ملکی سیاسی صورت حال
سرمایہ کاری اور اس سے متعلقہ شعبوں میں انجماد
پاکستان میں سیاسی آشوب تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور اس کے اندر روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور غیر یقینی حالت مزید غیر یقینی تر ہوتی جا رہی ہے جس نے عملاً ملک کو مفلوج کر دیا ہے۔ پوری ملکی مشینری خواہ وہ حکومتی ہو یا نجی اور کاروباری ہو وہ اس وقت منجمد ہے۔ سرمایہ، سرمایہ کاری اور ان شعبوں سے متعلق منصوبہ بندی انجماد کا شکار ہے۔ کسی بھی ملک میں سیاسی ابتری نقصان دہ ہے اور پاکستان جہاں پہلے سے کمزور اقتصاد ہے اور جہاں شروع سے کمزوری چلی آ رہی ہے ان حالات نے اسے مزید بڑھا دیا ہے۔ خطرناک اور تشویشناک افواہیں گردش کر رہی ہیں جس نے ہر طبقے کو متأثر کر دیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے اخباروں اور دیگر میڈیا میں با قا عدہ طور پر یہ چیز منتقل ہو رہی ہے جبکہ پہلے اسے پنہاں رکھتے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ جو پاکستان کا اصل مقتدر طبقہ ہے اور اصل اقتدا ر اور طاقت جس کے ہاتھ میں ہے انہوں نے ایک سال پہلے یہ تشخیص دیا تھا کہ اگر چھ مہینے تک میڈیا مثبت رپورٹنگ کرے اور ہر چیز کا مثبت چہرہ پیش کرتے تو حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ ایسا ہوا ہے کہ میڈیا نے باقاعدہ طور پر خرابیوں اور کمزوریوں کو بھی مثبت بنا کر پیش کیا ہے اور بڑھا چڑھا کر مبالغے کر کے پیش کیا ہے لیکن اس درمان نے بھی کوئی آفاقہ نہیں کیا اور حالت پہلے سے زیادہ خراب ہو تی جا رہی ہے۔ سیاسی اور حکومتی اقدامات تشویش کو مزید بڑھا رہے ہیں ۔ ملک کے اندر انتقامی سیاست جار ی ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہی۔
عالمی ماہرین کے نسخوں سے بیمار معیشت کی مزید تباہی
دوسری طرف سے عالمی اداروں سے اقتصاد کے متخصص ماہرین نے بیمار معیشت کے لیے جو نسخے تجویز کیے ہیں انہوں نے بیمار کی حالت کو مزیدتشویش ناک کر دیا ہے۔ اس وقت اقتصاد کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس نے خود حکومتی ڈحانچے کو مفلوج کر دیا ہے۔ اس وقت بیوروکریسی عملی طور پر معطل ہے ۔ یہ لوگ کچھ بھی نہیں کررہے کیونکہ انہیں خوف ہے کہ اگر انہوں نے ملکی معاملات کے اندر کوئی اقدام کیا تو احتساب کی زد میں آ جائیں گے۔ وزارتی ڈھانچہ اور سیکرٹری طبقہ جنہوں نے مختلف شعبوں میں جا کر منصوبہ بندی کرنی ہوتی ہے ، ان کے لیے بجٹ مختص کرنا ہوتا ہے ، ان کے لیے معاہدے کرنے ہوتے ہیں یہ سب لوگ خوف زدہ ہیں کہ انہوں نے اگر کوئی اقدام کیا تو احتساب کا ادارہ کسی بھی بہانے سے پکڑ کر جیل میں ڈال دے گا۔ لوگ اپنی عزت، حیثیت اور اپنی ملازمتیں بچانے کے لیے کچھ کرنے سے کتراتے ہیں ۔ کسی بھی شعبے کے اندر لوگ کچھ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی طرح پولیس کے محکمے خصوصاً پنجاب پولیس کے بارے میں بہت ساری افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ پولیس حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی چونکہ پولیس کے اندر بھی احتساب اور پکر دھکڑ کا عمل جاری ہے اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کس پولیس کا تعلق کس سیاسی جماعت سے ہے اور اس بنیاد پر پولیس کی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل بھی انجام پا رہا ہے۔ یہ تأثر دیا جا رہا ہے کہ گویا پولیس بھی اپنے رینک اور اپنی پوسٹیں بچانے کے لیے حکومت کے ساتھ وہ تعاون نہیں کر رہی جو کرنا چاہیے تا کہ احتساب کی زد میں نہ آئیں۔
پورے پاکستان کے اندر تجارت عملاً قطع ہے اور تاجر مسلسل ایک قسم کی غیر علنی ہڑتال کی حالت میں ہیں ۔ حکومت نے اس طرح کی پالیسیاں بنائی ہیں کہ ہر پچاس ہزار روپے کی خریداری پر شناختی کارڈ دیکھا جائے گا اور نام کا اندراج ہو گا تا کہ ٹیکس لگانے والے محکمے اور دیگر مالیاتی محکموں کو ریکارڈ دیا جائے کہ فلاں آدمی نے پچا س ہزار روپے کی خریداری کی ہے۔ وہ محکمے فوراً پہنچ آئیں گے کہ بتائیں یہ پچاس ہزار روپے کہاں سے لائے ہیں۔ اگر آمدن نہیں ہے اور پچاس ہزار آپ کی جیب میں ہیں تو آپ مجرم ہیں اور پکڑ کر جیل میں ڈال دیں گے۔ اس طرح تجارت کے اندر خلل پڑا ہوا ہے۔ معیشت کے عالمی معاہدے بھی اس وقت کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑھ کرچین کے ساتھ جو معاہدہ سی پیک ہے ،زیادہ خسارہ اس کے اندر ہو رہا ہے۔ یہ ناپائیداری اس طرح سے نقصان دے رہی ہے۔
غیر یقینی کیفیت کانتیجہ
حکومتی اور اسٹیبلشمنت حلقوں میں غیر یقینی صورت حال اور کام نہ کرنے سے نقصان عوام کا ہو رہا ہے۔
اگر منصوبہ بندی نہیں ہو رہی اور ترقیاتی کام نہیں ہو رہے تو عوام سب سے زیادہ متأثر ہو رہے ہیں۔
ہر چند دن بعد پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کی تبدیلی کی افواہ اڑا دی جاتی ہے کہ یہ وزیر جا رہا ہے اب اس کے چند دن رہ گئے ہیں اور اس کی جگہ کوئی نیا آنے والا ہے۔ ظاہر ہے اس سے جو موجودہ وزیرِ اعلیٰ ہے اس کو بھی یقین نہیں ہے کہ کسی دن وہ صبح اٹھے گا تو اپنی پوسٹ پر ہو گا یا نہیں ہو گا۔ ایسا ہو بھی رہا ہے جیسے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مندوب ملیحہ لودھی جو کے پہلے بہت گُن گائے گئے تھے کہ وہ بہت قابل سفیر ہے اور پوری دنیا کے جو سفیر اقوامِ متحدہ میں آئے ہوئے ہیں ان سب سے بالا تر سفیر پاکستان کی ہے اسے وزیرِ اعظم کے دورے کے فوراً بعد برخواست کر دیا گیا ہے۔ اس قسم کے اقدامات دوسرے اعلیٰ افسروں اور عہدے داروں کو پریشان کر رہے ہیں۔ظاہر ہے اس طرح حکوتیں نہیں چلتیں ۔ جب تک حکومتی اداروں کے اندر ثبات نہ ہو اور لوگوں کے اندر اطمینان اور یقین نہ ہو وہ کوئی کام نہیں کرتے۔ اگر حکوتی ادارے کام نہ کریں اور اعلیٰ افسران اپنی ذمہ داریوں کو نہ نبھائیں تو نقصان اعلیٰ افسروں کا نہیں ہوتا نہ حکومت کازیادہ نقصان ہوتا ہے بلکہ پریشانی عوام کو ہوتی ہے کیونکہ ان کے ہاتھوں عوام کے کام ہوتے ہیں۔ اگر کسی جگہ سڑ ک نہیں بن رہی اور کہیں ہسپتال بنانا ہے اور وہ نہیں بن رہا تو اس کا اثر سیدھا عوام پر پڑتا ہے اور وہ مزید پریشانیوں کا شکار رہتے ہیں۔ مہنگائی اسی شدت کے ساتھ جاری ہے۔ ایک حکومتی وزیر نے پارلیمنٹ میں مہنگائی پر تقریر کی اور سب کی توجہ دلائی کہ اتنی مہنگائی کیوں ہے۔ وزیرِ اعظم نے اس کو سخت ڈانٹ پلائی ہے کہ تم نے ہماری جماعت کا ہو کر شکوہ کیوں کیا اور لوگوں کو باتیں کرنے کا موقع کیوں دیا ہے۔ ملک کے اندر اس طرح کا ماحول موجود ہے جو تشویش بڑھا رہا ہے ۔
مفادات کی سیاست
اپوزیشن مشکلات کا شکارہےاگرچہ حساس وقت میں حکومت کو بھی یہی سپورٹ کرتے ہیں۔
اپوزیشن جماعتیں ویسے تو بہت ہی پیچیدہ ہیں ۔ اس وقت حزبِ مخالف میں دو بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون پیش پیش ہیں جن کی پارلیمان کے ممبرز کی بھی ایک اچھی خاصی اکثریت ہے۔ دونوں مل کر حکومت سے زیادہ بنتے ہیں لیکن ان کا آپس میں اتفاق نہیں ہے اور دونوں زیرِ عتاب بھی ہیں اور دونوں کی قیادت جیل میں ہے۔ دونوں جماعتیں حکومت کو برا بھلا بھی کہتی ہیں، حکومت کے خلاف پروپیگنڈا بھی کرتے ہیں لیکن جب حساس وقت آتا ہے تو یہ دونوں حکومت کو سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ پاکستان میں یہ پیچیدہ سا نظام بنا ہوا ہے کہ مخالف جس سے مخالفت کی توقع ہوتی ہے وہ حمایت کر دیتا ہے اور حامی سے حمایت کی توقع ہوتی ہے وہ مخالفت شروع کر دیتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا دھرنااور حکومت مخالف احتجاج
