاں تک کہ دو قسم کے رونے والے کھڑے ہو جائیں گے: ایک دین کیلئے رونے والا اور ایک دنیا کیلئے اور یہاں تک کہ تم میں سے کسی ایک کا ان میں سے کسی ایک سے داد خواہی کرنا ایسا ہی ہو گا جیسے غلام کا اپنے آقا سے کہ وہ سامنے اطاعت کرتا ہے اور پیٹھ پیچھے برائی کرتا (اور دل کی بھڑاس نکالتا) ہے اور یہاں تک نوبت پہنچ جائے گی کہ تم میں سے جو اللہ کا زیادہ اعتقاد رکھے گا اتنا ہی وہ زحمت و مشقت میں بڑھا چڑھا ہو گا۔ اس صورت میں اگر اللہ تمہیں امن و عافیت میں رکھے تو (اس کا شکر کرتے ہوئے) اسے قبول کرو اور اگر ابتلا و آزمائش میں ڈالے جاؤ تو صبر کرو۔ اس لئے کہ اچھا انجام پرہیزگاروں کیلئے ہے۔


https://balagha.org/

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:18
عون نقوی

وَ لَئِنْ اَمْهَلَ اللهُ الظَّالِمَ فَلَنْ یَفُوْتَ اَخْذُهٗ، وَ هُوَ لَهٗ بِالْمِرْصَادِ عَلٰی مَجَازِ طَرِیْقِهٖ، وَ بِمَوْضِعِ الشَّجَا مِنْ مَّسَاغِ رِیْقِهٖ.

اگر اللہ نے ظالم کو مہلت دے رکھی ہے تو اس کی گرفت سے تو وہ ہرگز نہیں نکل سکتا اور وہ اس کی گزر گاہ اور گلے میں ہڈی پھنسنے کی جگہ پر موقع کا منتظر ہے۔

اَمَا وَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهٖ! لَیَظْهَرَنَّ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمُ عَلَیْکُمْ، لَیْسَ لِاَنَّهُمْ اَوْلٰی بِالْحَقِّ مِنْکُمْ، وَ لٰکِنْ لِّاِسْرَاعِهِمْ اِلٰی بَاطِلِ صَاحِبِهِمْ، وَ اِبْطَآئِکُمْ عَنْ حَقِّیْ.

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے! یہ قوم (اہل شام) تم پر غالب آ کر رہے گی۔ اس لئے نہیں کہ ان کا حق تم سے فائق ہے، بلکہ اس لئے کہ وہ اپنے ساتھی (معاویہ) کی طرف باطل پر ہونے کے باوجود تیزی سے لپکتے ہیں اور تم میرے حق پر ہونے کے باوجود سستی کرتے ہو۔

وَ لَقَدْ اَصْبَحَتِ الْاُمَمُ تَخَافُ ظُلْمَ رُعَاتِهَا، وَ اَصْبَحْتُ اَخَافُ ظُلْمَ رَعِیَّتِیْ. اَسْتَنْفَرْتُکُمْ لِلْجِهَادِ فَلَمْ تَنْفِرُوْا، وَ اَسْمَعْتُکُمْ فَلَمْ تَسْمَعُوْا، وَ دَعَوْتُکُمْ سِرًّا وَّ جَهْرًا فَلَمْ تَسْتَجِیْبُوْا، وَ نَصَحْتُ لَکُمْ فَلَمْ تَقْبَلُوْا. اَ شُهُوْدٌ کَغُیَّابٍ، وَ عَبِیْدٌ کَاَرْبَابٍ؟!.

رعیتیں [۱] اپنے حکمرانوں کے ظلم و جور سے ڈرا کرتی تھیں اور میں اپنی رعیت کے ظلم سے ڈرتا ہوں۔ میں نے تمہیں جہاد کیلئے ابھارا لیکن تم (اپنے گھروں سے) نہ نکلے۔ میں نے تمہیں (کارآمد باتوں کو) سنانا چاہا مگر تم نے ایک نہ سنی اور میں نے پوشیدہ بھی اور علانیہ بھی تمہیں جہاد کیلئے پکارا اور للکارا لیکن تم نے ایک نہ مانی اور سمجھایا بجھایا مگر تم نے میری نصیحتیں قبول نہ کیں۔ کیا تم موجود ہوتے ہوئے بھی غائب رہتے ہو؟ حلقہ بگوش ہوتے ہوئے گویا خود مالک ہو؟۔

اَتْلُوْا عَلَیْکُمُ الْحِکَمَ فَتَنْفِرُوْنَ مِنْهَا، وَ اَعِظُکُمْ بِالْمَوْعِظَةِ الْبَالِغَةِ فَتَتَفَرَّقُوْنَ عَنْهَا، وَ اَحُثُّکُمْ عَلٰی جِهَادِ اَهْلِ الْبَغْیِ فَمَاۤ اٰتِیْ عَلٰۤی اٰخِرِ قَوْلِیْ حَتّٰۤی اَرَاکُمْ مُتَفَرِّقِیْنَ اَیَادِیَ سَبَا، تَرْجِعُوْنَ اِلٰی مَجَالِسِکُمْ، وَ تَتَخَادَعُوْنَ عَنْ مَّوَاعِظِکُمْ، اُقَوِّمُکُمْ غُدْوَةً، وَ تَرْجِعُوْنَ اِلَیَّ عَشِیَّةً، کَظَهْرِ الْحَنِیَّةِ، عَجَزَ الْمُقَوِّمُ، وَ اَعْضَلَ الْمُقَوَّمُ.

