بصیرت اخبار

۹۱ مطلب با موضوع «مقالات عمومی» ثبت شده است

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے موقع پر ایرانی فورسز کے کمانڈروں، ملکی حکام اور پینتیسویں وحدت اسلامی کانفرنس کے مہمانوں نے اتوار چوبیس اکتوبر کی صبح رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔     

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں اپنے خطاب کے دوران پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یوم ولادت با سعادت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے آنحضرت کی ولادت کو انسان کی زندگی میں ایک نئے دور کا آغاز بتایا۔ انھوں نے وجود کے رتبے کے لحاظ سے پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مرتبے کو پوری خلقت میں عدیم المثال قرار دیا۔ آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے قلب پیغمبر پر قرآن مجید کے نزول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: خداوند عالم نے اپنی 'کتاب مکنون' کو پیغمبر کے قلب مبارک و مقدس پر نازل فرمایا، ان کی پاکیزہ اور مطہر زبان پر جاری فرمایا، انسان کی سعادت و کامرانی کا مکمل لائحۂ عمل ان کے سپرد کیا اور انھیں اس بات کا حکم دیا کہ وہ اس لائحۂ عمل پر خود بھی عمل کریں اور اپنے پیروکاروں سے تعمیل کا مطالبہ کریں۔

 

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر میں یہ سوال پیش کرتے ہوئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سلسلے میں مسلمانوں اور مومنین کا کیا فریضہ ہے؟ دو نکات کی طرف اشارہ کیا۔ ایک، اسلام کی جامعیت کے حق کو ادا کرنے کا مسئلہ اور دوسرا اتحاد بین المسلمین۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دونوں باتیں، ہمارے آج کے اہم مسائل میں شامل ہیں۔
انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ سیاسی اور مادی طاقتیں اس بات پر بضد ہیں کہ اسلام کو ایک شخصی عمل اور قلبی عقیدے تک محدود کر دیں۔ 
آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای  نے اس اصرار کی وجہ، دنیا کی بڑی سیاسی طاقتوں کے اسلام مخالف منصوبوں کو بتایا اور کہا کہ اسلامی تعلیمات پوری صراحت کے ساتھ اس عقیدے کو مسترد کرتی ہیں۔ انھوں نے اسلام کی جامعیت کے حق کی ادائیگی کی تشریح کرتے ہوئے کہا: ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اسلام کے بارے میں خود اس کی رائے کو بیان کریں کہ وہ زندگی کے کون سے میدانوں کے بارے میں زیادہ  اہتمام کرتا ہے، اسلام جو چیز بیان کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دین کی فعالیت کا میدان، انسانی زندگی کا ہر پہلو ہے، انسان کے دل کی گہرائیوں سے لے کر سماجی مسائل تک، سیاسی مسائل تک، عالمی مسائل تک اور وہ تمام مسائل جو انسانیت سے تعلق رکھتے ہیں، اسلام کی سرگرمیوں کے دائرے میں ہیں۔ 
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اسلام کے پاس انسان کی سماجی زندگی کے تمام اہم پہلوؤں کے سلسلے میں پروگرام موجود ہیں، کہا: جو قرآن سے ربط رکھتا ہے، قرآن اور احکام قرآن سے آشنا ہے وہ سمجھتا ہے کہ قرآن جس اسلام کا تعارف کراتا ہے، وہ یہی اسلام ہے۔

 

آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اسی طرح اسلامی معاشرے کے قائد کی حیثیت سے امام کے مفہوم کی تشریح کرتے ہوئے علمائے اسلام سے اپیل کی کہ وہ اسلامی حکومت کے مسئلے کا تجزیہ کریں اور اسے لوگوں کے سامنے بیان  کریں۔ انھوں نے دوسرے نکتے یعنی اتحاد بین المسلمین کے بارے میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے وحدت اسلامی کے میدان کے نمایاں چہروں کو یاد کیا اور انھیں سراہتے ہوئے کہا: اتحاد بین المسلمین ایک حتمی قرآنی فریضہ ہے، ہم کیوں اسے ایک اخلاقی سفارش میں تبدیل کر رہے ہیں، یہ  ایک حکم ہے۔

 