اپوزیشن میں جمیعتِ علمائے اسلام (ف) جو پارلیمانی لحاظ سے کسی خاص نمائندگی کی حامل نہیں ہے انہوں نے عوامی طور پر ماحول ایسا بنا لیا ہے کہ حکومت کے خلاف ایک بہت ہی مؤثر احتجاج کرنے جا رہے ہیں جس کی دھمکی انہوں نے شروع سے دی ہوئی تھی۔ انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ ۲۷ اکتوبر پورے ملک سے ان کے حامی اسلام آباد آ کر حکومت کا باقاعدہ طور پر گھیراؤ کریں گے اور حکومت کے خلاف اقدام کریں گے ۔ پہلے انہوں نے یہ کہا ہوا تھا کہ وہ اسلام آباد کو بالکل لاک کر دیں گے تا کہ حکومت کا خاتمہ ہو۔ اپوزیشن جماعتوں کا فضل الرحمان صاحب پر شدید دباؤ ہے کہ وہ اس احتجاج کو متاخر کریں۔ حکومت سے زیادہ حزبِ مخالف اور پیپلز پارٹی مولانا کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں کہ آپ یہ احتجاج نہ کریں۔
مولانا فضل الرحمان کی سیاست:
مولانا فضل االرحمان صاحب کی سیاست قدیمی ہے اور وہ شناختہ شدہ شخصیت ہیں۔ ان کے والد مفتی محمود صاحب بھی سیاست دان تھے اور صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ بھی رہے۔ ان کی وراثت میں ان کو پارٹی بھی ملی اور سیاست بھی ملی اور انہوں نے بھرپور سیاست کی ہے اور اپنے انداز کی منفرد سیاست کی ہے۔ یہ ہمیشہ اقتدار میں رہے ہیں ۔ پہلا موقع آیا ہے کہ یہ حکومت سے باہر اپوزیشن میں ہیں۔ یہ چونکہ مذہبی سیاسی رہنما ہیں اس لیے ان کے پاس مذہبی طاقت فراوان ہے۔ ایک تو انہوں نے مذہبی سیاست میں وقت گزارا ہے اور مضبوط طریقے سے مذہبی سیاست کی ہے۔ جماعتِ اسلامی سے زیادہ بہتر سیاست انہوں نے کی ہے ۔ یہ وفاق میں اور مختلف صوبوں میں ہر حکومت میں شریک رہے ہیں اور ہر صوبے میں ان کے کافی طرفدار موجود ہیں ہر چند ان کے اندر تقسیم بھی ہوئی ہے ۔ سمیع الحق صاحب پہلے ان کے ساتھ تھے پھر وہ علیحدہ ہو گئے لیکن اس تقسیم کے باوجود بھی ان کی عوامی طاقت بھرپور رہی ہے جس کاانہوں نے ابھی مظاہرہ بھی کیا ہے۔ ملک بھر میں انہوں نے احتجاج کیے ہیں جن میں انہوں نے بہت سے لوگوں کو جمع کیا ہے۔ اسی سے خطرے کی گھنٹیاں بجی ہیں کہ اگر انہوں نے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد میں پندرہ لاکھ آدمی لے کر آئیں گے تو یہ لا بھی سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اتنی طاقت موجود ہے جس کا انہوں نے مظاہرہ بھی کیا ہے۔
حکومتی تشویش:
مولانا کو روکنے کے لیے مختلف قسم کے طریقے استعمال ہو رہے ہیں ۔ ایک تو اپوزیشن دباؤ ڈال رہی ہے کہ انہیں مولانا کے احتجاج پر تحفظات ہیں جیسے مولانا کو کہا کہ آپ مذہبی کارڈ استعمال نہ کریں ، دھرنا نہ دیں، اسلام آباد کو لاک نہ کریں اور جمہوری طریقے سے بات کریں۔ اس طرح ان پر اپوزیشن کا شدیدی دباؤ ہے کہ وہ یہ احتجاج نہ کریں اور حکومت بھی چاہتی ہے کہ یہ احتجاج نہ ہو۔ ہر چند حکومت نے ڈائیلاگ تو بولے ہیں کہ یہ احتجاج کر کے اپنا شوق پورا کر لیں لیکن حکومتی ترجمان کے بیانات سے خوف صاف محسوس ہوتا ہے۔ انہیں یقین نہیں ہے کہ مولانا صاحب اگر احتجاج کریں گے تو بعد کی صورت حال ان کے قابو میں ہوگی یا نہیں ہو گی۔ خود مولانا صاحب بھی ایسے نہیں ہیں کہ انہوں نے جوکہا ہے وہ اسی پر قائم رہیں گے ۔ وہ بھی سیاستدان ہیں اور پاکستان کے سیاستدانوں میں سب سے لچک دار سیاستدان ہیں ۔ یہ ایک دور میں جس کے مخالف ہوتے ہیں دوسرے دور میں اس کے ساتھ شریک ہو جاتے ہیں۔ یہ اگر ایک پارٹی کے خلاف ہوتے ہیں وہ اگر حکومت میں آ جائے تو یہ اس کے ساتھ بن جاتے ہیں اور سیاست میں تو ویسے بھی کوئی فیصلہ اٹل نہیں ہوتا اور کوئی دو ٹوک بات نہیں ہوتی بلکہ سب لگی لپٹی ہوتی ہے۔ وہ اپنا دباؤ ڈال رہے ہیں اور ان کا یہ دباؤ کام کر گیا اور ان کو اقتدار کا لالچ یا کوئی اچھی آفر دے دی گئی یا ان کے مطالبات کے قریب قریب انہیں کوئی موقع دیا گیا وہ ممکن ہے وہ احتجاج نہ بھی کریں اور سمجھوتہ کر لیں۔ یوں نہیں ہے کہ بعض دیگر لیڈروں کی طرح یہ ایک ایسی شخصیت ہیں کہ جو کہہ دیا وہ کر کے دکھانا ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ اٹل عمران خان صاحب سمجھے جاتے تھے کہ یہ جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں لیکن انہوں نے خود کہا ہے کہ یو ٹرن لینا بڑے لیڈر کی نشانی ہوتی ہے۔ ان کے مطابق جو اپنی بات کر کے پھر اس سے ہٹ جائے وہ بڑا لیڈر ہے اور فضل الرحمان صاحب تو پہلے ہی بڑے لیڈر ہیں اس لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنی بات پر قائم رہیں اور یہ احتجاج ہو اور وہ حکومت گرائیں۔ خود ان پر بھی ایسا بھروسہ نہیں ہے۔ سیاست قابلِ پیش بینی نہیں ہے اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے لیکن ظاہری طور پر معاملہ یہاں تک پہنچا ہے کہ انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ۲۷ اکتوبر کو وہ احتجاج کریں گے۔ حکومتی حلقوںمیں شدید تشویش ہے انہوں نے اپنی تشویش کا اظہار بھی کر دیا ہے۔
دھرنا روکنے کے حکوتی طریقے
مولانا کے احتجاج کو روکنے کے لیے تین قدم اٹھائے جا چکے ہیں ۔ ان تین اقدام سے مولانا صاحب ہراسان ہوتے ہیں یا نہیں یہ معلوم نہیں ہے۔ ایک یہ کہ انہیں باقاعدہ طور پر گرفتاری کی دھمکی دے دی گئی ہے کہ اگر آپ اسلام آباد میں آئے تو آپ کو گرفتا ر کر کے جیل بھیج دیا جائے گا۔ دوسری دھمکی جس پر عمل درآمد ہو چکا ہے وہ دہشت گردی کی ہے۔ کوئٹہ کے ایک بڑے سینئر راہنما جو چمن کے علاقے کے جمیعت کے مسئول تھے انہیں ایک حادثے میں جاں بحق کر دیا گیا ہے۔ چند دن پہلے وہاں پر حملہ ہوا جس میں وہ جاں بحق ہو گئی جسے دہشت گردی کہا گیا۔ یہ مولانا صاحب کے لیے ایک پیغام تھا کہ اگر آپ سیدھے راستے سے باز نہیں آئے تو یہ کام بھی ہو سکتا ہے ۔ یہ ایک گھنٹی تھی جو بجائی گئی ہے۔ تیسری دھمکی شیخ رشید صاحب نے بڑے اہتمام کے ساتھ دی ہے وہ ڈینگی کا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں ڈینگی بہت شدیداور اگر مولانا آئے تو ان کو ڈینگی ہو جائے گا۔ ڈینگی سے بچنا مشکل ہے کیونکہ پاکستان میں اس وقت ایک بہت بڑا بحران جس کی پاکستانی قوم کو کوئی پرواہ نہیں ہے وہ ڈینگی ہے ۔ ابھی تک متعدد پاکستانی ڈینگی کا شکار ہو چکے ہیں ۔ ڈینگی مچھر انسان کے اندر ایسا وائرس منتقل کرتا ہے جو خون کی اچھی مقدار ختم کر دیتا ہے اور چند دنوں میں آدمی دنیا سے گزر جاتا ہے۔ اس وقت ڈینگی مچھر کی یہ یلغار بہت شدت کے ساتھ جاری ہے۔ مولانا کو بھی دھمکی دی گئی ہے کہ اسلام آباد میں ڈینگی مچھر زیادہ ہے اور یہ ایک ایسا ڈینگی ہے جو اسلام آباد والوں کو کچھ نہیں کہتا لیکن مولانا کو کاٹے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ ڈینگی بہت ہی ہوش مند ہے اورتشخیص رکھتا ہے کہ کس کو کاٹنا ہے اور کس کو نہیں کاٹنا۔ شیخ رشید خود پنڈی میں ہیں ہیں انہیں ڈینگی نہیں کاٹتا لیکن مولانا کو کاٹے گا۔ بہر کیف مولانا کے لیے مختلف کارڈ استعمال کیے جا رہے ہیں ، اپوزیشن بھی حوصلہ شکنی کر رہی ہے ،اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی مولانا صاحب کے دیرینہ تعلقات ہیں معلوم نہیں ان کے ساتھ مولانا کا سمجھوتہ ہوتا ہے یا نہیں ۔یہ عمومی صورت حال ہے جو ملک کے اندر جاری ہے۔
وزیرِ اعظم کا دورۂ امریکہ
وزیرِ اعظم کادورۂ امریکہ کشمیر زیرِ بحث آنے کے بجائے وزیرِ اعظم کی تقریر موضوعِ بحث بن گئی۔
ایسا تأثر دیا جا رہا ہے جیسے وزیرِ اعظم کی تقریر نے دنیا کا نقشہ بدل دیا اور بھارت کو نابود کر کے رکھ دیا۔