میں تمہارے سامنے حکمت اور دانائی کی باتیں بیان کرتا ہوں اور تم ان سے بھڑکتے ہو۔ تمہیں بلند پایہ نصیحتیں کرتا ہوں اور تم پراگندہ خاطر ہو جاتے ہو۔ میں ان باغیوں سے جہاد کرنے کیلئے تمہیں آمادہ کرتا ہوں تو ابھی میری بات ختم بھی نہیں ہوتی کہ میں دیکھتا ہوں کہ تم اولادِ سبا [۲] کی طرح تتر بتر ہو کر اپنی نشست گاہوں کی طرف واپس چلے جاتے ہو اور ان نصیحتوں سے غافل ہو کر ایک دوسرے کے چکمے میں آ جاتے ہو۔ صبح کو میں تمہیں سیدھا کرتا ہوں اور شام کو جب آتے ہو تو (ویسے کے ویسے) کمان کی پشت کی طرح ٹیڑھے۔ سیدھا کرنے والا عاجز آ گیا اور جسے سیدھا کیا جا رہا ہے وہ لاعلاج ثابت ہوا۔

اَیُّهَا الشَّاهِدَةُ اَبْدَانُهُمْ، الْغَآئِبَةُ عَنْهُمْ عُقُوْلُهُمْ، الْمُخْتَلِفَةُ اَهْوَآئُهُمْ، الْمُبْتَلٰی بِهمْ اُمَرَآئُهُمْ! صَاحِبُکُمْ یُطِیْعُ اللهَ وَ اَنْتُمْ تَعْصُوْنَهٗ، وَ صَاحِبُ اَهْلِ الشَّامِ یَعْصِی اللهَ وَ هُمْ یُطِیْعُوْنَهٗ، لَوَدِدْتُّ وَاللهِ! اَنَّ مُعَاوِیَةَ صَارَفَنِیْ بِکُمْ صَرْفَ الدِّیْنَارِ بِالدِّرْهَمِ، فَاَخَذَ مِنِّیْ عَشَرَةً مِّنْکُمْ وَ اَعْطَانِیْ رَجُلًا مِّنْهُمْ!.

اے وہ لوگو جن کے جسم تو حاضر ہیں اور عقلیں غائب اور خواہشیں جُدا جدا ہیں، ان پر حکومت کرنے والے ان کے ہاتھوں آزمائش میں پڑے ہوئے ہیں، تمہارا حاکم اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اس کی نافرمانی کرتے ہو اور اہل شام کا حاکم اللہ کی نافرمانی کرتا ہے مگر وہ اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ معاویہ تم میں سے دس مجھ سے لے لے اور بدلے میں اپنا ایک آدمی مجھے دے دے، جس طرح دینار کا تبادلہ درہموں سے ہوتا ہے۔

یَاۤ اَهْلَ الْکُوْفَةِ! مُنِیْتُ مِنْکُمْ بِثَلَاثٍ وَّ اثنَتَیْنِ: صُمٌّ ذَوُوْ اَسْمَاعٍ، وَ بُکُمٌ ذَوُوْ کَلَامٍ، وَ عُمْیٌ ذَوُوْۤ اَبْصَارٍ، لَاۤ اَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ اللِّقَآءِ، وَ لَاۤ اِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ الْبَلَآءِ! تَرِبَتْ اَیْدِیْکُمْ! یَاۤ اَشْبَاهَ الْاِبِلِ غَابَ عَنْهَا رُعَاتُهَا! کُلَّمَا جُمِعَتْ مِنْ جَانِبٍ تَفَرَّقَتْ مِنْ جَانِبٍ اٰخَرَ، وَاللهِ! لَکَاَنِّیْ بِکُمْ فِیْمَاۤ اِخَالُ: اَنْ لَّوْ حَمِسَ الْوَغٰی، وَ حَمِیَ الضِّرَابُ، قَدِ انْفَرَجْتُمْ عَنِ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ انْفِرَاجَ الْمَرْاَةِ عَنْ قُبُلِهَا، وَ اِنِّیْ لَعَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ، وَ مِنْهَاجٍ مِّنْ نَّبِیِّیْ، وَ اِنِّیْ لَعَلَی الطَّرِیْقِ الْوَاضِحِ اَلْقُطُهٗ لَقْطًا.

اے اہل کوفہ! میں تمہاری تین اور ان کے علاوہ دو باتوں میں مبتلا ہوں۔ پہلے تو یہ کہ تم کان رکھتے ہوئے بہرے ہو اور بولنے چالنے کے باوجود گونگے ہو اور آنکھیں ہوتے ہوئے اندھے ہو، اور پھر یہ کہ نہ تم جنگ کے موقعہ پر سچے جواں مرد ہو اور نہ قابل اعتماد بھائی ہو۔ اے ان اونٹوں کی چال ڈھال والو کہ جن کے چرواہے گم ہو چکے ہوں اور انہیں ایک طرف سے گھیر کر لایا جاتا ہے تو دوسری طرف سے بکھر جاتے ہیں، خدا کی قسم! جیسا کہ میرا تمہارے متعلق خیال ہے، گویا یہ منظر میرے سامنے ہے کہ اگر جنگ شدت اختیار کر لے اور میدان کارزار گرم ہو جائے تو تم ابن ابی طالب علیہ السلام سے ایسے شرمناک طریقے پر علیحدہ ہو جاؤ گے جیسے عورت بالکل برہنہ ہو جائے۔ میں اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل اور اپنے نبی ﷺ کے طریقے اور شاہراہ حق پر ہوں جسے میں باطل کے راستوں میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر پاتا رہتا ہوں۔

اُنْظُرُوْۤا اَهْلَ بَیْتِ نَبِیِّکُمْ فَالْزَمُوْا سَمْتَهُمْ، وَ اتَّبِعُوْۤا اَثَرَهُمْ فَلَنْ یُّخْرِجُوْکُمْ مِنْ هُدًی، وَ لَنْ یُّعِیْدُوْکُمْ فِیْ رَدًی، فَاِنْ لَّبَدُوْا فَالْبُدُوْا، وَ اِنْ نَّهَضُوْا فَانْهَضُوْا، وَ لَا تَسْبِقُوْهُمْ فَتَضِلُّوْا، وَ لَا تَتَاَخَّرُوْا عَنْهُمْ فَتَهْلِکُوْا.

