بصیرت اخبار

۱۹۷ مطلب با موضوع «مقالات سیاسی» ثبت شده است

بیسویں صدی، امریکی خوابوں کی صدی ہے، وہ امریکہ جو ہمیشہ دعوی کرتا تھا کہ دنیا، اس کے اشاروں پر چلتی ہے۔ سن 1991 میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر جانے اور دنیا کے یک قطبی ہو جانے کے بعد بش سینیر نے اسی دعوے کے تسلسل میں پچھلے عالمی نظام کے خاتمے کی بات کہی جبکہ سیاسی مفکرین اور تجزیہ نگاروں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے دنیا پر امریکا کے بلا شرکت غیرے راج کرنے کے عہد کی شروعات اور امریکی صدی کے آغاز کی نوید دی اور کہا کہ اب آئندہ امریکی طرز زندگی، اقدار اور ثقافت ساری دنیا میں رائج ہوگی۔

طے یہ تھا کہ امریکا، سرمایہ داری، جمہوریت اور انسانی حقوق جیسے اپنے نام نہاد کارناموں کو دنیا کے دوسرے ممالک کے سامنے پیش کرے گا اور خودمختار، جمہوری اور آزاد اقوام کی تخلیق کرے گا لیکن اکیسویں صدی میں رونما ہونے والے عالمی حالات نے دکھا دیا کہ یہ دعوی کس حد تک بے بنیاد ہے اور اسی وجہ سے بہت سے لوگ اس دعوے پر شک کرنے لگے اگرچہ بش سینیر نے بھی فوکویاما کے تاریخ کے خاتمے اور ہینٹنگٹن کے تمدنوں کے ٹکراؤ کے نظریے کا ساتھ دیا اور امریکا کی چیمپیئن والی شبیہ کو باقی رکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن بہت سے دوسرے لوگوں نے اسی وقت امریکا کے زوال کی علامتوں کو محسوس کر لیا تھا۔ نوآم چامسکی ان پہلے افراد میں تھے جنھوں نے ان علامتوں کا اعلان کیا اور دنیا پر امریکا کی برتری کے تصور کو خوش فہمی قرار دیا۔ کیٹو انسٹی ٹیوٹ کے رکن پروفیسر ٹیڈ گیلن کارپینٹر نے پہلی بار "دیمکوں والے زوال" کی اصطلاح استعمال کر کے متعدد جنگیں بھڑکانے اور اپنے حریفوں سے پچھڑ جانے کے سبب امریکی طاقت کے تدریجی زوال کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ خود ٹرمپ نے اس زوال کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا اور امریکی عظمت کی بحالی کو اپنا انتخابی نعرہ قرار دیا۔ اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکی اقتدار میں خود ان کی موجودگی، امریکا کے زوال کی واضح نشانیوں میں سے ایک ہے۔

ایک طرف زوال شروع ہو گیا لیکن دوسری طرف امریکا نے دنیا میں اپنی طاقتور امیج بچانے کے لیے ہالی ووڈ کا سہارا لیا جو خواب فروخت کرنے میں ماہر ہے۔ امریکی اپنی خیالی امیج، فلم کی صورت میں پیش کرتے تھے اور دنیا سے تعاون حاصل کرتے تھے۔ البتہ حقیقی دنیا میں مغربی ایشیا میں امریکا کی خونریز جنگوں کا نتیجہ، سیاسی و سماجی حتی معاشی بحرانوں، ٹرمپ جیسے صدر کے سامنے آنے اور کورونا کے زمانے میں مختلف طرح کی سماجی مشکلات کی شکل میں سامنے آیا اور امریکا کی اس تصوراتی امیج پر متعدد سوالیہ نشان لگ گئے۔ 

امریکی جاسوسی کے اڈے پر طلبہ کے قبضے نے امریکی ساکھ مٹی میں ملا دی

حالانکہ آج دنیا امریکا کے زوال کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر رہی ہے اور اس کے تسلط کی شکست کا مشاہدہ کر رہی ہے لیکن اس سے پہلے کے برسوں حتی سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے سے بھی پہلے دنیا کے اس حصے میں، اسلامی انقلاب کے ذریعے امریکا کی آمریت کو ایک نیا چیلنج پیش کر دیا گیا تھا اور اس میں اصل کردار صرف ایران کا تھا۔ اگرچہ امریکا نے بظاہر یہ طے کر رکھا تھا کہ وہ ایران کے انقلابیوں اور پہلوی حکومت کے تنازعے میں شامل نہیں ہوگا اور ایران کے شاہ کو پناہ دینے جیسے مسئلے کو وہ انسانی حقوق کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کرتا تھا لیکن تہران میں اس کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے اور اسلامی انقلاب کے خلاف اس کے معاندانہ اقدامات کے دستاویز سامنے آنے کے بعد سبھی پر یہ بات واضح ہو گئی کہ ایران کا زیادہ بڑا دشمن کون ہے اور کس طرح  ایرانی قوم کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہا ہے؟ یہ چیز اس سے پہلے انیس اگست 1953 کی بغاوت میں بھی دیکھی جا چکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام جمہوریہ ایران کے بانی اور اسلامی انقلاب کے پہلے قائد، حضرت امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس واقعے کو دوسرے انقلاب کا نام دیا اور کہا کہ یہ انقلاب، پہلے انقلاب سے بھی بڑا ہے کیونکہ اس نے زیادہ بڑے دشمن سے جنگ کی ہے۔ 