سوشل میڈیا پر اور سیاسی حلقوں میں جو چیز زیادہ دلچسپی کا باعث بنی ہوئی ہے وہ وزیرِ اعظم صاحب کا براستہ سعودی عرب امریکہ کا دورہ ہے۔ یہ دورہ اور وہاں انہوں نے جو تقریری فرمائی یہ اس وقت زیرِ بحث ہے۔ اس پر جو ماحول بنا ہوا ہے اس میں ان کے مداحین اس وقت بالکل وجد کی حالت میں ہیں کہ اس تقریر میں وزیرِ اعظم صاحب نے انڈیا کو بالکل نابود کر دیا ہے ، دنیا کا نقشہ بدل دیا ہے ، عالمی سیاست میں بھونچال آ گیا ہے اور اس طرح کا تأثر دیا جا رہا ہے ۔ ان کے مخالفین اسی تقریر پر حملے کرتے ہیں اور اس پر تنقید کرتے ہیں۔ وہ امریکہ کشمیر کی ترجمانی کے لیے گئے تھے کہ کشمیر کو زیرِ بحث لائیں لیکن کشمیر کی جگہ ان کی تقریر زیرِ بحث آ گئی ہے۔ اس وقت چینلز اور دیگر میڈیا پر اس تقریری کے بارے میں ٹالک شوز ہو رہے ہیں ، تقریریں ہو رہی ہیں اور کالم لکھے جا رہے ہیں ۔
مدارس پر ظلم
حکمران عالمی اداروں کے دباؤ میں آ کر دینی مدارس کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔
مدارس کو حکومتی نمائندوں اور ایجنسیوں کے ما تحت لانا عالمی اداروں کا ہدف ہے۔
دو دن پہلے پاکستان میں ایک اور مطلب جو وقوع پذیر ہوا ہے وہ مختلف مسالک کے مدارسِ دینیہ اور مدارسِ کے وفاق جو مدارس کے سرپرست ادارے ہیں اور ان سے منسلک دیگر علماء وزیرِ اعظم صاحب سے ملے ہیں۔پہلے یہ آرمی چیف سے ملے اور ان سے مدارس کے طلبا ء کو انعامات دیے گئے جنہوں نے پوزیشنیں لی ہیں ۔ انہی طلاب کو دوبارہ وزیر اعظم صاحب نے انعامات دیے ہیں اور ساتھ ہی انہوں نے مدارس کے متعلق ارشادات بھی فرمائے ہیں اور پالیسی کا بھی اعلان کیا ہے۔ وفاق کی خبر یہ باہر آئی ہے کہ وفاق والوں کا مطالبہ یہ تھا کہ پانچ وفاق ایک بورڈ میں تبدیل کر دیے جائیں جیسے ایک شیعہ تعلیمی وفاق ہے اسے ایک شیعہ تعلیمی بورڈ بنا دیا جائے اور وفاق کے عہدے دار بورڈ کے سربراہ ہو جائیں ۔
مدارس کو بیورو کریٹس اور اسٹیبلشمنٹ سے کنٹرول کرنے کی پالیسی بن رہی ہے جن کا کسی مدارس سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
مدارس کے ذمہ دار افراد مدارس کے نظام اور مسائل سے لا تعلق کسی فور م پر اپنا موقف پیش نہیں کرتے۔
پانچوں وفاق المدارس میں بیٹھے ہوئے علماء مسائل حل کرنے کے بجائے مدارس کا ڈھانچہ ہی نابود کرنا چاہتے ہیں۔
مدارس کے ذمہ داروں کو مدارس ، مدارس کے سسٹم ، نظام اور نصاب کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور نہ کسی فورم پر یہ اس پر بات کا مذاکرات کرتے ہیں نہ اپنا موقف پیش کرتے ہیں اور اس موقف پر بالکل اتفاق کر آتے ہیں کہ حکومتی بیوروکریٹس اور اسٹیبلشمنٹ کے لوگ جن کا مدارس سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے ، جو نہ مدارس کے نظام کو سمجھتے ہیں ، نہ مدارس کے نصاب کو سمجھتے ہیں اور نہ مدارس کی مشکلات کو سمجھتے ہیں وہ مدارس کو کنٹرول کریں۔ حکمران عالمی اداروں کے دباؤ میں مدارس کوکنٹرول کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا ایک ہدف یہ ہے کہ مدارس حکومتی گرفت میں آجائیں اور حکومتی نمائندے اور ایجنسیاں مدارس کو کنٹرول کریں۔وہ ایسا اس لیے کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں مدارس سے کچھ مشکلات اور شکایات ہیں جن کے بانی وہ خود ہی ہیں۔ مدارس میں اگر کوئی مشکلات پیدا ہوئی ہیں توا دارے ان مشکلات کے ذمہ دار خود ہیں۔یہ ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے خود مدارس کا ڈھانچہ ہی نابود کرنا چاہتے ہیں ۔
حکمران اپنے پسندیدہ علماء کو بلا کر مشورے اور فیصلے کر کے سب مدارس پر لاگو کر دیتے ہیں۔
کچھ علماء سرکاری طور پر بڑا احترام رکھتے ہیں اور سرکار کے ہاں بڑی عزت اور آبرو سے دیکھتے جاتے ہیں سرکار بھی ان کو بڑا پروٹوکول دیتی ہے۔ اکثریت علماء کو سرکار ناپسند کرتی ہے اور اداروں کے نزدیک یہ اکثریت علماء نا پسندیدہ شخصیت ہیں۔ہر مسلک کے کچھ علماء سرکار کے پسندیدہ ہیں ۔ سرکاری لوگ بھی ان کو بلا کر انہی سے مشورے کرتے ہیں، ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں، انہی کے ساتھ فیصلے کرتے ہیں اور وہ فیصلے پھر لاگو کر دیتے ہیں۔
مدارس کے وفاق رہیں یا تعلیمی بورڑبن جائیں مسئولین کو فقط اپنی نوکری اور سہولتوں سے غرض ہے۔
وفاق کے مسئولین کو اور کوئی پرواہ نہیں ہے صرف اتنی پرواہ ہے کہ وفاق کو بورڈ بنا دیا جائے یعنی ان کی ملازمت مسلسل رہے مدرسوں کو بے شک نا بود کر دیا جائے، مدرسوں کا نظام تباہ کر دیا جائے اور جو سرکار کے جی میں آتا ہے سرکار مدرسوں کے ساتھ لیکن ان علماء کے عہدے ، تنخواہیں اور سہولتیں مستقل کر دی جائیں۔
سی ٹی ڈی جیسے اداروں سے مدارس کو کنٹرول کرنا علماء کی سستی کا نتیجہ ہے۔
مدارس علماء کے پاس تھے اگر امانت داری سے ذمہ داری نبھاتے تو حکومت مداخلت نہ کرتی۔
مدارس کی بقاء اور اصلاح کے لیے خود مدارس اور علماء کی جانب سے کوئی سوچ نظر نہیں آتی۔
ظاہر ہے جب آپ وفاق والوں میں کوئی صلاحیت ہوتی اور آپ کوئی اکرکردگی دکھاتے تو مدارس کو یہ دن ہی نہ دیکھنا پڑتا ۔ بحیثیتِ وفاق آپ نے جو سستی کی ہے اور جو کارکردگی دکھائی ہے اسی سے نتیجہ نکلا ہے کہ مثلاً سی ٹی دی مدارس کا نظام سنبھال لے۔ اگر وفاق والے اپنی ذمہ داریاں صحیح نبھاتے ااور ان کو اپنے مدرسوں کا صحیح علم ہوتا اور اپنے امانت داری کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کرتے تو حکومت مداخلت نہ کرتے جبکہ مدارس ابھی تک ان علماء کے پاس ہی تھے ۔ اب یہ کہتے ہیں کہ وفاق کو بورڈ میں تبدیل کر دیا جائے۔ یہ علماء سرکار کے چہیتے ہیں اس لیے ان کے وفاق کو بورڈ میں بھی تبدیل کر دیا جائے گا اور ان کو بھی بورڈ میں یا بورڈ کے علاوہ کہیں نہ کہیں فٹ کر دیا جائے گا علماء اس بابت پریشان نہ ہوں۔ اصل موضوع کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ مدارس کے متعلق جو صورت حال ہے وہ واقعاً تشویش ناک ہے۔ مدارس سے کوئی رابطہ اور مشارت نہیں ہے اور جو سرکاری پسندیدہ شخصیات ہیں ان کو بلا کر سرکاری لوگ انہی کے ساتھ لے دے کر لیتے ہیں ۔ ہر مسلک کے میدان میں جو مدارس ہیں وہ بے خبر ہیں انہیں اس سمجھوتے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ان کے اور سرکار کے درمیان جو فیصلے ہوں گے وہ ان مدارس کو سنا دیے جائیں گے۔ بہر کیف مدارس اس وقت آئی ایم ایف ، ایف اے ٹی ایف اور اس طرح کے مالیاتی اداروں اور ایجنسیوں کی زد پر ہیں اور ان کے دباؤ کی وجہ سے ملکی اداروں کی زد پر ہیں۔اب دیکھتے ہیں کہ یہ مدارس کا کیا حشر کرتے ہیں ۔ پہلے ضیاء الحق کے زمانے میں مدارس جب ان کے اختیار میں آئے تو انہوں نے مدارس کو دہشت گردی کا مرکز بنایا اور دہشت گردی کی صفائی کے لیے یہ مدارس کا کیا حال کریں گے یہ خدا کے علم میں ہے۔ یہ طے ہے کہ مدارس کا مدافع کوئی بھی نہیں ہے۔ کوئی بھی مدارس کی بقاء اور اصلاح کے لیے خود مدارس اور علماء کی جانب سے کوئی سوچ نظر نہیں آتی۔
افغانستان
جو طالبان پاکستانی جیلوں میں دہشت گرد کے طور پر تھے آج حکومت انہیں پروٹوکول دے رہی ہے۔
طالبان لیڈرز کا ایک وفد پاکستان آیا ہے جنہیں پہلے بحیثیتِ دہشت گرد پاکستان کی جیلوں میں رکھا گیا اور پھر چھوڑ دیا گیا۔ انہی کی سرپرستی میں افغانستان کے طالبان کا وفد پاکستان آیا جس کو بہت بڑا سرکاری پروٹوکول دیا گیا۔ اس پر افغانستان حکومت نے اعتراض کیا ہے کہ یہ ایک دہشت گروہ جس کے پاکستانی حکومت نے اتنا پروٹوکول دیا ہے۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے تھے وہ مذاکرات ٹرمپ کی ہدایت پر روک دیے گئے ہیں ۔ طالبان نے افغانستان میں کافی کاروائیاں کی ہیں جس کی وجہ سے افغانستان کے حالات بہت ہی کشیدہ ہیں۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات ہوئے ہیں وہ خود ایک بڑے بحران کا سبب بن رہے ہیں۔
