بصیرت اخبار

۹۱ مطلب با موضوع «مقالات عمومی» ثبت شده است

فقہ سیاسی کی ابحاث میں ایک اہم بحث (معونة الظالم) ظالمین کی مدد کرنا ہے۔ شیخ انصاری نے کتاب مکاسب میں اس بحث کے ذیل میں بہت سی روایات بھی نقل کی ہیں جن میں میں معصومین علیہم السلام نے حتی یہاں تک فرمایا کہ مباح کاموں میں بھی ظالمین کی مدد نہیں کرنی چاہیے۔ 

 

مثلا ایک روایت میں امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ کسی ظالم کے لیے ایک مشک کی گرہ کو کھولوں۔ یا ایک روایت میں آیا ہے کہ حتی مسجد بنانے میں بھی ظالم کی مدد نا کریں۔

معونة الظالم کی اقسام

فقہا نے ظالمین کی مدد کو دو قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

۱۔ حرام کاموں میں مدد

۲۔ حلال کاموں میں مدد

حرمت معونة الظالم کی شرائط

واضح ہے کہ حرام کاموں ظالم کی مدد حرام ہے لیکن حلال کاموں میں ظالم کی مدد کرنا دو شرائط کی اساس پر حرام ہے۔

امام خمینی کے مطابق اگر ظالم کی مدد کرنے سے اس کی تقویت لازم آتی ہو تو حرام ہے۔ لیکن اگر کسی کام سے اس کی تقویت لازم نا آتی ہو تو حرام نہیں ہے۔

اور دوسری شرط کے مطابق اگر کوئی ایسا کام انجام دیا جاۓ جس سے ظالم کے انصار شمار ہو تو حرام ہے۔ مثلا یہ کہا جاۓ کہ یہ شخص فلاں حکومت کا کارندہ ہے یا ان کے ہاں نوکری کرتا ہے۔ لیکن اگر مدد کرنے سے یہ لازم نا آۓ تو حرام نہیں ہے۔

نتیجه

معونة الظالم مطلق طور پر حرام نہیں ہے۔ لیکن اگر مدد سے ظالم کی تقویت ہوتی ہے یا ان کے نظام کا حصہ بننا پڑتا ہے تو حرام ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 09 February 25 ، 08:58
عون نقوی

ابوالحسن علی بن ہارون بن علی منجّم بغدادی (۲۷۶ھ - ۳۵۲ھ)، ۲۷۶ ہجری میں پیدا ہوئے اور مختلف علوم جیسے حدیث، نحو، ادب، فلسفہ، اور تاریخ میں مہارت حاصل کی۔ وہ اپنے دور کے خلفا اور وزرا کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے تھے اور کئی علمی و ادبی کتابیں لکھیں، جن میں اللفظ المحیط اور شہر رمضان شامل ہیں۔ ان کا انتقال ۳۵۲ ہجری میں ہوا۔

تعارف

علی بن ہارون صفر ۲۷۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔ وہ علمی اور ادبی میدان میں اعلیٰ مقام رکھتے تھے اور خلفا و وزرا کی محافل میں خاص مقام رکھتے تھے۔ ان کی تصانیف اور شاعری ان کے علمی مرتبے کی عکاسی کرتی ہیں۔

اساتذہ

علی بن ہارون نے بشر بن موسیٰ، محمد بن عباس یزدی، اور محمد بن احمد مقدمی سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ وہ نحو، ادب، فلسفہ، اور تاریخ کے بھی ماہر تھے۔

شاگردان

ان کے مشہور شاگردوں میں ان کے بیٹے احمد، حسن بن یحیی نوبختی، اور مرزبانی شامل ہیں۔

تصانیف

ان کی چند مشہور تصانیف یہ ہیں:

  • شہر رمضان
  • النوروز والمہرجان
  • الرد علی الخلیل فی العروض
  • القوافی
  • الفرق والمعیار بین الاوغاد والاحرار

وفات

علی بن ہارون ۳۵۲ ہجری میں جمادی الآخر کے مہینے میں ایک بدھ کے دن وفات پا گئے۔


منبع:

 پژوهشگاه فرهنگ و معارف اسلامی، دائرة المعارف مؤلفان اسلامی، برگرفته از مقاله «علی منجم»، ج۲، ص۳۱۱.

