بصیرت اخبار

۹۱ مطلب با موضوع «مقالات عمومی» ثبت شده است

مقدمہ

عرصہ دراز سے قارئین کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ میاں بیوی کے تعلقات اور ان کے باہمی حقوق و فرائض پر مفصل تحریر بھیجی جائے، قارئین کی فرمائش پر مذکورہ تحریر میں میاں بیوی کے حقوق کو روایات معصومین علیہم السلام کی نظر میں بیان کیا گیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ شوہر پر بطور سربراہ کون کون سے فرائض عائد ہوتے ہیں، اور خاتون پر کون کون سی گھریلو ذمہ داریاں پورا کرنا ضروری ہیں، تحریر کی ابتداء میں یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ اگر میاں بیوی کے رشتے کو ہم فقط فقہی فرائض کی بنیاد پر کھڑا کرنا چاہیں تو یہ رشتہ قائم و دائم نہیں رہ سکتا بلکہ ضروری ہے کہ اس رشتے کو پیار و محبت کی بنیادوں پر قائم کریں۔ اس لئے جو کچھ بھی روایات میں وارد ہوا ہے ان پر دینی طور پر و اخلاقی طور پر بطور شوہر یا بیوی ہونے کے ناطے عمل کرنا ضروری ہے، دین کسی رشتے کو زبردستی کی بنیاد پر قائم کرنے کا حکم نہیں دیتا بلکہ میاں بیوی کو ایک اچھی ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے رہنمائی کرتا ہے جن پر شوہر عمل کرکے بہترین شوہرداری کے فرائض نبھا سکتا ہے اور ان روایات پر عمل کرکے خواتین بھی بہترین گھرداری کے رہنما اصول سیکھ سکتی ہیں۔

ابتدا میں خاتون پر شریعت کی جانب سے عائد کردہ شرعی فرائض بیان کئے جارہے ہیں جنکو ادا کرنا خاتون پر ضروری ہے۔

۱۔  شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر قدم نہ رکھے، اگر خاتون نے کلی طور پر شوہر سے باہر جانے کی اجازت لے رکھی ہو تو باہر جاسکتی ہے۔ (۱)

۲۔  اگر شرعی عذر نہ رکھتی ہو تو شوہر کی نفسانی طلب پر حتما خود کو پیش کرے اور کسی قسم کا عذر پیش نہ کرے، لیکن اگر حالت حیض میں ہے تو خود کو شوہر کے سامنے پیش نہ کرے بلکہ اگر پیش کرے تو حرام ہے۔ (۲)

۳۔  خود کو ہر اس چیز سے پاک اور دور رکھے جس سے شوہر کو جنسی استفادہ کرنے میں کراہت محسوس ہو، مثلا صفائی ستھرائی کا خیال رکھے۔ (۳)

۴۔  شوہر کی اجازت کے بغیر اسکے مال سے صدقہ نہ دے۔ اپنے شوہر کے مال سے نذر اور صدقہ دینا درست نہیں البتہ اپنا مال خرچ کرنے میں آزاد ہے۔(۴)

  خاتون کو شوہر کے ساتھ اچھا سلوک رکھنے کے بارے میں اور شوہر کے اپنی زوجہ کی جانب سے چند حقوق کا بیان:

جس طرح سے شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے عورت کا بھی یہ فریضہ قرار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے شوہر کا احترام و اکرام کرے، اس بارے میں چند روایات پیش خدمت ہیں:

 اپنے شوہر کی اطاعت کرے

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

ان للرجل حقا علی امراته اذا دعاها ترضیه واذا امرها لا تعصیه ولا تجاوبه بالخلاف ولا تخالفه.

مرد کا اپنی زوجہ پر حق یہ ہے کہ جب شوہر اسے بلاۓ تو عورت کو چاہیے کہ اسے جواب دے، اور جب اسے کوئی کام بتاۓ تو اسے انجام دے، منفی جواب نہ دے اور اپنے شوہر کی مخالفت نہ کرے۔ (۵)

 البتہ یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ شوہر کی اطاعت فقط جائز امور میں ضروری ہے اگر شوہر احکام الہی کی مخالفت کرنے کا حکم دے تو یہاں پر اطاعت کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ بہرحال ہر صورت میں حکم خداوندی شوہر کے حکم سے بالاتر ہے۔

پیغمبر اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں: اگر سجدہ کرنا غیرِ خدا کے لیے جائز ہوتا تو میں حکم دیتا کہ بیویاں اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔ ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے: کوئی بھی خاتون خدا کا حق ادا نہیں کرسکتی جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے۔ (۶)

اس روایت کے متن سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کا احترام کس حد تک ضروری ہے، پس ایک خاتون حتی الامکان کوشش کرے اپنے شوہر کی تکریم کرے اور اس کا احترام بجالاۓ۔

 مہر و محبت کا عطر

رسول خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

للرجل علی المراة ان تلزم بیته وتودده وتحبه وتشفقه وتجتنب سخطه وتتبع مرضاته وتوفی بعهده ووعده.

 مرد کا اپنی عورت پر یہ حق بنتا ہے کہ خاتون اسکے گھر میں خدمت کرے، اپنے شوہر کی دوست ہو اور اس سے محبت و دلسوزی سے پیش آۓ، اپنے شوہر کو غضب میں نا لاۓ اور جو اسکا شوہر چاہتا ہو اسے انجام دے اسکے ساتھ کئے گئے وعدے کو وفا کرے۔ (۷)

 ناشکری سے بچے

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

ایما امراة قالت لزوجها: ما رایت قط من وجهک خیرا فقد حبط عملها.

جو عورت اپنے شوہر کو کہے: میں نے تم سے کبھی بھلائی نہیں پائی تو اسے اسکے اعمال کا ثواب عطا نہیں ہوگا۔(۸)

بعض خواتین کے لیے انکے شوہر چاہے دن رات بھی ایک کردیں وہ پھر بھی اپنے شوہر سے راضی نہیں ہوتیں، اکثر اوقات اپنے شوہر کا اپنی سہیلیوں کے شوہروں سے مقائسہ کرتی ہیں اور طعنے دیتی ہیں کہ انکے گھر میں زیادہ کچھ موجود ہے جبکہ ہمارے گھر میں فلاں فلاں سہولت موجود نہیں، جبکہ ایسا کلام ہرگز ایک دیندار بیوی کو زیب نہیں دیتا۔

 ضدبازی سے پرہیز کرے

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

خیر نسائکم الودود الولود المؤاتیة وشرها اللجوج.

تم میں سے سب سے بہترین خاتون وہ ہے جو محبت سے اولاد پیدا کرنے والی ہو اور بدترین خاتون وہ ہے جو ضدی اور ڈھٹائی سے کام لے۔ (۹)

خاتون مکمل طور پر احساسات و جذبات کا پیکر ہوتی ہے، یہ احساسات خاتون کی کمزوری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے خود عورت کی حکمت کو دیکھتے ہوئے اسے عطا کئے ہیں لیکن عورت بعض اوقات ان احساسات کا منفی استعمال کرتی ہے اور شیطان اس پر غالب اجاتا ہے، ہٹ دھرمی، غیر منطقی مطالبات اور غیر عقلی باتیں منگوانا دین کی نگاہ میں مذموم قرار دیا گیا ہے اس لیے خاتون کوشش کرے اپنے فیصلوں کو عقلی بنیادوں پر حل کرے اور شوہر کے ساتھ منطقی تعاملات انجام دے۔

 شوہر کو راضی رکھنے والی

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

طوبی لامراة رضی عنها زوجها.

 کیا ہی سعادت ہے اس عورت کے لئے جس سے اسکا شوہر راضی ہو۔(۱۰)

ظاہر ہے اس روایت سے مراد بھی شوہر کے غیر شرعی مطالبات پورے کرکے اسے راضی کرنا نہیں بلکہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے شوہر کو راضی کیا جائے، شوہر کے غیر شرعی تقاضے پورے کرنا جائز نہیں۔

 اذیت پہنچانے والی

پیغمبر اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

من کان لہ امراة تؤذیه لم یقبل اللہ صلاتها ولا حسنة من عملها حتی تعینه وترضیه وان صامت الدهر وقامت واعتقت الرقاب وانفقت الاموال فی سبیل الله وکانت اول من ترد النار ثم قال: وعلی الرجل مثل ذلک الوزر والعذاب اذا کان لها مؤذیا ظالما.

جس شخص کی بیوی اسے اذیت پہنچاتی ہو تو خداوند اس عورت کی نماز اور دیگر نیک کام قبول نہیں کرتا، یہاں تک کہ اپنے شوہر کی مدد کرے اور اسے راضی کرے۔ اور اگر اسی حالت میں(شوہر کو ناراض کرکے) تمام عمر روزہ رکھے اور نمازیں پڑھتی رہے، غلام آزاد کرتی رہے، اپنے اموال کو راہ خدا میں بخشتی رہے، پھر بھی یہ عورت ان عورتوں میں سے ہوگی جو سب سے پہلے جہنم میں ڈالی جائیں گی۔ پھر آپ ص نے فرمایا کہ مرد پر بھی یہی عذاب ہوگا اگر وہ اپنی زوجہ کو تکلیف پہنچاتا ہے یا اس پر ستم کرتا ہے۔ (۱۱)

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

سعیدة سعیدة امراة تکرم زوجها ولا تؤذیه وتطیعه فی جمیع أحواله.

خوشبخت ہے وہ عورت، خوشبخت ہے وہ عورت کہ جو اپنے شوہر کا اکرام کرے، اسکو تکلیف نہ پہنچائے اور ہمیشہ اسکی فرمانبردار رہے۔ (۱۲)

 شوہر سے غیر منطقی مطالبے نا کریں

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

لا یحل للمراة ان تتکلف زوجها فوق طاقته.

خاتون کے لیے جائز نہیں کہ اپنے شوہر کی توانائی و طاقت سے بڑھ کر اس سے مطالبہ کرے۔ (۱۳)

روایت کے الفاظ صریح ہیں، خاتون اپنے شوہر سے اسکی توان سے زیادہ مطالبہ نہیں کرسکتی مثلا اگر شوہر محنت مزدوری کرتا ہے یا معمولی کاروبار کرتا ہے اور حتی الامکان گھر والوں کے دن رات حلال کے رزق کے لیے کوشش کرتا ہے تو خاتون کو اپنے شوہر کی آمد و اخراجات کا احساس کرنا چاہیے اس پر کسی ایسی چیز کے خریدنے کی زبردستی نہیں کرسکتی جو اسکی توانائی سے بڑھ کر ہو۔

 شوہر کی اجازت سے مہمان بلاۓ

پیغمبرخدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

ایها الناس ان لنسآءکم علیکم حقا ولکم علیهن حقا حقکم علیهن۔۔۔۔ ان لا یدخلن احدا تکرهونه بیوتکم الا باذنکم.

اے لوگو! تمہاری عورتیں تم پر حق رکھتی ہیں اور تمہیں بھی اپنی زوجات پر حق حاصل ہے۔ تمہارا اپنی زوجات پر یہ حق ہے کہ تمہاری اجازت کے بغیر کسی کو گھر میں نا لائیں جس کے لیے آپ راضی نہ ہوں۔ (۱۴)

ایک شخص رسول خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: میری زوجہ ایسی ہے کہ جب میں گھر میں داخل ہوتا ہوں تو میرے استقبال کو آتی ہے، اور جب گھر سے باہر نکلتا ہوں تو دروازے تک چھوڑنے آتی ہے، جب مجھے غمگین دیکھتی ہے تو کہتی ہے: اگر رزق و روزی اور زندگی کے اخراجات کے لیے پریشان ہو تو جان لو کہ یہ سب تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے کہ بندے کا رزق اس تک ہر صورت میں پہنچا دے، اور اگر آخرت کے لیے پریشان ہو تو دعا ہے کہ اللہ تمہاری اس پریشانی میں اور بھی اضافہ کرے تاکہ آخرت کے لیے زیادہ سامان کرسکو۔ رسول خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم نے یہ سن کر فرمایا: ان للہ عمالا و ہذہ من عمالہ لہا نصف اجر الشہید۔

خدا کے عُمّال ہیں اسکی زمین پر اور یہ خاتون بھی انہیں عُمال میں سے ایک ہے اس خاتون کی پاداش ایک شہید کی نصف پاداش ہے۔(۱۵)

 سلام کرنے کی اہمیت

مسلمانوں کے اخلاقی آداب و رسوم میں سے ایک بہترین رسم سلام کرنے کی ہے کہ جب بھی دو مسلمان آپس میں مل بیٹھتے ہیں تو ایک دوسرے کو دعا کے طور پر سلام کرتے ہیں جس سے پیار محبت بڑھتا ہے، میاں بیوی کے باہمی تعلقات میں اُنس بڑھانے کے لئے ایک ضروری امر سلام کرنا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی شوہر باہر سے آئے تو بیوی کو سلام کرے۔

کام کاج میں ایک دوسرے کی مدد کرنا

پیغمبر عزیز خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

ایما امراة اعانت زوجها علی الحج والجهاد او طلب العلم اعطاها الله من الثواب ما یعطی امراة ایوب علیه السّلام.