امریکا کے سفارتخانے یا جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے بہت سے سیاسی، سیکورٹی حتی معاشی پہلو ہیں اور مختلف زاویوں سے اس واقعے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس واقعے کا ایک انتہائی اہم پہلو، دنیا میں امریکی تمدن پر سوالیہ نشان لگنا ہے۔ آپ سوچیے کہ وہ ملک جو یہ دعوی کرتا ہے کہ عالمی برادری کا نظام چلانے والا ہے اور پوری دنیا پر اس کا تسلط ہے، اسی ملک کو نوجوان طلباء کی جانب سے، جو کسی بھی طاقت سے وابستہ نہیں تھے، چیلنج کر دیا جائے، وہ بھی اس ملک میں جہاں ابھی ابھی انقلاب آیا ہو اور وہ بڑا متزلزل دکھائی دے رہا ہو، وہ بھی مغربی ایشیا کے علاقے میں، جسے امریکی ہمیشہ کمزور اور مغربی مینیجمنٹ کا محتاج بتاتے رہے ہوں! ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کا واقعہ امریکی عظمت کی عکاسی کرنے والی اس تصوراتی امیج کے لیے کتنا خطرناک سمجھا گیا ہوگا؟! ایک طرف اپنے یرغمالوں کو چھڑانے کے لیے امریکا کی متعدد اور لگاتار کوششیں اور دوسری طرف دنیا کے دیگر ملکوں میں سفارتخانے میں طلباء کے داخل ہونے کی تصویروں پر زبردست سینسر وہ اقدامات تھے جو امریکا نے اپنی اس عالمی فضیحت کو روکنے کے لیے انجام دیے۔ امریکیوں نے شروع سے ہی یہ پروپیگنڈا کیا کہ معاملہ "ایران میں سفارت کاروں کو یرغمال بنائے جانے" کا ہے، تاکہ ایران کے انقلابیوں کو دنیا کے سامنے یہ حقیقت بے نقاب کرنے کا موقع نہ ملے کہ یہ امریکی"جاسوسی کے اڈے پر قبضہ" کئے جانے کا معاملہ ہے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ سفارتخانے کے کارکنوں کی گرفتاری پر ہنگامہ مچا کر، جن میں سے زیادہ تر سی آئی اے کے ایجنٹ تھے، جاسوسی اور ایک قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے معاملے کو انسانی حقوق کے نعروں کی آڑ میں چھپا دیں۔ امریکیوں نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ یرغمالوں کو چھڑانے کے لیے انھوں نے جو آپریشن شروع کیا تھا، وہ طبس میں کیسے ذلت آمیز طریقے سے ناکام ہوا بلکہ انھوں نے کوشش کی کہ فریبکاری سے کام لے کر اور ہالی ووڈ کی طرز پر حقیقت کو برعکس دکھا کر دنیا میں اپنی برتری اور ہیرو والی  امیج کو باقی رکھیں۔ اس کے باوجود تاریخ جانتی ہے کہ عالمی رائے عامہ کے، امریکی حقیقت کو سمجھنے سے برسوں پہلے ایران کے انقلاب نے دنیا میں امریکا کی جھوٹی امیج کو تار تار کرنے کی راہ ہموار کر دی تھی۔

