بصیرت اخبار

اس میں شک نہیں ہے کہ نہج البلاغہ کے خطبات، خطوط اور کلمات قصار مرسل طریقہ (مرحوم سیدر ضی کی تالیف کے مطابق) سے بیان ہوئے ہیں ، یعنی ایسی اسناد جو ان کو معصومین سے متصل کردے ، ذکر نہیں ہوئی ہیں اور اسی وجہ سے بعض لوگ شک و سوسہ کرتے ہیں ،خصوصا وہ لوگ جو تصور کرتے ہیں کہ نہج البلاغہ اپنے بلندمضامین کی وجہ سے ممکن ہے کہ مذہب شیعہ کی حقانیت اور تمام اصحاب پر حضرت علی (علیہ السلام) کی فضیلت و برتری پر سندو دلیل سمجھی جائے ، لہذا انہوں نے عام مسلمانوں کے افکار میں اس بزرگ کتاب کو ختم کرنے کیلئے بہانہ اور دستاویز قرار دیتے ہیں ۔

اگرچہ ان شک و شبہات نے مسلمان دانشوروں کے افکار میں کوئی اثر نہیں چھوڑا ، اور دونوں گروہوں کے علماء نے اس کی تعریف و تمجید میں اپنی زبانیں کھولی ہیں اور اس کے اسرار و رموز کی دقیق شرح بیان کی ہے جس کے بعض نمونوں کو گذشہ صفحات پر بیان کیا تھا ، لیکن ضروری ہے کہ ان وسوسوں اور شبہات کو دور کرنے کیلئے نہج البلاغہ کی اسناد کے سلسلہ میں ایک شرح دی جائے تاکہ یہ مختصر گرد و غبار اس کے نورانی چہرہ سے دور ہوجائے ۔

۱۔  نہج البلاغہ کے اکثر و بیشتر خطبات ، خطوط او رکلمات قصار مستدل ہیں یا ان کے اندر منطقی استدلال چھپا ہوا ہے ، درواقع نہج البلاغہ ایسا کلام ہے جس ےک بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ”قضایا قیاساتھا معھا“ ۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن کی دلیل خود انہی کے اندر موجود ہے ۔

 

اس بناء پر سلسلہ اسناد کی تعبدی مباحث کے عنوان سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے ایک عظیم حصہ میں اعتقادی تعلیمات ، قیامت، صفات خداوند ، قرآن کریم اور پیغمبرا کرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی عظمت کے دلائل وغیرہ موجود ہیں ۔

دوسرے حصہ میں وعظ و نصیحت ، گذشتہ امتوں کی زندگی میں درس عبرت ، ملک کے قوانین ، اجتماعی زندگی اور جہاد کے آداب وغیرہ ہیں اور یہ تمام مسائل عام طور سے منطقی اور مستدل یا استدلال کے قابل ہیں ۔

جیسا کہ مختلف علوم کے علماء اور فلاسفہ کی کتابیں یہاں تک کہ بزرگ شعراء کے اشعار بغیر کسی سند و مدرک کے قابل قبول ہیں ، نہج البلاغہ کے مضامین کے سلسلہ میں بھی بدرجہ اولی یہی دلیل پیش کی جاسکتی ہے ، حقیقت میں ان کے دلائل خود اسی کتاب میں موجود ہیں ”قضایا قیاساتھا معھا“ !۔

صرف نہج البلاغہ کا ایک مختصر حصہ ایسا ہے جس میں احکام فرعیہ تعبدیہ بیان کئے گئے ہیں ، اگر سند کی بات کی جائے تو صرف اسی حصہ میں سند کی ضرورت ہے اور یہ نہج البلاغہ کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے ، اسی وجہ سے نہج البلاغہ کی اسناد کے متعلق بحث و گفتگو بہت کم رنگ یا کم اثر ہے ۔