 جو خاتون حج و جہاد اور علم کے حصول میں اپنے شوہر کی مدد کرے، تو اللہ تعالیٰ اسے وہ پاداش و اجر عطا کرے گا جو اس نے حضرت ایوب علیہ‌السّلام کی زوجہ کو عطا کیا۔ (۱۶)

 شوہر کو پانی پلانا

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

ما من امراة تسقی زوجها شربة من مآء الا کان خیرا لها من عبادة سنة صیام نهارها وقیام لیلها ویبنی اللہ لها بکل شربة تسقی زوجها مدینة فی الجنة وغفر لها ستین خطیئة.

ہر عورت جو اپنے شوہر کو پانی پلاتی ہے،  اسکا یہ پانی پلانا اسکے ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے اور وہ بھی ایسا سال کہ جس کے دنوں میں وہ روزہ رکھتی رہی اور جسکی راتوں میں وہ نمازیں پڑھتی رہی۔ اللہ تعالٰی اسے ہر اس مقدار کے برابر کہ جو اس نے اپنے شوہر کو پانی پلایا جنت میں اس کے لئے ایک شہر تعمیر کرے گا اور اسکے ساٹھ گناہ معاف کرے گا۔(۱۷)

روایت میں پانی پلانے کا ثواب وارد ہوا ہے تو سوچئے شوہر کے دیگر امور انجام دینے کا کتنا ثواب ہوگا؟

 عورت کی گھرداری کی اہمیت

امام صادق علیہ‌السّلام پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم سے روایت نقل کرتے ہیں:

ایما امراة دفعت من بیت زوجہا شیئا من موضع الی موضع ترید به صلاحا نظر الله الیها ومن نظر اللہ الیه لم یعذبه.

جو خاتون اپنے شوہر کے گھر میں کسی چیز کو سنبھال کر ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھتی ہے تو خداوند نظرِ رحمت سے اس پر نگاہ ڈالتا ہے اور ہر بندہ جو مورد نظرِ رحمت الہی قرار پا جاتا ہے، اللہ اس پر عذاب نازل نہیں کرتا۔ (۱۸)

 اچھا لباس پہننا اور اپنے شوہر کے لیے خود کو معطر کرنا

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم شوہر کے بیوی پر ایک حق کے بارے میں فرماتے ہیں:

علیها ان تطیب باطیب طیبها وتلبس احسن ثیابها وتزین باحسن زینتها.

عورت پر ضروری ہے کہ اپنے شوہر کے لیے سب سے بہترین عطر استعمال کرے، بہترین لباس پہنے اور سب سے زیادہ زیبا کردینے والی زینت کو اختیار کرے۔ (۱۹)

بعض شوہروں کا کہنا ہے کہ جب سے ہماری گھر والی رخصت ہو کر آئی ہے ہم نے کبھی بھی اسکو زینت کئے ہوئے نہیں دیکھا فقط شادی بیاہ کے موقع پر تیار ہوتی ہیں اور وہ بھی شادی سے واپس آکر زینت اتار دیتی ہیں، بعض خواتین کا کہنا ہے کہ شادی کے بعد زینت یا میک اپ کرنے کا کیا فائدہ؟ جبکہ یہ سوچ بالکل غلط ہے اسلام نے عورت کو حکم دیا ہے کہ وہ زینت اختیار کرے اور اپنے شوہر کے لیے بہترین زینت اختیار کرے۔

 کھانا پکانے کا ہنر

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

خیر نسآءکم الطیبة الریح الطیبة الطبیخ التی اذا انفقت انفقت بمعروف وان امسکت امسکت بمعروف فتلک عامل من عمال اللہ وعامل اللہ لایخیب ولایندم.

تم میں سے بہترین خواتین وہ ہیں کہ جو خوشبودار اور اچھا کھانا بنانے والی ہیں، جب خرچ کرتی ہیں تو درست چیز خریدتی ہیں، اور جب خرچ نہیں کرتیں تو دراصل فضول خرچی سے بچ رہی ہوتی ہیں، ایسی خواتین دراصل اللہ تعالیٰ کے عُمّال میں سے ایک ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے عمال نہ تو ناامید ہوتے ہیں اور نا ہی پشیمان۔ (۲۰)

ایک اور روایت میں پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم سے نقل ہوا ہے:

حق الرجل علی المراة انارة السراج واصلاح الطعام وان تستقبله عند باب بیتها فترحب وان تقدم الیه الطست والمندیل وان توضئه وان لاتمنعه نفسهآ الا من علة.

مرد کا اپنی زوجہ پر ایک حق یہ ہے کہ خاتون اسکے گھر کو روشن رکھے، اچھی غذا بنا کر تیار کرے، جب شوہر گھر آۓ تو دروازے پر اسکو خوش آمدید کہے، پانی اور لباس پیش کرے اور اسکے ہاتھ دھلاۓ، اور بغیر کسی شرعی مجبوری کے خود کو اپنے شوہر کے سامنے پیش کرنے سے انکار نا کرے۔(۲۱)

 فقط اپنے شوہر کے لیے خود کو آراستہ کرے

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

ان من خیر نسآءکم۔۔۔ المتبرجة من زوجها الحصان عن غیره.

تم میں سے سے بہترین خاتون وہ ہے جو خود کو اپنے شوہر کے لیے آراستہ کرے، اور اجنبیوں سے خود کو چھپاۓ۔(۲۲)

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض خواتین فقط اس وقت زینت اختیار کرتی ہیں جب انہیں باہر جانا ہو، یعنی الٹ کام کرتی ہیں نامحرم کے لیے زینت اختیار کرنا حرام ہے اگر اس نیت سے زینت کرے کہ کوئی نامحرم اسکی طرف متوجہ ہو تو یہ شرعا بھی حرام ہے۔ خاتون کے لیے زینت کرنا مطلقا حرام نہیں ہے بلکہ نامحرم کے لیے زینت کرنا حرام ہے اگر خاتون اپنے شوہر کے لیے زینت کرتی ہے تو باعث ثواب ہے۔

 شکرگزار بیوی

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

خیر نسآءکم التی ان اعطیت شکرت وان منعت رضیت.

تم میں سے بہترین خاتون وہ ہے کہ جب اسے کچھ دیا جائے تو شکرگزار ہو اور جب کچھ نا دیا جائے تو تب بھی راضی ہو۔ (۲۳)

 اچھی شوہر داری کرے

اچھی شوہرداری بھی ایک ہنر ہے ایک خاتون کی خوشبختی یا بدبختی بھی اسکی اچھی یا بری شوہرداری پر منحصر ہوتی ہے اگر خاتون اس مہارت کو حاصل کرلے تو سعادتمند ہو سکتی ہے، اور اپنے گھر کو جنت کا ایک باغ بنا سکتی ہے۔ اس لئے اسلام میں اچھی شوہرداری کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، امام علی علیہ‌السّلام اس بارے فرماتے ہیں: خاتون کا جہاد یہ ہے کہ وہ اچھی شوہرداری کرے۔ (۲۴)

 خوش اخلاقی

 ایک سمجھدار خاتون وہ ہوتی ہے کہ جسے یہ بات معلوم ہو کہ فقط محبت اور اخلاق سے ہی شوہر کا دل جیتا جا سکتا ہے۔ اپنے درست و عاقلانہ فیصلوں اور اخلاقی اقدار کو اپنا کر شوہر کے گھر کو بسایا جا سکتا ہے۔ ایک خوش اخلاق خاتون کی علامت یہ ہے کہ اپنے شوہر کے ساتھ ہمیشہ اچھا کلام کرتی ہے، چنے ہوئے مودب الفاظ کا استعمال کرتی ہے اور ہمیشہ کوشش کرتی ہے کہ اپنے شوہر سے ابراز محبت کرے اور اپنے شوہر کو مضطرب ہونے سے بچا لے۔ سمجھدار خاتون اپنے اچھے رویے کی وجہ سے اپنے شوہر کے ساتھ یا بچوں کے ساتھ خوش و خرم رہتی ہے اور مثلِ فرشتہء رحمت گھر کے اندر سکون کا باعث ہوتی ہے۔  پیغمبر اسلام صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں: جو خاتون اپنی زبان درازی کی وجہ سے شوہر کو تکلیف پہنچاۓ تو خداوند اسکا کوئی بھی واجب یا مستحب عمل قبول نہیں کرتا، اسکا کوئی نیک عمل قبول نہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے شوہر کو راضی کرلے، (اسکا کوئی بھی عمل ان ایام میں قبول نہیں ہوگا) چاہے ان ناراضگی کے ایام میں وہ روزے اور راتوں کو نمازیں بھی کیوں نہ پڑھتی رہی ہو۔(۲۵)

 ایک سمجھدار خاتون کبھی بھی اپنے شوہر یا بچوں کے ساتھ دھمکی آمیز یا تحقیرانہ لہجے کے ساتھ بات نہیں کرتی، بلکہ ہمیشہ شاکرانہ اور ہمدردانہ انداز اپنا کر گھر کی حرمت کا خیال رکھتی ہے۔

 شوہر کا احترام

 بابصیرت خاتون وہ ہے جسے معلوم ہو کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی انسان ہیں وہ سب محبتوں کو قبول کرنے والے اور نفرتوں سے بیزار ہوتے ہیں، سب انسان احترام کو پسند اور بے عزت ہونے کو ناپسند کرتے ہیں، وہ یہ بات سمجھتی ہے کہ میں جس کا بھی احترام کرونگی وہ بھی مجھے پسند کرے گا اور احترام کرے گا، اور جس کا اکرام نہیں کرونگی وہ بھی مقابل میں مجھے عزت نہیں دے گا۔   ایک سمجھدار خاتون کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اسکے شوہر کو سکون و آرام چاہیے، اسکے شوہر کو گھر میں امنیت، صمیمیت اور مخلص دلدار دوست چاہیے۔

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

سعادتمند ہے وہ عورت، سعادتمند ہے وہ عورت کہ جو اپنے شوہر کا احترام کرتی ہے اور اسکو تکلیف نہیں پہنچاتی، اور ہر موقع پر اپنے شوہر کی اطاعت کرتی ہے۔(۲۶)

 اپنے عشق و محبت کا اظہار کرے

 ایک عقلمند خاتون وہ ہے کہ جسے علم ہے اسکا شوہر محبت کا تشنہ ہے، اسے ایک غم بانٹنے والا شریک چاہیے اس لیے وہ اپنا آپ شوہر کے سامنے نچھاور کردیتی ہے۔ لیکن اگر مرد کو یہ احساس ہوجاۓ کہ اسکی زوجہ اسے پسند نہیں کرتی تو وہ بھی احساس تنہائی کرنے لگتا ہے، ہمیشہ پژمردہ، غمگین اور مضطرب رہتا ہے۔  اس لئے دوراندیش عورت اپنے عشق و محبت کا اظہار کر کے اپنے جذبات زبان پر لاتی ہے اور شوہر کو جذب کرلیتی ہے۔  امام باقر علیہ‌السّلام فرماتے ہیں: ایک خاتون کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں اسکی شوہر کی رضا سے بڑھ کر کوئی امر شفاعت کرنے والا قرار نہیں دیا۔ (۲۷)

 جہاں شریعت اسلام نے شوہر کے حقوق بیان کئے ہیں وہیں شوہر کے چند فرائض بھی روایات میں بیان ہوۓہیں جن کا پورا کرنا شوہر پر فرض ہے۔

  اظہارِ محبت

پیغمبر اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

کلما ازداد العبد ایمانا ازداد حبا للنسآء.

مومن کا جس مقدار میں ایمان بڑھتا رہتا ہے، اِتنا ہی اسکا اپنی زوجہ کیلئے پیار بڑھتا جاتا ہے۔ ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے۔(۲۸)

قول الرجل للمراة انی احبک لا یذہب من قلبہا ابدا.

مرد کا اپنی زوجہ کو یہ کہنا کہ "میں تجھ سے محبت کرتا ہوں، خاتون کے دل سے یہ بات کبھی فراموش نہیں ہوتی۔(۲۹)

بہت سے شادی شدہ جوڑوں کا یہ کہنا ہے کہ شادی کے بعد ان کا آپس میں پیار و محبت کم ہوگیا ہے، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شادی کے بعد شوہر یا بیوی ایکدوسرے سے محبت آمیز جملات کا تکرار نہیں کرتے جبکہ محبت ایک ایسا درخت ہے جسے ہر روز آبیاری کرنی پڑتی ہے، دین اسلام نے زوجہ سے محبت آمیز کلمات ادا کرنے پر بھی ثواب رکھا ہے کیونکہ خاتون احساسات کا پیکر ہے اسے لاکھ عقلی دلیلیں قائل نہیں کرسکتیں لیکن ایک محبت بھرا جملہ موم کرسکتا ہے۔

 محب اہلبیتؑ وہ ہے جو اپنی زوجہ سے محبت کرے

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

کل من اشتد لنا حبا اشتد للنساء حبا.