طالبان کا افغانستان میں کردار فیصلہ کن ہو گیادنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں
طالبان افغانستان میں ایک فیصلہ کُن کردار ادا کر رہے ہیں ۔ یہ روس گئے، چائنا گئے، ایران گئے، قطر گئے اور باقاعدہ ایک بڑے سیاسی وفد کی صورت میں اب پاکستان آئے ہیں اور دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات اورسمجھوتہ کرانا چاہتا ہے اور افغانستان کے لیے جو پالیسیاں بن رہی ہیں پاکستان بھی ان میں شریک رہنا چاہتا ہے۔
چونیاں واقعہ
بچوں سے زیادتی کا واقعہ: حکومت ، عوام اور نظام سب فساد کے ذمہ دار ہیں۔
قصور زیادتی واقعہ تسلسل کی وجہ سے خبروں میں آ گیا ورنہ پاکستان کی ہر گلی میں یہی کام ہو رہا ہے۔
پاکستان میں ایک اور مسئلہ جو ان دنوں میں وقوع پذیر ہوا ہے وہ یہ کہ ضلع قصور میں بہت ہی شرمناک واقعہ رونما ہوا ہے۔ پہلے یہ واقعہ قصور شہر میں ہوا تھا اب قصور کی ذیلی تحصیل میں ہوا ہے وہ یہ کہ ایک ایک وحشی جانور ، شہوت ران اور دہشت گرد نے کم سن نا بالغ بچوں کے ساتھ زیادتی کی ہے اور پھر ان کو قتل کر دیا پھر وہ قاتل پکڑا گیا ۔ یہ چیز عمومیت رکھتی ہے ۔ قصور میں کیونکہ چند دن کے وقفے سے ایک ساتھ یہ عمل انجام پایا ہے اس لیے خبروں میں آ گیا ہے اور اس کو اہمیت مل گئی ہے ورنہ پاکستان کی ہر گلی میں یہ کام ہو رہا ہے ۔ اس فساد اور تباہی کے موجب پاکستانی حکومت، نظام اور عوام ہیں اور سب اس کے ذمہ دار ہیں۔فساد کے اسباب بچے بچے اور فرد فرد تک پہنچے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے تباہی نابالغ بچوں کی سطح پراتر آئی ہے۔ اس کے سدِ باب کے لیے کوئی اقدام نہیں کرتے۔ جب کوئی بچہ اس کاشکار ہوتا ہے اور قتل ہوتا ہے ا ور لاش ملتی ہے تو پھر شور مچاتے ہیں لیکن وہ بچے جو اس ہوس کا شکار ہوتے ہیں اور قتل نہیں ہوتے ان کے گھر والے شرم سے کسی کو بتاتے نہیں ہیں کہ بے عزتی ہوتی ہے۔ یہ بات میڈیا میں بھی ایک چھوٹی سی خبر کے طور پرآتی ہے کہ آج فلاں علاقے میں بچے کے ساتھ یہ زیادتی ہوئی ہے۔
بڑا بحران
پوری قوم کا جنسی فساد کی زد میں ہونا پاکستان کا سب سے بڑا بحران ہے۔
مذہبی طبقہ شعلہ بیانی میں مصروف ہے کسی کو معاشرتی فساد کی طرف دھیان نہیں ہے۔
پاکستان کے سب بحرانوں سے بڑا بحران یہ ہے کہ پوری قوم ، عورت مرد اور بچہ بچہ اس فساد کی زد میں ہے۔اس فساد کو روکنے کے لیے کسی سطح پر کوئی اقدام نہیں ہے۔مذہبی مراکز سب سیاسی مراکز میں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ مذہب کے نام پر سیاست اور مذہب کے نام پر کاروبار ہو رہا ہے ۔ مذہب قوم کی اصلاح کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ آپ کسی سُنی مسجد میں چلے جائیں وہ وہاں پر کسی دوسرے فرقے کے بارے میں شعلہ بیانی کر رہا ہے اور دوسروں پر حملے کر رہا ہے یہ نہیں کرتا کہ اپنے پیروکاروں کو کوئی ہدایت کرے اور فساد سے بچنے کے لیے کوئی تلقین کرے یا کوئی اہتمام کرے ۔اسی طرح ہمارا میڈیا مکمل طور پر اس سے غافل ہو کر فقط ایشو بنانے کے لیے منتظر رہتا ہے۔ کیمرے گھوم رہے ہوتے ہیں کہ ہوس کا شکار کوئی بچہ ملے پھر اس کو ایشو بنائیں اور اپنی ریٹنگ بڑھائیں۔ اس فساد میں میڈیا بھی مبتلا ہے اور وہ بھی اس فساد کے خلاف کوئی کام نہیں کر رہا۔
معاشرہ اتنا پست ہو گیا ہے کہ محارم بھی فساد کا شکار ہیں۔
اخلاقی فساد جب ہر گھر کے اندر ہے تو ایسی ایسی خبریں ملتی ہیں جو سُن کر انسان کی طبیعت خراب ہوتی ہے۔ محرم آپس میں فساد کا شکار ہیں ۔ چند دن پہلے ایک خبر تھی کہ ایک شخص کی جوان اولاد تھی اس نے دوسری شادی کی اور دوسری بیوی کو لے کر گھر آ گیا ۔ ظاہر ہے گھر میں فساد اور دنگا ہونا تھا اور وہ ہوا۔ پہلے بچوں اور بیوی نے احتجاج کیا اور اس نے ان سب پر تشدد کیا۔ یہ بھی ہوس رانی کی ایک شکل ہے کہ شادی شُدہ مرد جوان اولاد کے ہوتے ہوئے ہوس رانی شروع کر دیتے ہیں۔ اس نے باپ سے انتقام کے طور پر اپنی سوتیلی ماں سے ناجائز تعلق قائم کر لیا۔ ہم یہاں جا پہنچے ہیں اور سب اس سے غافل ہیں۔ بچوں کے معاملے میں والدین سب سے غافل طبقہ جنہوں نے گھروں میں فساد کا ہر ذریعہ فراہم کیا ہوا ہے۔ اخلاقی فساد کے خلاف مبارزہ کرنا چاہیے وہ خود دوسروں سے زیادہ فساد میں مبتلا ہے۔ حکومتی اور تعلیمی ادارے سب کے سب غافل ہیں اور والدین سب سے بڑا غافل ترین طبقہ ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو خود یہ فساد فراہم کرتے ہیں ان کا موبائل اور انٹرنیٹ کے کنیکشن لے کر دیتے ہیں ۔ گھروں کے اندر والدین نے ہر فساد رکھا ہوا ہے ۔سب سے بڑے غافل ماں باپ ہیں جو بچوں کے باقی تمام پہلوؤں کی طرف متوجہ ہیں مثلاً بچوں کا سویٹ کھلانا، بچوں کو پیسے دینا، بچوں کے لیے مختلف ڈیوائسز لینا ، موٹر سائیکل خریدنا اور ہر دوسری چیز خریدنے کی طرف دھیان ہے لیکن بچوں کی اخلاقی تربیت کرنا ، ان کی حفاظت کرنا، ان کو فساد سے محفوظ رکھنا اس کے لیے ان کے اندر کوئی چنتا اور کوئی اہتمام نہیں ہے۔ جس گروہ کو فساد کے خلاف مبارزہ کرنا چاہیے وہ دوسروں سے زیادہ فساد میں مبتلا ہے۔ یہ وہ افسوس ناک حالت ہے جو معاشرے کے اندر بنی ہوئی ہے۔
کشمیر
کشمیر پر سیاستدانوں کی لچھے دار تقریریں اور بڑھکیں فقط ریاکاری اور منافقت ہیں۔سیاستدانوں کو کشمیر کا اتنا ہی درد ہے جتنا محرم میں پیشہ خطیبوں کو امام حسینؑ کا ہوتا ہے۔ پاکستان میں کشمیر کا موضوع ٹاک شو کا موضوع ہے۔پاکستان کے کسی بھی طبقے نے کشمیر کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ۔ سب سے ناکام ترین شعبہ جس نے کشمیر کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور جس کی کارکردگی شرمناک ہے وہ ہماری وزارتِ خارجہ ہے۔ ان کی تقریریں سنیں تو ایسی لچھے دار تقریریں کریں گے جس طرح ہمارے پیشہ ور خطیب محرم میں تقریریں کرتے ہیں۔ یہ پیشہ ور بحر المصائب، شہنشاہِ مصائب اور صدر المصائب جو مصائب پڑھتے ہیں اور رُلا رُلا کر مجمعہ لٹا دیتے ہیں اور ایک کہرام برپا کرتے ہیں ان کے اندر ذرہ برابر امام حسینؑ کا درد نہیں ہوتا۔ یہ سب فیس اور پیسوں کے لیے کرتے ہیں ۔ بالکل انہی جیسا حال ہماری وزارتِ خارجہ اور ہمارے سیاستدانوں کا ہے۔ ان کی باتوں میں کشمیر کا ذرہ برابر درد نظر نہیں آتا۔ یہ جو تقریریں کرتے ہیں اور بڑھکیں مارتے ہیں ان کو آپ درد کی علامت نہ سمجھیں ۔ہربھڑک درد کی نہیں ہوتی نہ ہر بھڑک حیدری ہوتی ہے۔یہ سب ریاکاری، منافقت اور مفادات ہیں۔ انہوں نے آج تک کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ، نہ کشمیر کے حق میں کوئی بل پاس کروا سکے ، نہ انڈیا کے خلاف کوئی بل پاس کروا سکے ، نہ کشمیریوں کے حق میں کوئی قرارداد لا سکے ۔ نہ اقوامِ متحدہ میں ، نہ عالمی اداروں میں ، نہ حقوقِ بشر کی تنظیموں میں اور نہ مکہ کانفرنس میں انہوں نے کشمیر کے لیے کوئی بل پیش کیا ۔ کشمیرکے معاملے پر سب طبقے خاموش خصوصاً وزارتِ خارجہ کی کارکردگی شرمناک ہے۔
حقوقِ بشر کے کمشن میں بل جمع کرانے کے لئے وزارتِ خارجہ پندرہ دستخط حاصل نہ کرسکی۔