انھوں نے اتحاد بین المسلمین کو ایک ٹیکٹک نہیں بلکہ مسلمہ اصول قرار دیا اور اس کی تصدیق میں کہا: مسلمانوں کے درمیان تعاون ضروری ہے، اگر مسلمان متحد ہوں، ایک دوسرے سے تعاون کریں تو سبھی طاقتور ہو جائیں گے یہاں تک کہ جو لوگ غیر مسلمانوں سے تعاون کرنا چاہتے ہیں وہ بھی مضبوط ہو جائیں گے اور اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے اور وہ بڑی مضبوط پوزیشن میں ان کے ساتھ تعاون کر سکیں البتہ یہ تبھی ہوگا جب مسلمانوں کے درمیان آپسی تعاون ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے افغانستان میں شیعوں پر حملوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس کا حالیہ نمونہ گزشتہ دو جمعوں کو افغانستان میں ہونے والے افسوسناک اور گریہ آور واقعات ہیں کہ مسلمانوں کی مسجد کو، نماز کی حالت میں دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ کس نے اڑایا؟ داعش نے۔ داعش کون ہے؟ داعش وہی تنظیم ہے جسے امریکیوں نے وجود عطا کیا ہے، اسی امریکی ڈیموکریٹ گروہ نے کھل کر اعتراف کیا تھا کہ ہم نے داعش کو وجود بخشا ہے، البتہ اب نہیں کہتے، اب انکار کرتے ہیں۔
آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی تقریر کے ایک حصے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک ہدف نئے اسلامی تمدن کو وجود عطا کرنا بتایا اور کہا کہ یہ کام شیعہ-سنی اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے مسئلہ فلسطین کو اتحاد بین المسلمین کا بہت اہم محور بتایا اور کہا: اگر مسلمانوں کا اتحاد عملی جامہ پہن لے تو فلسطین کا مسئلہ بہترین طریقے سے حل ہو جائے گا۔ ہم فلسطین کے مسئلے میں جتنی زیادہ سنجیدگی دکھائیں گے، اتنا ہی فلسطینی قوم کے حقوق کی بازیابی کے لیے، اتحاد بین المسلمین سے زیادہ قریب ہو جائیں گے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 October 21 ، 10:50
عون نقوی

اسلامی اتحاد کا موضوع ان موضوعات میں سے ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای دام ظلہ جس کی طرف سے ہمیشہ فکرمند رہتے ہیں، یہ موضوع ان کے پیغامات میں بھی اور اقدامات میں بھی ہر جگہ قابل دید و فہم ہے، یہاں تک کہ بہت ہی کم ایسا پیش آیا ہے کہ آپ نے اسلامی معاشرے  سے خطاب فرمایا ہو اور اسلامی اتحاد کے موضوع پر تاکید نہ کی ہو، پیش نظر تحریر میں کوشش کی گئی ہے کہ ’’اسلامی اتحاد‘‘ کے موضوع پر امام خامنہ ای کے بیانات کی گہری  تحقیق کے ذریعہ مذکورہ موضوع کے گرد و پیش، آپ کے مواقف اور نظریات کو بیان کیا جائے۔

ملت اسلامیہ کا شفابخش نسخہ

’’اتحاد‘‘ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای کے نقطۂ نگاہ سے کوئی ٹیکٹک یا حکمت عملی نہیں بلکہ ایک اہم اسلامی اصول ہے، اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ’’اتحاد کو ایک ٹیکٹک کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے؛ اتحاد ایک اسلامی اصول ہے‘‘۔  رہبر معظم کا یہ بیان اتحاد اور اس کی دینی بنیاد کی حقیقت  بیان کرنے کے علاوہ اس طرح کے لوگوں کے نظریات کا جواب بھی ہے جو اتحاد کو صرف ایک ٹیکٹک یا حکمت عملی قرار دیتے ہیں ، لہذا آپ نے اتحاد کو دین مبین اسلام کے واجبات اور دینی ضروریات کے طور پر پیش کیا ہے، کہتے ہیں: (اسلامی مذاہب کو باہم قریب لانے والی تنظیم )’’تقریب کانفرنس‘‘ لازم و واجب اور ضروری ہے اور ہم اس کو اسلامی نظام کے مقاصد  کی راہ میں سمجھتے ہیں‘‘۔ اور ایک دوسری گفتگو میں وضاحت فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کے درمیان اتحاد سیکڑوں دلیل کے تحت واجب اور سیکڑوں دلیل کے تحت ممکن ہے‘‘۔  اور عالم اسلام کے دردوں  کے علاج کیلئے شفا بخش واحد نسخہ ہے‘‘۔

اس موضوع کی ضرورت و اہمیت اور تقریب مذاہب اسلامی کے اہتمام کے ساتھ ہر جہت سے عالم اسلام کے مسائل پر اُن کے کامل احاطے کے سبب فرماتے ہیں: ’’مجھ بندے کی آرزو یہ ہے کہ میری حیات مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں صرف ہو؛ اور میری موت بھی مسلمانوں کے اتحاد کی راہ میں آئے‘‘۔ اتحاد کے موضوع کی اہمیت پر  توجہ دیتے ہوئے اس کا صحیح اور دینی تعلیمات کے مطابق مطلب بیان کرنا اور سطحی نگاہ سے دیکھنے سے پرہیز کرنا چاہئے، بنابریں (اسلامی) اتحاد اور ’’تقریب (مذاہب اسلامی) کی اصطلاحوں سے صحیح مطلب نکالنا اسلامی مذاہب کی قربت کو آسان بنانے میں خاص کردار ادا کرسکتا ہے۔