۲۔  دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر نہج البلاغہ کیلئے حجیت سند کے معیار و ملاک کا مطالعہ کریں تو اس لحاظ سے کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ حدیث اور روایت کو قبول کرنے کے لئے (جیسا کہ علم اصول میں تحقیق ہوئی ہے) اصلی معیار و ملاک ، روایت پر اعتماد اور اطمینان ہے جو مختلف طرق سے حاصل ہوسکتا ہے کبھی کبھی مورد اعتماد سلسلہ سند کے راویوں کی وجہ سے روایت پر اعتماد کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی روایت کی کثرت اور تعدد کی وجہ سے (جو مشہور اورمعتبر کتابوں میں نقل ہوئی ہیں) اس طرح کا اعتماد حاصل کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی روایت کے مضامین اس قدر بلند وبالا ہوتے ہیں جو خود گواہی دیتے ہیں کہ یہ فقط پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یا امام معصوم (علیہ السلام) کی فکر کا نتیجہ ہیں، اور اسی کی وجہ سے ہم روایت پر اعتماد کرتے ہیں ۔

اسی مسئلہ کی طرح صحیفہ سجادیہ (اس کی معتبر اسناد کو نظر انداز کرتے ہوئے) یعنی بہت بلند و بالا دعائیں اوراس کے بہترین مضامین ہیں جو امام سجاد علی بن الحسین زین العابدین (علیہ السلام) سے صادر ہوئی ہیں ۔

بے شک جو بھی نہج البلاغہ کے خطبات اور اس کے تمام مضامین کو غور و فکر کے ساتھ مطالعہ کرے گا اور اس کے اسرار کے گوشوں کو تلاش کرلے گا وہ اعتراف کرے گا کہ یہ ایک عام انسان کے کلمات نہیں ہیں ،یہ ایسا کلام ہے جو یقینا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) یاامام معصوم (علیہ السلام) سے صادر ہوا ہے، شیعہ اور اہل سنت علماء کی تعبیر کے مطابق یہ ایسا کلام ہے جو مخلوق کے کلام سے برتر اور خالق کے کلام سے نیچے ہے ۔

اس بناء پر نہج البلاغہ کے مضامین اس کی سند کے معتبر اوراس کے معصوم (علیہ السلام) سے صادر ہونے پر دلیل ہیں اور جس معصوم (علیہ السلام) سے اس کو نسبت دی گئی وہ صرف اور صرف امام علی (علیہ السلام) ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہ انہی کا کلام ہے ۔

کون احتمال دے سکتا ہے کہ کوئی عام انسان یا دانشور اس کو جعل کرے اور پھر اس کی نسبت علی (علیہ السلام) کی طرف دیدے ؟!

جو کوئی ایسا کام کرسکتا ہے یا اس کے دسویں حصہ کا دسواں حصہ بھی ایجاد یا جعل کرسکتا ہے وہ اس کی نسبت اپنی طرف کیوں نہیں دے گا کیونکہ یہ پوری دنیا میں اس کے لئے افتخار کا مقام ہے ؟

اس کے علاوہ سید رضی اوران کی شخصیت اور وثاقت کے متعلق جو پہچان ہمیں ہیں اس کے ذریعہ ہم جانتے ہیں کہ جب تک وہ کسی روایت کو معتبر کتاب میں نہیں دیکھیں گے اس وقت تک اس کی نسبت یقینی طور پر حضرت علی (علیہ السلام) کی طرف نہیں دے سکتے، انہوں نے یہ ہرگز نہیں کہا ہے کہ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) سے روایت ہوئی ہے بلکہ یقینی طور پر کہا ہے یہ امام (علیہ السلام) کے خطبات، امام کے خطوط اور امام کے کلمات قصار ہیں ، کس طرح ممکن ہے کہ ایک دانشور جس کے پاس معتبر سند نہ ہو وہ اس قدر یقین کے ساتھ اپنے معصوم رہبر کی طرف ایسی نسبت دے ؟!