حقوقِ نشر کے متعلق اقوامِ متحدہ کا جو کمیشن بنا ہوا ہے اس میں پہلے بہت شور مچایا کہ ہم انڈیا کووہاں پھنسانے والے ہیں ، بے نقاب کرنے والاے ہیں، انڈیا کوننگا کرنے والے ہیں اور جب ننگا کرنے گئے تو پہلے کہا کہ ہمیں پچاس ممالک کی تائید حاصل ہے پھر عملا بل پیش ہی نہیں کر سکے کیونکہ پندرہ ملکوں کے دستخط چاہیے تھے اور ان پندرہ ملکوں میں یہ عرب خائن بھی شامل تھے انہوں نے دستخط ہی نہیں کیے ۔ پاکستان کو پندرہ ملکوں کی حمایت ہی حاصل نہیں تھی اور اب ہمار ے وزیرِ خارجہ کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے ہی طے کیا ہوا تھا کہ بل پیش ہی نہیں کرنا۔ ان کے مطابق ناکامی نہیں ہوئی کیونکہ یہ بل پیش ہی نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ اگر بل پیش نہیں کرنا تو پھرکشمیرپر اتنا شور کیوں مچایا ہوا ہے۔ کیا یہ پاکستانیوں کودھوکہ دینا چاہتے ہیں، دنیا کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا کشمیریوں کودھوکہ دینا چاہتے ہیں ؟ کشمیریوں کے ساتھ پہلے ہی بہت ظلم ہو چکا ہے ، لاکھوں کشمیری شہید اور لاکھوں لاپتہ ہو چکے ہیں اور لاکھوں عورتیں ہندوستانی درندوں کی درندگی کا نشانہ بنی ہیں ۔ کیا یہ زخم اور یہ درد کشمیریوں کے لیے تھوڑے ہیں جو آپ پھر نئے سرے سے انہیں تکلیف دینا چاہتے ہو۔ کشمیریوں کو اپنے حال پر چھوڑ دو ان کے موضوع پر تقریریں کر کے اپنی سیاست نہ چمکاؤ۔ اگر ان کے لیے کچھ نہیں کرنا تو ان کا نام بھی نہ لو۔ صرف باتیں اور تقریریں کر رہے ہیں اور کشمیر بھول گئے ہیں فقط تقریر موضوع بنا لی ہے ۔پاکستان ان کے ساتھ مل کر مسئلۂ کشمیر حل کرنا چاہتا ہے جنہوں کشمیر پر ظلم کے بعد مودی کو ایوارڈ دئے۔
عملاً کشمیر کے حق میں کسی نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ کسی اسلامی ملک بشمولِ پاکستان ، کسی عربی ملک ، کسی غیر عربی ملک اور کسی نے بھی کشمیر کے حق میں کچھ نہیں کیا ۔ کشمیر کے ساتھ ظلم کرنے کے بعد بھی جنہوں نے مودی کو ایوارڈ دیے ہیں پاکستان کی ان کے ساتھ دوستی ہے اور ان کے ساتھ مل کردنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر اجاگر کر رہے ہیں جیسے دنیا بڑی انصاف پسند ہے اور مظلوم کی حامی ہے۔
کفن چوروں کی تنظیم
وزیرِ اعظم صاحب نے اقوامِ متحدہ میں تقریر کی لیکن سامنے بن سلمان ، ٹرمپ جیسے درندے بیٹھے تھے ۔ اقوامِ متحدہ کے ممالک یمن تباہ کر کے اور فلسطین بیچ کر بیٹھے ہیں کشمیر کے لیے کیا کریں گے ۔ سیاست دان کشمیر جیسے مظلومو ںکی حمایت کے لیے اقوامِ متحدہ میں آکر بیٹھتے ہیں گویا یہ سب مظلوموں کے حامی اور انسانیت کے دکھوں میں شریک او ران کا مداوا کرنے والے صرف ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ کشمیر میں کیا ظلم ہو رہا ہے۔ ان کو اگر پتہ چل جائے تو ہندوستان کا نہ جانے کیا کچھ بگاڑ دیں گے ۔ نہ !یہ جو اقوامِ متحدہ میں بیٹھے ہوئے ہیں یہ کشمیر سے زیادہ خود ظلم کر رہے ہیں ، یہ یمن تباہ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ یہ جو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بیٹھے ہوئے ہیں ، یہ فلسطین بیچ کے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی سب سے خوبصورت تصویر علامہ اقبالؒ نے بنائی ہے۔ جب علامہ اقبال سے پوچھا گیا کہ یہ اقوامِ متحدہ کیا ہے تو انہوں نے جواباََ یہ کہا کہ :
من بیشازی نہ دانم کہ کفن دزدی چند
بحرِ تقسیمِ مردگن انجمن ایں ساختن
میں بتاتا ہوں کہ اقوامِ متحدہ کیا ہے ۔ اقوامِ متحدہ کفن چور لوگوں کی انجمن ہے جنہوں نے قبریں اور مردے تقسیم کرنے کے لیے کہ کس قبر اور مردے کو کس نے لوٹناہے انجمن بنائی ہے کہ وہ قبرستان تیرا اور یہ قبرستان میرا ۔ ان کفن چوروں اور مردہ خواروں میں اگر آپ تقریر کر بھی آئیں تو اس کا کیا ہے ؟ سامنے کون بیٹھا ہوا ہے ؟ بن سلمان، ٹرمپ۔جلاد اور مسخرے ٹرمپ سے کشمیر کے حل کا تقاضا کرنا عجیب ذہنیت ہے۔ اقوامِ متحدہ میں سب جنایت کار بیٹھے ہوئے ہیں کسی ملک کو کشمیر کا درد نہیں ہے۔
یہ کیا ذہنیت ہے کہ اگر کوئی مسئلہ کشمیر حل کر سکتا ہے تو ٹرمپ کر سکتا ہے ۔ ابھی ٹرمپ کا تازہ ترین بیان یہ ہے کہ امریکہ میں جو مہاجرین آتے ہیں ان کو گولی مار دو اور عورتیں اور بچے جہاں یہ رہتے ہیں وہاں کرنٹ چھوڑ دو۔ یہ بدبخت ٹرمپ جلاد اور مسخرہ ہے اس سے کشمیر کے لیے تقاضہ کرنا ایک عجیب ذہنیت ہے ۔کون سا ملک ہے جس کو کشمیر کا درد ہو گا یہ تو سب جنایت کار بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اسلامی ممالک کے سربراہان میں سب سے بڑا چمپئین جو اس وقت عالمِ اسلام کا ہیرو ہے رجب طیب اردگان ہے جس نے ترکی کی جیلیں بھری ہوئی ہیں ۔ اس نے ٹیچر پکڑ لیے، ڈاکٹر، وکیل پکڑ لیے اُن کا قصور یہ ہے کہ وہ نظریاتی طورپر اس کے حامی نہیں ہیں بلکہ فتح اللہ گولن کے حامی ہیں ۔یہ اپنی عوام کے ساتھ کیا کر رہے ہیں جو ان کے دل میں کشمیر کا درد ہو گا ۔
عراقی بحران
اسرائیل عراق میں حشدِ شعبی کو کمزور کرنے کے لیے سرگرم ہے اور اربعین سے پہلے مسائل کھڑے کر دیے۔ بن سلمان ، ٹرمپ اور اسرائیل کی کاروائی کو مہنگائی اور اندرونی مسائل کا رنگ دیا جا رہا ہے۔ جب پوری دنیا کے زائرین عراق میں جمع ہو رہے ہیں اس وقت عراق میں بلوے ہونا تشویش ناک ہے۔ اس وقت اربعین قریب ہے اور پوری دنیا سے کاروان اور قافلے کربلا کے لیے روانہ ہورہے ہیں ، کچھ راستے میں ہیں، کچھ پہنچ رہے ہیں اور کچھ تیاریاں کر رہے ہیں۔ ہر سال وہاں ایک عظیم اور باشکوہ اجتماع ہوتا ہے اور پیادہ روی ہوتی ہے ۔ یہ دنیا میں ایک بہت ہی منفرد مظاہرہ ہے ۔ ساتھ ہی ہر سال کچھ تشویشناک واقعات ہوتے ہیں کسی سال دہشت گردی کے بادل منڈلا رہے ہوتے ہیں اور کسی وقت کوئی اور تفرقہ ہوتا ہے ۔ اس دفعہ اربعین کے وقت عراق کے اندر مظاہرے شروع ہو گئے ہیں، اور ان مظاہروں کے اندرحکومتی فائرنگ یعنی پولیس اور فوج کے ذریعے لگ بھگ تیس کے قریب افراد جاں بحق ہو چکے ہیں ۔کئی شہروں میں کرفیو لگ گیا ہے اور شیعہ اور سنی دونوں علاقوں کے اندر یکساں طور پر بلوے اور مظاہرے ہورہے ہیں اور ادھر سے پوری دنیا سے لاکھوں کے قریب شیعہ وہاں اجتماع کرنے والے ہیں ۔ ایسے موقعے پر نجف اور کوفہ متاثرہ شہر ہیں یا جن راستوں سے خصوصاً بائی روڈ جانے والے زائرین جاتے ہیں ، بغداد کا اکثر حصّہ اور کچھ دیگر علاقہ اس وقت بحران کا شکار ہے ۔ عراق کے اندر پرتشدد مظاہرے ہورہے ہیں ۔ ان کے پیچھے بہت سارے عوامل ہیں کیونکہ خلیج کا علاقہ اس وقت بحرانوں کی زد میں ہے ۔یہ اسباب اندرونی نہیں ہیں بظاہرمیڈیا نے مہنگائی اور ملک کے اندراقتصادی مشکلات کو اچھالا ہے لیکن اصل میں ا س کے پیچھے اور عوامل ہیں ۔ اس کے پیچھے جو اصل عوامل ہیں ان میں بن سلما ن ، امریکہ اور اسرائیل ہے جن کا عراق کے اندر نیٹ ورک موجود ہے اور انہوں نے عراق کے اندر اچھا خاصہ سرمایہ لگایا ہوا ہے وہ عوام کو بھڑکاتے اور اُکساتے ہیں ۔خصوصاً اربعین کے موقع پر یہ کاروائی بن سلمان، امریکہ اور اسرائیل کریں گے ۔ اسرائیل ایک عرصے سے عراق کے اندر حشدِ الشعبی کو کمزور کرنے کے لیے سرگرم ہے ۔ عراقی جمعیت اور سیاست کی ترکیب اس طرح کی ہے کہ کسی بھی وقت بحران بھڑک سکتا ہے اور انہوں نے اس وقت بھڑکا دیا ہے ۔یہ اس وقت خطرہ ہے کیونکہ پوری دنیا سے زائرین اکٹھے ہوں گے اور زیادہ تعداد میں ہوں گے ایسے وقت میں بلوے زیادہ تشویش ناک ہیں ۔ امید ہے کہ انشاء اللہ عراقی اور دیگر مومنین اور ممالک جیسے ایران ہے سب مل کر اس صورتِ حال پر قابو پالیں گے تاکہ اربعین امن و امان کے ساتھ گزرے اور زائرین اپنا سفرِ زیارتی عافیت اور سلامتی کے ساتھ انجام دے کر آئیں
مقدسات کی بے حرمتی