اپنے نبی ﷺ کے اہل بیت علیہم السلام کو دیکھو، ان کی سیرت پر چلو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو۔ وہ تمہیں ہدایت سے باہر نہیں ہونے دیں گے اور نہ گمراہی و ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔ اگر وہ کہیں ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر وہ اٹھیں تو تم بھی اٹھ کھڑے ہو۔ ان سے آگے نہ بڑھ جاؤ ورنہ گمراہ ہو جاؤ گے اور نہ (انہیں چھوڑ کر) پیچھے رہ جاؤ ورنہ تباہ ہو جاؤ گے۔

لَقَدْ رَاَیْتُ اَصْحَابَ مُحَمَّدٍ ﷺ، فَمَاۤ اَرٰی اَحَدًا مِنْکُمْ یُشْبِهُهُمْ! لَقَدْ کَانُوْا یُصْبِحُوْنَ شُعْثًا غُبْرًا، قَدْ بَاتُوْا سُجَّدًا وَّ قِیَامًا، یُرَاوِحُوْنَ بَیْنَ جِبَاهِهِمْ وَ خُدُوْدِهِمْ، وَ یَقِفُوْنَ عَلٰی مِثْلِ الْجَمْرِ مِنْ ذِکْرِ مَعَادِهِمْ! کَاَنَّ بَیْنَ اَعْیُنِهِمْ رُکَبَ الْمِعْزٰی مِنْ طُوْلِ سُجُوْدِهِمْ! اِذَا ذُکِرَ اللهُ هَمَلَتْ اَعْیُنُهُمْ حَتّٰی تَبُلَّ جُیُوْبَهُمْ، وَ مَادُوْا کَمَا یَمِیْدُ الشَّجَرُ یَوْمَ الرِّیْحِ الْعَاصِفِ، خَوْفًا مِّنَ الْعِقَابِ، وَ رَجَآءً لِلثَّوَابِ!.

میں نے محمد ﷺ کے خاص خاص اصحاب دیکھے ہیں۔ مجھے تو تم میں سے ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو ان کے مثل ہو۔ وہ اس عالم میں صبح کرتے تھے کہ ان کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے خاک سے اَٹے ہوتے تھے جب کہ رات کو وہ سجود و قیام میں کاٹ چکے ہوتے تھے، اس عالم میں کہ کبھی پیشانیاں سجدے میں رکھتے تھے اور کبھی رخسار، اور حشر کی یاد سے اس طرح (بے چین رہتے تھے کہ) جیسے انگاروں پر ٹھہرے ہوئے ہوں، اور لمبے سجدوں کی وجہ سے ان کی آنکھوں کے درمیان (پیشانیوں پر) بکری کے گھٹنوں ایسے گٹے پڑے ہوئے تھے۔ جب بھی ان کے سامنے اللہ کا ذکر آ جاتا تھا تو ان کی آنکھیں برس پڑتی تھیں، یہاں تک کہ ان کے گریبانوں کو بھگو دیتی تھیں۔ وہ اس طرح کانپتے رہتے تھے جس طرح تیز جھکڑ والے دن درخت تھرتھراتے ہیں، سزا کے خوف اور ثواب کی امید میں۔