جو شخص ہم اہلبیت علیہم السلام سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ اپنی عورتوں (زوجات) سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔ (۳۰)

 ہر حال میں اپنی زوجہ کے ساتھ بنا کر رکھنے والا

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

فدارہا علی کل حال واحسن الصحبة لہا فیصفو عیشک.

ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی زوجہ کے ساتھ رواداری کے ساتھ اور بنا کر رکھو اور اسکے ساتھ نیکی سے پیش آؤ تاکہ تمہاری زندگی باصفا ہو سکے۔ (۳۱)

بعض مردوں کو بدزبان یا بداخلاق زوجات نصیب ہوتی ہیں، دین اسلام نے مقابل میں ان سے بدتمیزی یا مار کٹائی کا حکم نہیں دیا بلکہ ایسی خواتین سے بھی رواداری اور برداشت سے تعامل کرنے کا حکم دیا ہے۔

متکبرانہ و غضبناک لہجے سے پرہیز

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

خیر الرجال من امتی الذین لایتطاولون علی اہلیهم و یحنون علیهم ولا یظلمونهم.

میری امت کے بہترین مرد وہ ہیں جو اپنے گھر والوں پر غصہ نہ کرنے والے اور متکبر نہ ہوں، ان پر رحم اور نوازش سے پیش آتے ہوں اور گھر والوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچاتے ہوں۔ (۳۲)

 زوجہ پر ہاتھ اٹھانے والے

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

فای رجل لطم امراته لطمة، امراللہ عزوجل مالک خازن النیران فیلطمه علی حر وجهه سبعین لطمة فی نار جهنم.

ہر شخص جو اپنی زوجہ کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے تو خداوند عالم جہنم کے آتشبان کو حکم دیتا ہے کہ اس شخص کو جہنم کی آگ میں ستر تھپڑ مارے جائیں۔

ایک خاتون سے مخاطب ہو کر رسول اللہ ص نے فرمایا کہ خاتون کا اپنے شوہر پر ایک حق یہ بنتا ہے۔(۳۳)

حقک علیه ان یطعمک مما یاکل و یکسوک مما یلبس ولا یلطم ولا یصیح فی وجهک.

تمہارا اپنے شوہر پر ایک حق یہ ہے کہ جو وہ خود کھاتا ہے تمہیں بھی کھلاۓ اور جس طرح کا وہ خود پہنتا ہے تمہیں بھی پہناۓ اور تمہیں تھپڑ نا مارے اور تم پر فریادیں بلند نا کرے۔ (۳۴)

اپنی زوجہ کو خوش رکھنے کی کوشش کرے

پیغمبر اکرم صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

للمراة علی زوجها ان یشبع بطنها، و یکسو ظهرها، ویعلمها الصلاة والصوم والزکاة ان کان فی مالها حق، ولاتخالفه فی ذلک.

عورت کا اپنے شوہر پر ایک حق یہ ہے کہ شوہر اسے کھانا کھلاۓ، اور اسے لباس پہننے کے لیے مہیا کرے۔ نماز و روزہ و زکات کے مسائل سکھاۓ اور اگر عورت کے مال پر زکات بنتی ہے تو وہ ادا کرے، عورت کو بھی ان امور میں اپنے شوہر کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ (۳۵)

 گھر کی معیشت کے لیے کوشش کرنا جہاد ہے

امام رضا علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

الکآد علی عیاله من حل کالمجاهد فی سبیل اللہ.

جو شخص راہ حلال کے ذریعے گھر کی رفاہ و بہبود کے لئے کوشش کرتا ہے، وہ شخص اس مجاہد کی مانند ہے جو راہ خدا میں جہاد کرتا ہے۔(۳۶)

 زوجہ کے لیے ہدیہ خریدنا

رسول خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

من دخل السوق فاشتری تحفة فحملها الی عیاله کان کحامل صدقة الی قوم محاویج ولیبدا بالاناث قبل الذکور فان من فرح ابنته فکانما اعتق رقبة من ولد اسماعیل ومن اقر بعین ابن فکانما بکی من خشیة اللہ ومن بکی من خشیة اللہ ادخله الله جنات النعیم.

جو شخص بازار جاتا ہے اور اپنے گھر والوں کے لیے ہدیہ خرید کر گھر جاتا ہے اسکی جزا اس شخص کی مانند ہے جو نیازمندوں کے لیے صدقہ لے کر جاتا ہے۔ اور جب ہدیہ گھر لے کر جاۓ، تو اسے چاہیے کہ اپنے بیٹوں سے پہلے اپنی بیٹیوں کو ہدیہ دے، کیونکہ جو بیٹیوں کو خوش کرتا ہے اس شخص کی مانند ہے کہ جس نے فرزندان اسماعیل علیہ السلام میں سے ایک غلام آزاد کروایا ہو۔ اور جس نے ہدیہ دے کر اپنے بیٹوں کی آنکھوں کو روشن کیا اس شخص کی مانند ہے جس نے خوف خدا میں گریہ کیا ہے اور جو بھی خوف خدا سے گریہ کرے خداوند اسے بہشت کی نعمات سے نواز دے گا۔ (۳۷)

 ضروریات زندگی کی خرید

امام سجاد علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

لان ادخل السوق ومعی درهم ابتاع به لحما لعیالی وقد قرموا الیه احب الی من ان اعتق نسمة.

میرے نزدیک بازار جانا اور گھر والوں کے لیے ایک درہم کا گوشت خرید کرنا کہ جس کے لیے انکا دل چاہ رہا ہے، غلام آزاد کروانے سے زیادہ محبوب تر ہے۔ (۳۸)

 سوغات خریدنا

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

اذا سافر احدکم فقدم من سفره فلیات اهله بما تیسر.

تم میں سے جب کوئی سفر پر جاۓ اور وہاں سے واپس آئے تو اسے چاہیے کہ اپنی توان کے مطابق گھر والوں کے لیے سوغات خرید کر جاۓ۔(۳۹)

 اپنی زوجہ کے لیے خود کو سنوارے

امام باقر علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

النسآء یحببن ان یرین الرجل فی مثل ما یحب الرجل ان یری فیه النسآء من الزینة.

جس طرح سے مرد حضرات پسند کرتے ہیں کہ اپنی عورتوں کو زینت و آرائش کیا ہوا دیکھیں، عورتیں بھی پسند کرتی ہیں کہ انکے مرد زینت کو اختیار کریں۔(۴۰)

 سردی کے موسم کا مناسب بندوبست

امام رضا علیہ‌السّلام فرماتے ہیں :

بنبغی للمؤمن ان ینقص من قوت عیاله فی الشتآء ویزید فی وقودهم.

مومن کو چاہیے کہ موسم سرما میں وہ اپنے خانوادے کے خوراک کے اخراجات میں سے کم کر کے گرم کرنے والے وسائل کا بندوبست کرے جو اسکے گھر والوں کو گرم رکھ سکیں۔ (۴۱)

 اپنے گھر والوں کی خوشیوں کا خیال رکھے

راوی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ عورت کا اپنے شوہر پر کیا حق بنتا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

ولاتکون فاکهة عامة الا اطعم عیاله منها ولایدع ان یکون للعید عندهم فضل فی الطعام وان یسنی لهم فی ذلک شی ء ما لم یسن لهم فی سآئر الایام.

پھل جو عام لوگ کھا رہے ہوں مرد کو چاہیے کہ اپنے گھر والوں کو کھلاۓ اور عید کے ایام میں انکی خوراک پر زیادہ خرچ کرے، اور ان ایام میں وہ اشیاء بھی فراہم کرے جو عموما عام دنوں میں فراہم نہیں کرتا۔(۴۲)

 اپنی زوجہ پر تہمت نہ لگائے اور سوء ظن سے پرہیز کرے

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

لا تقذفوا نسآءکم فان فی قذفهن ندامة طویلة وعقوبة شدیدة.

اپنی خواتین پر نہ باندھیں اور انکی طرف ناروا نسبتیں نا دیں، کیونکہ اس کام میں تمہارے لیے پشیمانی ہے اور سخت سزا ہے۔(۴۳)

گھر میں وقت دینا

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

هلک بذی المروة ان یبیت الرجل عن منزله بالمصر الذی فیه أهله.

یہ امر جوانمردی کے خلاف ہے کہ مرد جس شہر میں موجود ہو اسکے گھر والے بھی وہیں ہوں اور وہ اپنے گھر میں نا سوۓ کہیں اور جا کر رات گزارے۔ (۴۴)

 گھر میں داخل ہونے کے آداب

امام صادق علیہ‌السّلام فرماتے ہیں:

یسلم الرجل اذا دخل علی اهله واذا دخل یضرب بنعلیه ویتنحنح یصنع ذلک حتی یؤذنهم انه قد جآء حتی لا یری شیئا یکرهه.

 مرد جب گھر میں داخل ہو اور گھر والوں کو دیکھے تو اسے چاہیے کہ سلام کرے اور گھر میں داخل ہوتے وقت اپنے جوتوں کو ہلا کر آواز نکالنے سے یا ہلکا سا کھانس کے اپنے گھر میں داخل ہونے کا اشارہ کرے، تاکہ اسے کوئی ایسی ناگوار چیز نا دکھائی دے جس سے وہ ناراحت ہو۔ (۴۵)

 اپنی زوجہ کے ساتھ بیٹھنا

پیغبر اسلام صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

جلوس المرء عند عیاله احب الی اللہ تعالی من اعتکاف فی مسجدی هذا.

 مرد کا اپنی زوجہ کے ساتھ بیٹھنا، خدا کے نزدیک اعتکاف میں بیٹھنے اور اس مسجد میں توقف کرنے سے زیادہ محبوب تر ہے۔ (۴۶)

 زوجہ کے لیے لقمہ توڑنا

پیغمبر خدا صلی‌اللہ‌علیہ‌و‌آلہ‌وسلّم فرماتے ہیں:

ان الرجل لیؤجر فی رفع اللقمة الی فی امراته.

مرد اپنی زوجہ کے منہ میں لقمہ توڑ کر ڈالے تو اسکے لئے ( اللہ تعالیٰ کے نزدیک) جزا ہے۔ (۴۷)

 

 


حوالہ جات:

۱۔  امام خمینی، سیدروح‌اللہ، تحریر الوسیلہ، کتاب نکاح، فصل فی النشوز، قبل از م ۱۔

۲۔  بہجت، محمدتقی، توضیح المسائل، مسئلہ ۱۸۹۷۔

۳۔  تبریزی، جواد، منہاج الصالحین، م۱۳۶۵۔

۴۔  امام خمینی، سیدروح‌اللہ، تحریر الوسیلہ، کتاب نکاح، فصل فی النشوز، قبل از م ۱۔

۵۔  نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۴۳۔

٦۔ محدث نوری، میرزاحسین، مستدرک الوسائل، ج۲، ص۵۵۲، مؤسسة آل البیت، قم، ۱۴۰۸ ہ۔ ق۔

٧۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۴۴۔

٨۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۱۵۔

٩۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۱۶۲۔

١٠۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۵۵۔

١١۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۱۶۔

١٢۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۵۳۔

١٣۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۴۲۔

١٤۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۷۶، ص۳۴۸۔

١٥۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۷۔

١٦۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۲۰۱۔

١٧۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۲۳۔

١٨۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۱۷۵۔

١٩۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج۵، ص۵۰۸۔

٢٠۔ حرعاملی، محمد بن حسن، وسایل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۵، دار التراث العربی، بیروت، ۱۳۹۱ ق۔

٢١۔ نوری، میرزاحسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۵۴۔

٢٢۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۳۵۔

٢٣۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۳۹۔

٢٤۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۵۲، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ ہ۔ ق۔

٢٥۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۴۴، ح۱۵، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ ہ۔ ق۔

٢٦۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۵۲، ح۵۵، مؤسسہ الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ ہ۔ ق۔