با تشکر از ویکی فقه فارسی

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 07 February 25 ، 13:35
عون نقوی

ابوالحسن علی بن حسین بن علی مسعودی ہذلی (وفات: ۳۴۶ ہجری) عبداللہ بن مسعود صحابی رسول اکرمؐ کی نسل سے تھے۔ وہ ایک مشہور مؤرخ اور دانشور تھے جو مصر میں مقیم رہے۔ مسعودی نے مختلف ممالک کے طویل سفر کیے اور ان سفروں سے مختلف اقوام اور ثقافتوں کے بارے میں قیمتی معلومات حاصل کیں۔ ان کی مشہور تصانیف میں مروج الذهب اور الطب النفوس شامل ہیں۔

تعارف

مسعودی کے آبائی شہر کے بارے میں مختلف آراء ہیں؛ بعض انہیں مغرب سے اور بعض بابل قدیم یا بغداد سے تعلق رکھنے والا کہتے ہیں، لیکن ان کا زیادہ تر وقت مصر میں گزرا۔ وہ علمی جستجو اور دیگر تہذیبوں کے مطالعے کے لیے مختلف اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے سفر پر گئے۔

مذہب

مسعودی کے مذہب کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ بعض علما انہیں شیعی معتزلی اور بعض شافعی کہتے ہیں۔ شیعہ علما، جیسے نجاشی، انہیں شیعہ امامی قرار دیتے ہیں، جو ان کی بعض تصانیف سے بھی واضح ہوتا ہے۔

اساتذہ

انہوں نے نفطویہ، ابن زبر قاضی، اور دیگر سے حدیث کی تعلیم حاصل کی۔

تصانیف

مسعودی کی تصانیف میں درج ذیل اہم کتابیں شامل ہیں:

  • مروج الذهب و معادن الجوهر
  • اخبار الزمان
  • التنبیہ والاشراف
  • طب النفوس
  • نظم الادلہ فی اصول الملہ
  • المسالک والممالک

وفات

مسعودی نے مصر میں طویل قیام کے بعد ۳۴۶ ہجری میں وفات پائی۔ وہ ایک عظیم عالم، مؤرخ، اور انساب و تاریخ کے ماہر تھے جن کی تصانیف علمی حلقوں میں آج بھی اہمیت رکھتی ہیں۔

 

منبع


• پژوهشگاه فرهنگ و معارف اسلامی، دائرة المعارف مؤلفان اسلامی، برگرفته از مقاله «علی مسعودی»، ج۲، ص۳۰۸.

با تشکر از ویکی فقہ فارسی۔

۰ نظر موافقین ۱ مخالفین ۰ 06 February 25 ، 17:52
عون نقوی

اس میں شک نہیں ہے کہ نہج البلاغہ کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار مرسل طریقہ (مرحوم سیدر ضی کی تالیف کے مطابق) سے بیان ہوئے ہیں ، یعنی ایسی اسناد جو ان کو معصومین سے متصل کردے ، ذکر نہیں ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے بعض لوگ شک و سوسہ کرتے ہیں ،خصوصا وہ لوگ جو تصور کرتے ہیں کہ نہج البلاغہ اپنے بلندمضامین کی وجہ سے ممکن ہے کہ مذہب شیعہ کی حقانیت اور تمام اصحاب پر حضرت علی (علیہ السلام) کی فضیلت و برتری پر سندو دلیل سمجھی جائے ، لہذا انہوں نے عام مسلمانوں کے افکار میں اس بزرگ کتاب کو ختم کرنے کیلئے بہانہ اور دستاویز قرار دیتے ہیں ۔

اگرچہ ان شک و شبہات نے مسلمان دانشوروں کے افکار میں کوئی اثر نہیں چھوڑا ، اور دونوں گروہوں کے علماء نے اس کی تعریف و تمجید میں اپنی زبانیں کھولی ہیں اور اس کے اسرار و رموز کی دقیق شرح بیان کی ہے جس کے بعض نمونوں کو گذشہ صفحات پر بیان کیا تھا ، لیکن ضروری ہے کہ ان وسوسوں اور شبہات کو دور کرنے کیلئے نہج البلاغہ کی اسناد کے سلسلہ میں ایک شرح دی جائے تاکہ یہ مختصر گرد و غبار اس کے نورانی چہرہ سے دور ہوجائے ۔