اس کے علاوہ سید رضی سے پہلے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں نہج البلاغہ کے بہت سے خطبات،خطوط اور کلمات قصار ذکر ہوئے ہیں اوراس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ سید رضی سے پہلے یہ کلمات علماء ، حدیث کے روات، اور لوگوں کے درمیان مشہور و معروف تھے اور یہ شہرت ہمیں اس کی متصل اسناد سے بے نیاز کرسکتی ہے ۔یہاں تک کہ بعض بزرگ مورخین نے لکھا ہے کہ لوگوں کے درمیان نہج البلاغہ کے جو خطبات مشہور تھے ان کی مقدار اس سے زیادہ ہے جن کو سید رضی نے نہج البلاغہ میں جمع کیا ہے ،حقیقت میں نہج البلاغہ میں منتخب خطبوں کو جمع کیا ہے ۔

مشہور مورخ ”مسعودی“ نے جو کہ سید رضی سے ایک صدی قبل گزرے ہیں ، مروج الذہب میں امام (علیہ السلام) کے خطبوں کے متعلق کہا ہے :

”والذی حفظ الناس عنہ من خطبہ فی سائر مقاماتہ اربع ماة و نیف و ثمانون خطبة“ ۔ لوگوں نے امام (علیہ السلام) کے جن خطبوں کو مختلف جگہوں پر حفظ کیا ہے ان کی تعداد تقریبا چار سو اسی خطے ہیں (۱) ۔ جب کہ اس وقت ہمارے پاس نہج البلاغہ کے صرف دو سو چالیس خطبے ہین۔

ایک دوسرے مشہور دانشور ”سبط بن جوزی“ نے کتاب تذکرة الخواص میں سید مرتضی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہے : امام (علیہ السلام) کے چار سو خطبے مجھ تک پہنچے ہیں (۲) ۔

مشہور مسلمان دانشمند جاحظ نے کتاب البیان والتبیین میں کہا ہے : علی (علیہ السلام) کے خطبے مدون، محفوظ اورمشہور تھے (۳) ۔

ایک دوسرے دانشور ابن واضح نے کتاب ”مشاکلة الناس لزمانھم“میں اس طرح کہا ہے : لوگوں نے امام علی (علیہ السلام) کے بہت سے خطبوں کو حفظ کیا ہے ،انہوں نے چار سو خطبے پڑھے ہیں اورلوگوں نے انہیں حفظ کیا اور یہ وہی ہیں جو ہمارے درمیان رایج ہیں اورتقریروں میں ان سے استفادہ کرتے ہیں (۴) ۔

آج بھی ہمارے پاس نہج البلاغہ کے مصادر واسناد کے عنوان سے ایک کتاب موجود ہے جس کو معاصر فضلاء نے لکھی ہے اور ان خطبوں کی ان اسناد کو جو سید رضی سے پہلے کتابوں میں لکھی گئی ہیں ان کو تلاش کرکے ایک بہترین مجموعہ میں شایع کیا ہے،اس سلسلہ میں ایک بہترین کتاب، محقق السید عبدالزھراء الحسینی الخطیب کی ”مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ“ ہے ،جس میں مراجعہ کرنے والے ہر محقق کو اس حقیقت سے واقف کردیتی ہے کہ سید رضی نے تنہا ان خطبوں کو نقل نہیں کیا ہے ۔

۱۔  مروج الذہب ، ج ۲، ص ۴۱۹، طبع دارالہجرہ قم۔

۲۔  تذکرة الخواص، ص ۱۲۸۔

۳۔  البیان و التبیین ، ج ۱، ص ۸۳۔

۴۔  مشاکلةالناس لزمانھم ، ص ۱۵۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اس کتاب میں نہج البلاغہ کے متعلق ۱۱۴کتابوں کو جمع کیا ہے جن میں سے بیس کتابیں ایسے دانشوروں کی ہیں جو سید رضی سے پہلے زندگی بسر کرتے تھے ۔ خواہشمند حضرات زیادہ تفصیلات معلوم کرنے کیلئے اس کتاب میں مراجعہ کریں کیونکہ اس مختصر مقدمہ میں اس سے زیادہ بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے  ۔

یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ سید رضی نے نہج البلاغہ میں اپنے کلمات کے درمیان (جو کہ انہوں نے خطبوں کی وضاحت کرتے ہوئے ذکر کی ہیں) تقریبا ۱۵

 کتابوں کا نام ذکر کیا ہے جن سے انہوں نے نہج البلاغہ کو جمع کرنے میں استفادہ کیا ہے (۱) ۔

جو کچھ مندرجہ بالا کہا گیا ہے اس سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ نہج البلاغہ کی اسناد کے متعلق شک و وسوسہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔


balaghah.net

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 11 August 23 ، 18:32
عون نقوی

کتاب: مقیاس الرواۃ فی علم الرجال

مصنف: آیت اللہ سیفی مازندرانی

مدرس: استاد حسن رضوی

اس کتاب کا پہلا نسخہ علامہ تقی مجلسی کا نسخہ تھا۔ یہ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اس کتاب کو متعارف کیا اور اپنی کتابوں میں اس سے روایات نقل کیں۔ اس کے بعد ان کے فرزند علامہ مجلسی نے بھی اس کتاب سے روایات نقل کیں۔ اس کتاب کا واقعہ محدث نوری نے لکھا ہے کہ تقی مجلسی حج پر گئے ہوۓ تھے۔ انہوں نے مجلسی کو ایک نسخہ دیا اور کہا کہ یہ کتاب امام رضاؑ سے منسوب ہے۔ اور خط بھی یہ امام رضاؑ کا ہے۔ قاضی امیر حسین خود ثقہ شخص تھے انہوں نے یہ بیان کیا تھا کہ ان کے آباء کے طریق سے یہ کتاب ان تک پہنچی اور اس میں فقہ امام رضاؑ درج ہے۔ تقی مجلسی سے انہوں نے تصدیق کروانا چاہی انہوں نے اس کتاب کو پڑھا اور کہا کہ میں تصدیق کرتا ہوں کہ یہ امام رضاؑ کی ہے۔ اس کو کہتے ہیں کتاب کا وجادتا پہنچ جانا۔ یہ نسخہ قدیمی کا کیا اعتبار ہے؟ اس کا علم نہیں ہوتا تو علماء وجادتا نسخہ کو معتبر نہیں مانتے۔ اس میں چند احادیث ہیں اور بعض قرائن کی بنا پر اس کو معتبر قرار دیتے ہیں لیکن بعض علماء اس کو رد کرتے ہیں۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 March 23 ، 13:53
عون نقوی

کتاب: مقیاس الرواۃ فی علم الرجال

مصنف: آیت اللہ سیفی مازندرانی

مدرس: استاد حسن رضوی

اس کتاب میں تین جہات سے بحث ہے۔

۱۔ مؤلف پر قدح و جرح وارد نہیں ہے لیکن ان کے شیعہ اور اسماعیلی ہونے پر اختلاف ہے۔ اس اختلاف کو صرف نظر کر کے جو شیعہ سنی علماء نے تحریر کیا ہے اس سے ان کا حسن حال معلوم ہوتا ہے۔

۲۔ ان کی کتاب کے مقدمے سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کتاب کی ساری روایات صحیحہ اور معتبرہ ہیں۔ 

۳۔ یہ کتاب ہم تک پہنچی ہے یا نہیں پہنچ سکی۔ اگر اس کتاب میں کوئی تحریف واقع نا ہوئی ہو اور اہل باطل و فساد کی دست درازی نا ہوئی ہو تو یہ مقدمہ اس بات کی دلیل بن جاۓ گا کہ یہ ساری روایات صحیح ہیں۔ مصنف تیسری جہت پر اعتراض کرتے ہیں۔ کیونکہ جس طرح سے لکھی گئی ویسے پہنچ گئی ہو اس بات پر اطمینا نہیں ہے کیونکہ یہ فاطمیون کے بیچ میں تھی اور اس وقت اس کتاب کی شہرت نہیں تھی۔ اس لیے یہ جگہ مشکوک ہو جاتی ہے اس لیے وہ کتاب جو مصنف نے لکھی ہے وہ کتاب سالم صورت میں ہم تک نہیں پہنچی اور جو پہنچی ہے اس میں دست درازی ہوئی ہے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 March 23 ، 13:30
عون نقوی