پیغمبرﷺ کے بعد جو فضا پیدا کر دی گئی تھی اس میں اہل بیت علیہم السلام کیلئے گوشہ گزینی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا جس کی وجہ سے دنیا ان کے اصلی خد و خال سے بیگانہ اور ان کے علوم و کمالات سے نا آشنا ہو کر رہ گئی اور انہیں نظروں سے گرانا اور اقتدار سے الگ رکھنا ہی اسلام کی سب سے بڑی خدمت تصور کر لیا گیا۔ اگر حضرت عثمان کی کھلم کھلا بے عنوانیاں مسلمانوں کو کروٹ لینے اور آنکھ کھولنے کا موقع نہ دیتیں تو ان کے بعد بھی امیر المومنین علیہ السلام کی بیعت کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا تھا، بلکہ اقتدار جس رخ پر بڑھ رہا تھا اسی رخ پر بڑھتا رہتا۔ لیکن جن لوگوں کا اس سلسلہ میں نام لیا جا سکتا تھا وہ اپنے دامن و بند قبا کو دیکھ کر آگے بڑھنے کی جرأت نہ کرتے تھے اور معاویہ مرکز سے دور اپنی راجدھانی میں بیٹھا ہوا تھا۔ ان حالات میں امیر المومنین علیہ السلام کے سوا کوئی ایسا نہ تھا جس کی طرف نظریں اٹھتیں۔ چنانچہ نگاہیں آپؑ کے گرد طواف کرنے لگیں اور وہی عوام جو سیلاب کے بہاؤ اور ہوا کا رخ دیکھ کر دوسروں کی بیعت کرتے رہے تھے، آپؑ کے ہاتھوں پر بیعت کیلئے ٹوٹ پڑے۔ لیکن یہ بیعت اس حیثیت سے نہ تھی کہ وہ آپؑ کی خلافت کو منجانب اللہ اور آپؑ کو امام مفترض الطاعۃ سمجھ رہے ہوں، بلکہ انہی کے قرار دادہ اصول کے ماتحت تھی جسے جمہوری و شورائی قسم کے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔ البتہ ایک گروہ ایسا تھا جو آپؑ کی خلافت کو نصّی سمجھتے ہوئے دینی فریضہ کی حیثیت سے بیعت کر رہا تھا، ورنہ اکثریت تو آپؑ کو دوسرے خلفاء کی طرح ایک فرمانروا اور بلحاظ فضیلت چوتھے درجہ پر یا خلفائے ثلاثہ کے بعد عام صحابہ کی سطح پر سمجھتی تھی اور چونکہ رعیت، فوج اور عہدہ دار سابقہ حکمرانوں کے عقائد و اعمال سے متاثر اور ان کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے، اس لئے جب کوئی بات اپنی منشا کے خلاف پاتے تو بگڑتے، الجھتے، جنگ سے جی چراتے اور سرکشی و نافرمانی پر اتر آتے تھے۔ اور پھر جس طرح پیغمبر ﷺ کے ساتھ شریک جہاد ہونے والے کچھ دنیا کے طلبگار تھے اور کچھ آخرت کے، اسی طرح یہاں بھی دنیا پرستوں کی کمی نہ تھی جو بظاہر امیر المومنین علیہ السلام سے ملے ہوئے تھے اور درپردہ معاویہ سے ساز باز رکھتے تھے جس نے ان میں سے کسی سے منصب کا وعدہ کر رکھا تھا اور کسی کو دولت کا لالچ دے رکھا تھا۔
ان لوگوں کو شیعانِ امیر المومنین علیہ السلام قرار دے کر شیعیت کو مورد الزام ٹھہرانا حقائق سے چشم پوشی کرنا ہے جب کہ ان لوگوں کا مسلک وہی ہو سکتا ہے جو امیر المومنین علیہ السلام کو چوتھے درجہ پر سمجھنے والوں کا ہونا چاہئے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید ان لوگوں کے مسلک و مذہب پر واشگاف لفظوں میں روشنی ڈالتے ہیں:وَ مَنْ تَاَمَّلَ اَحْوَالَه فِیْ خِلَافَتِه- عَلِمَ اَنَّه کَانَ کَالْمَحْجُوْرِ عَلَیْهِ - لَا یَتَمَکَّنُ مِنْۢ بُلُوْغِ مَا فِیْ نَفْسِه،- وَ ذٰلِکَ لِاَنَّ الْعَارِفِیْنَ بِحَقِیْقَةِ حَالِه کَانُوْا قَلِیْلِیْنَ - وَ کَانَ السَّوَادُ الْاَعْظَمُ - لَا یَعْتَقِدُوْنَ فِیْهِ الْاَمْرَ الَّذِیْ یَجِبُ اعْتِقَادُه فِیْهِ،- وَ یَرَوْنَ تَفْضِیْلَ مَنْ تَقَدَّمَه مِنَ الْخُلَفَآءِ عَلَیْهِ- وَ یَظُنُّوْنَ اَنَّ الْاَفْضَلِیَّةَ اِنَّمَا هِیَ الْخِلَافَةُ- وَ یُقَلِّدُ اَخْلَافُهُمْ اَسْلَافَهُمْ - وَ یَقُوْلُوْنَ لَوْ لَا اَنَّ الْاَوَآئِلَ عَلِمُوْا - فَضْلَ الْمُتَقَدِّمِیْنَ عَلَیْهِ لَمَا قَدَّمُوْهُمْ - وَ لَا یَرَوْنَه اِلَّا بِعَیْنِ التَبَعِیَّةِ لِمَنْ سَبَقَه - وَ اَنَّه کَانَ رَعِیَّةً لَّهُمْ - وَ اَکْثَرُهُمْ اِنَّمَا یُحَارِبُ مَعَه بِالْحَمِیَّةِ - وَ بِنَخْوَةِ الْعَرَبِیَّةِ، لَا بِالدِّیْنِ وَ الْعَقِیْدَةِ-.
جو شخص امیر المومنین علیہ السلام کے زمانہ خلافت کے واقعات کو گہری نظروں سے دیکھے گا، وہ اس امر کو جان لے گا کہ امیر المومنین علیہ السلام مجبور و بے بس بنا دیئے گئے تھے۔ کیونکہ آپؑ کی حقیقی منزلت کے پہچاننے والے بہت کم تھے اور سوادِ اعظم آپؑ کے بارے میں وہ اعتقاد نہ رکھتا تھا جو اعتقاد آپؑ کے متعلق رکھنا واجب و ضروری تھا۔ وہ پہلے خلفاء کو آپؑ پر فضیلت دیتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ فضیلت کا معیار خلافت ہے اور اس مسئلہ میں بعد والے اگلوں کی تقلید و پیروی کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ اگر پہلے لوگوں کو یہ علم نہ ہوتا کہ پہلے خلفاء آپؑ پر فضیلت رکھتے تھے تو وہ آپؑ پر انہیں مقدم نہ کرتے اور یہ لوگ تو آپؑ کو ایک تابع اور ان کی رعیت کی حیثیت سے جانتے پہچانتے تھے اور جو لوگ آپؑ کے ساتھ شریک ہو کر جنگ کرتے تھے، ان میں اکثر حمیت اور عربی عصبیت کے پیش نظر شریک جنگ ہوتے تھے، نہ کہ دین اور عقیدہ کی بنا پر۔(۱)’’سبا ابن یشجب ابن یعرب ابن قحطان‘‘ کی اولاد قبیلہ ’’سبا‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ جب ان لوگوں نے انبیاء علیہم السلام کو جھٹلانا شروع کیا تو قدرت نے انہیں جھنجوڑنے کیلئے ان پر پانی کا سیلاب مسلّط کر دیا جس سے ان کے باغات تہہ آب ہو گئے اور وہ خود گھربار چھوڑ کر مختلف شہروں میں بکھر گئے۔ اس واقعہ سے یہ مثل چل نکلی اور جہاں کہیں لوگ اس طرح جدا ہو جائیں کہ پھر مجتمع ہونے کی توقع نہ رہے تو یہ مثل استعمال کی جاتی ہے۔[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۷، ص ۷۲۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:15
عون نقوی

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْاَوَّلِ فَلَا شَیْءَ قَبْلَهٗ، وَالْاٰخِرِ فَلَا شَیْءَ بَعْدَهٗ، وَ الظَّاهِرِ فَلَا شَیْءَ فَوْقَهٗ، وَ الْبَاطِنِ فَلَا شَیْءَ دُوْنَهٗ.

تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو اوّل ہے اور کوئی شے اس سے پہلے نہیں اور آخر ہے اور کوئی چیز اس کے بعد نہیں۔ وہ ظاہر ہے اور کوئی شے اس سے بالاتر نہیں اور باطن ہے اور کوئی چیز اس سے قریب تر نہیں۔

[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ الرَّسُوْلِ ﷺ]

[اسی خطبہ کے ذیل میں رسول ﷺ کا ذکر فرمایا]

مُسْتَقَرُّهٗ خَیْرُ مُسْتَقَرٍّ، وَ مَنْۢبِتُهٗۤ اَشْرَفُ مَنْۢبِتٍ، فِیْ مَعَادِنِ الْکَرَامَةِ، وَ مَمَاهِدِ السَّلَامَةِ، قَدْ صُرِفَتْ نَحْوَهٗۤ اَفْئِدَةُ الْاَبْرَارِ، وَ ثُنِیَتْ اِلَیْهِ اَزِمَّةُ الْاَبْصَارِ، دَفَنَ اللهُ بِهِ الضَّغَآئِنَ، وَ اَطْفَاَ بِهِ الثَّوَآئِرَ، وَ اَلَّفَ بِهٖۤ اِخْوَانًا، وَ فَرَّقَ بِهٖۤ اَقْرَانًا، اَعَزَّ بِهِ الذِّلَّةَ، وَ اَذَلَّ بِهِ الْعِزَّةَ، کَلَامُهٗ بَیَانٌ، وَ صَمْتُهٗ لِسَانٌ.