۱۔  نہج البلاغہ کے اکثر و بیشتر خطبات ، خطوط او رکلمات قصار مستدل ہیں یا ان کے اندر منطقی استدلال چھپا ہوا ہے ، درواقع نہج البلاغہ ایسا کلام ہے جس ےک بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ”قضایا قیاساتھا معھا“ ۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن کی دلیل خود انہی کے اندر موجود ہے ۔

 

اس بناء پر سلسلہ اسناد کی تعبدی مباحث کے عنوان سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے ایک عظیم حصہ میں اعتقادی تعلیمات ، قیامت، صفات خداوند ، قرآن کریم اور پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عظمت کے دلائل وغیرہ موجود ہیں ۔

دوسرے حصہ میں وعظ و نصیحت ، گذشتہ امتوں کی زندگی میں درس عبرت ، ملک کے قوانین ، اجتماعی زندگی اور جہاد کے آداب وغیرہ ہیں اور یہ تمام مسائل عام طور سے منطقی اور مستدل یا استدلال کے قابل ہیں ۔

جیسا کہ مختلف علوم کے علماء اور فلاسفہ کی کتابیں یہاں تک کہ بزرگ شعراء کے اشعار بغیر کسی سند و مدرک کے قابل قبول ہیں ، نہج البلاغہ کے مضامین کے سلسلہ میں بھی بدرجہ اولی یہی دلیل پیش کی جاسکتی ہے ، حقیقت میں ان کے دلائل خود اسی کتاب میں موجود ہیں ”قضایا قیاساتھا معھا“ !۔

صرف نہج البلاغہ کا ایک مختصر حصہ ایسا ہے جس میں احکام فرعیہ تعبدیہ بیان کئے گئے ہیں ، اگر سند کی بات کی جائے تو صرف اسی حصہ میں سند کی ضرورت ہے اور یہ نہج البلاغہ کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے ، اسی وجہ سے نہج البلاغہ کی اسناد کے متعلق بحث و گفتگو بہت کم رنگ یا کم اثر ہے ۔

۲۔  دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر نہج البلاغہ کیلئے حجیت سند کے معیار و ملاک کا مطالعہ کریں تو اس لحاظ سے کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ حدیث اور روایت کو قبول کرنے کے لئے (جیسا کہ علم اصول میں تحقیق ہوئی ہے) اصلی معیار و ملاک ، روایت پر اعتماد اور اطمینان ہے جو مختلف طرق سے حاصل ہوسکتا ہے کبھی کبھی مورد اعتماد سلسلہ سند کے راویوں کی وجہ سے روایت پر اعتماد کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی روایت کی کثرت اور تعدد کی وجہ سے (جو مشہور اورمعتبر کتابوں میں نقل ہوئی ہیں) اس طرح کا اعتماد حاصل کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی روایت کے مضامین اس قدر بلند وبالا ہوتے ہیں جو خود گواہی دیتے ہیں کہ یہ فقط پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یا امام معصوم (علیہ السلام) کی فکر کا نتیجہ ہیں، اور اسی کی وجہ سے ہم روایت پر اعتماد کرتے ہیں ۔

اسی مسئلہ کی طرح صحیفہ سجادیہ (اس کی معتبر اسناد کو نظر انداز کرتے ہوئے) یعنی بہت بلند و بالا دعائیں اوراس کے بہترین مضامین ہیں جو امام سجاد علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) سے صادر ہوئی ہیں ۔

بے شک جو بھی نہج البلاغہ کے خطبات اور اس کے تمام مضامین کو غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کرے گا اور اس کے اسرار کے گوشوں کو تلاش کرلے گا وہ اعتراف کرے گا کہ یہ ایک عام انسان کے کلمات نہیں ہیں ،یہ ایسا کلام ہے جو یقینا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یاامام معصوم (علیہ السلام) سے صادر ہوا ہے، شیعہ اور اہل سنت علماء کی تعبیر کے مطابق یہ ایسا کلام ہے جو مخلوق کے کلام سے برتر اور خالق کے کلام سے نیچے ہے ۔

اس بناء پر نہج البلاغہ کے مضامین اس کی سند کے معتبر اوراس کے معصوم (علیہ السلام) سے صادر ہونے پر دلیل ہیں اور جس معصوم (علیہ السلام) سے اس کو نسبت دی گئی وہ صرف اور صرف امام علی (علیہ السلام) ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہ انہی کا کلام ہے ۔

کون احتمال دے سکتا ہے کہ کوئی عام انسان یا دانشور اس کو جعل کرے اور پھر اس کی نسبت علی (علیہ السلام) کی طرف دیدے ؟!