کتاب: مقیاس الرواۃ فی علم الرجال
مصنف: آیت اللہ سیفی مازندرانی
مدرس: استاد حسن رضوی

یہ کتاب ابن ادریس حلی (۵۹۸) نے لکھی ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں صرف کتب مشہورہ سے روایات لی ہیں۔ روایات کو بطور مرسل ذکر کیا لیکن ان کا روایات کو لینے کا مبنی یہ تھا کہ خبر واحد حجت نہیں ہے۔ صرف خبر متواتر یا خبر محفوف بالقرائن کو حجت سمجھتے تھے۔ اس لیے آیت اللہ خوئی اس بات کے قائل تھے کہ چونکہ یہ اس مبنی کے قائل تھے لہذا ان کی مرسلات قبول ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ ان کی روایات صرف کتاب مشہورہ سے لی گئی ہیں۔

کتب مشہورہ تک ابن ادریس کا طریق

آیت اللہ خوئی نے ابن ادریس کی مرسلات کا جائزہ لیا ہے:

۱۔ کتب مشہورہ تک ابن ادریس کا طریق درست ہے اس لیے ان کا مشہور کتابوں سے روایت نقل کرنا قابل قبول ہے۔ خوئیؒ اس طریق سے وارد نہیں ہوۓ۔
۲۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ابن ادریس کے مبانی پر غور کیا جاۓ۔ جب خبر واحد جو صحیح السند ہے وہ جب قبول نہیں ہے تو پھر ضعیف روایت کو وہ کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ لذا ان کا مبنی اتنا سخت ہے کہ وہ ہر روایت کو آسانی سے نہیں لیتے لہذا وہ صرف قطعی خبر کو مانتے تھے۔
آیت اللہ محسنی نے ان پر اعتراض کیا ہے اور فرمایا کہ ان کی مرسلات ہمارے لیے حجت نہیں ہو سکتیں خود ان کے لیے حجت ہیں۔ مثلا کتاب معروفہ سے لینا پہلے یہ ثابت ہو کہ خود کتاب معتبر ہونی چاہیے اور اس تک ابن ادریس کا طریق بھی ثابت ہونا چاہیے اور درست ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ نقد کیے ہیں لیکن آخر میں خود جزوی طور پر آیت اللہ محسنی بھی اس بات کے قائل ہوۓ کہ جن تک ابن ادریس کا طریق درست ہے وہ روایات قبول ہیں۔ 

مصنف نے یہ قول اختیار کیا ہے کہ ابن ادریس کا طریق صحیح ہے۔ کیونکہ ان تک کتابیں شیخ طوسی کے طریق سے آئی ہیں۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 18 March 23 ، 14:14
عون نقوی

درس: علم رجال

کتاب: مقیاس الرواۃ فی علم الرجال

مدرس: استاد محترم سید حسن رضوی حفظہ اللہ

چار وجوہات کی بنا پر کتاب تفسیر امام حسن عسکریؑ ضعیف ہے۔

۱۔ تین راوی قابل اعتراض ہیں۔ استر آبادی، یوسف بن محمد اور سیار۔ استر آبادی کی کسی نے بھی توثیق بیان نہیں کی ہے۔ تضعیف صرف ابن غضائری نے کی ہے بقیہ رجالیین نے توثیق اور تضعیف بیان نہیں کی۔