اسلامی اتحاد کی اصل و حقیقت

رہبر انقلاب اسلامی نے اتحاد کے لئے متعدد معانی بیان فرمائے ہیں منجملہ اُن کے’’ اتحاد یعنی دشمن سے مقابلہ اور آپس میں ہم دلی و یکجہتی مشترکات پر اعتماد مسلمان فرقوں کا ایک دوسرے سے تعاون اور ان میں موجود اختلافی باتوں میں لڑنے جھگڑنے سے پرہیز برادری اور بھائی چارگی کا احساس اپنے عقیدے کے اثبات سے انکار نہیں ، لڑائی جھگڑے سے انکار اور دشمن کے مقابلے میں سیاسی اور جذباتی وابستگی کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اتحاد کےبارے میں  آپ کا فکری زاویۂ نگاہ، مکرر طور پر اسلامی مذاہب کے درمیان اتحاد پر عمل درآمد ضروری ہونے اور ہر طرح کا اختلاف اور تفرقہ آرائی ملت اسلامیہ کے لئے مہلک زہر ہونے کی تاکید پر استوار رہا ہے۔

 

منجملہ اُن ضرورتوں کے جو رہبر معظم کے ارشادات میں بیان ہوئی ہیں ان مقامات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے؛ اتحاد ’’ایک اسلامی اور قرآنی اصول ہے کلمۂ اسلام  کی بلندی و سرافرازی کی اصل شرط ہے۔ایک مقدس شرعی و عقلی فریضہ ہے‘‘، ’’تمام اچھے کاموں کیلئے  زمین فراہم کرتا ہے، ملت اسلامیہ کی کامیابی اور اقتدار کا راز ہے، اور ’’اسلام کا سب سے بڑا سیاسی پیغام ہے‘‘۔ تمام نبیوں اور الہی رہنماؤں کا اصل مقصد، دینی حکومت کی تشکیل کے ذریعے لوگوں کو سعادت و کامرانی تک پہنچانا  رہاہے، اسلام وہ دین ہے کہ اس کے پیرو اگر اس کے احکام و فرامین پر متحد ہوجائیں اور ساختہ و پرداختہ دشمنی اور مقابلہ آرائی سے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے بڑی طاقتوں کی تفرقہ انگیز سامراجی مشینریوں کی ایجاد کردہ ہیں خبردار رہیں تو وہ اتحاد کے پرچم تلے ایک امت اسلامیہ تشکیل دینے کے اہداف کی راہ پر آگے بڑھ سکتے ہیں، آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے متعدد مواقع پر اتحاد کے مقاصد اور فوائد کی طرف اشارہ کیا ہے کہ منجملہ ان کے ’’ایک جدید اسلامی تہذیب کی تخلیق اور بنیاد رکھنے‘‘۔ ’’دشمن کے بچھائے ہوئے سیاسی اور اقتصادی جال سے نکل آنے‘‘۔ ’’بڑی استکباری طاقتوں کے تسلط سے امت اسلامیہ کے نجات پانے‘‘۔ ’’اسلام کی حکمرانی اور خدمت کی راہ میں اتحاد سے فائدہ اٹھانے‘‘۔ ’’بڑی اسستکباری قوتوں کے مقابلے میں مسلمان قوموں اور حکومتوں کے کسی طرح دبنے اور مرعوب نہ ہونے‘‘،’’ایک امت واحدہ تشکیل دینے‘‘’’اسلامی اقدار و معیارات کے عالمی بنانے ‘‘ ’’عالمی میدانوں میں مسلمانوں کے فعال کردار ادا کرنے‘‘ ’’کامیابی کی سمت ملت اسلامیہ کے نقش آفریں قدم اٹھانے‘‘ ’’اسلام اور ملت اسلامیہ کے مخالف مورچوں کے مقابل موثر عمل انجام دینے‘‘ کی مانند بہت سے دیگر اہداف کی تکمیل ممکن ہے کہ جن کی طرف رہبر معظم نے اپنے مختلف بیانات میں اشارہ کیا ہے۔

اتحاد مخالف درونی محرکات

اسلامی مذاہب کے درمیان تفرقہ ایجاد کرنے والے بہت سے اسباب و محرکات، جن میں بعض محرکات درونی اور بعض دوسرے محرکات بیرونی عوامل سے متاثر ہیں، آج اسلامی مذاہب میں پھوٹ پڑنے کا سبب بن رہے ہیں  اور قوموں کی بیداری اور اسلامی حکومتوں کی خود اعتمادی کے ذریعے عالم اسلام میں فتنہ کی اس آگ کو شعلہ ور ہونے اور تفرقہ ایجاد کرنے سے روکا جاسکتا ہے۔

حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی نظر میں تفرقہ ایجاد کرنے والا اہم ترین درونی محرک، شیطان کی پیروی کرنا ہے‘‘، عالم اسلام ایک خدا اور ایک پیغمبر ؐ کا پیرو اور ایک کتاب کا حامل ہے لیکن شیطان مسلمانوں کے قلوب و افکار میں اپنے وسوسوں کے ذریعے اتحاد آفریں ان ہی اسباب کو تفرقے کے اسباب میں تبدیل کردیتا ہے۔