جو کوئی ایسا کام کرسکتا ہے یا اس کے دسویں حصہ کا دسواں حصہ بھی ایجاد یا جعل کرسکتا ہے وہ اس کی نسبت اپنی طرف کیوں نہیں دے گا کیونکہ یہ پوری دنیا میں اس کے لئے افتخار کا مقام ہے ؟

اس کے علاوہ سید رضی اوران کی شخصیت اور وثاقت کے متعلق جو پہچان ہمیں ہیں اس کے ذریعہ ہم جانتے ہیں کہ جب تک وہ کسی روایت کو معتبر کتاب میں نہیں دیکھیں گے اس وقت تک اس کی نسبت یقینی طور پر حضرت علی (علیہ السلام) کی طرف نہیں دے سکتے، انہوں نے یہ ہرگز نہیں کہا ہے کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے روایت ہوئی ہے بلکہ یقینی طور پر کہا ہے یہ امام (علیہ السلام) کے خطبات، امام کے خطوط اور امام کے کلمات قصار ہیں ، کس طرح ممکن ہے کہ ایک دانشور جس کے پاس معتبر سند نہ ہو وہ اس قدر یقین کے ساتھ اپنے معصوم رہبر کی طرف ایسی نسبت دے ؟!

اس کے علاوہ سید رضی سے پہلے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں نہج البلاغہ کے بہت سے خطبات،خطوط اور کلمات قصار ذکر ہوئے ہیں اوراس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سید رضی سے پہلے یہ کلمات علماء ، حدیث کے روات، اور لوگوں کے درمیان مشہور و معروف تھے اور یہ شہرت ہمیں اس کی متصل اسناد سے بے نیاز کرسکتی ہے ۔یہاں تک کہ بعض بزرگ مورخین نے لکھا ہے کہ لوگوں کے درمیان نہج البلاغہ کے جو خطبات مشہور تھے ان کی مقدار اس سے زیادہ ہے جن کو سید رضی نے نہج البلاغہ میں جمع کیا ہے ،حقیقت میں نہج البلاغہ میں منتخب خطبوں کو جمع کیا ہے ۔

مشہور مورخ ”مسعودی“ نے جو کہ سید رضی سے ایک صدی قبل گزرے ہیں ، مروج الذہب میں امام (علیہ السلام) کے خطبوں کے متعلق کہا ہے :

”والذی حفظ الناس عنہ من خطبہ فی سائر مقاماتہ اربع ماة و نیف و ثمانون خطبة“ ۔ لوگوں نے امام (علیہ السلام) کے جن خطبوں کو مختلف جگہوں پر حفظ کیا ہے ان کی تعداد تقریبا چار سو اسی خطے ہیں (۱) ۔ جب کہ اس وقت ہمارے پاس نہج البلاغہ کے صرف دو سو چالیس خطبے ہین۔

ایک دوسرے مشہور دانشور ”سبط بن جوزی“ نے کتاب تذکرة الخواص میں سید مرتضی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے : امام (علیہ السلام) کے چار سو خطبے مجھ تک پہنچے ہیں (۲) ۔

مشہور مسلمان دانشمند جاحظ نے کتاب البیان والتبیین میں کہا ہے : علی (علیہ السلام) کے خطبے مدون، محفوظ اورمشہور تھے (۳) ۔

ایک دوسرے دانشور ابن واضح نے کتاب ”مشاکلة الناس لزمانھم“میں اس طرح کہا ہے : لوگوں نے امام علی (علیہ السلام) کے بہت سے خطبوں کو حفظ کیا ہے ،انہوں نے چار سو خطبے پڑھے ہیں اورلوگوں نے انہیں حفظ کیا اور یہ وہی ہیں جو ہمارے درمیان رایج ہیں اورتقریروں میں ان سے استفادہ کرتے ہیں (۴) ۔