بزرگی اور شرافت کے معدنوں اور پاکیزگی کی جگہوں میں ان کا مقام بہترین مقام اور مرزبوم بہترین مرزبوم ہے۔ ان کی طرف نیک لوگوں کے دل جھکا دیئے گئے ہیں اور نگاہوں کے رخ موڑ دیئے گئے ہیں۔ خدا نے ان کی وجہ سے فتنے دبا دیئے اور (عداوتوں کے) شعلے بجھا دئیے، بھائیوں میں الفت پیدا کی اور جو (کفر میں) اکٹھے تھے، انہیں علیحدہ علیحدہ کر دیا، (اسلام کی) پستی و ذلت کو عزت بخشی اور (کفر کی) عزت و بلندی کو ذلیل کر دیا۔ ان کا کلام (شریعت کا) بیان اور سکوت (احکام کی) زبان تھی۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 05 February 23 ، 19:08
عون نقوی

فَتَبَارَکَ اللهُ الَّذِیْ لَا یَبْلُغُهٗ بُعْدُ الْهِمَمِ، وَ لَا یَنَالُهٗ حَدْسُ الْفِطَنِ، الْاَوَّلُ الَّذِیْ لَا غَایَةَ لَهٗ فَیَنْتَهِیَ، وَ لَاۤ اٰخِرَ لَهٗ فَیَنْقَضِیَ.

با برکت ہے وہ خدا کہ جس کی ذات تک بلند پرواز ہمتوں کی رسائی نہیں اور نہ عقل و فہم کی قوتیں اسے پا سکتی ہیں۔ وہ ایسا اوّل ہے کہ جس کیلئے نہ کوئی نقطۂ ابتدا ہے کہ وہ محدود ہو جائے اور نہ کوئی اس کا آخر ہے کہ (وہاں پہنچ کر) ختم ہو جائے۔

[مِنْهَا: فِیْ وَصْفِ الْاَنْۢبِیَآءِ]

[اسی خطبہ کے ذیل میں (انبیاءؑ کے بارے میں) فرمایا]

فَاسْتَوْدَعَهُمْ فِیْۤ اَفْضَلِ مُسْتَوْدَعٍ، وَ اَقَرَّهُمْ فِیْ خَیْرِ مُسْتَقَرٍّ، تَنَاسَخَتْهُمْ کَرَآئِمُ الْاَصْلَابِ اِلٰی مُطَهَّرَاتِ الْاَرْحَامِ، کُلَّمَا مَضٰی مِنْهُمْ سَلَفٌ، قَامَ مِنْهُمْ بِدِیْنِ اللهِ خَلَفٌ.

اس نے ان (انبیاءؑ) کو بہترین سونپے جانے کی جگہوں میں رکھا اور بہترین ٹھکانوں میں ٹھہرایا۔ وہ بلند مرتبہ صلبوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتے رہے۔ جب ان میں سے کوئی گزر جانے والا گزر گیا، دوسرا دین خدا کو لے کر کھڑا ہو گیا۔

حَتّٰۤی اَفْضَتْ کَرَامَةُ اللهِ سُبْحَانَهٗ اِلٰی مُحَمَّدٍ ﷺ، فَاَخْرَجَهٗ مِنْ اَفْضَلِ الْمَعَادِنِ مَنْۢبِتًا وَّ اَعَزِّ الْاُرُوْمَاتِ مَغْرِسًا، مِنَ الشَّجَرَةِ الَّتِیْ صَدَعَ مِنْهَا اَنْۢبِیَآئَهٗ، وَ انْتَخَبَ مِنْهَاۤ اُمَنَآئَهٗ.

یہاں تک کہ یہ الٰہی شرف محمد ﷺ تک پہنچا جنہیں ایسے معدنوں سے کہ جو پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہترین اور ایسی اصلوں سے کہ جو نشو و نما کے لحاظ سے بہت باوقار تھیں، پیدا کیا، اسی شجرہ سے کہ جس سے انبیاءؑ پیدا کئے اور جس میں سے اپنے امین منتخب فرمائے۔

عِتْرَتُهٗ خَیْرُ الْعِتَرِ، وَ اُسْرَتُهٗ خَیْرُ الْاُسَرِ، وَ شَجَرَتُهٗ خَیْرُ الشَّجَرِ، نَبَتَتْ فِیْ حَرَمٍ، وَ بَسَقَتْ فِیْ کَرَمٍ، لَهَا فُرُوْعٌ طِوَالٌ، وَ ثَمَرَۃٌ لَّا تُنَالُ.

ان کی عترت بہترین عترت اور قبیلہ بہترین قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے، جو سر زمین حرم پر اُگا اور بزرگی کے سایہ میں بڑھا، جس کی شاخیں دراز اور پھل دسترس سے باہر ہیں۔

فَهُوَ اِمَامُ مَنِ اتَّقٰی، وَ بَصِیْرَةُ مَنِ اهْتَدٰی، سِرَاجٌ لَّمَعَ ضَوْئُهٗ، وَ شِهَابٌ سَطَعَ نُوْرُهٗ، وَ زَنْدٌۢ بَرَقَ لَمْعُهٗ، سِیْرَتُهُ الْقَصْدُ، وَ سُنَّتُهُ الرُّشْدُ، وَ کَلَامُهُ الْفَصْلُ، وَ حُکْمُهُ الْعَدْلُ، اَرْسَلَهٗ عَلٰی حِیْنِ فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ، وَ هَفْوَةٍ عَنِ الْعَمَلِ، وَ غَبَاوَةٍ مِّنَ الْاُمَمِ.