جہالت اور غلط فہمی، اسلامی مذاہب کے اتحاد کو نقصان پہنچانے والا ایک اور محرک ہے جس پر رہبر انقلاب اسلامی نے بارہا تاکید کی ہے، آپ فرماتے ہیں:’’ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ شیعہ سنی اختلاف کا ہمیشہ سامراج سے تعلق رہا ہے، جی نہیں !یا خود مسلمانوں کےجذبات بھی اسمیں دخیل رہے ہیں کچھ جہالتیں کچھ تعصبات کچھ جذبات و احساسات اور کچھ غلط فہمیاں دخیل رہی ہیں، لیکن جس وقت سامراج نے مداخلت کی اس ہتھیار  سےزیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے‘‘ دینی تعلیمات کے حقائق سے جہالت سبب بنتی ہے کہ ایک سبق کی مختلف تفسیر یں اور کبھی کبھی ایک دوسرے کی بالکل مخالف تفسیریں پیش کی جائیں اور ان مختلف تفسیروں کی تحت ہی بعض سادہ اندیش افراد اپنے مخالف گروہ کی تکفیرشروع  کردیتے ہیں اور خود کو حق سمجھتے لیتے  ہیں، یہی وہ منزل ہے تکفیر کے لئے زبان کھلتی اور مسلمانوں کے درمیان تفرقے کی اساس و بنیاد پڑ جاتی ہے۔

اسی طرح غرور و تکبر اور خود کو بالاتر سمجھنا، قومی و مذہبی تعصبات، فرقہ واریت عالم اسلام میں بے پناہ جنگ افروزیوں کا سبب بنی ہے، دوسرے لفظوں میں مذہبی اعتقادات اور قومی رسم و رواج کی توہین، اسلامی معاشروں میں تفرقہ ایجاد کرنے کا ایک بنیادی محرک ہے، لہذا رہبر انقلاب اسلامی نے اس کو اسلامی نظام کیلئے سرخ نشان کے عنوان سے پہچنوایا اور تاکید کی ہے کہ: ’’سرخ نشان، اسلامی نظام کی نگاہ سے اور ہماری نگاہ سے ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کرنے سے عبارت ہے، وہ لوگ جو انجانے میں، بے توجہی کے تحت اور بعض اوقات بے جا قسم کے اندھے مذہبی تعصبات کے تحت ،وہ چاہے سنی ہوں چاہے شیعہ ہوں، ایک دوسرے کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں، نہیں سمجھتے کیا کررہے ہیں دشمن کیلئے بہترین وسیلہ یہی سب ہیں،  دشمن کے ہاتھ میں بہترین ہتھیار یہی سب ہیں یہ سرخ نشان ہے‘‘۔

اتحاد مخالف بیرونی محرکات

اتحاد کو توڑنے والے بہت سے بیرونی محرکات ہیں، ’’بڑی اور سامراجی طاقتیں تفرقہ  ایجاد کرنے، جاری رکھنے اور اس کو بڑھاوا دینےمیں اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہیں‘‘ غیروں سے وابستہ بعض اسلامی حکومتیں اور حکام  جان بوجھ کر یا انجانے میں تفرقہ ایجاد کرنے اور اس مہلک زہر کے پھیلانے میں جو کردار ادا کرتی ہیں اس کو بھی اتحاد کے لئے بیرونی نقصانات میں شمار کیا جانا چاہئے، رہبر انقلاب اسلامی، اس مسئلہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں؛ ’’اسلامی سرزمینوں کا ایک  حصہ شرک و کفر و استکبار کے مزدوروں کے وجود اور تصرف سے آلودہ ہوچکا ہے اور اسلامی ملکوں کے بعض حکمرانوں کی  خباثت  اور بد انتظامی کے تحت نئے اختلافات اور مسلمانوں کے درمیان برادر کشی کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی، یہ وہ چیز ہے جس نے اسلام کی عزت اور مسلمانوں کے اتحاد پر ایمان رکھنے والے ہر غیرتمند مسلمان کے قلب کو مجروح کردیا ہے‘‘۔

اسی طرح ’’عالمی استکبار کے ہاتھوں ڈھالے ہوئے تکفیری گروہ  اور تحریکیں  جو بعض اسلامی معاشروں میں اس طرح اپنے ہاتھ پیر پھیلائے ہوئے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی وہ سب دشمن کے مقاصد پر عمل درآمد کے لئے پیدل فوج کا کردار ادا کررہی ہیں‘‘ منجملہ اسلامی دنیا کے جعلی مذاہب میں وہابیت ہے جس نے آخری صدی کے دوران عالم اسلام میں جنم لیا ہے اور اسلامی دنیا کے بعض سادہ اندیشوں کو بھی اپنے ساتھ وابستہ کرلیا ہے۔