امریکی تسلط کی شکست کیوں اہم ہے؟

امریکا نے اپنا تشخص، دنیا پر برتری سے جوڑ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ یہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو کچھ بھی امتیاز دیے بغیر اسے پوائنٹس ملیں تاکہ وہ دنیا پر حکمرانی کرتا رہے۔ قرآن مجید اس خصلت کو استکبار کا نام دیتا ہے جسے آج کی زبان میں سامراج یا استعمار کہا جاتا ہے۔ استکبار کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ہے اور اور اپنی اس بڑائی کو بچانے کے لیے دوسروں کو چھوٹا یا حقیر سمجھتا ہے۔ اسی لیے وہ کوشش کرتا ہے کہ دیگر اقوام کے مضبوط پہلوؤ‎ں کو تباہ کر دے۔ سامراج اپنی وسیع پروپیگنڈہ مشینری کے سہارے ایسے کام کرتا ہے کہ بڑی اقوام، اس کی بڑائی کو تسلیم کر لیں اور خود کو اس کے مقابلے میں ہیچ سمجھیں اور اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر دیں۔ استکبار سے مقابلے کا پہلا قدم، اس کی اسی تسلط پسندی پر وار کرنا ہے۔ پہلے کوئی ایسا کام ہونا چاہیے کہ اس کی یہ کھوکھلی عظمت زمیں بوس ہو جائے اور پھر اس کے بعد دھیرے دھیرے اس کی حقیقت سامنے آتی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب نے شروع سے ہی اپنا مقابل نہ صرف پہلوی حکومت کو بلکہ اس سے بڑے یعنی عالمی سامراج کو سمجھا اور شروع سے ہی اس سے مقابلے کی کوشش کی۔ اس نے دنیا کو تسلط پسندوں اور تسلط کا نشانہ بننے والوں میں تقسیم کرنے کے تسلیم شدہ اصول کو توڑ دیا۔ اگرچہ فروری 1979 میں اسلامی انقلاب کی کامیابی، اس مقابلے کا پہلا قدم تھا لیکن اسلام اور سامراج کے درمیان زیادہ کھل کر لڑائی، امریکا کے جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے ساتھ شروع ہوئی اور اس بار وہ لوگ، جنھیں ہمیشہ چھوٹا سمجھا گیا تھا، امریکا کے مقابلے میں ڈٹ گئے جو ہمیشہ اپنے کو بڑا ظاہر کرتا رہا تھا اور ان لوگوں نے کھیل کا میدان بدل دیا۔ اس اقدام کا پہلا اثر یہ تھا کہ دنیا کی دیگر مظلوم اقوام کو یہ پیغام ملا کہ وہ اپنے آپ کو سامراجی طاقتوں کے سامنے چھوٹا نہ سمجھیں بلکہ وہ اپنی توانائیوں پر بھروسہ کر کے اپنی خودمختاری کی حفاظت کر سکتی ہیں۔ سامراج کے مقابلے میں 

 اپنی توانائیوں پر یہی یقین ہے جس نے استقامت کے محاذ کو مضبوط بنا دیا ہے اور اس کے اراکین کو دنیا میں حق کے حصول کی خود اعتمادی عطا کی ہے۔(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 04 November 21 ، 17:42
عون نقوی

:Imam Khamenei

The Hollywood pictures the US produces about its army are untrue. [Oct. 3, 2021]

 

 


:Refernce

.Official website leader khamenei

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 November 21 ، 18:40
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

اسلامی جمہوریہ ایران اور ہمارے اس انقلاب اسلامی کے اہداف میں سے ایک اہم ترین ہدف نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل ہے۔ نئی اسلامی تہذیب کی تشکیل شیعہ سنی اتحاد کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ کام صرف ایک ملک اور ایک فرقہ نہیں کر سکتا۔

اصلی متن

یکی از اهداف نظام جمهوری اسلامی و اهداف انقلاب اسلامی، ایجاد تمدّن نوین اسلامی است. این کار جز با اتّحاد شیعه و سنّی امکان‌پذیر نیست؛ این را تنها یک کشور و یک فرقه نمیتواند انجام بدهد؛ برای این بایستی همه با هم همکاری کنند.(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 03 November 21 ، 17:30
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