وہ پرہیز گاروں کے امام اور ہدایت حاصل کرنے والوں کیلئے (سر چشمہ) بصیرت ہیں۔ وہ ایسا چراغ ہیں جس کی روشنی لو دیتی ہے اور ایسا روشن ستارہ جس کا نور ضیا پاش اور ایسا چقماق جس کی ضو شعلہ فشاں ہے۔ ان کی سیرت (افراط و تفریط سے بچ کر) سیدھی راہ پر چلنا اور سنت ہدایت کرنا ہے۔ ان کا کلام حق و باطل کا فیصلہ کرنے والا اور حکم عین عدل ہے۔ اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا کہ جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ رکا ہوا تھا، بد عملی پھیلی ہوئی اور اُمتوں پر غفلت چھائی ہوئی تھی۔

اِعْمَلُوْا، رَحِمَکُمُ اللهُ! عَلٰۤی اَعْلَامٍۭ بَیِّنَةٍ، فَالطَّرِیْقُ نَهْجٌ یَّدْعُوْ اِلٰی دَارِ السَّلَامِ، وَ اَنْتُمْ فِیْ دَارِ مُسْتَعْتَبٍ عَلٰی مَهَلٍ وَ فَرَاغٍ، وَ الصُّحُفُ مَنْشُوْرَةٌ، وَ الْاَقْلَامُ جَارِیَةٌ، وَ الْاَبْدَانُ صَحِیْحَةٌ، وَ الْاَلْسُنُ مُطْلَقَةٌ، وَ التَّوْبَةُ مَسْمُوْعَةٌ، وَ الْاَعْمَالُ مَقْبُوْلَةٌ.

اللہ تم پر رحم کرے! روشن نشانوں پر جم کر عمل کرو۔ راستہ بالکل سیدھا ہے۔ وہ تمہیں سلامتیوں کے گھر (جنت) کی طرف بلا رہا ہے اور ابھی تم ایسے گھر میں ہو کہ جہاں تمہیں اتنی مہلت و فراغت ہے کہ اس کی خوشنودیاں حاصل کر سکو۔ (ابھی موقعہ ہے، چونکہ) اعمال نامے کھلے ہوئے ہیں، قلم چل رہے ہیں، بدن تندرست و توانا ہیں، زبان آزاد ہے، توبہ سنی جا سکتی ہے اور اعمال قبول کئے جا سکتے ہیں۔


balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 19:19
عون نقوی

اَمَّا بَعْدُ! اَیُّهَا النَّاسُ! فَاَنَا فَقَاْتُ عَیْنَ الْفِتْنَةِ، وَ لَمْ یَکُنْ لِّیَجْتَرِئَ عَلَیْهَاۤ اَحَدٌ غَیْرِیْ بَعْدَ اَنْ مَّاجَ غَیْهَبُهَا، وَ اشْتَدَّ کَلَبُهَا.

اے لوگو! [۱] میں نے فتنہ و شر کی آنکھیں پھوڑ ڈالی ہیں اور جب اس کی تاریکیاں (موجوں کی طرح) تہ و بالا ہو رہی تھیں اور (دیوانے کتوں کی طرح) اس کی دیوانگی زوروں پر تھی تو میرے علاوہ کسی ایک میں جرأت نہ تھی کہ وہ اس کی طرف بڑھتا۔

فَاسْئَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ، فَوَ الَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِهٖ! لَا تَسْئَلُوْنِیْ عَنْ شَیْءٍ فِیْمَا بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَ السَّاعَةِ، وَ لَا عَنْ فِئَةٍ تَهْدِیْ مِائَۃً وَ تُضِلُّ مِائَةً اِلَّاۤ اَنْۢبَاْتُکُمْ بِنَاعِقِهَا وَ قَآئِدِهَا وَ سَآئِقِهَا، وَ مُنَاخِ رِکَابِهَا، وَ مَحَطِّ رِحَالِهَا، وَ مَنْ یُّقْتَلُ مِنْ اَهْلِهَا قَتْلًا وَ مَنْ یَّمُوْتُ مِنْهُمْ مَوْتًا.

اب (موقعہ ہے جو چاہو) مجھ سے پوچھ لو [۲] ، پیشتر اس کے کہ مجھے نہ پاؤ۔ اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم اس وقت سے لے کر قیامت تک کے درمیانی عرصے کی جو بات مجھ سے پوچھو گے میں بتاؤں گا اور کسی ایسے گروہ کے متعلق دریافت کر و گے کہ جس نے سو کو ہدایت کی ہو اور سو کو گمراہ کیا ہو تو میں اس کے للکارنے والے اور اسے آگے سے کھینچنے والے اور پیچھے سے دھکیلنے والے اور اس کی سواریوں کی منزل اور اس کے (ساز و سامان سے لدے ہوئے ) پالانوں کے اترنے کی جگہ تک بتا دوں گا اور یہ کہ کون ان میں سے قتل کیا جائے گا اور کون (اپنی موت ) مرے گا۔

وَ لَوْ قَدْ فَقَدْتُّمُوْنِیْ وَ نَزَلَتْ بِکُمُ کَرَآئِهُ الْاُمُوْرِ، وَ حَوَازِبُ الْخُطُوْبِ، لَاَطْرَقَ کَثِیْرٌ مِّنَ السَّآئِلِیْنَ، وَ فَشِلَ کَثِیْرٌ مِّنَ الْمَسْؤُوْلِیْنَ، وَ ذٰلِکَ اِذَا قَلَّصَتْ حَرْبُکُمْ، وَ شَمَّرَتْ عَنْ سَاقٍ، وَ ضَاقَتِ الدُّنْیَا عَلَیْکُمْ ضِیْقًا، تَسْتَطِیْلُوْنَ مَعَہٗ اَیَّامَ الْبَلَآءِ عَلَیْکُمْ، حَتّٰی یَفْتَحَ اللهُ لِبَقِیَّةِ الْاَبْرَارِ مِنْکُمْ.

اور جب میں نہ رہوں گا اور ناخوشگوار چیزیں اور سخت مشکلیں پیش آئیں گی (تو دیکھ لینا) کہ بہت سے پوچھنے والے (پریشانی سے) سر نیچے ڈال دیں گے اور بتانے والے عاجز و درماندہ ہو جائیں گے۔ یہ اس وقت ہو گا کہ جب تم پر لڑائیاں زور سے ٹوٹ پڑیں گے اور اس کی سختیاں نمایاں ہو جائیں گی اور دنیا اس طرح تم پر تنگ ہو جائے گی کہ مصیبتوں کے دنوں کو تم یہ سمجھنے لگو گے کہ وہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ خداوند عالم تمہارے باقی ماندہ لوگوں کو فتح و کامرانی دے گا۔

اِنّ الْفِتَنَ اِذَا اَقْبَلَتْ شَبَّهَتْ، وَ اِذَاۤ اَدْبَرَتْ نَبَّهَتْ، یُنْکَرْنَ مُقْبِلَاتٍ، وَ یُعْرَفْنَ مُدْبِرَاتٍ، یَحُمْنَ حَوْمَ الرِّیَاحِ، یُصِبْنَ بَلَدًا وَّ یُخْطِئْنَ بَلَدًا.