تفرقہ کے آثار و نتائج

’’بلاشبہ اسلامی معاشروں میں تفرقے کے بہت برے آثار و نتائج پیدا ہوئے ہیں، شیعہ سنی جنگ دشمنان اسلام کے لئے بہت قیمت رکھتی ہے، ملت اسلامیہ کے درمیان اختلاف اور تفرقہ باعث بنتا ہے کہ آپ کی معنویت، تر و تازگی، اقتدار، شکوہ و عظمت اور قومی وابستگی درہم و برہم ہوجاتی ہے اور جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: ’’وَ َتذھَب رِیُحکم‘‘، تفرقہ سبب بنتا ہے کہ اسلامی دنیا کا اقتدار ڈھل کر کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، اسلامی ملکوں پر دشمنوں کا تسلط اور سامراجی جال بھی مسلمان ملتوں کے درمیان تفرقہ کے نتائج میں سے ہے‘‘۔ دوسرے لفظوں میں اختلاف اور تفرقہ اسلامی معاشروں میں  دشمنوں کے اثر ورسوخ کی شاہراہ ہے جس کے ذریعے اب تک دشمنوں نے ملت اسلامیہ کے پیکر پر بہت زیادہ چوٹیں پہنچائی ہیں، لہذا رہبر مظم نے خبردار کیا ہے کہ : ’’آج ہمیشہ سے زیادہ مسلمانوں کے اتحاد کو اہمیت دینا چاہئے کیونکہ اختلاف نے ہمیشہ اسلامی معاشروں میں دشمنوں کے اثر و رسوخ کی راہ کھولی ہے‘‘۔

’’مختلف سرزمینوں پر مذہبی اختلافات سے فائدہ اٹھاکر طاغوتی حکومتوں نے کوشش کی ہے کہ معاشرے کو لڑائی جھگڑے میں مشغول رکھے تا کہ وہ آسانی سے اُن پر تسلط حاصل کرلیں سامراج نے بھی عرصۂ دراز سے ’’تفرقہ پھیلاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے اصول سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے لہذا دشمن مسلمان ملتوں کے درمیان جب بھی تفرقہ دیکھتے ہیں، بلاشبہ مسلمانوں کے درمیان چوٹ پہنچانے کی ضرور کوشش کریں گے‘‘۔

بعض اسلامی ملکوں میں دباؤ، بائیکاٹ، تخریب کاری اور کمزوری اسلامی معاشرے میں تفرقہ کے سبب ہی پائی جاتی ہے۔

نتیجہ

خلاصہ گفتگو یہ کہ رہبر انقلاب اسلامی کی نگاہ میں اتحاد کی اصل و بنیاد ملت اسلامیہ کے لئے لازم ترین و واجب ترین و ضروری ترین آرزو شمار ہوتی ہے، امام خامنہ ای ، زمانہ پر نظر اور اسلامی  دنیا کے حالات سے باخبر ہونے کے ساتھ کوشش میں ہیں کہ اسلامی معاشرے کو آگاہ و باخبر اتحاد کی راہ پر آگے بڑھائیں لہذا ملت اسلامیہ خصوصاً اس کے علما اور حکام کے لئے ضروری ہے کہ وہ  مسلمان ملتوں  کے لئے اس صحت بخش و حیات آفریں نسخے کے سلسلے میں اپنی معلومات کی سطح میں اضافہ کریں اور اس کو حقیقی اسلام کے ایک ترقی یافتہ اصول اور مسلمہ اصل و بنیاد کے عنوان سے قبول کرتے ہوئے ،اس ایمان کے ساتھ کہ جدید اسلامی تہذیب کا عملی وجود ملت اسلامیہ کے اتحاد و یکجہتی پر ہی موقوف ہے اپنی  تمام قوت اس پر عمل درآمد اور توسیع و اشاعت پر لگا دیں۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 31 October 21 ، 10:16
عون نقوی

آیت اللہ علامہ سید جواد نقوی دام ظلہ العالی

خبىث اور طىب کا تعلق ہمارى زندگى کے ہر شعبے سے ہے ۔ تمام شعبہ جات دو حصوں مىں تقسىم ہىں:

۱۔     پاک

۲۔    نا پاک

ہمىں ظاہرى زرق برق ، تعداد و کثرت ، سجاوٹ و آرائش اور مختلف طبقاتى رسم و رواج کى لپىٹ مىں نہىں آنا چاہئے کىونکہ بعض اوقات خبىث رزق کو بہت سجا دمکا کر سامنے لاىا جاتا ہے جىسے مىکڈونلڈز(Mcdonald's)جو مسلماً اسرائىل کى مدد کرتى ہے اور اس کے مقاصد کى تکمىل مىں حصہ دار ہے ہمارے معاشرے مىں رفت و آمد کى جگہ بنى ہوئى ہے اور لوگ اس کےزرق برق کو دىکھتے ہوۓ عقل و شعور کو کم کر کے اس کى طرف کھچے چلے جاتے ہىں ۔ لہٰذہ ہمىں متوجہ اور آگاہ رہنا چاہئے اور عقل و فکر سے کام لىنا چاہئے۔

 

 


حوالہ:

استاد محترم سىد جواد نقوى ، ماخوذ ازکتاب :کربلا حق و باطل مىں جدائى کا راستہ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 October 21 ، 20:19
عون نقوی

امریکی و اسرائیلی اخراجات اور اسلحہ کی پشت پناہی، بن سلمان کی اسلامی فوج کے مقابلے میں نامساوی جنگ، فقر و فلاکت کے باجود یمنی عوام کے ان سخت حالات میں جشن ولادت رسول اللہ اعظم کے موقع پر با شکوہ مراسم، ان لاکھوں لوگوں نے رسول اللہ ص کی محبت میں نکل کر پوری دنیا کے لئے ثابت کردیا کہ اس امت کی رسول اللہ ص سے محبت کس حد تک پائیدار و مستحکم ہے، اور اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ جس نے سالوں سے ظالم و فاسق طاغوتوں کے سامنے ان کے اندر استقامت پیدا کی۔

ان لوگوں کے پاس بن سلمان کی طرح نا تو مال دنیا ہے، نا امریکی و اسرائیلی اسلحہ اور نا ہی کسی نام نہاد سپر پاور سے ان کے تعلقات ہیں لیکن ان کے پاس دین ہے، عزت ہے، استقلال اور آزاد لوگ ہیں کسی کو جرات نہیں ان کو دودھ دینے والی گاۓ قرار دے اور ان کا تمسخر اڑاۓ۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 20 October 21 ، 19:14
عون نقوی

بعض افراد کا اصرار ہے کہ ۹ ربیع الاول روز وفات خلیفہ دوم ہے اور اس کی مناسبت سے بعض نامتعارف مراسم برپا کرتے ہیں جو نا صرف علماء امامیہ کے فتاوی کے برخلاف ہے بلکہ تعلیمات آئمہ معصومینؑ کے بھی برخلاف ہے۔ اگرچہ دشمنان اہلبیت علیہم السلام سے برائت اور ان پر تبرا کرنا عین دین ہے اور قرآن و سنت کے مطابق ہے لیکن لعن کے مراسم برپا کرنا اور کسی بھی اسلامی فرقہ کے مقدسات کی توہین کرنا نا صرف مصلحت عمومی کے برخلاف ہے بلکہ اسلامی معاشروں کے امن و امان کے لیے بھی خطرناک ہے۔ 

خود اس امر کی تحقیق بھی ضروری ہے کہ آیا خلیفہ دوم ۹ ربیع الاول کو قتل ہوۓ؟ یا تاریخی منابع اہلسنت اور علماء امامیہ کا نظریہ کچھ اور ہے؟ کیونکہ مشہور قول کی بنا پر حضرت عمر ماہ ذی الحجہ میں قتل ہوۓ۔ اس تحریر میں چند شیعہ علماء کی اس بارے میں نظر اور اہلسنت منابع کی طرف مختصر اشارہ کیا گیا ہے۔

تاریخی منابع کے مطابق خلیفہ دوم سال ۲۳ ہجری ۲۳ ذی الحجہ کو مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابو لؤلؤ کے خنجر سے مجروح ہوۓ۔ اور تین دن بعد یا ۲۹، اور ایک قول دیگر کے مطابق ۳۰ ذی الحجہ کو وفات پا گئے۔

شیخ مفیدؒ کا بیان

شیخ نے کتاب مسار الشیعہ میں نقل کیا ہے: 

فی الیوم السادس و العشرین سنة 23 ثلاث و عشرین من الهجرة طعن عمر بن الخطاب.... و فی التاسع و العشرین منه قبض.

عمر بن خطاب 26 ذی الحجہ سال ۲۳ ہجری کو زخمی ہوۓ اور اسی ماہ کے ۲۹ کو فوت ہوگئے۔ (۱)

سید بن طاؤوسؒ کا بیان

سید بن طاؤوس کتاب الاعمال مین ماہ ذی الحجہ کے اعمال کا تذکرہ کرتے ہوۓ بیان فرماتے ہیں کہ شیعہ کے بعض گروہ ۹ ربیع الاول کو خلیفہ دوم کی وفات کا دن سمجھتے ہیں جبکہ اس مطلب پر ان کے نزدیک کوئی تاریخی شواہد اس بات پر موجود نہیں۔(۲)

ابن ادریس حلیؒ کا بیان

ابن ادریس حلیؒ نے کتاب السرائر میں خلیفہ دوم کے ۹ ربیع الاول کو قتل کیے جانے کے قول کو سختی سے رد کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں: فی الیوم السادس و العشرین منه سنة ثلاث و عشرین من الهجرة طعن عمربن الخطاب و فی التاسع و العشرین منه قبض عمر بن الخطاب... و قد یلتبس علی بعض اصحابنا یوم قبض عمربن الخطاب فیظن انه یوم التاسع من ربیع الاول و هذا خطأ باجماع اهل التاریخ و السیر.