اردو ترجمہ

اسلامی جمہوری ایران میں ہم مسلمانوں کے اتحاد پر بہت زور دیتے ہیں، یعنی ابھی بہت طویل سفر ہے جو ہمیں طے کرنا ہے۔ آج مسلمانوں کے فرقوں، شیعہ اور سنی کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے۔ سنجیدہ اور منصوبہ بندی کوشش جاری ہے۔ آپ نے دیکھا، آج امریکی سیاسی ادب میں "شیعہ" اور "سنی" کے الفاظ داخل ہو چکے ہیں! امریکیوں کا شیعہ اور سنی سے کیا تعلق؟ اب کئی سالوں سے امریکی سیاسی لٹریچر میں سنی اور شیعہ ہونے کا مسئلہ پیش کیا جا رہا ہے، ہاں، کچھ ممالک شیعہ ہیں، کچھ ممالک سنی ہیں۔ اگرچہ وہ اسلام کے ہی سرے سے مخالف ہیں، لیکن وہ شیعہ اور سنی کے معاملے کو نہیں چھوڑتے۔ تو یہ چیزیں ہیں جن کی طرف مسلمانوں کو متووجہ ہونا چاہیے۔ وہ دن بدن اختلافات بڑھا رہے ہیں، غلط فہمیاں بڑھا رہے ہیں۔ اس لیے ہم زور دیتے ہیں اور یہی ہمارے وحدت مسلمین کے موضوع پر زور دینے کی وجہ ہے۔ آپ نے دیکھا کہ امریکی دست پروردہ دنیا میں جہاں کہیں بھی جاتے ہیں فتنہ ایجاد کرے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال افغانستان میں گزشتہ دو جمعہ کے دوران ہونے والے افسوسناک اور رلا دینے والے واقعات ہیں جن میں مسلمانوں کی مسجد کو اس وقت دھماکے سے اڑا دیا گیا جب وہ نماز ادا کر رہے تھے، دھماکہ کون کر رہا ہے؟ Isis داعش! داعش کون ہے؟ ISIS وہ گروہ ہے جسے امریکیوں نے یہی ڈیموکریٹس کا گروپ جو امریکہ میں [اب اقتدار میں ہے] جنہوں نے واضح طور پر کہا کہ داعش کو ہم نے تخلیق کیا ہے۔ بے شک اب نہیں کہتے، اب انکار کرتے ہیں، لیکن ایسا ہی ہے، یہ بات انہوں نے صراحت کے ساتھ بیان کی ہے۔

اصلی متن

ما در جمهوری اسلامی بر وحدت مسلمین، زیاد تأکید میکنیم، این است که فاصله زیاد است. امروز مرتّباً تلاش میشود که بین فِرَق مسلمین، بین شیعه و سنّی اختلاف ایجاد بشود؛ تلاش جدّی و برنامه‌ریزی‌شده. شما ملاحظه کنید، امروز کلمه‌ی «شیعه» و «سنّی» وارد ادبیّات سیاسی آمریکا شده! آمریکایی‌ها به شیعه و سنّی چه‌ کار دارند؟ چند سال است که در ادبیّات سیاسیِ آمریکا مسئله‌ی سنّی بودن و شیعه بودن وارد شده، که بله، فلان کشور شیعه‌اند، فلان کشور سنّی‌اند؛ با اینکه آنها با اصل اسلام مخالفند و دشمنند امّا مسئله‌ی شیعه و سنّی را رها نمیکنند. پس این چیزها هست؛ اختلافات را روزبه‌روز دارند زیاد میکنند، سوءتفاهم‌ها را زیاد میکنند. بنابراین ما تأکید میکنیم و علّت تأکید ما این است. و ملاحظه هم میکنید که دست‌آموزهای آمریکا در هر جای دنیای اسلام که بتوانند، فتنه ایجاد میکنند. نزدیک‌ترین نمونه‌اش همین حوادث تأسّف‌بار و گریه‌آور افغانستان در این دو جمعه‌ی گذشته است که مسجد مردمِ مسلمان و در حال نماز را منفجر کردند، چه کسی منفجر میکند؟ داعش؛ داعش کیست؟ داعش همان مجموعه‌ای است که آمریکایی‌ها ــ همین گروه دموکرات آمریکا [که الان در قدرتند] ــ صریحاً گفتند که این را ما به وجود آورده‌ایم؛ البتّه حالا نمیگویند، حالا انکار میکنند، امّا این از آنها سر زده، این را صریحاً بیان کرده‌اند.(۱)

 

 


حوالہ:

۱۔ آفیشل ویب سائٹ رہبر معظم۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 November 21 ، 16:50
عون نقوی

رہبر معظم امام خامنہ ای دام ظلہ العالی

جو شخص قرآن کا پیروکار ہے اور قرآن اور قرآن کے احکام سے واقف ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہی وہ اسلام ہے جس کو قرآن متعارف کراتا ہے۔ قرآن جس اسلام کی تعریف اور تعارف پیش کرتا ہے وہ اسلام ہے جو زندگی کے تمام پہلوؤں میں شامل ہے، رائے رکھتا ہے، آراء رکھتا ہے، مطالبات رکھتا ہے۔ جی ہاں، آپ کو یہ جاننا ہوگا، اور آپ کو ان لوگوں کو جواب دینا ہوگا جو اس واضح حقیقت کو جھٹلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

کسی که اهل قرآن است و با قرآن و احکام قرآن آشنا است، میفهمد که اسلامی که قرآن معرّفی میکند، این است. اسلامی که قرآن معیّن میکند و معرّفی میکند، اسلامی است که در تمام شئون زندگی دخالت دارد، رأی دارد، نظر دارد، مطالبه دارد.

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 02 November 21 ، 16:26
عون نقوی