فتنوں کی یہ صورت ہوتی ہے کہ جب وہ آتے ہیں تو اس طرح اندھیرے میں ڈال دیتے ہیں کہ (حق و باطل) کا امتیاز نہیں ہوتا اور پلٹتے ہیں تو ہوشیار کر کے جاتے ہیں۔ جب آتے ہیں تو شناخت نہیں ہوتی، پیچھے ہٹتے ہیں تو پہچانے جاتے ہیں۔ وہ ہواؤں کی طرح چکر لگاتے ہیں، کسی شہر کو اپنی زد پر رکھ لیتے ہیں اور کوئی ان سے رہ جاتا ہے۔

اَلَا وَ اِنَّ اَخْوَفَ الْفِتَنِ عِنْدِیْ عَلَیْکُمْ فِتْنَةُ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ، فَاِنَّهَا فِتْنَةٌ عَمْیَآءُ مُظْلِمَةٌ: عَمَّتْ خُطَّتُهَا، وَ خَصَّتْ بَلِیَّتُهَا، وَ اَصَابَ الْبَلَآءُ مَنْ اَبْصَرَ فِیْهَا، وَ اَخْطَاَ الْبَلَآءُ مَنْ عَمِیَ عَنْهَا.

میرے نزدیک سب فتنوں سے زیادہ خوفناک تمہارے لئے بنی امیہ کا فتنہ ہے جسے نہ خود کچھ نظر آتا ہے اور نہ اس میں کوئی چیز سجھائی دیتی ہے، اس کے اثرات تو سب کو شامل ہیں لیکن خصوصیت سے اس کی آفتیں خاص ہی افراد کیلئے ہیں۔ جو اس میں حق کو پیش نظر رکھے گا اس پر مصیبتیں آئیں گی اور جو آنکھیں بند رکھے گا وہ ان سے بچا رہے گا۔

وَ ایْمُ اللهِ لَتَجِدُنَّ بَنِیْۤ اُمَیَّةَ لَکُمْ اَرْبَابَ سُوْٓءٍۭ بَعْدِیْ، کَالنَّابِ الضَّرُوْسِ: تَعْذِمُ بِفِیْهَا،وَ تَخْبِطُ بِیَدِهَا،وَ تَزْبِنُ بِرِجْلِهَا، وَ تَمْنَعُ دَرَّهَا، لَا یَزَالُوْنَ بِکُمْ حَتّٰی لَا یَتْرُکُوْا مِنْکُمْ اِلَّا نَافِعًا لَّهُمْ، اَوْ غَیْرَ ضَآئِرٍۭ بِهِمْ، وَ لَا یَزَالُ بَلَآ ؤُهُمْ حَتّٰی لَا یَکُوْنَ انْتِصَارُ اَحَدِکُمْ مِنْهُمْ اِلَّا کَانْتِصَارِ الْعَبْدِ مِنْ رَّبِّهٖ، وَ الصَّاحِبِ مِنْ مُّسْتَصْحِبِهٖ، تَرِدُ عَلَیْکُمْ فِتْنَتُهُمْ شَوْهَآءَ مَخْشِیَّةً، وَ قِطَعًا جَاهِلِیَّةً، لَیْسَ فِیْهَا مَنَارُ هُدًی، وَ لَا عَلَمٌ یُّرٰی.

خدا کی قسم! میرے بعد تم بنی امیہ کو اپنے لئے بدترین حکمران پاؤ گے۔ وہ تو اس بوڑھی اور سرکش اونٹنی کے مانند ہیں جو منہ سے کاٹتی ہو اور اِدھر اُدھر ہاتھ پیر مارتی ہو اور دوہنے والے پر ٹانگیں چلاتی ہو اور دودھ دینے سے انکار کر دیتی ہو۔ وہ برابر تمہارا قلع قمع کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ صرف اسے چھوڑیں گے جو ان کے مفید مطلب ہو یا(کم از کم) ان کیلئے نقصان رساں نہ ہو۔ اور ان کی مصیبت اسی طرح گھیرے رہے گی کہ ان سے داد خواہی ایسی ہی مشکل ہو جائے گی جیسے غلام کیلئے اپنے آقا سے اور مرید کی اپنے پیر سے۔ تم پر ان کا فتنہ ایسی بھیانک صورت میں آئے گا کہ جس سے ڈر لگنے لگے گا اور زمانہ جاہلیت کی مختلف حالتوں کو لئے ہو گا۔ نہ اس میں ہدایت کا مینار نصب ہو گا اور نہ راستہ دکھانے والا کوئی نشان نظر آئے گا۔

نَحْنُ اَهْلَ الْبَیْتِ مِنْهَا بِمَنْجَاةٍ، وَ لَسْنَا فِیْهَا بِدُعَاةٍ، ثُمَّ یُفَرِّجُهَا اللهُ عَنْکُمْ کَتَفْرِیْجِ الْاَدِیْمِ: بِمَنْ یَّسُوْمُهُمْ خَسْفًا، وَ یَسُوْقُهُمْ عُنْفًا، وَ یَسْقِیْهِمْ بِکَاْسٍ مُّصَبَّرَةٍ، لَا یُعْطِیْهِمْ اِلَّا السَّیْفَ، وَ لَا یُحْلِسُهُمْ اِلَّا الْخَوْفَ، فَعِنْدَ ذٰلِکَ تَوَدُّ قُرَیْشٌ بِالدُّنْیَا وَ مَا فِیْهَا لَوْ یَرَوْنَنِیْ مَقَامًا وَّاحِدًا، وَ لَوْ قَدْرَ جَزْرِ جَزُوْرٍ، لِاَقْبَلَ مِنْهُمْ مَاۤ اَطْلُبُ الْیَوْمَ بَعْضَهٗ فَلَا یُعْطُوْنَنِیْهِ!.