٢٧۔ قمی، شیخ عباس، سفینة البحار، ج۳، ص۵۰۹، دار الاسوہ الطباعہ و النشر، ۱۴۲۲ہ۔ ق۔

٢٨۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۲۸۔

٢٩۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۰۔

٣٠۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۲۷۔

٣١۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص۲۱۸۔

٣٢۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص۲۱۶۔

٣٣۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۵۰۔

٣٤۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص۲۱۸۔

٣٥۔ نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱۴، ص۲۴۳۔

٣٦۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۴، ص۷۲۔

٣٧۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۲۲۷۔

٣٨۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۲۵۱۔

٣٩۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۸، ص۳۳۷۔

٤٠۔ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص۸۰۔

٤١۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۲۴۹۔

٤٢۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۵، ص۲۲۷۔

٤٣۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۱۰۳، ص۲۴۹۔

٤٤۔ حرعاملی، محمدحسن، وسائل الشیعہ، ج۱۴، ص۱۲۲۔

٤٥۔ مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، ج۷۶، ص۱۱۔

٤٦۔ ری‌شہری، محمد، میزان الحکمہ، ج۵، ص۱۰۱۔

٤٧۔ فیض‌کاشانی، محسن، المحجۃ البیضاء، ج۳، ص۷۰۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 September 21 ، 22:39
عون نقوی

لاہور(بعثت نیوز) علامہ سید جواد نقوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام آزادی حضرت امام حسین ع نے ذلت کو غلامی کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیا یے۔ جب پاکستانی قوم ذلت کا ہر طوق اپنی گردن سے اتار پھینکے گی تو پاکستان کو حقیقی آزادی نصیب ہوگی۔

علامہ سید جواد نقوی نے 14 اگست سے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے لیے بہت اہم تاریخی اور عظیم دن ہے۔ اسی دن پاکستان کو غلامی اور تعصبات سے آزادی ملی۔ یہ یوم شکر ہے اور تمام پاکستانی جہاں بھی ہیں اللہ کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کریں کہ خداوند تعالیٰ نے یہ آزادی کی نعمت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خدا نے مملکت کے ساتھ ہمیں آزادی دی ہے اس آزادی کا شکر بنتا ہے لیکن ابھی تک ہم نے اس آزادی کی قدر نہیں جانی اور آزادی کے ادھورے مراحل مکمل نہیں کیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں جغرافیائی آزادی تو ملی لیکن بہت سارے شعبوں میں ابھی بھی آزادی نہیں ہے۔ پاکستان ابھی تک ثقافتی طور پر آزاد نہیں ہوا، ابھی بھی انگریزوں کی غلامی میں ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام ابھی تک انگریزی میں ہے۔ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ انگریز سے آزادی تو ملی ہے لیکن انگریزی سے آزادی ابھی تک نہیں ملی، ابھی آزادی کا سفر جاری ہے اور ابھی یہ قوم مکمل آزادی کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عدلیہ کا قانون مکمل انگریزی میں ہے یہ افسوس ناک ہے کہ ملک میں غلامی کے آثار بہت گہرے ہیں۔ جن میں ثقافتی اور تعلیمی غلامی نمایاں ہے۔ پاکستان میں تعلیمی نظام بھی انگریزوں کا بنایا ہوا فرسودہ ترین نظام ہے۔ لارڈ میکالے نے جو نظام متحدہ ہندوستان میں بنایا تھا وہ ابھی تک پاکستان میں چل رہا ہے۔ تمام پرائیویٹ اور سرکاری اسکولوں میں اسی نظام کے تحت تعلیم دی جا رہی ہے۔ تمام سرکاری دفاتر میں بھی انگریزی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ہر سڑک ہر بلڈنگ انگریزوں کے نام پر ہے، یہ غلامی ہی ہے۔ غلام نسل غلاموں کے باقی ماندہ آثار کے اندر زندگی گزار رہے ہیں۔ اور ان کے اندر آزادی کی مزید امنگ بھی پیدا نہیں ہوتی۔ علامہ سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ آزادی کے اگلے مرحلے کی خواہش بھی ان کے اندر نہیں ہے کہ یہ ثقافتی اور تعلیمی غلامی سے آزادی حاصل کریں۔ اور آزاد مملکت کے ناطے آزاد ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سیاسی طور پر بھی آزاد نہیں سیاسی طور پر بھی جکڑا ہوا ہے۔ پاکستان کے سیاستدانوں اور سابقہ جرنیلوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ پاکستان آزاد نہیں ، بلکہ عالمی اور امریکی غلامی میں جکڑا ہوا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی معیشت اور معاشرت کو جکڑا ہوا ہے۔ یہ 23 کروڑ عوام محض غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ ان کے حکمران غلام ہیں۔
علامہ سید جواد نقوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان غلاموں کے اختیار میں نہیں کہ یہ آزادانہ فیصلہ کر سکیں۔ آزادی کی امنگ کسی بھی ملک کی بقا کی ضامن ہوتی ہے اور غلامی ان کی نابودی کی علامت ہے۔ آزادی کی تمنا اور خواہش قوموں کو زندہ رکھتی ہے۔ آج کی نسل کو اپنے اندر امید پیدا کرنی چاہیے۔پاکستان میں جغرافیائی آزادی کے علاوہ باقی آزادی کیوں نصیب نہ ہوئی کیونکہ یہاں کسی چیز کی کمی تھی اور اس کمی کی جانب علامہ اقبال نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں ہے ۔ اس کاروان کا سالار آزادی نہیں ہے ان کا کہنا تھا کہ آزادی ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ ہر منہ سے آزادی کا لفظ مناسب نہیں لگتا۔ آزادی کا لفظ آزاد انسان کے منہ سے اچھا لگتا ہے۔ اور اسلام میں مسلمانوں کے لیے آزادی کی راہ سیکھنے کے لیے کربلا اور عاشورہ سے بڑھ کر آزادی کا کوئی منبع نہیں ہے۔ حقیقت میں آزادی صرف امام حسین علیہ السلام سے مل سکتی ہے اور اس کا اعتراف منصف علماء نے بھی کیا ہے کہ آزادی کا درس فقط امام حسین علیہ السلام سے لیا جا سکتا ہے لیکن اس صورت میں کہ جب آپ امام حسین علیہ السلام کو آزادی کا امام اور آزادی کا رہنما مانیں۔ جس طرح امام خمینی نے امام حسین علیہ السلام کو آزادی کا پیشوا مانا اور ان کے نقش قدم پر چلے ۔ اس طرح سے اگر کوئی امام حسین علیہ السلام کو نہ مانتا تو کسی قوم کو بھی آزادی دور دور تک نصیب نہیں ہوگی۔ علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام نے آزادی کی بنیاد سمجھائی ہےکہ کوئی انسان ذلت قبول نہ کرے۔ امام نے ذلت کو غلامی کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیا یے کہ جب ایک قوم، ثقافتی، نظریاتی، فکری اور وراثتی طور پر پست ہوجائے ۔ انہوں نے کہا کہ جب تمام پاکستانی قوم ذلت کا طوق اپنی گردن سے نکال کر پھینک دیں گے تو پاکستان کو حقیقی آزادی نصیب ہوگی۔
علامہ سید جواد نقوی کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کا یوم آزادی مبادک ہے کہ اس سال کا یوم آزادی محرم میں آیا ہے۔ محرم میں آنے کا مطلب ہے کہ اس کا امام حسین علیہ السلام سے تعلق ہے۔ پوری قوم آزادی کی راہ پر امام آزادی کی بیعت کرے اور امام آزادی سے آزادی کی ابجد سیکھے، اور 14 اگست کو تمام پاکستانی قوم امام حسین علیہ السلام کا پرچم لے کر لبیک یا حسین کے نعروں سے آزادی کا جلوس نکالیں۔ انہوں نے کہا کہ جس دن امریکہ، بن سلمان، برطانیہ اور انگریزی کی غلامی کا طوق گردن سے اتارو گے اور جس دن ذلت کی زنجیریں توڑو گے اس دن حسین علیہ السلام کا راستہ شروع ہوجائے گا۔

 source: bethatnews.com

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 September 21 ، 15:26
عون نقوی

تہران(بعثت نیوز) رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایرانی کابینہ سے ملاقات میں کہا کہ امریکہ مکار بھیڑیا ہے، موجودہ امریکی حکومت اور سابقہ حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہفتے کے روز ایران کے صدر اور ان کی نئی کابینہ کے اراکین سے خطاب کرتے ہوئے امریکیوں کوایسے وحشی اور خونخوار بھیڑیوں کا مصداق قرار دیا جو اپنی اصلیت کو سفارتکاری اور مسکراہٹ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکی کبھی مکار لومڑی بن جاتے ہیں جس کا نمونہ آج افغانستان میں دیکھا جا رہا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے افغانستان کو ایران کا برادر ملک قرار دیا اور فرمایا کہ ایران اور افغانستان کا دین ، زبان و ثقافت مشترک ہے۔
انہوں نے افغانستان کے پیچیدہ ترین مسائل و مشکلات منجملہ جمعرات کے روز کابل ایرپورٹ کے تلخ ترین سانحے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ان تمام مسائل و مشکلات کی اصل وجہ امریکی ہیں جنھوں نے بیس برس تک افغانستان پر غاصبانہ قبضہ جمائے رکھا اور اس ملک کے عوام پر ہر قسم کے ظلم و ستم ڈھائے اور مصائـب و آلام مسلط کئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ امریکہ نے افغانستان کی ترقی و پیشرفت کے لئے ایک قدم بھی نہیں اٹھایا اور افغانستان اگر اس وقت ترقی و پیشرفت کے اعتبار سے بیس سال پیچھے نہیں تو آگے بھی نہیں ہے۔ آپ نے ایران کی کابینہ کے نئے اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے خارجہ پالیسی کے شعبے میں اور زیادہ متحرک ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ سفارتکاری کو ایٹمی مسئلے سے ہرگز مرتبط اور متاثر نہیں ہونے دینا چاہئے کیونکہ جوہری مسئلہ ایک الگ مسئلہ ہے جس کو مناسب اور ملک کے شایان شان طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا کہ ایٹمی مسئلے میں امریکیوں نے اپنی پستی کی انتہا کردی۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے وہ ایٹمی معاہدے سے نکلے اور اب اس طرح باتیں کرتے ہیں گویا وہ نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران معاہدے سے نکلا ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے معاہدے سے نکل جانے کے بعد ایک مدت تک ایران نے کوئی جوابی اقدام نہیں کیا اور ایک عرصہ گزر جانے کے بعد، اعلان کرکے اور سب کو متوجہ کرکے سب پر نہیں بلکہ صرف بعض شقوں پر عمل در آمد کو روکا ہے۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے یورپ والوں کو بھی بداخلاقی اور خلاف ورزیوں میں امریکیوں کے ہم پلہ قرار دیا اور فرمایا کہ یورپ والے بھی امریکیوں کی ہی طرح ہیں اور باتیں بنانے اور بولنے میں ہمیشہ یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ایران نے مدتوں سے مذاکرات کا مذاق اڑا رکھا ہے اور انہیں پامال کر رکھا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکا کی موجودہ حکومت گزشتہ حکومت سے کوئی فرق نہیں رکھتی۔ آپ نے فرمایا یہ حکومت ایٹمی مسئلے میں ایران سے جو مطالبہ کررہی ہے ، وہ وہی ہے جس کا مطالبہ ٹرمپ کی حکومت کر رہی تھی جبکہ امریکا کے موجودہ حکام اس مطالبے کو غیر دانشمندانہ اور اس کی تکمیل کو ناممکن قرار دیتے تھے۔

 

 source: bethatnews.com

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 September 21 ، 15:19
عون نقوی

کریسنٹ انٹرنیشنل میگزین کے کالم کا اردو ترجمہ

نیوز میگزین کریسنٹ انٹرنیشنل کی کالمسٹ سلینا خان نے اپنے مضمون میں علامہ سید جواد نقوی کا تعارف فرقہ واریت کے مخالف اور پاکستان میں وحدت امت کے علمبردار کے طور پر کروایا ہے۔ سلینا خان کا شائع کردہ انگریزی زبان کے مضمون کا اردو ترجمہ قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔

آج سے تقریبا 12 سال پہلےجب میں نے آن لائن دینی دروس سننے کا آغاز کیا تو اکثر میں بچوں کے سو جانے کے بعد چائے کا کپ تھامے اپنے پسندیدہ عالم دین کا درس اپنے لیپ ٹاپ پر لگا کر بیٹھ جاتی تھی۔ وہ پاکستان میں ایک سادہ سے ماحول میں بیٹھے ہوتے۔ میری جیسی امریکہ میں پیدا ہونے والی کے لیے ان کی اردو سمجھنا مشکل ہوتا تھا۔ مجھے بار بار ویڈیو روک کر اپنے شوہر سے مطالب پوچھنے پڑتے۔ لیکن مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ استاد سید جواد نقوی کے اسلامی دروس سے جو علم ، سوجھ بوجھ، عملی رہنمائی اور سیاسی تجزیات کے وہ گوہر مجھے نصیب ہوتے تھے جو بیوی کے لیے صرف اپنے شوہر کے لیے سجنے سنورنے کی رہنمائی سے لے کر مسلمانوں کے اذہان کو تعصب سے پاک کرنے تک ہر شے کا احاطہ کیے ہوتے۔ایسا مجھے کبھی کہیں اور دکھائی نہیں دیا۔
ان سب سے بڑھ کر اسلام کو سمجھنے میں الجھانے کی بجائے ان کی سلجھانے کی روش اور گمراہ کن حکومتی، ثقافتی و تفرقہ انگیز اثرات کو بےنقاب کرنا میرے لیے بہت حوصلہ افزا تھا۔ پاکستان کو ایک خوشحال اسلامی ریاست بنانے کے لیے ان کا بیداری امت، خود انحصاری اور شیعہ سنی بھائی چارے کو فروغ دینا مجھے امام خمینی کی یاد دلاتا تھا میرے اندر ایک امید کی کرن پیدا ہوئی۔
میں سوچتی کہ پاکستان کو ایسے ہی رہبر کی ضرورت ہے لیکن پھر مجھے اپنے خیال پر ہنسی آ جاتی کہ میرے حلقہ احباب میں سے بہت کم لوگ ہی تو انہیں جانتے ہیں بلکہ میں خود بھی اس کے علاؤہ کچھ نہیں جانتی تھی کہ ان کے خیالات متاثر کن اور گفتگو روشن فکر ہے۔ مجھے تو اس وقت یہ بھی علم نہیں تھا کہ استاد محترم آیۃ اللہ ہیں جو فلسفہ، عمرانیات اور فقہ میں تخصص رکھتے ہیں نہ کہ فقط پاکستان ہجرت کرنے سے قبل قم مقدسہ ایران میں ۳۰ سال درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ حتٰی مجھے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں ان کا انٹرویو لینے والی پہلی امریکی صحافی ہوں گی اور لاہور پاکستان میں ان کے خاندان کے ساتھ وقت گزاروں گی۔
انٹرویو دیتے ہوئے استاد محترم کا کہنا تھا ’’ میں نے زندگی بھر اپنے بارے میں بہت سے منصوبے بنائے لیکن وہ تکمیل نہ ہو سکے، میں یہ سمجھا ہوں کہ جو کچھ بھی انجام پایا ہے یہ اللہ کا ارادہ تھا‘‘
پاکستان منتقل ہونے سے ہی استاد سید جواد نقوی نے یہ ثابت کیا کہ وہ اپنی ذاتی زندگی اور عوامی جد و جہد میں توازن قائم رکھ سکتے ہیں۔ سنہ2010 میں انہوں نے مقامی مخیر حضرات کے ساتھ مل کر لاہور میں 22 ایکڑ پر محیط درسگاہ بنائی۔ لڑکوں کے لیے جامعہ عروۃ الوثقی اور خواتین کے لیے جامعہ ام الکتاب میں 1700 طالبعلم دینی اور چھٹی سے ہارہویں تک دنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
استاد سید جواد نقوی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مسائل کی اصل وجہ شعور کی کمی ہے جو بد عنوان اور تجارتی تعلیمی نظام کی پیداوار ہے جس نے پاکستانی معاشرے کو ہر پہلو سے تباہ کر دیا ہے۔ ان کا ہدف اس نظام تعلیم میں ایسا انقلاب برپا کرنا ہے جو طالبعلموں میں شعور بڑھائے اور انسانی اقدار ایجاد کرے جو ان کی روزمرہ زندگی میں ظاہر ہوں۔صرف اسی صورت میں پاکستان کی ترقی ممکن ہے۔
جامعہ عروۃ الوثقیٰ میں ایک شہر آباد ہے جہاں ۴۰ ہزار افراد کے لیے مسجد بیت العتیق، 5لاکھ کتب پر مشتمل چارمنزلہ تحقیقی کتابخانہ، ،50 بیڈز پر مشتمل ہسپتال، فنی مہارت کا سکول جہاں پلمبری، الیکٹریکل، خطاطی اور دیگر فنون سکھائے جاتے ہیں، بعثت تعلیمی ٹی وی چینل، جامعہ دین القیم برائے مواصلاتی تعلیم، ڈیر ی فارم اور اساتذہ کے لیے کثیر المنزلہ اقامت گاہ شامل ہے۔ جس میں خود استاد محترم اپنے خانوادے کے ساتھ زمینی منزل میں مقیم ہیں۔
مجھے آغا صاحب کی رہائش گاہ کا پتہ ان کی زوجہ اور دختر کی زبانی چلا۔ جب وہ مجھے جولائی کی ایک حسین شام کو جامعہ کا دورہ کروا رہی تھیں۔ ان دونوں نے بھی قم مقدسہ سے تعلیم حاصل اور ابھی بچیوں کی درسگاہ کا انتظام سنبھالتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے گھر میں کوئی ملازم یا ائیر کنڈیشنر نہیں کیونکہ استاد محترم کا ماننا ہے کہ اگر میں ان سہولیات کا استعمال کرتا ہوں تو طالبعلموں کو بھی یہی سہولیات میسر ہونی چاہئیں۔ استاد محترم کے بارے میں مجھے یہ دلچسپ معلومات کھانے کے دوران پتہ چلیں جس کے لیے انہوں نے مجھے اور میری تین بیٹیوں کے رکنے پر بہت اصرار کیا۔ دونوں کا رویہ بہت مہمان نواز اور عاجزانہ تھا، استاد محترم کی زوجہ نے جگ سے پانی انڈیل کر ہمارے ہاتھ دھلوائے جب کہ ہمارے صوفے پر بیٹھ کر کھانا کھانے کے دوران ان کی بیٹی فرش پر ہی آرام سے بیٹھی رہیں۔ میں استاد محترم کی ابتدائی زندگی کے بارے میں جاننا چاہتی تھی کہ انہوں نے یہ مقام کیسے حاصل کیا۔ اس سوال کا جواب اور دیگر تمام سوالوں کے جواب مجھے ان سے لیے گئے انٹرویو میں ملے جو میں نے وہاں موجود تین جدید سٹوڈیوز میں سے ایک میں کیا۔ میں ایک گھنٹے سے زائد ان سے ان کی ذاتی زندگی کے بارے سوال کرتی رہی جس کا وہ بخوشی جواب دیتے رہے۔ اگرچہ استاد محترم نے گفتگو کے اختتام پر اقرار بھی کیا کہ میں نے ان سے وہ معلومات بھی لے لی ہیں جو شاید وہاں موجود افراد میں سے کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔
یہ ایک ناقابل بیان تجربہ تھا کہ میں ایسی ہستی کے ساتھ بنفس نفیس ملاقات کروں جس کامیری روز مرہ زندگی میں بہت گہرا اثر تھا چاہے وہ ذاتی عبادت ہو یا خاندانی معاملات یا سیاسی نظریات ہوں۔ لیکن جب میں انٹرویو لینے کے لیے بیٹھی اور استاد محترم سے اپنی کمزور اردو کے لیے معذرت کی (استاد محترم کے نزدیک میری اردو ٹھیک تھی بس لہجہ غیر متوازن تھا) تو اس کے بعد مجھے ایک گھر کا ماحول محسوس ہوا۔ یقیناََ کیونکہ مجازی طور پر میرے ہر دن کا آغاز استاد محترم کے ساتھ ہی ہوتا تھا کیوں کہ میں گھر میں بھی امور خانہ انجام دیتے ہوئے اپنا لیپ ٹاپ ساتھ اٹھائے پھرتی اور ان کے دروس سے مستفید ہوتی رہتی۔ لیکن اس سے بڑی وجہ یہ تھی کہ استاد محترم نے میرے سوالات بہت دھیان سے سنے اور ایمانداری سے ان کے مکمل جواب دئیے اور جہاں انہیں محسوس ہوتا کہ میرے ذہن میں ایک ضمنی سوال اٹھ رہا ہے وہ خود وہاں وقفہ کر لیتے۔ گو کہ ہم سٹوڈیو لائٹس اور کیمروں کے سامنے تھے لیکن پھر بھی مجھے ایسا لگا جیسے میں کسی گھر کے فرد یا پرانے دوست سے باتیں کررہی ہوں۔ مجھے یہ جان کر خاصی حیرت ہوئی کہ استاد محترم کا تعلق ایک بہت ہی سادہ سے گھرانے سے ہے۔ وہ 1962 میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع ہریپور ہزارہ کے ایک گاؤں ٹھپرا میں پیدا ہوئے (جہاں اکثریت سادات کی ہے)۔ اپنی والدہ کے اکلوتے بیٹے تھے جو ایک سادہ خاتون تھیں اور انہوں نے رسمی تعلیم بھی حاصل نہیں کی تھی۔4 سال کی عمر میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا جس کے بعد ان کی والدہ محترمہ نے ایک کمرے کے مکان میں رہتے ہوئے بچوں کی کفالت کا بیڑا اٹھایا۔ استاد محترم کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ نے ماں باپ دونوں کا کردار ادا کیا، اپنی چھوٹی سے زمین پر فصل کاشت کرتی تھیں اور انہوں نے اپنے 4 بچوں کی کفالت کے لیے ہر طرح کا کام کیا چاہے وہ کسی کے برتن دھونا ہو یا کپڑے دھونا۔
استاد محترم نے کہا کہ میری والدہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں اور پورا گاؤں یہ بات جانتا تھا۔ اگر کبھی بارش ہوتی اور ہماری چھت سے پانی ٹپکتا تو میری والدہ مجھے فورا حفاظت کے لیے پکڑ لیتیں کہ کہیں چھت نہ گر جائے۔
اگرچہ ان کی زندگی پر کوئی بڑا دینی اثر نہیں تھا پھر بھی استاد محترم کو بچپن ہی سے دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ میٹرک کے بعد استاد محترم نے اسلام آباد جاکر دینی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی جس پر ان کی والدہ پہلے تو ہچکچائیں لیکن پھر انہوں نے اجازت دے دی۔ قم مقدسہ ایران جاتے ہوئے استاد محترم اپنی والدہ اور بہنوں کو ساتھ ہی لے گئے۔ وہیں انہوں نے شادی کی اور ان کے 4 بچے دو بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں۔
سنہ 2010 میں پاکستان واپسی کے بعد سے استاد محترم نے 10 ہزار گھنٹوں پر مشتمل دروس دیے جن سے اسلامی مرکز سمیت دیگر سوشل میڈیا چینلز کے ذریعے پاکستان، بھارت اور کشمیر سمیت دنیا بھر سے لاکھوں اردو بولنے والے شیعہ سنی مستفید ہو رہے ہیں۔ بیرون ممالک مقیم بہت سے افرادان دروس سے متاثر ہو کر استاد محترم کی تحریک کا حصہ بننے کے لیے پاکستان لوٹ آئے ہیں۔
جہاں محبت ہو وہاں عداوت بھی ہوتی ہی ہے۔ استاد محترم کو ایرانی سپریم لیڈر امام سید علی خامنہ ای اور نظام ولایت فقیہ کی حمایت اور عالمی حالات پر آزادانہ تبصرہ (جو ہر جمعہ کو حالات حاضرہ کی بحث میں نشر کیا جاتا ) کی وجہ سے عالمی شہرت ملی ہے۔ استاد محترم امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف آواز اٹھانے میں ہچکچاتے نہیں ہیں چاہے وہ کوئی عالمی حکمران ہو، مغربی طرز کا فیمنسٹ ہو یا پوری دنیا میں ویکسین کا متعارف کروائے جانے کا معاملہ ہو۔ امریکی حکمت عملی کے ماہرین جیسے ہڈسن ادارہ ، مطبوعاتی ادارے جیسے فارن پالیسی اور ٹفٹس اور کلیمسن جیسی جامعات کے طلبا استاد محترم کی تحریک پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔
اپنے دعوے کے عین مطابق استاد محترم اپنے تمام اقدامات کا محور اتحاد و وحدت کو قرار دیتے ہیں چاہے ادارے میں شیعہ سنی اساتید کی بھرتی ہو یا شعبہ جات کے غیر مسلکی نام رکھنا ہو یا طلاب کو مطالعے کے لیے تمام مسالک کی کتب مہیا کرنا ہو۔استاد محترم باقاعدگی سے شیعہ سنی جید علمائے کرام، مفکرین اور دانشوروں کو وحدت کانفرنس میں مدعو کرتے ہیں تاکہ ناصرف فرقہ واریت کو ختم کیا جا سکے بلکہ پاکستان کے سیاسی، تعلیمی اور معاشی مسائل کا اسلامی حل تلاش کیا جا سکے۔ مکتب تسنن کے جماعت اسلامی اور منہاج القرآن جیسے جید اداروں کا ایک دہائی سے وحدت امت کے لیے کی جانے والی کوششوں میں شریک ہونا اور استاد محترم کو اپنے ہاں دعوت دینا ، یہ باہمی عزت و احترام باعث فخر ہے۔
دیوبندی مسلک کے جید عالم مولانا اشرف علی تھانوی کے پوتے مولانا منظر الحق تھانوی کا استاد محترم کے بارے میں کہنا تھا کہ میں انہیں اپنا امام مانتا ہوں لیکن آج انہوں نے مجھے ہی اپنا امام بنا دیا کیونکہ استاد محترم نے جامعہ عروۃ الوثقی میں منعقد ہونے والی گزشتہ وحدت کانفرنس میں انہیں نماز باجماعت کی امامت کی دعوت دی تھی۔ان کانفرنسوں کے نتیجے میں جو تعلقات میں مضبوطی آئی ہے ان کے ثمرات تمام پاکستانیوں کے لیے فائدہ مند ہیں اور امید ہے کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ان ثمرات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں،
وفاقی بورڈ:
جمعیت اہل الحدیث کے علامہ سید ضیااللہ شاہ بخاری نے اس سال فروری میں جامعہ عروۃ الوثقی اور دیگر جامعات کو وفاقی بورڈ کا درجہ ملنے میں بہت تعاون کیا تاکہ ملک بھر سے ان کے ساتھ الحاق کرنے والے مدارس کا معیار بہتر بنایا جا سکے۔
کورونا قرنطینہ مرکز:
گزشتہ برس طبی ماہرین کی ٹیم نے جامعہ عروتہ الوثقی میں خالی کمروں کو 100 بیڈز پر مشتمل قرنطینہ مرکز بنایا۔ جس میں شفایابی کی شرح سو فیصد رہی الحمدللہ۔ قرنطینہ مرکز کے افتتاح کے موقع پر ایک معروف سیاسی رہنما محترمہ مسرت جمشید چیمہ کا کہنا تھا کہ میں یہاں ریاست مدینہ دیکھ رہی ہوں ۔
مہمان خطباء:
گزشتہ ماہ محرم الحرام سنی جید علما جیسے جماعت اسلامی کے فرید احمد پراچہ صاحب، جامعہ بیت القرآن کے مفتی سید عاشق حسین صاحب اور صوفی مجلس عمل کے پیر غلام رسول اویسی صاحب نے مسجد بیت العتیق میں منعقد ہونے والی مجالس میں شرکت کی اور نواسہ رسول امام حسینؑ کی شہادت کی یاد میں خطاب کیا۔
حیران کن بات یہ ہے کہ استاد محترم کے ساتھی شیعہ علما ان پر بہت تنقید کرتے ہیں جس کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔بعض کو صرف اس پر اعتراض ہے کہ استاد محترم مجالس پڑھنے کے لیے بھاری رقوم وصول کرنے پر تنقید کرتے ہیں یا مقدسات اہل سنت کی توہین کو اسلام کے خلاف قرار دیتے ہیں جبکہ دیگر کو ان کی مقبولیت سے خطرہ محسوس ہوتا ہے اس لیے وہ لوگوں کو اکساتے ہیں کہ وہ استاد محترم کو اپنا مذہبی یا سیاسی رہنما نہ بنائیں۔ سید عارف رضوی، جو حالیہ برطانیہ سے پاکستان منتقل ہوئے ہیں تاکہ جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے ہسپتال، میڈیا اور شعبہ آئی ٹی میں خدمات انجام دے سکیں، ان کا کہنا ہے کہ ’اقبالؒ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بار پھر سید جواد نقوی کی صورت میں نعمت سے نوازا ہے۔ اگر ہم نے ان کی عزت اور قدر و قیمت نہ جانی تو نجانے کتنی صدیاں ہمیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ البتہ ایک بات یقینی ہے کہ خدا ایسی قوم ضرور لائے گا جو استاد محترم کی قدر جانے گی‘