یوسف بن محمد اور سیار مجہول الحال ہیں۔

۲۔ کتاب میں تعارض موجود ہے۔

۳۔ کتاب میں تناقضات موجود ہیں۔

۴۔ امام رضاؑ کی محفل میں راوی کا موجود ہونا اور اس کا کتاب میں روایت کرنا۔

اعتراضات کے جوابات

اگر عبارت پر غور کریں تو مقدمہ میں آیا ہے کہ ’’قال‘‘۔ اس میں ایک تیسرے شخص کی طرف اشارہ ہے اور امامؑ حسن عسکریؑ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ قال کی ضمیر استرآبادی کی طرف نہیں جا رہی بلکہ اس تیسرے شخص کی طرف ہے جو امام رضاؑ کی محفل میں بیٹھتا تھا۔

تناقض بھی ضرر نہیں پہنچاتا تفسیر کے مطالب کو۔ والدین کے بغیر شیخ صدوق نے اس تفسیر کے حصے سیار سے نقل کیے ہیں۔ 

ابن غضائری ایک متشدد رجالی شمار ہوتے ہیں اور ہر ایک کو غلو کا الزام لگا دیتے تھے۔ ایک کتاب میں اگر ضرورت مذہب کے خلاف ہے تو اس کی بنا پر پوری کتاب کو ترک نہیں کیا جاتا بلکہ اسی ایک روایت کو ترک کیا جاتا ہے۔ حتی ایک روایت میں ایک فقرہ اگر ضرورت مذہب کے خلاف ہے تو صرف اسی فقرہ کو ترک کیا جاتا ہے پوری روایت کو ترک نہیں کیا جاتا تو کجایکہ پوری کتاب کو ہی ایک روایت کی بنا پر ترک کیا جاۓ۔

ورنہ نہج البلاغہ میں ایسی کئی روایات ہیں جو قابل اعتراضات ہیں جس میں امام فرماتے ہیں کہ ہم اللہ کی صنعت ہیں اور باقی مخلوقات ہماری صنعت ہیں۔ اس بارے میں بعض علماء قائل ہیں کہ یہ امام کے کلام میں ڈالا گیا ہے۔ 

مصنف کا مختار قول

پہلا اعتراض ہی عمدہ ہے اور اسی بنا پر اس کو رد کیا جاتا ہے۔ مصنف کے علاوہ بڑی شخصیات اس تفسیر کو معتبر مانتے ہیں۔ محمد بن قاسم کے بارے میں ترضی کا بہت وارد ہوا ہے اور متشدد علماء بھی کثرت ترضی کے بارے میں قائل ہیں کہ شیخ صدوقٓ اگر کثرت سے کسی کے لیے کثرت سے ترضی کرتے ہیں تو اس کے ثقہ ہونے کی علامت مانتے ہیں۔ اور ابن غضائری کی تضعیف کو رد کیا ہے۔ 

بقیہ دو بزرگان کے بارے میں آیا ہے کہ ان کو امامیہ لکھا گیا ہے۔ اور ان دو سے روایت کا لینا بھی ان کی توثیق ثابت کرتا ہے۔ 

ایک اور اختلاف یہ ہے کہ یہ تفسیر دیباج کی ہے یا کسی اور کی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سہل بن دیباج کی تفسیر امام نقیؑ سے ہے اور یہ تفسیر امام حسن عسکریؑ کی ہے اور مناکیر سے بھی خالی ہے۔

مصنف فرماتے ہیں کہ دو دلیلوں کی بنا پر یہ تفسیر امام حسن عسکریؑ کی تفسیر ہے۔

پہلی دلیل

بزرگ مشائخ اور کبار محدثین کا اس پر اعتماد کرنا اور اطمینان کا حصول۔ 

دوسر دلیل

قاعدہ تبدیلی سند، حسن بن خالد برقی کی تمام کتابیں احمد بن خالد برقی کے پاس تھیں اور ان کی کتابوں تک شیخ صدوق کا طریق صحیح ہے۔ شیخ صدوق کے پاس دو طریق تھے جس طریق پر اشکال ہے وہ شیخ نے کتاب میں ذکر کیا لیکن دوسرا طریق صحیح ہے اس لیے قاعدہ تبدیلی سند کے مطابق اس کو صحیح قرار دیا جا سکتا ہے۔ 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 12 March 23 ، 14:01
عون نقوی