ہم اہل بیت ِ(رسول علیہم السلام) ان فتنہ انگیزیوں (کے گناہ) سے بچے ہوں گے اور ان کی طرف لوگوں کو بلانے میں ہمارا کوئی حصہ نہ ہو گا۔ پھر ایک دن وہ آئے گا کہ اللہ اس شخص کے ذریعہ سے جو انہیں ذلت کا مزا چکھائے اور سختی سے ہنکائے اور (موت کے ) تلخ جام پلائے اور ان کے سامنے تلوار رکھے اور خوف انہیں چمٹا دے، ان فتنوں سے اس طرح علیحدہ کر دے گا جس طرح ذبیحہ سے کھال الگ کی جاتی ہے۔ اس وقت قریش دنیا و ما فیہا کے بدلے میں یہ چاہیں گے کہ وہ مجھے صرف اتنی دیر کہ جتنی اونٹ کے ذبح ہونے میں لگتی ہے، کہیں ایک دفعہ دیکھ لیں تاکہ میں اس چیز کو قبول کر لوں کہ جس کا آج کچھ حصہ بھی طلب کرنے کے باوجود دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔


 
امیر المومنین علیہ السلام نے یہ خطبہ جنگ نہروان کے بعد ارشاد فرمایا۔ اس میں ’’فتنہ‘‘ سے مراد وہ جنگیں ہیں جو بصرہ، صفین اور نہر وان میں لڑی گئیں۔ چونکہ ان کی نوعیت پیغمبر ﷺ کی جنگوں سے جداگانہ تھی، کیونکہ وہاں مد مقابل کفار ہوتے تھے اور یہاں مقابلہ ان لوگوں سے تھا جو چہروں پر اسلام کی نقاب ڈالے ہوئے تھے۔ اس لئے لوگ اہل قبلہ سے جنگ کرنے کیلئے متردّد تھے اور یہ کہتے تھے کہ جو لوگ اذانیں دیتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں ان سے قتال کیسا؟ چنانچہ خزیمہ ابن ثابت انصاری جیسے بزرگ اس وقت تک صفین میں شریک جنگ نہیں ہوئے جب تک عمار یاسر کی شہادت نے شامیوں کا گروہ باغی ہونا ثابت نہ کر دیا۔ یونہی بصرہ میں اُمّ المومنین کے ہمراہ عشرہ مبشرہ میں شمار ہونے والے طلحہ و زبیر ایسے صحابہ کی موجودگی اور نہروان میں خوارج کی پیشانیوں کے گھٹے اور ان کی نمازیں اور عبادتیں ذہنوں میں خلفشار پیدا کئے ہوئے تھیں۔ اندریں حالات ان کے سامنے شمشیر بکف کھڑے ہونے کی جرأت وہی کر سکتا تھا جو ان کے مکنونِ قلب سے واقف اور ان کے ایمان کی حقیقت سے آشنا ہو اور یہ امیر المومنین علیہ السلام ہی کی بصیرتِ خاص و ایمانی جرأت کا کام تھا کہ ان کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے اور پیغمبر ﷺ کے اس ارشاد کی تصدیق فرما دی:
سَتُقَاتِلُ بَعْدِی النَّاکِثِیْنَ وَ الْقَاسِطِیْنَ وَ الْمَارِقِیْنَ۔
اے علیؑ! تم میرے بعد بیعت توڑنے والوں (اصحابِ جمل) ظلم ڈھانے والوں (اہل شام) اور دین سے بے راہ ہو جانے والوں (خوارج) سے جنگ کرو گے۔(۱)
۲۔پیغمبر اکرم ﷺ کے بعد کوئی متنفس امیر المومنین علیہ السلام کے علاوہ یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو پوچھ لو‘‘۔ چنانچہ ابن حجر نے ’’صواعق محرقہ‘‘ میں لکھا ہے کہ:
لَمْ یَکُنْ اَحَدٌ مِنَ الصَّحَابَةِ یَقُوْلُ سَلُوْنِیْ اِلَّا عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ.
صحابہ میں سے کوئی ایک بھی یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو ہم سے پوچھ لو سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے۔(۲)
البتہ صحابہ کے علاوہ تاریخ میں چند نام ایسے نظر آتے ہیں جنہوں نے ایسا دعویٰ کرنے کی جرأت کی: جیسے ابراہیم ابن ہشام، مقاتل ابن سلیمان، قتادہ، سبط ابن جوزی اور محمد ابن ادریس شافعی وغیرہ۔ مگر ان میں سے ہر شخص سوال کے موقع پر رسوا اور اپنے اس دعوے کو واپس لینے پر مجبور ہوا۔ یہ دعویٰ وہی کر سکتا ہے جو حقائق عالم سے واقف اور مستقبل کے واقعات سے آگاہ ہو۔ چنانچہ امیر المومنین ہی وہ دَر کشائے علوم نبوت تھے جو کسی موقعہ پر کسی سوال کے جواب سے عاجز ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر کو بھی یہ کہنا پڑتا تھا کہ:
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ مُّعْضَلَةٍ لَّیْسَ لَھَا اَبُو الْحَسَنِ ؑ.
میں اس مشکل سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں جس کے حل کرنے کیلئے امیرالمومنین علیہ السلام نہ ہوں۔
یونہی مستقبل کے متعلق جو پیشین گوئیاں آپؑ نے کیں، وہ حرف بحرف پوری ہو کر آپؑ کی وسعتِ علمی کی آئینہ دار ہیں۔ وہ بنی اُمیہ کی تباہ کاریوں کے متعلق ہوں یا خوارج کی شورش انگیزیوں کے متعلق، وہ تاتاریوں کی تاخت و تاراج کے بارے میں ہوں یا زنگیوں کی حملہ آوریوں کے متعلق، وہ بصرہ کی غرقابی کے بارے میں ہوں یا کوفہ کی تباہی کے متعلق۔ غرض جب یہ واقعات تاریخی حیثیت سے مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپؑ کے اس دعوے پر تعجب کیا جائے۔(۳)
[۱]۔ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۲۰۱۔
[۲]۔ الصواعق المحرقہ، مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ، بیروت، ۱۹۹۷ ء۔
[۳]۔ البدایۃ و النہایۃ، ج ۷، ص ۳۶۰، مطبوعہ مکتبۃ المعارف، بیروت۔

balagha.org

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 February 23 ، 19:16
عون نقوی