عمر بن خطاب 26 ذی الحجہ کو سال ۲۳ ہجری میں زخمی ہوۓ اور اسی ماہ کی ۲۹ کو ان کی وفات ہوئی۔ لیکن اس امر کو بعض ہمارے علماء نے مشتبہ کردیا اور انہوں نے سمجھا کہ عمر بن خطاب کی وفات ۹ ربیع الاول کو ہوئی، جبکہ یہ بات اہل تاریخ و سیرت کے اجماع کے مطابق خطا ہے۔(۳)

شیخ ابراہیم کفعمیؒ کا بیان

شیخ نے کتاب مصباح میں لکھا:

جمهور الشیعة یزعمون ان فیه قتل عمربن الخطاب و لیس بصحیح. من زعم ان عمر قتل فیه فقد اخطأ. و انما قتل عمر یوم الاثنین لاربع لیال بفین من ذی الحجة.

شیخ نے اس بات کو خطا قرار دیا ہے کہ عمر بن خطاب کا یوم وفات ۹ ربیع الاول ہے۔ (۴)

علامہ حلیؒ کا بیان

علامہ نے کتاب منتہی المطلب میں اسی مطلب کو درج کیا ہے:

طعن عمر بن الخطاب  سنته ثلث و عشرین من الهجرة و فی التاسع و العشرین منه قبض عمر بن الخطاب.

عمر بن الخطاب ۲۳ ہجری ذی الحجہ کے ۲۹ تاریخ کو فوت ہوۓ۔(۵)

 

اس کے علاوہ علماء اہلسنت کی اکثریت نے بھی اسی قول پر اجماع کیا ہے۔ بعض منابع کا یہاں پر ذکر کیا جا رہا ہے۔

امام بخاری کا بیان

بخاری نے کتاب التاریخ الکبیر میں لکھا ہے:

اصیب عمر رضی اللہ عنه یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجة.

حضرت عمر نے 26 ذی الحجہ کو وفات پائی۔(۶)

طبری کا بیان

تاریخ طبری میں واضح طور پر بیان آیا ہے:

ثم توفی لیلة الاربعاء لثلاث لیال بقین من ذی الحجة سنة 23.

حضرت عمر نے بدھ کی رات ۲۷ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو وفات پائی۔(۷)

یعقوبی کا بیان

تاریخ یعقوبی میں وارد ہوا ہے:

فطعن عمر یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجة سنة23.

حضرت عمر کو 26 ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو بروز بدھ ضرب لگائی گئی۔(۸)

عمر بن شبہ النمیری البصری کا بیان

عمر بن شبہ تاریخ مدینہ میں لکھتے ہیں:

و مات یوم الاربعاء لاربع بقین من ذی الحجة.

حضرت عمر 26 ذی الحجہ کو فوت ہوۓ۔(۹)

ابن عساکر کا بیان

ابن عساکر نے تاریخ مدینہ دمشق میں حضرت عمر کی وفات ہجرت کے تئیسویں سال ماہ ذی الحجہ میں قرار دی۔(۱۰)

بلاذری کا بیان

بلاذری نے کتاب انساب الاشراف میں واقدی سے نقل کرتے ہوۓ لکھا:

طعن عمر بن الخطاب یوم الاربعاء لاربع لیال بقین من ذی الحجة سنة ثلاث و عشرین.

عمر بن خطاب ۲۶ ذی الحجہ سال ۲۳ ہجری کو فوت ہوۓ۔(۱۱)

اس کے علاوہ اہلسنت کے نامی گرامی بزرگ علماء نے جن میں

حسین مسعودی نے کتاب مروج الذہب ج۲ ص۱۳۵۲،

خلیفہ بن خیاط عصفری نے کتاب تاریخ خلیفہ بن خیاط ص۱۰۹،

ابو حنیفہ دینوری نے کتاب اخبار الطوال ص۱۳۹،

ابن شیبہ کوفی نے کتاب المصنف ج۸، ص۴۱،

ابن قتیبہ دینوری نے کتاب المعارف ص۱۸۳،

ابن اعثم کوفی نے کتاب فتوح ج۲، ص۲۳۲۹، 

طبرانی نے کتاب المعجم الکبیر ج۱، ص۷۰،

اور حاکم نیشاپوری نے کتاب المستدرک ج۳، ص۹۲ پر واضح طور پر لکھا ہے کہ خلیفہ دوم کی وفات ۲۳ ہجری ماہ ذی الحجہ کے آخری عشرے میں ہوئی۔

کثیر شیعہ سنی منابع کا اس بات پر جمع ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۹ ربیع الاول کو خلیفہ دوم کی وفات کے دن سے مربوط کرنا کسی بھی طور پر ثابت نہیں۔