شیعہ سُنی علماء وسیم رضوی کی زوجۂ رسول ﷺ گستاخی پر شدید غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ وسیم رضوی ملعون کی رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی بے نظیرہے تاریخ میں ایسی گستاخی کسی نے نہیں کی۔زوجۂ رسول ﷺ کی گستاخی در حقیقت رسول اللہ ﷺ کی گستاخی ہے۔ ہندوستان میں ایک نام نہاد شیعہ جو شیعہ وقف بورڈ کا چیئر مین ہے وہ بہت ہی فاسد اور مفسد انسان ہے ۔ مفسدِ فی الارض کا حقیقی مصداق یہی شخص ہے ۔ یہ پہلے سے یہ فساد کر رہا ہے لیکن اس وقت اس نے بہت شرمناک اور افسوس ناک حرکت انجام دی ہے اور وہ یہ کہ زوجہِ رسول کی شان میں گستاخی کی ہے جو حقیقتاً رسول اللہ کی شان میں گستاخی ہے ۔ ا س شخص نے انتہائی پستی اور کمینگی دکھائی ہے جس کے اس سے پہلے بہت ہی کم نمونے نظر آتے ہیں ۔ اس ملعون نے ام المومنین حضرتِ عائشہ ؓ کے اوپر فلم بنانے کا اعلان کیا ہے اور اس فلم کے تعارفی کلپ کے اندر بہت ہی فحش ، ناقابلِ برداشت اورناقابلِ تحمل مناظر میڈیا کے اوپر ڈالے ہیں جو پوری دنیا میں پھیلے ہیں اور لوگوں نے دیکھے ہیں ۔ اس کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے حلقوں کے اندراور باقی دنیا کے اندر بھی ایک شدید غم و غصہ کی لہر پیدا ہوئی ہے ۔اس فلم میں اس قسم کے مناظر ہیں کہ کوئی تصور نہیں کرسکتا ۔ اس شخص کو انسان بھی نہیں کہنا چاہیے جو رسول اللہ ﷺ کی شان میں اتنی گستاخی اور توہین کر سکتا ہے وہ انسانیت کے زمرے میں بھی نہیں آتا۔ ہندوستان کے علماء نے باقاعدہ کھل کر اس کے خلاف بیان بھی دیا ہے خصوصاً مولانا قلبِ جواد صاحب نے بیان دیا ہے جو لکھنوء میں تشیع کے حوالے سے ایک مرکزیت رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے کھل کر اس شخص سے اعلانِ براٗت کیا ہے ، اس کی مذمت کی ہے اور اس کو وارننگ دی ہے کہ آپ اپنی اس حرکت سے باز آجاؤ۔ اسی طرح تمام دنیا میں اس کے خلاف حرکت ہے ۔ یہ اصل میں ایک بہت بڑا فتنہ ہے۔ ہندوستان میں جتنی ہندو شدت پسند تنظیمیں ہیں یہ شخص ان کے ساتھ منسلک ہے ۔ اس شخص نے پہلے ایک فلم بنائی تھی رام جنم بھومی وہ بابری مسجد کے بارے میں تھی ۔ ہندوؤں نے جو بابری مسجد گرائی ہے اس موضوع پر فلم بناکر یہ اصل موضوع ہندوؤں سے ہٹا کر مسلمانوں پر لے آیا ہے ۔اس فلم کے اندر بھی اس نے شیعہ سنی تفرقہ کی باتیں کی ہیں ۔ اس وقت اتنی حساسیت نہیں تھی اور چونکہ اس کو کوئی جواب نہیں ملا تواب یہ اتنا گستاخ ہوا ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کی ہے ۔اتنی شدید گستاخی کی ہے کہ میں کہوں گا کہ بے نظیر ہے اس سے پہلے نہیں ہوئی ہے ۔ بے حرمتی کرنے والے جن حدیثوں کا حوالے دیتے ہیں مسلمان علماء نے ان کے بارے میں صحیح موقف نہیں اپنایا۔ حدیث کی کتابوں میں اس قسم کا مواد شامل ہے جن سے توہین کا پہلو نکلتا ہے دشمن ان سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ وسیم رضوی نے توہین آمیز فلم بنا کر توہین کی انتہا کر دی سلمان رشدی اور ڈنمارک کی توہین اس توہین سے کم تر ہے۔ہندوستان کے اندر اس سے پہلے تین دفعہ یہ عمل ہو چکا ہے ۔ایک 1927میں پنڈت چموتی نے رنگیلا رسول کے نام سے کتاب لکھی تھی اور اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اہلِ سنت کی حدیث کی کتابوںسے جو حدیثیں ہیں ان سے مواد نکال کر یہ کتاب لکھی ہے ۔ ان کتابوں کے اندر ایسی حدیثیں ہیں جو اس قسم کا تأ ثر دیتی ہیں اور ان حدیثوں کے متعلق مسلمان علماء نے کوئی صحیح موقف نہیں اپنایا ۔ حدیث کی کتابوں میں ایسا مواد ہے جس سے توہین کا پہلو نکلتا ہے اور جس سے دشمن استفادہ کرتے ہیں۔ ان حدیثوں کی صحیح توجیح کی جاسکتی ہے لیکن دشمن تو صحیح تفسیر نہیں کرے گا دشمن تو ہمیشہ فتنہ ڈالنے کے لیے غلط تفسیر کرے گا۔فتنے کی خاطر اس ہندو پنڈت نے یہ کا م کیا ۔ اس کے بعد 1979میں سلمان رشدی نے کتاب لکھی ۔ سلمان رشدی کشمیری خاندان سے ایک سنی مسلمان تھا۔ اس نے آیاتِ شیطانی کے نام سے ناول لکھا جس کے بعد امام خمینیؒ نے اس کے قتل کا فتویٰ دیا کہ یہ مرتد اور واجب القتل ہے ۔ اس فتوے نے پوری دنیا میں ایک بھونچال پیدا کیا ۔سلمان رشدی کو امریکہ اور برطانیہ نے پناہ دے دی ، پولیس کمانڈوکے حصار میں رکھا اور اس کی مخفی زندگی شرو ع ہو گئی ۔امریکہ برطانیہ نے اسے بھرپور تحفظ دیاکیونکہ یہ سب کچھ ان کی ایماء پر ہواتھا ۔ تیسرا کام ایک بنگلہ دیشی تسنیم نامی خاتون نے کیا اس نے توہین آمیز کتاب لکھی تھی ۔ اس کے بعد ڈنمارک میں توہین آمیز خاکے بنے اور پھر امریکہ میں فلم بنی اور اب اس ملعون وسیم رضوی نے ہندوستان کے اند ر یہ فلم بنائی ہے اور توہین کی انتہاء کر دی ہے ۔ سلمان رشدی اور ڈنمارک والوں کی توہین اس سے کمتر ہے وسیم رضوی نے زیادہ توہین کی ہے ۔
ایم آئی سکس کاکردار
جو بھی تفرقے کی بات کرے اور اختلافات کو ہوا دے یہ نشانی ہے کہ وہ ایم آئی سکس کا گروہ ہے۔ شیعہ اور سُنی میں تفرقہ ڈالنے کا کام برطانوی ایجنسی ایم آئی سکس کے بنائے ہوئے نیٹ ورک کر رہے ہیں۔ پاکستان کی سرزمین فتنوں کے لیے زرخیز، ایم آئی سکس کو ایک اچھا خاصہ تعاون پاکستان سے حاصل ہوتا ہے۔ رہبر ِ معظم نے ایک عرصے سے صراحت، تاکید اور تکرار کے ساتھ مسلمانوں کی آگاہی کے لیے اس موضوع کو بیان فرمایا تھا کہ برطانوی جاسوسی ادارے ایم آئی سکس نے شیعوں کے اندر باقاعدہ ایک مذہبی ورژن پیداکیا ہے جس کا کام تفرقہ ڈالنا اور شیعہ سنی میں اختلاف کو ہوا دینا ہے اور وہ کر رہے ہیں ۔سوشل میڈیا پر انہوں نے بھرپور کمپین چلائی ہوئی ہے اور باقی ذریعوں سے بھی یہ کام کر رہے ہیں ۔ محرم کے ایا م میں، زیارت کے موقع پر، اربعین پر اور جہاں جہاں بھی انہیں موقع ملے یہ اپنا کام کرتے ہیں ۔ اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین کرنا، مذاق اُڑانااور تضحیک کرنا یہ اس قسم کی حرکات کر رہے ہیں ۔ ان کو پاکستان سے بھی اچھا خاصہ تعاون حاصل ہوتا ہے کیونکہ پاکستان کی سرزمین فتنوں کے لیے بہت زرخیز ہے ۔ ایم آئی سکس نے عالمی نیٹ ورک بنائے ہیں ۔ ایران کے اندر شیرازی خاندان ہے جس کا موجودہ سربراہ صادق شیرازی ہے اور اس کے باقی بھائی ، خاندان اور پیروکار ہیں ۔ شیرازی خاندان کے برطانیہ کے اندر ٹی وی چینلزہیں اور اسی طرح لند ن سے چلنے والے چند ٹی وی چینلز ہیں جو ایم آئی سکس کی ایماء پر چل رہے ہیں ۔ ان کی پہچان ہے کہ تفرقے اور اندرونی اختلافات کو زیادہ ہوادیتے ہیں ، اہلِ سنت کے مقدسات کی توہین کرتے ہیں ، سرعام برملا لعن طعن کرتے ہیں، شیعہ علماء، فقہاء کی مذمت کرتے ہیں، ان کی مخالفت کرتے ہیں ، اُن پر بھی لعن طعن کرتے ہیں اور جو بھی اتحادِ مسلمین کی بات کرے اس کی مخالفت کرتے ہیں، اس کو بُرا بھلا کہتے ہیں اور اس کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ انہوں نے عرصے سے یہ عمل شروع کیا ہوا ہے ۔ایسے ذاکرین اور خطباء مجالس میں بُلا کر اور انہیں بھاری فیسیں دے کر ان سے اس قسم کے اختلافی بیانات دلاتے ہیں جس سے دوسروں کی دل آزادی ہوتی ہے۔ یہ ایک موٹی علامت ہے جو بھی ایسا کام کرے وہ ایم آئی سکس کا گروہ ہے ۔یہ کام کوئی ذاکر کرے، خطیب کرے، کوئی عمامے والا کرے یابغیر عمامے والاکرے یہ ان سب کی ایک علامت ہے ۔ امریکہ برطانیہ اور اسرائیل ہر اس کام کی تائید کرتے ہیں جو مسلمانوں کے اندر تفرقہ ڈال رہا ہو۔ہندوستان کے اندر وسیم رضوی نے جو کام کیا ہے اس میں ایک تو مودی حکومت اس وقت اسلام دشمنی میں سب سے آگے ہے ۔ ایم آئی سکس اور اسرائیلی اور امریکی ایجنسیوں کا اس وقت ایک سب سے بڑا کام مسلمانوں کے اندر تفرقہ ڈالنا ، نزاع کرانا اور ایسے گروپس جو ان کاموں میں ملوث ہیں ان کی تائید کرنا اور ان کو فنڈ دینا ہے ۔اس شخص وسیم رضوی نے بھی انہی کے اکسانے پر یہ کام کیا ہے ۔
اجتماعی ذمہ داری