نیوز میگزین کریسنٹ انٹرنیشنل میں شائع شدہ کالم کا لنک یہ ہے:
https://crescent.icit-digital.org/articles/non-sectarian-islamic-scholar-leads-movement-for-unity-in-pakistan

 

source: bethatnews.com

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 September 21 ، 15:11
عون نقوی

کربلا کے مبلغ حضرت امام سجاد (ع) کی حیات طیبہ کے درخشان ترین صفحات میں سے ایک، وہ خطبہ ہے جو آپ (ع) مسجد اموی میں دیا۔ امام سجاد (ع) بظاہر اسیر تھے لیکن قید و بند سے رہا مدعی بھی جہاد کے وہ مدارج طے کرنے کا تصور نہیں کر سکتے جو آپ (ص) نے اسیر و  زنجیر میں طے کئے اور اسی جہاد کا ایک اور مرحلہ طے کیا جو سیدالشہداء (ع) نے کربلا میں اپنی اور اپنے اصحاب و اولاد کی قربانی دے کر شروع کیا تھا۔ آپ (ع) نے اس دن شام کی سلطنت میں وہ حیرت انگیز انقلاب بپا کیا جس کا نہ اہل شام تصور کرسکتے تھے اور نہ ہی اہل کوفہ و حجاز؛ 40 سالوں سے جہل و نادانی کی دلدل میں گرفتار شامیوں کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کیا اور چالیس سالہ اموی مکر و فریب کا پردہ چاک کر کے رکھ دیا۔ روایت ہے کہ:

{روی أن یزید لعنه الله أمر بمنبر وخطیب لیخبر الناس بمساوی الحسین وعلی علیهما السلام وما فعلا، فصعد الخطیب المنبر فحمد الله وأثنى علیه ثم أکثر الوقیعة فی علی والحسین، وأطنب فی تقریظ معاویة ویزید لعنهما الله فذکر هما بکل جمیل، قال: فصاح به علی بن الحسین: ویلک أیها الخاطب اشتریت مرضاة المخلوق بسخط الخالق، فتبو أمقعدک من النار ثم قال علی بن الحسین علیه السلام: یا یزید ائذن لی حتى أصعد هذه الاعواد فأتکلم بکلمات لله فیهن رضا، ولهؤلاء الجلساء فیهن أجر وثواب، قال: فأبى یزید علیه ذلک فقال الناس: یا أمیر المؤمنین ائذن له فلیصعد المنبر فلعلنا نسمع منه شیئا فقال: إنه إن صعد لم ینزل إلا بفضیحتی وبفضیحة آل أبی سفیان فقیل له: یا أمیر المؤمنین وما قدر ما یحسن هذا ؟ فقال: إنه من أهل بیت قد زقوا العلم زقا قال: فلم یزالوا به حتى أذن له فصعد المنبر فحمد الله وأثنى علیه ثم خطب خطبة أبکى منها العیون، وأوجل منها القلوب، ثم قال: أیها الناس اعطینا ستا وفضلنا بسبع: اعطینا العلم، والحلم، والسماحة، والفصاحة، والشجاعة، والمحبة فی قلوب المؤمنین، وفضلنا بأن منا النبی المختار محمدا، ومنا الصدیق، ومنا الطیار، ومنا أسد الله وأسد رسوله، ومنا سبطا هذه الامة، من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی أنبأته بحسبی ونسبی أیها الناس أنا ابن مکة ومنى، أنا ابن زمزم والصفا، أنا ابن من حمل الرکن بأطراف الردا، أنا ابن خیر من ائتزر وارتدى، أنا ابن خیر من انتعل واحتفى، أنا ابن خیر من طاف وسعى، أنا ابن خیر من حج ولبى، أنا ابن من حمل على البراق فی الهوا، أنا ابن من اسری به من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى، أنا ابن من بلغ به جبرئیل إلى سدرة المنتهى، أنا ابن من دنا فتدلى فکان قاب قوسین أو أدنى، أنا ابن من صلى بملائکة السماء، أنا ابن من أوحى إلیه الجلیل ما أوحى، أنا ابن محمد المصطفى، أنا ابن علی المرتضى، أنا ابن من ضرب خراطیم الخلق حتى قالوا: لاإله إلا الله أنا ابن من ضرب بین یدی رسول الله بسیفین، وطعن برمحین، وهاجر الهجرتین، وبایع البیعتین، وقاتل ببدر وحنین، ولم یکفر بالله طرفة عین، أنا ابن صالح المؤمنین، ووارث النبیین، وقامع الملحدین، ویعسوب المسلمین، ونور المجاهدین وزین العابدین، وتاج البکائین، وأصبر الصابرین، وأفضل القائمین من آل یاسین رسول رب العالمین، أنا ابن المؤید بجبرئیل، المنصور بمیکائیل، أنا ابن المحامی عن حرم المسلمین، وقاتل المارقین والناکثین والقاسطین، والمجاهد أعداءه الناصبین وأفخر من مشى من قریش أجمعین، وأول من أجاب واستجاب لله ولرسوله من المؤمنین، وأول السابقین، وقاصم المعتدین، ومبید المشرکین، وسهم من مرامی الله على المنافقین، ولسان حکمة العابدین، وناصردین الله، وولی أمر الله، وبستان حکمة الله، وعیبة علمه سمح، سخی، بهی، بهلول، زکی، أبطحی، رضی، مقدام، همام صابر، صوام، مهذب، قوام، قاطع الاصلاب، ومفرق الاحزاب، أربطهم عنانا، وأثبتهم جنانا، وأمضاهم عزیمة، وأشدهم شکیمة، أسد باسل، یطحنهم فی الحروب إذا ازدلفت الاسنة، وقربت الاعنة، طحن الرحا ویذروهم فیها ذرو الریح الهشیم، لیث الحجاز، وکبش العراق، مکی مدنی خیفی عقبی بدری احدی شجری مهاجری، من العرب سیدها، ومن الوغى لیثها، وارث المشعرین وأبو السبطین: الحسن والحسین، ذاک جدی علی بن أبیطالب ثم قال: أنا ابن فاطمة الزهراء، أنا ابن سیدة النساء، فلم یزل یقول: أنا أنا، حتى ضج الناس بالبکاء والنحیب، وخشی یزید لعنه الله أن یکون فتنة فأمر المؤذن فقطع علیه الکلام فلما قال المؤذن الله أکبر الله أکبر قال علی: لا شئ أکبر من الله، فلما قال: أشهد أن لاإله إلا الله، قال علی بن الحسین: شهد بها شعری وبشری ولحمی ودمی، فلما قال المؤذن أشهد أن محمدا رسول الله التفت من فوق المنبر إلى یزید فقال: محمد هذا جدی أم جدک یا یزید ؟ فان زعمت أنه جدک فقد کذبت وکفرت، وإن زعمت أنه جدی فلم قتلت عترته ؟ قال: وفرغ المؤذن من الاذان والاقامة وتقدم یزید فصلى صلاة الظهر قال: وروی أنه کان فی مجلس یزید هذا حبر من أحبار الیهود فقال: من هذا الغلام یا أمیر المؤمنین ؟ قال: هو علی بن الحسین، قال: فمن الحسین ؟ قال: ابن علی بن أبی طالب، قال: فمن امه ؟ قال: امه فاطمة بنت محمد، فقال الحبر: یا سبحان الله ! فهذا ابن بنت نبیکم قتلتموه فی هذه السرعة ؟ بئسما خلفتموه فی ذریته والله لو ترک فینا موسى بن عمران سبطا من صلبه لظننا أنا کنا نعبده من دون ربنا وأنتم إنما فارقکم نبیکم بالامس، فوثبتم على ابنه فقتلتموه ؟ سوأة لکم من امة قال: فأمر به یزید لعنه الله فوجئ فی حلقه ثلاثا فقام الحبر وهو یقول: إن شئتم فاضربونی، وإن شئتم فاقتلونی أو فذرونی فانی أجد فی التوراة أن من قتل ذریة نبی لا یزال ملعونا أبدا ما بقی، فإذا مات یصلیه الله نار جهنم(۱)
روایت ہے کہ یزید نے منبر سجانے کا حکم دیا اور خطیب سے کہا کہ حسین اور علی علیہ السلام کی بد گوئی اور ان کے اعمال میں عیب جوئی کرے پس خطیب منبر پر بیٹھ گیا پس خدا کی حمد و ثناء کے بعد علی اور حسین علیہما السلام کی بدگوئی کی اور معاویہ اور یزید معاویہ اور یزید کی مداحی میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے اور تمام خوبیوں کو معاویہ اور یزید سے منسوب کیا۔ امام سجاد علیہ السلام نے چلا کر فرمایا: وائے ہو تم پر اے خطیب! تو نے خلق کی خوشنودی کے لئے اللہ کا غضب کمایا اور اپنا ٹھکانہ جھنم کی آگ میں قرار دیا ہے۔ 
امام علیہ السلام نے اس کے بعد یزید سے کہا: مجھے بھی اجازت ہے کہ میں ایسے اللہ کے کلمات بیان کروں جن میں اللہ کی خوشنودی اور حاضرین کے لئے اجر و ثواب ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ معاویہ بن یزید نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین انہیں منبر پر بیٹھنے دو شاید ہم ان سے کوئی بات سن لیں۔
یزید نے کہا کہ اگر وہ منبر پر بیٹھیں تو منبر سے اترنے سے پہلے ہی مجھے اور خاندان ابوسفیان کو ذلیل و رسوا کریں گے۔ لیکن عوام نے اصرار کیا اور کہا کہ یہ نوجوان ہیں کر ہی کیا سکتے ہیں؟
یزید نے کہا: یہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے افراد کو علم و دانش کی گھٹی دی جاتی ہے۔ شامیوں کے اصرار پر یزید کو بھی ماننا پڑا اور امام سجاد علیہ السلام کو منبر پر جانے کی اجازت دی اور ایسا خطبہ دیا کہ کہ تمام آنکھیں اشکبار ہوئیں اور تمام دل بے چین ہوگئے۔
فرمایا: اے لوگو! خداوند متعال نے ہم خاندان رسول (ص) کو چھ امتیازات سے نوازا ہے اور سات فضیلتوں سے ہمیں دوسروں پر فضیلت عطا فرمائی ہے؛ ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔ ہماری ساتھ فضیلتیں یہ ہیں:
1۔ خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد (ص) ہم سے ہیں۔
2۔ صدیق اکبر (امیرالمؤمنین علی) (ع) ہم سے ہیں۔
3۔ جعفر طیار ہم سے ہیں۔
4۔ شیر خدا اور شیر رسول خدا حضرت حمزہ سیدالشہداء ہم سے ہیں۔
5۔ اس امت کے دو سبط حسن و حسین (ع) ہم سے ہیں۔
6۔ زہرا بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اور
7۔ مہدی امت ہم سے ہیں۔
لوگو! جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا میں اپنے خاندان اور آباء و اجداد کو متعارف کرواکر اپنا تعارف کراتا ہوں۔
لوگو! میں مکہ و مِنٰی کا بیٹا ہوں، میں زمزم و صفا کا بیٹا ہوں، میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جس نے حجر اسود کو اپنی عبا سے اٹھا کر اپنے مقام پر نصب کیا، میں بہترینِ عالم کا بیٹا ہوں، میں اس ‏عظیم ہستی کا بیٹا ہوں جس نے احرام باندھا اور طواف کیا اور سعی بجا لائے، میں بہترین طواف کرنے والوں اور بہترین لبیک کہنے والوں کا بیٹا ہوں؛ میں اس بزرگ کا بیٹا ہوں جو براق پر سوار ہوئے، میں ان کا بیٹا ہوں بیٹا جنہوں نے معراج کی شب مسجدالحرام سے مسجدالاقصٰی کی طرف سیر کی میں اس ہستی کا بیٹا ہوں جن کو جیرائیل سدرۃ المنتہی تک لے گئے میں ان کا بیٹا ہوں جو زیادہ قریب ہوئے اور زیادہ قریب ہوئے تو وہ تھے دو کمان یا اس سے کم تر کے فاصلے پر میں ہوں اس والا صفات کا بیٹا جنہوں نے آسمان کے فرشتوں کے ہمراہ نماز ادا کی؛ میں ہوں بیٹا اس رسول کا جس کو خدائے بزرگ و برتر نے وحی بھیجی؛ میں محمد مصطفی (ص) اور علی مرتضی (ع) کا بیٹا ہوں۔
میں اس شخصیت کا بیٹا ہوں جس نے مشرکین اور اللہ کے نافرمانوں کی ناک خاک میں رگڑی حتی کہ کفار و مشرکین نے کلمہ توحید کا اقرار کیا؛ میں اس عظیم مجاہد کا بیٹا ہوں جنہوں نے رسول اللہ (ص) کی سامنے اور آپ (ص) کے رکاب میں دو تلواروں اور دو نیزوں سے جہاد کیا اور دوبار ہجرت کی اور دوبار رسول اللہ (ص) کے ہاتھ پر بیعت کی؛
بدر و حنین میں کفار کے خلاف شجاعانہ جہاد کیا اور لمحہ بھر کفر نہیں برتا؛ میں اس پیشوا کا بیٹا ہوں جو مؤمنین میں سب سے زیادہ نیک و صالح، انبیاء علیہم السلام کے وارث، ملحدین کا قلع قمع کرنے والے، مسلمانوں کے امیر، مجاہدوں کے روشن چراغ، عبادت کرنے والوں کی زینت، خوف خدا سے گریہ و بکاء کرنے والوں کے تاج، اور سب سے زیادہ صبر و استقامت کرنے والے اور آل یسین (یعنی آل محمد (ص) میں سب زیادہ قیام و عبادت کرنے والے والے ہیں۔ میرے داد امیرالمؤمنین (ع) وہ ہیں جن کو جبرائیل (ع) کی تائید و حمایت اور میکائیل (ع) کی مدد و نصرت حاصل ہے، میں مسلمانوں کی ناموس کے محافظ و پاسدار کا بیٹا ہوں؛ وہی جو مارقین (جنگ نہروان میں دین سے خارج ہونے والے خوارج)، ناکثین (پیمان شکنوں اور اہل جمل) اور قاسطین (صفین میں امیرالمؤمنین (ع) کے خلاف صف آرا ہونے والے اہل ستم) کو ہلاک کرنے والے ہیں، جنہوں نے اپنے ناصبی دشمنوں کے خلاف جہاد کیا۔ میں تمام قریشیوں کی سب سے افضل اور برتر و قابل فخر شخصیت کا بیٹا ہوں اور اولین مؤمن کا بیٹا ہوں جنہوں نے خدا اور رسول (ص) کی دعوت پر لبیک کہا اور سابقین میں سب سے اول، متجاوزین کو توڑ کر رکھنے والے اور مشرکین کو نیست و نابود کرنے والے تھے۔ میں اس شخصیت کا فرزند ہوں جو منافقین کے لئے اللہ کے پھینکے ہوئے تیر کی مانند، عبادت گذاروں کی زبان حکمت ، دین خدا کے حامی و یار و یاور، اللہ کے ولی امر(صاحب ولایت و خلافت)، حکمت الہیہ کا بوستان اور علوم الہیہ کے حامل تھے؛ وہ جوانمرد، سخی، حسین چہرے کے مالک، تمام نیکیوں اور اچھائیوں کے جامع، سید و سرور، پاک و طاہر، بزرگوار، ابطحی، اللہ کی مشیت پر بہت زیادہ راضی، دشواریوں میں پیش قدم، والا ہمت اور ارادہ کر کے ہدف کو بہر صورت حاصل کرنے والے، ہمیشہ روزہ رکھنے والے، ہر آلودگی سے پاک، بہت زیادہ نمازگزار اور بہت زیادہ قیام کرنے والے تھے؛ انھوں نے دشمنان اسلام کی کمر توڑ دی، اور کفر کی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر دیا؛ سب سے زیادہ صاحب جرأت، سب سے زیادہ صاحب قوت و شجاعت ہیبت، کفار کے مقابلے میں خلل ناپذیر، شیر دلاور، جب جنگ کے دوران نیزے آپس میں ٹکراتے اور جب فریقین کی اگلیں صفیں قریب ہو جاتی تھیں وہ کفار کو چکی کی مانند پیس دیتے تھے اور آندھی کی مانند منتشر کردیتے تھے۔
وہ حجاز کے شیر اور عراق کے سید و آقا ہیں جو مکی و مدنی و خیفی و عقبی، بدری و احدی و شجر؛ اور مہاجری (۲) ہیں جو تمام میدانوں میں حاضر رہے اور وہ سیدالعرب ہیں، میدان جنگ کے شیر دلاور، اور دو مشعروں کے وارث (۳) (اس امت کے دو) سبطین "حسن و حسین (ع)" کے والد ہیں؛ ہاں! یہ میرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
امام سجاد (ع) نے مزید فرمایا: میں فاطمہ زہرا (س) کا بیٹا ہوں میں عالمین کی تمام خواتین کی سیدہ کا بیٹا ہوں۔
پس امام سجاد (ع) نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اس قدر "انا انا" فرمایا کہ حاضرین دھاڑیں مار مار اور فریادیں کرتے ہوئے رونے لگے اور یزید شدید خوف و ہراس کا شکار ہوا کہ کہیں لوگ اس کے خلاف بغاوت نہ کریں پس اس نے مؤذن کو حکم دیا کہ اذان دے اور اس طرح اس نے امام (ع) کا کلام قطع کردیا۔
مؤذن نے کہا:  الله أکبر الله أکبر امام سجاد (ع) نے فرمایا: خدا سب سے بڑا ہے اور کوئی چیز بھی اس سے بڑی نہیں ہے۔
مؤذن نے کہا: أشهد أن لاإله إلا الله امام علی بن الحسین (ع) نے فرمایا: میرے بال، میری جلد، میرا گوشت اور میرا خون سب اللہ کی وحدانیت پر گواہی دیتے ہیں 
مؤذن نے کہا: أشهد أن محمدا رسول الله
امام (ع) نے سر سے عمامہ اتارا اور مؤذن سے مخاطب ہو کر فرمایا: اے مؤذن! تمہیں اسی محمد (ص) کا واسطہ، یہیں رک جاؤ لمحہ بھر، تا کہ میں ایک بات کہہ دوں؛ اور پھر منبر کے اوپر سے یزید بن معاویہ بن ابی سفیان سے مخاطب ہوئے اور فرمایا: اے یزید! کیا محمد (ص) میرے نانا ہیں یا تمہمارے؟ اگر کہو گے کہ تمہارے نانا ہیں تو جھوٹ بولو گے اور کافر ہو جاؤ گے اور اگر سمجھتے ہو کہ آپ (ص) میرے نانا ہیں تو بتاؤ کہ تم نے ان کی عترت اور خاندان کو قتل کیوں کیا اور تم نے میرے والد کو قتل کیا اور ان کے خاندان کو اسیر کیوں کیا؟
اس کے بعد مؤذن نے اذان مکمل کرلی اور یزید آگے کھڑا ہوگیا اور نماز ظہر ادا ہوئی۔ 
بحار الانوار کی جلد 45 میں روایت کو یوں جاری رکھا گیا ہے:
جب امام سجاد (ع) نے اپنا بلیغ خطبہ مکمل کیا مسجد میں موجود لوگوں کو سخت متاثر کیا اور ان کو بیدار کردیا اور انہیں جرات ملی تو "مسجد اور مجلس یزید میں موجود ایک یہودی عالم" نے یزید سے کہا: اے امیرالمؤمنین! یہ نوجوان کون ہے؟
یزید نے کہا: یہ علی بن الحسین ہے۔
یہودی نے کہا: حسین کون ہے؟
یزید نے کہا: وہ علی ابن ابی طالب کا بیٹا ہے۔
یہودی نے پوچھا: اس کی والدہ کون ہیں؟
یزید نے کہا: محمد (ص) کی بیٹی؛
یہودی نے کہا: سبحان اللہ! یہ (امام حسین (ع) تہمارے پیغمبر کی بیٹی کے فرزند ہیں جن کو تم نے اتنی تیزی سے  قتل کر دیا ہے؟! خدا کی قسم! اگر موسی بن عمران ہمارے درمیان کوئی فرزند چھوڑ کر جاتے تو ہم سمجھتے کہ اس کا پرستش کی حد تک احترام کرنا چاہئے اور تمہارے پیغمبر (ص) کل دنیا سے چلے گئے اور تم نے آج ان کے بیٹے کے خلاف بغاوت کردی اور انہیں تہہ تیغ کردیا؟ وائے بحال ہو تم امت کے!!
یزید غضبناک ہوا اور حکم دیا کہ یہودی عالم کو زد و کوب کیا جائے اور یہودی عالم اٹھا اور کہا: چاہو تو مجھے مارو اور چاہو تو مجھے قتل کرو! مجھے کوئی پروا نہیں ہے؛ یا چاہو تو مجھے چھوڑ دو کیونکہ میں نے تورات میں دیکھا ہے کہ جو کوئی پیغمبر کے فرزند کو قتل کرے گا وہ ہمیشہ کے لئے ملعون رہے گا اور اس کا ٹھکانا جہنم کی آگ میں ہے۔ (۵)
ایک اور روایت میں منقول ہے کہ امام علی بن الحسین (ع) نے فرمایا:

انا ابن الحسین القتیل بکربلا، انا ابن على المرتضى، انا ابن محمد المصطفى، انا ابن فاطمة الزهراء، انا ابن خدیجة الکبرى، انا ابن سدرة المنتهى، انا ابن شجرة طوبى، انا ابن المرمل بالدماء، انا ابن من بکى علیه الجن فی الظلماء، انا ابن من ناح علیه الطیور فی الهواء۔
میں حسین شہید کربلا کا بیٹا ہوں، میں علی مرتضی کا بیٹا ہوں، میں محمد مصطفی (ص) کا بیٹا ہوں، میں فاطمہ زہراء کا بیٹا ہوں، میں خدیجۃ الکبری کا بیٹا ہوں، میں سدرة المنتهی کا بیٹا ہوں، میں شجرہ طوبی کا بیٹا ہوں، میں اس سید و سرور کا بیٹا ہوں جو اپنے خون میں نہا گئے اور اس بزرگ کا بیٹا ہوں جن کے سوگ میں پرندوں نے ماتم اور گریہ کیا۔
اس طرح کہ امور سبب ہوئے کہ یزید کا غرور خاک میں مل گیا جائے اور وہ جشن و سرور چھوڑنے پر مجبور ہو گیا؛ اور خوشی منانا اور سیدالشہداء (ع) کے مبارک لبوں کو چھڑی مارنا اور جاہلانہ اشعار پڑھنا ترک کر دیا وہ پشیمان نہیں ہوا بلکہ  تھا ڈر گیا تھاکیونکہ جب امام سجاد (ع) نے خطبہ دیا اس وقت بھی یزید نے امام حسین (ع) کا قتل ابن زیاد سے منسوب کیا اور پشیمانی کا اظہار کیا لیکن اس کے بعد امام حسین (ع) کا سر مبارک اپنے محل کے دروازے پر لٹکایا جس سے پشیمانی ظاہر نہ ہو رہی تھی اور پھر جب اس کی زوجہ نے چادر پھینک دی اور چیختی اور روتی ہوئی دربار میں پہنچی اور کہا کہ اب تم فرزند رسول (ص) کا سر میرے گھر کے دروازے پر لٹکاؤ گے جس پر یزید نے ایک بار پھر پشیمانی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ خدا ابن زیاد پر لعنت کرے میں نے اس کو امام حسین (ع) کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا لیکن امام حسین (ع) کا سر اور اسیر خاندان دربار یزید میں تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پشیمانی ایک افسانہ ہے بات یہ ہے کہ جتنی کہ بغاوت کی فضا وسیع سے وسیع تر ہورہی تھی یزید کے خوف میں بھی اضافہ ہورہا تھا اور جب خوشی منانے اور فخر کرنے کے تمام اسباب و محرکات ناپید ہوگئے یزید نے خاندان رسول (ص) کی رہائی کا حکم دیا۔
سبط بن الجوزى، لکھتے ہیں کہ جب امام (ع) کا سر شام لایا گیا تو یزید خوش ہوا اور عبیداللہ بن زیاد بن ابیہ کے اقدام سے خوشنود ہوا اور اس کے لئے تحائف بھیجے، لیکن تھوڑے دن گذرنے کے بعد اس نے اس عمل سے عوام کی بیزاری اور غم و غصے کو محسوس کیا اور دیکھا کہ لوگ اس کو گالیاں دے رہے ہیں۔  اپنے حکم اور اپنےعمل سے پشیمان ہوا اور کہتا تھا کہ "خداوند ابن مرجانہ پر لعنت کرے جس نے امام حسین (ع) پر اتنی سختی کی کہ انھوں نے موت کو آسان سمجھا اور شہید ہوگئے! اور کہتا تھا کہ میں نے ابن زیاد کا کیا بگاڑا تھا جس نے مجھے لوگوں کے غضب کا نشانہ بنایا اور نیک لوگوں اور مجرموں کے دلوں میں میری دشمنی کا بیج بویا؟۔ (۶)
سیوطی کہتے ہیں:
{
فسر بقتلهم اولا ثم ندم لما مقته المسلمون على ذلک و ابغضه الناس و حق لهم ان یبغضوه!.(۷)
پس یزید ابتداء میں بہت مسرور ہوا اور جب لوگوں نے اس پر لعنت ملامت کی تو اپنے فعل پر "پشیمان" ہوا اور لوگوں نے اس سے بغض و دشمنی کی اور یہ ان کا حق تھا کہ اس سے نفرت کرتے۔
بہر حال تاریخ اسلام کے ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات ہیں جن میں فرمانروا اور بادشاہ جب کوئی کام کرتے اور عوام کے غصے کے اسباب فراہم ہوتے تو ان کی کوشش ہوتی کہ اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے اپنے غلط فعل کو دوسروں سے نسبت دیں اور اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیتے۔ چنانچہ یزید نے بھی بادشاہوں کی اسی عادت کے مطابق عمل کیا اور جب عقیلہ بنی ہاشم سیدہ ثانی زہراء (س) اور امام سجاد (ع) نے خطبے دیئے اور یزید رسوا ہو گیا، یزید کی بیوی ہند بنت عبداللہ بن عامر سر برہنہ دربار میں آئی، عیسائیوں اور یہودیوں نے اعتراض کیا، ابو برزہ اسلمی نے احتجاج کیا، یزید نے اپنی پالیسی فوری طور پر بدل دی اور امام حسین (ع) کے قتل کی ذمہ داری عبید اللہ بن زیاد پر عائد کی۔ کہتا تھا: "
لعن الله ابن مرجانة!" ، مرجانہ کے بیٹے پر اللہ کی لعنت ہو، حالانکہ جیسا کہ بیان ہوا یزید نے امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد ابن زیاد کو انعام و اکرام سے نوازا تھا اور اس کو بڑی رقم انعام کے طور پر بھجوائی اور جب وہ شام آیا تو یزید نے اس کو اپنے برابر میں بٹھایا اور اپنی حرمسرا میں اپنی عورتوں کے درمیان لے گیا جہاں رسول اللہ (ص) کی خلافت کے دعویدار یزید بن معاویہ بن ابی سفیان نے شراب ابن زیاد کے ساتھ مل کر ـ اپنے اس جرم عظیم پر خوشی مناتے ہوئے ـ شرابخواری کی اور یزید نے شراب کے نشے میں مست ہوکر اشعار کہے:
اسقنی شربة تروی مشاشی
ثم مل فاسق مثلها ابن زیاد
صاحب السر و الامانة عندی
و لتسدید مغنمی و جهادی
قاتل الخارجی اعنی حسینا
و مبید الاعداء و الاضداد

طبری کہتے ہیں:
{
فسر بقتلهم اولا و حسنت بذلک منزلة عبید الله عنده ثم لم یلبث الا قلیلا حتى ندم على قتل الحسین" ، حتی یقول: قال یزید: "لعن الله ابن مرجانة! فبغضنی الى المسلمین و زرع لی فی قلوبهم العداوة فبغضنی البر والفاجر بما استعظم الناس من قتلی حسینا!(۸)  
پس یزید امام حسین (ع) اور آپ (ع) کے افراد خاندان اور اصحاب و انصار کی شہادت پر خوش ہوا اور عبیداللہ بن زیاد کو بڑی منزلت دی لیکن تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ امام حسین (ع) کے قتل سے پشیمان ہوا اور کہنے لگا: "خدا لعنت کرے ابن مرجانہ پر! جس نے مجھے مسلمانوں کے غضب و نفرت کے قابل ٹہرایا اور ان کے دلوں میں میری دشمنی کا بیج بویا اور اب نیک لوگ بھی مجھ سے دشمنی کرتے ہیں اور برے لوگ بھی اس لئے کہ لوگوں نے میرے ہاتھوں امام حسین (ع) کے قتل کا واقعہ بہت ہی عظیم شمار کیا  ہے۔
شہید سید عبدالکریم ہاشمی نژاد یزید کی پشیمانی کے افسانے کی تردید کے حوالے سے متعدد دلائل اور ثبوت لاتے ہیں جن میں پانچویں دلیل مذکورہ بالا سطور کے مضمون سے مستند ہوئی ہے۔ لکھتے ہیں:
"ابو سفیان کا پوتا ابن مرجانہ کے بیٹے کے فعل سے نہ صرف پشیمان نہ تھا بلکہ وہ اس فعل سے بہت زیادہ خوش تھا اور اس نے واقعہ کربلا کے بعد جو رویہ ابن زیاد کے ساتھ روا رکھا وہ اس بات کی دلیل ہے۔ 
ابن اثیر نے لکھا ہے کہ: "جب امام حسین (ع) کا سر یزید کے سامنے لایا گیا تو وہ بہت زیادہ خوش ہوا اور اس کے عمل سے خوش حال، اور اس کو صلہ اور انعام و اکرام دیا"۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص امام حسین (ع) کا سر وصول کر کے عبید اللہ بن مرجانہ کے فعل سے خوشنود ہوتا ہے اور حتی کہ اس کو "اس خدمت کے صلے میں" انعام اکرام اور بڑی نقد رقوم سے نوازتا ہے، تو یہ بات کیونکر قابل قبول ہوسکتی ہے کہ "خداوند متعال ابن مرجانہ پر لعنت کرے جس نے حسین کو قتل کیا ہے جبکہ میں اس کے اس عمل سے راضی نہ تھا؟!۔ (۹) 
اہل سنت کے ایک دوسرے مؤرخ نے لکھا ہے:
{
... انّه استدعی ابن‏زیاداً الیه و اعطاه اموالاً کثیرةً و تحفاً عظیمةً و قرب منزله و ادخله علی نسائه و جعله ندیمه و سکر لیلة و قال للمغن غن ثم قال یزید بدیها
کربلا کے واقعے کے بعد یزید نے ابن زیاد کو اپنے پاس بلوایا اور بہت سے اموال اور عطیات اس کو عطا کئے اور اس کو قرب و منزلت سے نوازا اور اس کا رتبہ بڑھایا حتی کہ اس کو اپنا ندیم قرار دیا اور اس کو اپنی عورتوں گھسنے کی اجازت دی اور اپنی حرمسرا میں اس کے ساتھ ایک پوری رات شراب کے نشے میں بسر کی۔ اس رات یزید نے نغمہ سراؤں کو حکم دیا کہ گانے گائیں اور موسیقی بجائیں اور ہمارے لئے غنائی اشعار پڑھین اور پھر خود ہی فی البداہہ یہ اشعار کہے:

اسقنی شربة تروی ۔۔۔
ترجمہ:
"اے ساقی مجھے شراب پلاؤ جو میرے دل کو نشاط بخشے اور مجھے سیراب کردے
اور اس کے بعد میرا جام بھر دو اور وہی شراب ابن زیاد کو دے دو جو مجھے پلا رہے ہو
کہ وہ میرا صاحب اسرار (رازدان) اور میرا امین ہے
وہی جس کے ہاتھوں میری جنگ و غنیمت کی مشکل حل ہوگئی
یہ زیاد کا بیٹا جو اس مرد خارجی (!) یعنی حسین کا قاتل ہے۔
وہی جس نے میرے دشمنوں اور مجھ سے حسد کرنے والوں کے دلوں کو خوف سے بھر دیا"۔(۱۰)
امام سجاد (ع) نے اپنا تعارف کرایا اور امامت و رسالت کا شجرہ نامہ بیان کیا اور اس قدر اپنا تعارف کرانے میں بلاغت کے جوہر جگا دیئے کہ حاضرین بآواز بلند رونے لگے۔ یزید خوفزدہ ہوا کہ کہیں عوام اس کے خلاف انقلاب نہ کر دیں چنانچہ اس نے مؤذن کو اذان کا حکم دیا اور وہ ہوا جو بیان ہوا اور امام (ع) نے خوابیدہ ذہنوں کو جگا دیا۔
مسجد میں جمع ہونے والے شامی، جو اموی تبلیغات کے نتیجے میں غفلت سے دوچار ہو گئے تھے اور خاندان نبی (ص) کو نہیں جانتے تھے، امام سجاد (ع) کا خطبہ سن کر حقائق سے آگاہ ہوئے چنانچہ یزید نے اذان کے ذریعے امام (ع) کو خطبہ جاری رکھنے سے روک لیا اور ابن زیاد کو قصور وار ٹہرا کر اپنے آپ کے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی تا کہ مسجد میں موجود لوگوں کو یقین دلا سکے کہ یزید اس مسئلے میں بے قصور تھا لیکن ابھی اسیران اہل بیت شام میں تھے اور امام حسین (ع) اور دوسرے شہداء کے شام میں تھے لہذا یہ ممکن نہ تھا کہ لوگ اس کو بے گناہ سمجھیں۔

 

 


حوالہ جات:
۱۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ج۴۵،ص۱۳۷۔
۲۔ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار ج۴۵،ص۱۳۷۔

۳۔ طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج، ج۲، ص۱۳۲۔
۴۔ قرشی، باقر شریف، حیاۃ الامام الحسینؑ، ج۳، ص۳۹۵۔
۵۔ شیخ عباس قمی، نفس المہموم، ص۴۵۱
۶۔ فرہاد میرزا، قمقام زخار، ص۵۷۷۔
۷۔ سیوطی، جلال الدین، تاریخ الخلفاء، ج۱، ص۱۵۸۔
۸۔ ابن جوزی، یوسف بن قزاوعلی، تذکرة الخواص، ص۱۶۴۔
۹۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبرى، ج۵، ص۲۵۵۔
۱۰۔ مہدی قزلی، کتاب قصہ کربلا، ص۵۰۶۔
۱۱۔ ہاشمی نژاد، عبدالکریم، درسی کہ حسین بہ انسان ہا آموخت، ص۳۷۲۔

source: valiasr-aj.com

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 September 21 ، 12:05
عون نقوی