آج بھی ہمارے پاس نہج البلاغہ کے مصادر واسناد کے عنوان سے ایک کتاب موجود ہے جس کو معاصر فضلاء نے لکھی ہے اور ان خطبوں کی ان اسناد کو جو سید رضی سے پہلے کتابوں میں لکھی گئی ہیں ان کو تلاش کرکے ایک بہترین مجموعہ میں شایع کیا ہے،اس سلسلہ میں ایک بہترین کتاب، محقق السید عبدالزھراء الحسینی الخطیب کی ”مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ“ ہے ،جس میں مراجعہ کرنے والے ہر محقق کو اس حقیقت سے واقف کردیتی ہے کہ سید رضی نے تنہا ان خطبوں کو نقل نہیں کیا ہے ۔

۱۔  مروج الذہب ، ج ۲، ص ۴۱۹، طبع دارالہجرہ قم۔

۲۔  تذکرة الخواص، ص ۱۲۸۔

۳۔  البیان و التبیین ، ج ۱، ص ۸۳۔

۴۔  مشاکلةالناس لزمانھم ، ص ۱۵۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس کتاب میں نہج البلاغہ کے متعلق ۱۱۴کتابوں کو جمع کیا ہے جن میں سے بیس کتابیں ایسے دانشوروں کی ہیں جو سید رضی سے پہلے زندگی بسر کرتے تھے ۔ خواہشمند حضرات زیادہ تفصیلات معلوم کرنے کیلئے اس کتاب میں مراجعہ کریں کیونکہ اس مختصر مقدمہ میں اس سے زیادہ بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے  ۔

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ سید رضی نے نہج البلاغہ میں اپنے کلمات کے درمیان (جو کہ انہوں نے خطبوں کی وضاحت کرتے ہوئے ذکر کی ہیں) تقریبا ۱۵

 کتابوں کا نام ذکر کیا ہے جن سے انہوں نے نہج البلاغہ کو جمع کرنے میں استفادہ کیا ہے (۱) ۔

جو کچھ مندرجہ بالا کہا گیا ہے اس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ نہج البلاغہ کی اسناد کے متعلق شک و وسوسہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔


balaghah.net

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 August 23 ، 18:32
عون نقوی

کتاب: مقیاس الرواۃ فی علم الرجال

مصنف: آیت اللہ سیفی مازندرانی

مدرس: استاد حسن رضوی

اس کتاب کا پہلا نسخہ علامہ تقی مجلسی کا نسخہ تھا۔ یہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اس کتاب کو متعارف کیا اور اپنی کتابوں میں اس سے روایات نقل کیں۔ اس کے بعد ان کے فرزند علامہ مجلسی نے بھی اس کتاب سے روایات نقل کیں۔ اس کتاب کا واقعہ محدث نوری نے لکھا ہے کہ تقی مجلسی حج پر گئے ہوۓ تھے۔ انہوں نے مجلسی کو ایک نسخہ دیا اور کہا کہ یہ کتاب امام رضاؑ سے منسوب ہے۔ اور خط بھی یہ امام رضاؑ کا ہے۔ قاضی امیر حسین خود ثقہ شخص تھے انہوں نے یہ بیان کیا تھا کہ ان کے آباء کے طریق سے یہ کتاب ان تک پہنچی اور اس میں فقہ امام رضاؑ درج ہے۔ تقی مجلسی سے انہوں نے تصدیق کروانا چاہی انہوں نے اس کتاب کو پڑھا اور کہا کہ میں تصدیق کرتا ہوں کہ یہ امام رضاؑ کی ہے۔ اس کو کہتے ہیں کتاب کا وجادتا پہنچ جانا۔ یہ نسخہ قدیمی کا کیا اعتبار ہے؟ اس کا علم نہیں ہوتا تو علماء وجادتا نسخہ کو معتبر نہیں مانتے۔ اس میں چند احادیث ہیں اور بعض قرائن کی بنا پر اس کو معتبر قرار دیتے ہیں لیکن بعض علماء اس کو رد کرتے ہیں۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 March 23 ، 13:53
عون نقوی