۹ ربیع الاول کا دن تشیع کے لیے شروع سے ہی اہمیت کا حامل دن تھا، اس دن کو اہل تشیع کے ہاں عید بیعت کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بعض مفکرین کے مطابق یہ دن کسی بھی طور پر عید غدیر سے کم نہیں جس طرح سے ۱۸ ذی الحجہ کو امیرالمومنینؑ کی امامت کا رسمی اعلان ہوا اسی طرح سے ۹ ربیع الاول کو امام زمان عجل اللہ تعالی کی امامت کا رسمی آغاز ہوا۔ پس اس دن کو کسی بھی دوسری مناسبت سے مربوط کر کے بے رنگ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ دن امت کے لیے باعث وحدت و قوت ہونا چاہیے۔ بجاۓ یہ کہ اس دن ایسے مراسم کا انعقاد کیا جاۓ جو نا صرف تاریخ سے ثابت نہیں بلکہ امت اسلامی کے اندر تفرقے کا باعث ہیں۔ 

ذیل میں عصر حاضر کے چند شیعہ مراجع کے فتاوی کو ذکر کیا جا رہا ہے کہ جس میں واضح طور پر بیان ہوا ہے کہ مکتب تشیع میں کسی بھی ایسے مراسم کا انعقاد کرنا جائز نہیں جس میں اہلسنت برادران کے مقدسات کی توہین کی جاتی ہو۔

رہبر مسلمین جہان امام خامنہ ای کا بیان

کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین نہیں کی جا سکتی۔ فرق نہیں پڑتا کوئی عمومی مجلس میں مقدسات کی توہین کرے یا خصوصی محافل میں۔ تمام اسلامی فرقوں کے مقدسات کی توہین و لعن طعن کے مراسم کا انعقاد کرنا درست نہیں۔(۱۲)

آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی کا بیان

آپ نے ایک فقہی مسئلہ پوچھے جانے پر عمر بن خطاب، حضرت عائشہ پر دشنام کرنے کی شدت سے مخالفت کی اور فرمایا کہ یہ امر اخلاق و سیرت اہلبیتؑ کے برخلاف ہے۔(۱۳)

آیت اللہ العظمی آقای بہجت رحمۃ اللہ علیہ کا بیان

آیت اللہ بہجت نے ۹ ربیع الاول کو عیدالزہرا کے نام سے بعض مراسم اور ان کی انجام دہی پر فرمایا کہ اگر کوئی ایسا امر انجام پاۓ جس سے مقدسات اہلسنت کی توہین ہو اور یہ امر باعث بنے دوسرے ممالک میں رہنے والے اقلیتی شیعہ مصیبت میں پڑ جائیں یا ان کا خون بہایا جاۓ تو اس خون میں ہم بھی برابر کے شریک ہونگے۔ سب و شتم اور لعن طعن کے مراسم کی کوئی ضرورت نہیں۔(۱۴)

آیت اللہ العظمی آقای وحید خراسانی کا بیان

دین اسلام، دین رحمت و رسول اسلام، رسول رحمت ہیں۔ اس دین میں اور پیغمبر اکرمﷺ کی رفتار و سیرت میں حتی امیرالمومنینؑ کی زندگانی میں ہمیں ایسا کوئی مورد نہیں ملتا کہ جس طرح سے آج کل کے تکفیری تندرو انجام دیتے ہیں۔ سب شتم و لعن علنی جائز نہیں ہے اور آئمہ معصومینؑ کے دستور کے بھی خلاف ہے۔(۱۵)

در نتیجہ ۹ ربیع الاول کا دن خوشی اور عید کا دن ہے۔ یہ دن امام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف سے عہد باندھنے اور ان سے تجدید بیعت کرنے کا دن ہے۔ اس دن کوئی بھی ایسا امر جو امت اسلامی کے اجتماعی مفاد کے برخلاف ہو انجام دینا خود امام زمانؑ کو غم و اندوہ میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔

 

 


حوالہ جات:

۱۔ شیخ مفید، محمد بن نعمان، مسارالشیعۃ، ج۱، ص۲۳۔

۲۔ سید بن طاؤوس، علی بن موسی، الاقبال بالاغمال الحسنۃ، ج۲، ص۳۷۹۔

۳۔ ابن ادریس حلی، محمد بن منصور، کتاب السرائر، ج۱، ص۳۱۹۔

۴۔ الکفعمی، شیخ ابراہیم، المصباح، ج۱، ص۵۱۱۔

۵۔ حلیؒ، ابو منصور جمال الدین حسن بن یوسف، منتہی المطلب، ج۲، ص۶۱۲۔

۶۔ بخاری، محمد بن اسماعیل، التاریخ الکبیر، ج۶، ص۱۳۸۔

۷۔ طبری، ابن جریر، تاریخ الطبری، ج۳، ص۲۶۵۔

۸۔ یعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۵۹۔

۹۔ نمیری، عمر بن شبہ، تاریخ مدینہ، ج۳، ص۸۹۵۔

۱۰۔ ابن عساکر، ابوالقاسم علی بن حسن، تاریخ مدینہ دمشق، ج۴۴، ص۱۴۔

۱۱۔ بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف للبلاذری، ج۱۰، ص۴۳۹۔

۱۲۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۱۳۔ سائٹ ادیان نیٹ۔

۱۴۔ آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ بہجت۔

۱۵۔ سائٹ تسنیم نیوز۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 16 October 21 ، 13:07
عون نقوی