شیعہ وسیم رضوی ملعون کو مرتد سمجھتے ہیں اور اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں ۔ امام خمینی ؒ کا جو فتویٰ سلمان رشدی کے بارے میں تھا وہ وسیم رضوی اور وہی ہر مرتد کے بارے میں ہے۔ یہ فلم ابھی بنی نہیں ہے لیکن جو کچھ بن کر آچکا ہے وہ امام خمینیؒ کے فتوے کا مصداق ہونے کے لیے کافی ہے۔ اہلِ ہندوستان خصوصاً شیعہ اس ننگ کو اپنے ماتھے سے ہٹائیں جو پوری دنیا کی دل آذاری کا باعث ہے۔ سلمان رشدی ایک سنی خاندان سے تھا اس مرتد نے جب رسول اللہ ﷺ کی توہین کی تو ایک شیعہ فقیہ نے اس کے قتل کا فتویٰ دیا۔ اس کے خلاف پوری دنیا کے مسلمانوں نے احتجاج کیا اور یہ احتجاج دراصل امریکہ اور برطانیہ کے خلاف تھا سلمان رشدی فقط ایک مہرہ تھا ۔ اسی طرح وسیم رضوی ابھی ایک مہرہ ہے جس کے پیچھے مودی حکومت اور ہندو شدت پسند تنظیم ہے اور یہی ایم آئی سکس ہے جنہوں نے اس کو آگے کیا ہے ۔ شیعہ ا س ملعون سے برأت کا اعلان کرتے ہیں اور اس کو مرتد سمجھتے ہیں ۔
بریلوی مسلک نشانے پر!پاکستان میں بڑا فتنہ جو شروع ہوا ہے وہ یزید پلید کی تطہیر کا عمل ہے ۔ یزید کی تطہیر کرنے والوں کا کام بھی اتنا ہی پلید ہے جتنا وسیم رضوی کا ہے۔ بریلوی مکتبۂ فکر سے یزید پلید کی صفائیاں پیش ہونا بہت ہی خطرناک اور خوفناک ہے۔ پاکستان کے اندر ایک نیا فتنہ شروع کیا گیا ۔ ہندوستان کے اندر ایک مرتد ملعون پیدا ہوا ہے جس نے پاکیزہ خاندان، پاکیزہ سیرت، رسول اللہ ﷺ کی پاکیزہ سیرت کے اوپر دھبہ لگانے کی کوشش کی ہے اور پاکستان کے اندر اس کے اُلٹ ایک فتنہ شروع ہوا ہے اور وہ بہت خوف ناک اور خطرناک ہے ۔ وہ فتنہ یہ ہے کہ یزید پلید ، فاسق ، فاجر، مرتد کی تطہیر اور تنزیہہ کا عمل پاکستان میں شروع ہو گیا ہے ۔ اُدھر ہندوستان میں بیٹھ کر وہ خبیث رسول اللہ ﷺ کی ذات پر حملے کررہا ہے اور ادھراسی جیسے بیٹھ کر یزید کی تطہیر اور تنزی کر رہے ہیں اور یزید کی صفائیاں پیش کر رہے ہیں ان کا بھی اتنا ہی پلید کام ہے ۔ تعجب اس بات پر ہے کہ یہ کام کون کررہا ہے ۔ پاکستان میں پہلی دفعہ نہیں ہے کہ یزید کی حمایت میں آواز اٹھا رہے ہیں ۔ یزید اور اس کے باپ امیر شام کی صفائیاں پیش کرنے والے پہلے سے موجود تھے لیکن وہ اورطبقہ تھا۔ اب جو نیا طبقہ میدان میں آیا ہے وہ بریلوی طبقہ ہے ۔ بریلوی محبتِ اہلِ بیت میں معروف ہیں ۔ یہ خودکو رسول اللہ ﷺ کا عاشق کہتے ہیں اور عشقِ رسول ﷺ کاتقاضہ یہ ہے کہ آلِ رسول ﷺ سے بھی عشق ہواور بریلوی طبقہ آلِ رسول ﷺ سے عشق کرتے بھی ہیں ۔ اگر ان کی نعتیں دیکھیں، مداحیہ کلام دیکھیں تو اس میں امام حسنؑ اور امام حسین ؑ ، جنابِ سیدہؑ ، امیرالمومنین ؑاور دیگر اہلِ بیت کے حق میں فراوان کلام موجود ہیں ۔ ان کے علماء، بزرگان اور عوام اِس محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ جگہ جگہ ان کے مزاروں اور درباروں پر پنجتن پاک کے نام ہیں اور یہ اپنے آپ کو پنجتنی کہتے ہیں ۔ بریلوی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ محبِ اہلِ بیت ہیں اور یہ دوسروں کومتہم کرتے تھے کہ وہ اہلِ بیت کا بغض رکھتے ہیں۔ اہلِ بیت ؑسے بغض رکھنا، رسول اللہ ﷺ سے بغض رکھنے کی نشاندہی کرتا ہے اور یہ حقیقت بات ہے۔ جو آلِ رسول ؑ سے بغض رکھتا ہے وہ یقینارسول اللہ ﷺ سے بھی بغض رکھتا ہے ۔ اس وقت پاکستان میں یہ لہر اُٹھی ہے کہ بریلوی طبقے سے ایسے مفتی پیدا ہونا شروع ہوئے ہیں ایسی آوازیں اُٹھنا شروع ہوئی ہیں کہ عشقِ رسول ﷺ ، اہلِ بیت ؑ اور پنجتنِ پاک چھوڑ کر یزید کی حمایت کرنا شروع کر دی ہے ۔ جن میں سے ایک بڑا نام جو پاکستان میں عرصے سے بڑا معروف و مشہور ہے ، مفتی منیب جو رویتِ ہلا ل کمیٹی کے چئیرمین ہیں اور قوم اُن کا نام سنتی ہے ۔ مفتی منیب نے اپنے تازہ ترین بیان میں یزید کی صفائی پیش کی ہے کہ واقعۂ کربلا اور امام حسین ؑ کے قتل کا ذمہ دار یزید نہیں ہے ۔ یہ باتیں اور یہ تفکر بہت خوفناک ہے بریلوی مکتبۂ فکر سے یہ باتیں اٹھنا بہت ہی خوفناک ہے ۔یزید پلید کی تطہیر کے پیچھے بن سلمان اور عربی لابی ہےپہلے وہ ضیاء الحق کو استعمال کرچکے ہیں۔ پاکستان کا ماحو ل اب دیو بندی کارڈ کے استعمال کی اجازت نہیں دے رہا تو بریلوی کارڈ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بریلوی اہل بیت سے محبت کرنے والے کسی کو توقع نہیں تھی کہ یہ بھی ایک دن یزید کے حامی بن جائیں گے ۔یزید کی تطہیر کا اصل ماجرہ کیا ہے میں وہ عرض کر دیتا ہوں ۔ جس طر ح ہندوستان کے اس مرتد وسیم رضوی کے پیچھے ایم آئی سکس ہے اس ماجرہ کے پیچھے بھی ایک سلسلہ ہے ۔ اس سلسلے کو آپ بن سلمان اور عربی لابی کہہ سکتے ہیں ۔انہوں نے پاکستان میں پہلے دیوبندیت اور اہلِ حدیث کا کارڈ کھیلا۔ اہلِ دیوبند اور اہلِ حدیث میں سے انہوں نے گروپ ، بندے اور افراد نکالے ، اُن کے اوپر سرمایہ لگایا، انویسٹمنٹ کی ، اُن کے لشکر بنائے اور ان کے ذریعے پاکستان کے اندر تباہی پھیلائی ۔چونکہ انہوں نے وہ کارڈ اتنا استعمال کیا کہ پاکستان کے حالات اب اس طرح سے بن گئے ہیں کہ ہمارے وزیرِ اعظم صاحب اقوامِ متحدہ میں گئے ہیں اور دیگر ممالک میں جا کر انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ہم نے یہ غلطی کی ہے کہ یہ گروپ اور دہشت گرد بنائے ہیں۔ پہلے وزیرِ خارجہ بھی یہ اعتراف کرتے رہے ہیں ، سابقہ آرمی چیف نے بھی اعتراف کیا اور موجودہ آرمی چیف نے بھی اعتراف کیا کہ یہ غلطیاں پہلے ہوئی ہیں اب نہیں ہوں گی۔ وہ غلطیاں یہی تھیں کہ ضیاء الحق کے زمانے سے مذہبی کارڈ استعمال کرنا شروع کیا۔ دیوبندی مسلمانوں میں سے شدت پسند افراد کو چنا گیا ، اُن کے لشکر اور گروہ بنا کر مسلمانوں خصوصاََ شیعوں کے خلاف استعمال کیے گئے ۔ اُنہی میں سے کچھ ایسے نکلے جنہوں نے یزید کی حمایت کی، یزیدیت کا پرچار کیا، اہلِ بیت ؑ کے خلاف بیان دینا شروع کیے ۔وہ کارڈ استعمال کر چکے ہیں، پاکستان کا ماحول اب اس کارڈ کی اجازت نہیں دیتاکیونکہ پاکستان کی ترجیحات میں فرق آیا ہے ۔ اس تناظر میں اب وہ کارڈ موثر نہیں ہے ۔ اب انہوں نے بریلویت کی طرف توجہ کی ہے یعنی وہی آوازیں اب بریلویت سے آنا شروع ہو گئی ہیں ۔ کراچی میں ایک صاحب ہیں جو ویسے اسلامی تعلیمات کی تضحیک کے لیے مشہور ہیں، الیاس قادری جو ہر چیز کو ایک بھونڈے انداز سے اسلام بنا کر پیش کرتے ہیں ، تعلیمات ِ دین اور سیرت کا مضحکہ بناتے ہیں، اُس نے سب سے پہلے بنو اُمیہ اور معاویہ کی تعریفیں شروع کیں۔اسی طرح بریلوی طبقے سے ایسے افراد ایک ایک کر کے اُٹھنا شروع ہوئے اور ابھی نوبت مفتی منیب تک پہنچی ہے کہ اس نے یزیدیت کا دفاع اور یزیدیت کی حمایت کی ہے ۔ دوسرے مسالک میں ایسے افراد تھے لیکن بریلویوں میں کسی کو توقع نہیں تھی کہ یہ ایک دن یزید کے حامی بن جائیں گے ۔ حبِ اہل بیت بریلویت کا امتیاز تھا آج ان میں یزیدیت کی ترویج کرنے والے مفتی پیدا ہو گئے ہیں۔ بریلوی علماء نے یزید کی تطہیر کے فتنے پر ردّ عمل نہ دکھایا تو ایسے بد نام ہو جائیں گے جیسے دیوبند مسلک دہشت گردی دے بدنام ہوا۔ شیعہ میں جب غالی اور نصیری پیدا ہوئے اور علماء نے کوئی اقدام نہیں کیا تو شیعہ مذہب بدنام ہوا یہی کام اب بریلویت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جب دیو بندیوں کو استعمال کیا گیا اس وقت بھی دیوبندی علماء کو چاہیے تھا کہ وہ اپنے مذہب کی حفاظت کے لیے یہ کام کرتے ا ور اس فتنے کو کنٹرول کرتے تاکہ دیوبندیت بدنام نہ ہو ۔جس طرح تشیع کے اندر غالی اور نصیری پیدا ہوئے تو تشیع کے علماء بیٹھے رہے اور ان کو کنٹرول نہیں کیا نہ ان کے خلاف کوئی اقدام کیاجس کی وجہ سے طرح پورا تشیع بدنام ہو گیا۔ اب پورے تشیع کے اوپر یہ تہمت باندھی گئی ہے کہ یہ غالی ہیں ، نصیری ہیں اور یہ شرک کرتے ہیں۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ جو شرک کرتے ہیں وہ شیعہ نہیں ہیں ۔ انہوں نے شیعہ کے نام پر شرک کیا اورشیعہ علماء نے ان کے خلاف کوئی اقدام نہیں کیااور نتیجہ یہ ہوا کہ ان مشرکوں کا عمل شیعہ مذہب کے نام پر مشہور ہو گیا۔اسی طرح دیوبندیت کے اندر یہ شدت پسند اور دہشت گرد پیدا ہوئے اور دیوبندی علماء نے ان کی مذمت نہیں کی اور اِن سے اظہارِ برأ ت نہیں کیا تو پوری دیوبندیت کو ملک کے اندر اور عالمی سطح پر اور ہر جگہ بدنام ہونا پڑا۔ اب یہی کام بریلویت کے اندر شروع ہو ا ہے ۔ یہ چند عناصر ہیں ان کے منہ سے عرب پیسہ صا ف نظر آرہا ہے۔ بن سلمان جہاں بھی پیسہ لگاتا ہے ، اُس کی رقم بولتی ہے ، صاف نظر آتا ہے کہ یہاں بن سلمان کا پیسہ چل رہا ہے ، عربی پیسہ چل رہا ہے ۔ آج اگر بریلوی علماء نے قیام نہ کیا تو یہ بریلویت کو بدنام کر دیں گے ، بریلویت کو یزیدیت بنا رہے ہیں ۔ بریلوی جن کا ہمیشہ امتیاز یہ تھا کہ یہ محبِ رسول ﷺ ، عاشقِ رسول ﷺ ، عاشقِ آلِ رسول ؑ رہے ہیں آج ان کے اندر ایسے ناپاک عناصر اپنے عہدوں، پیسوں کے لیے یزیدیت کی ترویج کر رہے ہیں ۔ مقدساتِ اسلامی کی توہین کرنا اور یزید پلید کی تطیہر کرنا ایک جیسے کام ہیں ۔ مقدسات کی توہین ایم آئی سکس کروا رہی ہے اور دوسری طرف مفتی منیب جیسے یزید کی تطہیر کر رہے ہیں۔ ایک طرف ایم آئی سکس ایسا مرتد پید ا کرتی ہے اور ادھر سے بن سلمان ایسے افراد پیدا کرتا ہے تاکہ اُمت کے اندر ہمیشہ فساداور یہ جھگڑے اور یہ عناصر شروع ہوں ۔رسول اللہ ﷺ کی پاک ذات ، پاک سیرت پر اگر وہ لوگ گستاخی کر رہے ہیں ، پاک ہستی پر اگر وہ لوگ اس طرح کا کیچڑ اچھال رہے ہیں تو ادھر بیٹھ کر پلید انسان کی تطہیر کا کام شروع ہو رہاہے یہ دونوں کا کام ایک جیسا ہے ۔ وہ حرمتِ رسول ﷺ پائمال کر رہا ہے اور یہ دشمنِ رسول ﷺ کا ساتھ دے رہا ہے ،قاتلِ امام حسین ؑ اور قاتلِ آلِ رسول ؑکی ترویج کر رہا ہے۔ یہ فتوے والا مفتی نہیں ہے بلکہ مفت والا مفتی ہے ۔ فتویٰ والے مفتی عالم ہوتے ہیں وہ کبھی بھی یزید کی حمایت نہیں کرتے ۔ یہ مفت کے مفتی بلکہ مفت کے مفتی نہیں بلکہ paidہیں ۔ یہ مفت میں یہ کام نہیں کر رہے بلکہ ان کاباقاعدہ معاوضہ ہے ۔
درست لائحہ عمل :
یزید کی حمایت مفتی منیب کے خلاف بریلوی اقدام کریں گے تو فرقہ واریت کا ماحول پیدا نہیں ہو گا۔مفتی منیب کے خلاف اگر شیعہ بیان دیں تو فرقہ واریت کا ماحول بنے گا لیکن اگر بریلوی اس کو جواب دیں تو فرقہ واریت نہیں ہو گی ۔جس طرح نصیرت کے نام پر کچھ ہوتا ہے تو سنی اگر بولیں تو شیعہ غیرت میں آجاتے ہیں کہ یہ شیعوں کے خلاف بول رہا ہے ۔ نصیری اور غالی کے خلاف شیعہ قیام اور اقدام کرے تاکہ فرقہ وارانہ جنگ نہ بنے ۔ یزید کے حامیوں کے خلاف خود بریلوی قیام کریں تاکہ فرقہ وارانہ ماحول نہ بنے ۔ دیوبندیوں کے اندر اگر کوئی ایسا فتنہ بنتا ہے تو دیوبندی اس کو کنٹرول کریں ۔ یہ علماء کا فریضہ ہے علماء چپ کر کے نہ بیٹھیں ۔ اگر ہندوستانیوں نے وسیم رضوی کے خلاف قدم نہ اٹھایا تو کئی اور وسیم رضوی پیدا ہو جائیں گے ۔نصیریوں نے شیعہ مکتب کو بہت نقصان پہنچایا ۔ آج پاکستانی عوام علماء کی خاموشی کی وجہ سے اتنے کنفیوز ہیں۔ نصیریوں کے خلاف علماء کی خاموشی نے بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ آج نصیریوں نے پاکستان کے عوام اتنے کنفیوز کر دیے ہیں علما ء کی خاموشی کی وجہ سے ۔ اگر ہمارے علماء پہلے دن نصیری کو اس کے عمل کی سزا دے دیتے تو دوسرا نصیری پاکستان میں جنم نہ لیتا۔آج اگر وسیم رضوی کو ہندوستانیوں نے نہ سبق سیکھایا تودوسرا وسیم رضوی بھی پیدا ہو گا۔ یہ فتنہ آگے بڑھے گا، یہ خوفناک کام ہے ، ذمہ دار ، سنجید ہ لوگ اسے سنجیدگی سے لیں۔
یمن کامیابی
یمن جنگ میں تحول ، یمنیوں نے سعودی عرب پر کاری ضربیں لگانا شروع کر دیں۔ یمنیوں پر حملے نہ روکنے کی صورت میں سعودی عرب پر مزید کاروائیاں ہوں گی۔ حوثی ملیشیا خلیج میں جو اہم موضوع ہے وہ ایران ، امریکہ اور سعودی عرب کی کشیدگی ہے خصوصاً یمن جنگ میں ایک بہت بڑا تحول اور تبدیلی آئی ہے ۔ یمنیوں نے ایک دو ہفتے کے وقفے سے سعودیہ پر حملے کیے ہیں۔ پہلا حملہ ڈرون کے ذریعے سعودی تیل تنصیبات پر تھا اور انہیں حملہ کرکے ناکارہ بنا دیا ۔ ابھی سعودی اس ضرب سے سنبھلے نہیں تھے کہ دوسری ضرب لگائی ، نجران کے علاقے میں جس کی سرحد یمن سے ملتی ہے ، یمنی ملیشیا، حوثی ملیشیا نے نجران کے اندر پیش روی کر کے سعودی عرب کی فوج کے تین بریگیڈ کو تباہ کر دیا ہے ۔ ان کا سارا اسلحہ چھین لیا ہے ،ٹینک ، گاڑیاں ، توپیں، بندوقیں۔ تین بریگیڈفوج کے پاس بہت اسلحہ اور بہت سازو سامان ہوتا ہے ۔ یمنیوں نے سعودی فوج کی ایک بڑی تعداد کو قتل کر دیا ہے میدان جنگ میں ابٖھی تک لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور ہزاروں فوجی قیدی بھی بنا لیے ہیں۔ اس کے جواب میں سعودی ابھی تک بالکل سناٹے میں ہیں ۔ وہ پہلی ضرب سے جانبر نہیں ہوئے تھے کہ یمنیوں نے اس سے زیادہ تیز تر ضرب سعودیہ کے اندر آکر لگائی ہے ۔ یمنیوں نے آگے دھمکی دے دی ہے کہ تم نے اگر یمن پر حملے بند نہ کیے تو تیل کی صنعت والی کاروائی ، فوجی حملہ اور ایسی مزید کاروائیاں ہوں گی۔ جب تیل کی صنعت پر حملہ ہوا تھا تو صورتِ حال بہت خوفناک بن گئی تھی اور خلیج کے اندر ایک جنگی حالت بن گئی تھی ۔ ایسے لگتا تھا کہ بس آج کل میں جنگ ہونے والی ہے لیکن ایسے نہیں ہوا۔اب کافی حد تک وہ خطرہ کم ہو گیا ہے البتہ ابھی بھی موجود ہے لیکن اس حد تک نہیں ہے جو پہلے تھا ۔ ایران نے بھی اپنے تئیں مضبوط پیغام دیا ہے کہ اگر حملہ کرو گے توساتھ بھگتو گے ۔ انہیں بات سمجھ آگئی ہے اور اردگرد ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کو بھی جرأت نہیں ہورہی کہ وہ یہ کام کرے ۔
بن سلمان کا اعتراف
تیل کی ضرب لگنے سے سعودی عرب کی رگِ حیات ختم ہو گئی کسی جنگ کے قابل نہیں رہے ۔ شاہی خاندان میں اقتدار کی رسہ کشی بھی دوبارہ تیز ہو گئی؛ شاہ سلمان کا ذاتی محافظ قتل کر دیا گیا۔بن سلمان نے باقاعدہ رسمی طور پر اعتراف کر لیا ہے کہ سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کا قتل میرے حکم پر ہوا ہے ۔ سعودیہ کے اندر شاہی خاندان میں شدید رسہ کشی شروع ہو گئی ہے ۔ بن سلمان ہی نے ایک اور اقدام یہ کیا ہے کہ اپنے باپ کا ذاتی محافظ اور فوج کا جرنیل مروادیا ہے ۔ آگے یہ پیش گوئی کی جارہی ہے کہ دوسرا نمبر شاہ سلمان کا ہے کہ بیٹا کودتا کر کے باپ کو مروا کر خود بادشاہ بننے جارہا ہے لیکن باقی شہزادوں نے بھی اپنی پوری تیاری کر لی ہے کہ بن سلمان کو راستے سے ہٹایا جائے ۔ ان کو توقع تھی کہ امریکہ ہماری طرف سے جنگ کرے گا لیکن امریکہ نے ان کی توقع کے برعکس ان کو صاف سااور دو ٹوک جواب دے دیا ہے کہ اپنی جنگیں خود لڑو اور اگر ہم نے لڑنی ہیں تو پیسے دو۔جو پیسے تم نے دیے ہیں اُن سے جنگ نہیں ہوتی ۔سعودیہ کی تیل کی صنعت کو جو ضرب لگی ہے اب یہ کسی جنگ کے قابل نہیں ہیں بلکہ ان کی رگِ حیات ختم ہو گئی ہے ۔ ابھی قرضے لے کر یہ اپنا خسارہ پورا کر رہے ہیں۔ ایسے حالات لگ رہے ہیں کہ شاہی خاندان کے اندر کوئی جنگ چھڑ گئی ہے ۔جدہ میں شاہ کے ذاتی محافظ کے قتل کے بعدیہ پھوٹ زیادہ بڑھتی جارہی ہے۔
خداوندتبارک وتعالیٰ تمام مسلمین کو فتنوں، جنگوں اور ظلم و ستم سے نجات عطا فرمائے ۔ یہ مرتد فتنہ گر خواہ وہ یزیدیت کی حمایت کی صورت میں ہوں، یا رسول اللہ ﷺ اور خاندانِ رسول ﷺ کی بے حرمتی کرنے والوں میں سے ہوں پروردیگار ان فتنہ گروں کو اس صفحۂ ہستی سے محو فرمائے اور ان کے حامیوں اور بانیوں کو اللہ تعالی رسواء فرمائے۔